پیدائش: 11 اپریل 1755ء
وفات: 21 دسمبر 1824ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارکنسن کے مرض کا نام برطانوی ڈاکٹر"جیمز پارکنسن" کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے 1817 میں اس کی پہلی تفصیل اپنے مضمون "An Essay on the Shaking Palsy " میں لکھی۔
پارکنسن ایک اعصابی بیماری ہے۔ یہ ایک قسم کے اعصابی نظام کی خرابی کا نام ہے۔ اس کی وجہ ایک اعصابی کیمکل ٹرانسمیٹر بنام "ڈوپامین" کی کمی ہے جو دماغ کے گہرے حصّے میں نمایاں ہوتی ہے۔ اس کمی کی وجہ فی الحال لا معلوم ہے۔
بیماری کے ابتدائی دور میں سب سے نمایاں ہونے والی خرابیوں میں ہاتھوں کا بلاوجہ تھرتھرانہ، سختی آنا، چال کا سستاور نہ ہموار ہوجانا اور چملنے میں تکلیف ہونا ہے۔ بیماری کے اثرات انسانی معرفت یا عقل پر بھی نمودار ہوتے ہیں۔
یہ بیماری ادھیڑ عمر اور 50 سال سے زاید افراد میں زیادہ عام ہے بیماری کا علاج اکثر"لیوودوپا" اور "ڈوپامین اگونسٹس" سے کیا جاتا ہے۔ جسے جسے بیماری بڑھتی ہے، انسان کا اعصابی نظام خراب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور حرکت کی بیماری جسے "دیسکاینسیہ" نمودار ہوجاتی ہیں، جس میں انسان کو اپنے ہاتھ اور دیگر اعزا کی حرکت پر کوئی اختیار نہیں رہتا مزید علامات میں نیند نہ آنا ،حص اور قوت مدرکہ میں خرابی ،اور جذباتی مسائل شامل ہیں۔
پارکنسن کی بیماری ضعیف افراد میں زیادہ عام ہے اور اس کے زیادہ تر ماجرات (cases) 50 سال کی عمر کے بعد نمودار ہوتے ہیں۔ اهم حرکاتی علامات کو مشترکہ طور پر "پارکنسونسم "یا پھر "پارکن سونین سنڈروم " کہا جاتا ہے۔
یہ بات واضح ہے کے یہ بیماری تمباکو نوشی اور کیڑے مار ادویات کے استعمال سے یا ایسے ماحول میں جہاں انکا استعمال کیا جا رہا ہو رہنے سے ہوتی ہے .اس عارضے کی امراضیات کا جایزہ لیں تو پتا چلتا ہے کے یہ مرض دماغ کے خلیے یعنی نیورونز میں ایک خاص پروٹین جسے "لوئی باڈی" کہتے ہیں کے اکٹھا ہونے اور ڈوپامین کے متوسط دماغ(midbrain) کے نیورونز میں ناکافی پیدایش اور سرگرمی سے ہوتا ہے۔لوئی باڈی کی موجودگی اس مرض کی مھر تصدیق ہے۔ البتہ لوئی باڈی کا پورے دماغ میں پھیلاؤ ہر مریض میں یکساں نہیں۔
اس کا پھیلاؤ مرض کی شدّت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے ماجرات کو بذریہ ایکسرے اور سی ٹی سکین وغیرہ تشخیص کیا جاتا ہے۔
مشہور باکسر محمد علی بھی اس میں مبتلا تھے، سابق امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ بھی اور ممتاز مصور سلواڈور ڈالی بھی۔ یہ دھیرے دھیرے انسان کو جکڑ لینے والی ایک ایسی تاحال لا علاج بیماری ہے، جس کی علامات بہت واضح ہوتی ہیں۔
پارکنسن میں مبتلا انسانوں کے ہاتھ کانپتے ہیں، اُن کے لیے چائے کی پیالی تک تھامنا یا چمچ اپنے منہ تک لے جانا بھی مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔
پارکنسن میں مبتلا انسانوں کے دماغ میں اعصابی خلیے مر جاتے ہیں۔ ایسا دماغ کے گہرائی میں واقع اُس حصے میں ہوتا ہے، جہاں سے انسانی جسم کی بہت سی حرکات کنٹرول ہوتی ہیں اور جو بتدریج حرام مغز کے ساتھ جا ملتا ہے۔ اس مرض کی ابتدائی علامات اس کے پوری طرح سے پھیل جانے سے دس یا بیس سال پہلے سے ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
زیادہ تر لوگ ساٹھ کے پیٹے میں ہوتے ہیں، جب اُن کے ہاں اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے لیکن پہلے بھی اس کا پتہ چل جانے کی صورت میں ابھی اس کا کوئی علاج در یافت نہیں ہوا ہے۔
لندن کے ڈاکٹر جیمز پارکنسن نے دو سو سال پہلے ہی اس مرض کے بارے میں تفصیلات بیان کی تھیں۔ اپنے مضمون کو اُنہوں نے ’اَین ایسے آن دی شیکنگ پالسی‘ یعنی ’مفلوج کرنے والی کپکپاہٹ کے بارے میں ایک مضمون‘ کا نام دیا تھا۔
دو سو سال گزر گئے لیکن یہ مرض بدستور لا علاج ہے۔
اس مرض کے مریضوں کا علاج زیادہ تر ایسی ادویات سے کیا جاتا ہے، جن کا مقصد دماغ میں ڈوپامین کی مقدار کو متوازن رکھنا ہوتا ہے۔ آپریشن سے بھی اس مرض کو دُور نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کے آپریشنز میں جلد کے نیچے ایک ننھا سا جنریٹر رکھ دیا جاتا ہے، جس کا مقصد دماغ کے کچھ مخصوص حصوں کو تحریک دینا ہوتا ہے۔
صرف اتنا فرق پڑتا ہے کہ پھر ایسے مریضوں کو ذرا کم مقدار میں ادویات کھانا پڑتی ہیں ورنہ یہ مرض لا علاج ہی ہے اور دُنیا بھر کے سائنسدان اس کے علاج کے طریقے تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
حال ہی میں کی گئی تحقیق کے مطابق اس بیماری کا متعلق ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ اسکا تعلق اپینڈکس سے ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارکنسن کی صورت میں دماغ میں جمع ہونے والا ایک فاسد کیمیکل اپینڈکس میں بھی دریافت ہوا ہے اور خیال ہے کہ شاید یہ کیمیکل اپینڈکس سے نکل کر دماغ تک پہنچتا ہے اور پارکنسن کی وجہ بنتا ہے۔
ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ جن افراد کا اپینڈکس برسوں قبل نکال دیا جاتا ہے ان میں پارکنسن سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
سائنسداں کہتے ہیں کہ پارکنسن کے مریضوں میں سائنوسلائن نامی زہریلا مرکب پایا جاتا ہے جو لوتھڑوں کی صورت میں دماغ کے ایسے خلیات سے چپک جاتا ہے جن سے انسانی حرکات و سکنات کنٹرول ہوتی ہیں ۔ اس طرح دھیرے دھیرے مریض کی حرکت محدود ہو جاتی ہے اور وہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
لیکن سائنوسلائن ایک جگہ جمع ہوجائے تو بہت تیزی سے دیگر اعصاب کا رخ کرتا ہے اور وہاں بھی تباہی پھیلاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی بعض ماہرین بتاچکے ہیں کہ پارکنسن سمیت کئی امراض کا مرکز ہماری آنتیں اور معدہ ہوتا ہے جبکہ اپینڈکس پارکنسن میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایک تجربے میں چوہوں کے پیٹ میں سائنوسلائن کے ٹیکے لگائے گئے تو یہ مرکب ان کے دماغ تک پہنچنا شروع ہوگیا ۔
اس سے قبل بعض ماہرین نے کچھ افراد کا مطالعہ کیا جن کے اپینڈکس نکال دینے گئے تھے اور پارکنسن کے درمیان اس تعلق دریافت کرنے کی کوشش کی تو اس کےعجیب و غریب نتائج برآمد ہوئے۔ فوری طور پر معلوم ہوا کہ اپینڈکس نکالنے سے پارکنسن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے لیکن طویل مدت کے لیے اس مرض کا خطرہ دھیرے دھیرے کم ہوتا رہتا ہے۔
انہی باتوں کو دیکھتے ہوئے مشی گن میں واقع وان اینڈل انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے اب تک کی تاریخ کا سب سے بڑا سروے کیا جس میں گزشتہ 52 برس کے دوران ایسے 16 لاکھ افراد کا جائزہ لیا گیا جن کا اپینڈکس کم عمری میں نکال دیا گیا تھا۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ اگر جوانی میں اپینڈکس نکال دیا جائے تو اس سے آگے چل کر پارکنسن کا خطرہ 20 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ مشی گن کے سائنسدانوں نے پارکنسن کے شکار اور اس سے محفوظ مریضوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اپینڈکس پارکنسن بیماری کی جڑ کا کردار ادا کرتا ہے اور مریضوں کے اعضا میں جھٹکوں اور سختی کی وجہ بنتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد