آج 22 جنوری 1788ء انگلش زبان کے ممتاز رومانوی شاعر لارڈ بائرن کا یومِ پیدائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لارڈ بائرن عظیم رومانوی شاعر.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لارڈبائرن رومانوی عہد کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت بے پایاں تھی اور قارئین اختلاف کے باوجود اسے پڑھنے پر مجبور تھے۔ میتھیو آرنلڈ کا یہ جملہ سچائی پر مبنی ہے ،جو اس نے بائرن کے بارے میں کہا تھا:
’’لارڈ بائرن لکھنے پر مجبور ہے اور ہم اسے پڑھنے پر مجبور ہیں۔‘‘
ایک جملہ لیڈی کیرولین لیمب نے بھی اس کے بارے میں کہا ہے کیونکہ وہ یہ جملہ کہنے پر مجبور تھی۔ یہ اس کا ذاتی تجربہ تھا:
’’بائرن ایک پاگل اور بُرا آدمی تھا، جس سے آشنائی خطرے سے خالی نہ تھی۔‘‘
بہر حال یہ ’’پاگل اور برا آدمی‘‘ 22 جنوری 1788ء کو لندن میں پیدا ہوا۔
باپ کا نام جیک بائرن تھا، جسے لوگ پاگل جیک کہتے تھے۔
اس کا دادا بحریہ میں بڑا افسر تھا اور لوگ اسے Wicked Byron کے نام سے یاد کرتے تھے۔ بائرن کا دادا بھی عجیب آدمی تھا۔ آخری دنوں میں بقول اس کی نوکرانی وہ کثرت مے نوشی کے بعد فرش پر لیٹ جاتا اور تمام گھر کی مکڑیوں، چوہوں اور چھپکلیوں کو آواز دے کر بلاتا، وہ آکر اس کے جسم پر رینگنے لگتے اور جب انہیں جانے کے لئے کہتا تو وہ سب کے سب چلے جاتے۔ جب وہ مرا تو یہ کہا جاتا ہے کہ سب رینگنے والے گھر سے رخصت ہو گئے۔
بائرن کی والدہ جھگڑا لو عورت تھی، بائرن کا باپ مرا تو اس نے بائرن کی پرورش کی، لیکن وہ اپنی گرم مزاجی کی وجہ سے بائرن کیلئے مصیبت بنی رہی۔
جب بائرن سکول میں پڑھتا تھا، تو لڑکے اس سے پوچھتے تھے: ’’کیا تمہاری ماں پاگل ہے؟‘‘ بائرن جواب میں کہتا ’’ہاں! پاگل ہے۔‘‘
بائرن کا ایک پائوں پیدائشی طور پر ٹیڑھا تھا اور وہ ہلکا سالنگڑا کر چلتا تھا۔ بچپن میں بائرن کی ماں اسے ایک اناڑی ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ اس ڈاکٹر نے بائرن کا پیر شکنجے میں جکڑ دیا اور بائرن کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ پانی کا ایک بڑا بیرل اٹھا کر ایک گھنٹہ گرائونڈ میں چلے اس سے بائرن کا پائوں اور بگڑ گیا اور ساری زندگی وہ لنگڑا کر چلتا رہا۔ حیرت کی بات ہے کہ لندن کی خواتین اس لنگڑے پن کو بھی اس کے حسن کا حصہ قرار دیتی تھیں۔ بائرن کو اپنے دادا کی طرف سے ڈھیر ساری دولت ملی، جو اس نے عیاشیوں پر اڑا دی۔
اسے لارڈ شپ کا خطاب بھی ملا۔
وہ پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا، جہاں جا کر اس نے دو تقریریں کیں،جن میں خطابت کے ایسے جوہر دکھائے کہ پورا لندن اس کے خلاف ہو گیا۔
ان میں سے ایک تقریر تو لندن اور لندن میں رہنے والوں کی زندگی کے بارے میں تھی، جس میں اس نے اشرافیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ دوسری تقریر مزدوروں کے حق میں اور مشینوں کے خلاف تھی ،جن کی وجہ سے مزدور بیکار ہو گئے تھے۔
لارڈ بائرن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے مزدوروں پر بڑی زد پڑی ہے۔ ایک مشین کی وجہ سے 50 مزدوربے کار ہو جاتے ہیں۔
اس نے کہاکہ ریاست اور مذہب میں فرق ہونا چاہیے۔ ہر مذہب کو آزادی ملنا چاہئے۔ ہر مذہب کے پیرو کار اپنی مرضی سے اپنی رسومات ادا کریں۔ صرف ایک مذہب کو سرکاری مذہب نامزد نہیں کیا جانا چاہیے۔ بائرن کے ان نظریات سے اس کے خلاف ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا اور اس کے عشق کا چرچا لندن کی ہر گلی اور ہر گھر میں ہونا شروع ہو گیا تھا۔ مخالفت سے تنگ آکر وہ اپنے چند دوستوں کو ساتھ لے کر دنیا کی سیر پر نکل کھڑا ہوا۔ لوگوں سے ملا۔ ان کی نفسیات کو سمجھا اور فطرت کے خوبصورت نظاروں کی سیر کی۔
واپس لندن آیا جو کچھ اس نے لکھا تھا، اسے چھپوایا۔ رات کو سویا، دن کو جاگا تو اس کی کتاب چھپ چکی تھی اور وہ انگریزی زبان کا مشہور شاعر بن چکا تھا۔
لارڈ بائرن خود کہتا ہے:
’’میں رات کو سویا صبح بیدار ہوا تو میں مقبول ترین شاعر بن چکا تھا‘‘۔
لارڈ بائرن کی پہلی باقاعدہ شاعری کی کتاب جس میں اس کی پرانی اور نئی نظمیں شامل تھیں، وہHours of Idleness تھی۔
اس کی مشہور نظموں نے اپنے قارئین کا ایک حلقہ پیدا کر لیا تھا۔ اس کی نظمیں: She walks in beauty When we two parted مقبولیت کی انتہا کو پہنچ چکی تھیں۔
بائرن کی مشہور نظمDon Juan سترہ کنٹوز پر مشتمل ہے، جسے اپنے وقت کی (EPIC) شاہکار کہا جاتا ہے۔
کچھ نقاد اس نظم کو ایک اعلیٰ تخلیق قرار دیتے ہیں ،جو ادبی روایت سے مالا مال ہے۔ اس نظم نے اس کے ہم عصر شعرا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 1819ء تک اس نظم کے کنٹوز ایک ایک کر کے چھپتے رہے، لیکن پھر پبلشر نے اسے چھاپنے سے انکار کر دیا کیونکہ قارئین بائرن سے اختلاف کرنے لگے تھے۔
بائرن نے ورڈزورتھ اور کولرج پر سخت تنقید کی تھی، جو قارئین کو پسند نہ تھی۔
بائرن نے 1821 ء میں اپنے دوست(Hob House) کو خط میں لکھا:
’’مجھے یقین نہیں آرہا کہ میرے جیسے مزاج کے آدمی کو زیادہ دیر زندہ رہنا چاہئے۔‘‘
بائرن اپنے دوستوں کا بہت وفا دار تھا۔ چنانچہ (Hob House) نے جواب دیا:
’’ جس کے دوست اتنے وفادار ہوں، وہ زیادہ دن زندہ رہتا بھی نہیں۔‘‘
بائرن نے برطانیہ اور امریکا پر شاید اتنے اثرات نہ چھوڑے ہوں، مگر بقیہ یورپ پر اس نے گہرے اثرات مرتب کئے۔
روس کا بڑا شاعر پشکن اسے عظیم شاعر مانتا تھا۔ پشکن نے بائرن کو اپنا آئیڈیل شاعر بنا کر اپنی شاعری کو آگے بڑھایا۔
بائرن نے ماں باپ کے گھریلو جھگڑوں سے بہت اثر قبول کیا۔
اپنے ٹیڑھے پاؤں کی وجہ سے وہ ہمیشہ فکر مند رہا۔ لندن کے لوگوں کی نفرت نے اسے ساری زندگی چین کی سانس نہ لینے دی چنانچہ ان تمام وجوہات کی بنا پر وہ لندن اور لندن کے لوگوں سے باغی ہوگیا، یورپ میں پناہ لی اور اسے بدنامیوں کے سوا کچھ نہ ملا۔
بائرن کو جانوروں سے بڑا عشق تھا۔ اسے شاید انسانوں میں محبت اور وفا نہ ملی، جسے وہ جانوروں میں ڈھونڈتا رہا۔ مختلف اوقات میں اس نے مختلف جانور پالے۔ لومڑی، بندر، طوطا، بلی، عقاب، کوا اور مور، لیکن سب سے زیادہ محبت اسے اپنے کتے سے تھی۔ جب اس کا کتا بیمار ہوا، تو وہ اس کی تیمار داری میں اپنی شاعری تک کو بھول گیا اور جب یہ کتا مر گیا تو اسے خود دفنایا۔
1823ء میں یونانیوں اور ترکوں کی جنگ شروع ہوئی اور ترک فوج نے لی پانٹو(Leapanto)نامی قلعے پر قبضہ کر لیا۔ بائرن یونان کا شیدائی تھا چنانچہ اس نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ اس نے یونانی جرنیل کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا کہ قلعے کو ترک فوج سے آزاد کرایا جائے۔ اس حملے میں بائرن زخمی ہو گیا۔ علاج شروع ہوا تو تیز بخار نے آ لیا اور بیماری لاعلاج ہو گئی۔
بائرن 19 اپریل 1824ء کو فوت ہو گیا۔ فوج میں وہ بہت مقبول تھا اور یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ اگر بائرن زندہ رہتا ،تو اسے یونان کا بادشاہ بنا دیا جاتا۔
بائرن کو لندن میں دفن کرنا تھا۔ یونانی اس بات پر بضد تھے کہ اسے یونان میں دفنایا جائے چنانچہ بائرن کا دل (Messolonghi) میں دفنایا گیا۔ اس کا باقی جسد خاکی لندن روانہ کر دیا گیا، لیکن لندن کے پادریوں نے اسے Westminister Abbey میں جگہ دینے سے انکار کر دیا اور اس کی میت دو دن کھلے عام پڑی رہی۔ دو دن کے بعد اسے سینٹ میری چرچ کے قبرستان میں دفنایا گیا اور اس کی ایک نظم کے مصرعے چارو ں طرف گونجتے رہے:
اے انگلستان تو مجھے سب خامیوں کے باوجود پسند ہے مجھے تیرا موسم پسند ہے اگر بارش نہ ہو تیری پارلیمنٹ کی بحث پسند ہے ،اگر وہ دیر سے شروع نہ ہو تیرے ٹیکس پسند ہیں، اگر وہ زیادہ نہ ہوں اے انگلستان تو مجھے سب خامیوں کے باوجود پسند ہے۔ ٭…٭…٭
بشکریہ: احمد عقیل روبی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Darkness a poem by Lord Byron
۔۔۔۔۔۔۔۔
I had a dream, which was not all a dream.
The bright sun was extinguish'd, and the stars
Did wander darkling in the eternal space,
Rayless, and pathless, and the icy earth
Swung blind and blackening in the moonless air;
Morn came, and went and came, and brought no day,
And men forgot their passions in the dread
Of this desolation; and all hearts
Were chill'd into a selfish prayer for light:
And they did live by watchfires – and the thrones,
The palaces of crowned kings, the huts,
The habitations of all things which dwell,
Were burnt for beacons; cities were consumed,
And men were gathered round their blazing homes
To look once more into each other's face;
Happy were those who dwelt within the eye
Of the volcanos, and their mountain-torch:
A fearful hope was all the world contain'd;
Forest were set on fire but hour by hour
They fell and faded and the crackling trunks
Extinguish'd with a crash and all was black.
The brows of men by the despairing light
Wore an unearthly aspect, as by fits
The flashes fell upon them; some lay down
And hid their eyes and wept; and some did rest
Their chins upon their clenched hands, and smiled;
And others hurried to and fro, and fed
Their funeral piles with fuel, and looked up
With mad disquietude on the dull sky,
The pall of a past world; and then again
With curses cast them down upon the dust,
And gnash'd their teeth and howl'd: the wild birds shriek'd,
And, terrified, did flutter on the ground,
And flap their useless wings; the wildest brutes
Came tame and tremolous; and vipers crawl'd
And twined themselves among the multitude,
Hissing, but stingless, they were slain for food:
And War, which for a moment was no more,
Did glut himself again; a meal was bought
With blood, and each sate sullenly apart
Gorging himself in gloom: no love was left;
All earth was but one thought and that was death,
Immediate and inglorious; and the pang
Of famine fed upon all entrails men
Died, and their bones were tombless as their flesh;
The meagre by the meagre were devoured,
Even dogs assail'd their masters, all save one,
And he was faithful to a corpse, and kept
The birds and beasts and famish'd men at bay,
Till hunger clung them, or the dropping dead
Lured their lank jaws; himself sought out no food,
But with a piteous and perpetual moan
And a quick desolate cry, licking the hand
Which answered not with a caress, he died.
The crowd was famish'd by degrees; but two
Of an enormous city did survive, And they were enemies;
They met beside
The dying embers of an altar-place
Where had been heap'd a mass of holy things
For an unholy usage; they raked up,
And shivering scraped with their cold skeleton hands
The feeble ashes, and their feeble breath
Blew for a little life, and made a flame
Wich was a mockery; then they lifted up
Their eyes as it grew lighter, and
Each other's aspects. saw, and shriek'd, and died, beheld
Even of their mutual hideousness they died,
Unknowing who he was upon whose brow
Famine had written Fiend. The world was void,
The populous and the powerful was a lump,
Seasonless, herbless, treeless, manless, lifeless,
A lump of death, a chaos of hard clay.
The rivers, lakes, and ocean stood still,
And nothing stirred within their silent depths;
Ships sailorless lay rotting on the sea,
And their masts fell down piecemeal; as they dropp'd
They slept on the abyss without a surge
The waves were dead; the tides were in their grave,
The moon their mistress had expired before;
The winds were withered in the stagnant air,
And the clouds perish'd; Darkness had no need
Of aid from them. She was the universe
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود