لکھا تھا بڑے چائو سے جس نام کو دل پر
وہ نام مٹانے میں ذرا وقت لگے گا
28 فروری 1963
آج ڈاکٹر صدف صاحبہ کا یوم پیدائش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صغرا صدف صاحبہ ایک ہمہ جہت اور فعال ادبی شخصیت ہیں۔ اردو اور پنجابی زبان میں شاعری اور افسانہ نگاری کرتی ہیں جبکہ پاکستان کے مشہور اخبار ’جنگ‘ میں سماجی، سیاسی، لسانی اور صوفیانہ موضوعات پر کالم لکھتی ہیں۔ فلسفہ، سماجیات اور اردو میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے کئے ہیں۔ وہ 28 فروری 1963 میں ضلع گجرات پاکستان کی تحصیل کھاریاں کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے خاندان خواہ برداری میں لڑکیوں کو پڑھانا معیوب سمجھا جاتا تھا مگر ڈاکٹر صاحبہ کے والد صاحب جو کہ تعلیمی لحاظ سے مڈل پاس تھے انہوں نے اپنی بیٹی صغرا کی خواہش پر اعلی تعلیم دلوائی ۔ ڈاکٹر صاحبہ کا اصل نام صغری ہے قلمی نام صغرا صدف ہے ۔ صدف کا تخلص انہوں نے چھٹی جماعت میں اختیار کیا اس وقت انہیں صدف کے معنی بھی معلوم نہ تھا۔ شاعری میں ڈاکٹر شاہین مفتی صاحبہ سے انہوں نے رہنمائی حاصل کی ۔ وہ اپنی شاعری کو ” دل کی واردات” قرار دیتی ہیں ۔
ڈاکٹر صاحبہ نے صوفی شاعر میاں محمد بخش پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تصنیف کیا ہے۔ پنجاب انسٹیٹوٹ آف لینگویج، آرٹ اینڈ کلچر کی ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے کئی سماجی اور علمی اداروں اور تنظیموں کی رکن ہیں۔ پی ٹی وی کے لئے کئ پروگراموں کے اسکرپٹ لکھ اور پیش کر چکی ہیں ۔ ان کی اب تک شائع ہونے والی کتابوں میں : ’میں کیوں مانوں ہار‘ ’وعدہ‘ ’مورکھ من‘۔ ’جدا ہیں چاہتیں اپنی‘ ۔ ’مائے میں کنوں آنکھاں‘ (شعری مجموعے ) ’قلم‘ ’نقطہ‘ ’استغراق‘ (کالموں کے مجموعے) ’فیض کا عمرانی فلسفہ‘ اور ’میاں محمد بخش‘ ’فلاسفی آف ڈوائن لو‘(تحقیق اور تنقید) اس کے علاوہ چھ کتابیں انگریزی اور پنجابی سے اردو تراجم کی اور پنجابی میں افسانوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ علامہ اقبال ٹاون لاہور میں مستقل طور منتقل ہو چکی ہیں ۔ گزشتہ چند روز سے ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور زیر علاج ہیں ماشاء اللہ ان کی صحت بتدریج بحال ہوتی جا رہی ہے۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدتوں جس سے ملاقات نہ تھی
جب وہ آیا تو کوئی بات نہ تھی
دل بھی کچھ سرد ہوا جاتا ہے
مجھ میں بھی شدت جذبات نہ تھی
وہ کہ سمجھا ہی نہیں نظروں کو
میری آنکھوں میں کوئی رات نہ تھی
کیسے ممکن تھا کہ ہوتی مجھ کو
میری قسمت میں اگر مات نہ تھی
میں کہ کھوئی رہی اپنے من میں
میرے رستے میں مری ذات نہ تھی
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب تک بھنور کے بیچ سہارا ملے مجھے
طوفاں کے بعد کوئی کنارا ملے مجھے
جیون میں حادثوں کی ہی تکرار کیوں رہے
لمحہ کوئی خوشی کا دوبارہ ملے مجھے
بن چاہے میری راہ میں کیوں آ رہے ہیں لوگ
جو چاہتی ہوں میں وہ نظارا ملے مجھے
سارے جہاں کی روشنی کب مانگتی ہوں میں
بس میری زندگی کا ستارا ملے مجھے
دنیا میں کون ہے جو صدفؔ سکھ سمیٹ لے
دیکھا جسے بھی درد کا مارا ملے مجھے
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھ اپنا چھپانے میں ذرا وقت لگے گا
اب اس کو بھلانے میں ذرا وقت لگے گا
تو نے جو پکارا تو پلٹ آؤں گی واپس
ہاں لوٹ کے آنے میں ذرا وقت لگے گا
لکھا تھا بڑے چاؤ سے جس نام کو دل پر
وہ نام مٹانے میں ذرا وقت لگے گا
دیتا ہے کسی اور کو ترجیح وہ مجھ پر
اس کو یہ جتانے میں ذرا وقت لگے گا
جس شاخ پہ پھل پھول نہیں آئے ہیں اب تک
وہ شاخ جھکانے میں ذرا وقت لگے گا
سب رنج و الم ملنے چلے آئے ہیں مجھ سے
محفل کو سجانے میں ذرا وقت لگے گا
میں دیکھ بھی سکتی ہوں کسی اور کو تجھ سنگ
یہ درد کمانے میں ذرا وقت لگے گا
جو آگ صدفؔ ہجر نے ہے دل میں لگائی
وہ آگ بجھانے میں ذرا وقت لگے گا