آج سرائیکی کے ممتاز ادیب، شاعر، دانشور، محقق اور استاد پروفیسر دلشاد کلانچوی کی 22 ویں برسی ہے۔
ان کے والد وادیٔ سون کے گاؤں سبھرال کے اعوان تھے۔ حصولِ تعلیم کیلئے ریاست بہاول پور آئے اور پھر یہیں کے ہوگئے۔
پروفیسر دلشاد کلانچوی نےطویل عرصہ سرائیکی علاقے کے کالجوں اور یونیورسٹی میں پڑھایا ۔ ایک زمانے میں اس خطے کا ہر دوسرا تیسرا گریجویٹ ان کا شاگرد ہوتا تھا۔
ایس ای کالج بہاولپور میں طالب علمی کے دوران ان کی ایک نظم اس وقت کے اہم ادبی جریدے مولانا صلاح الدین احمد کے’’ ادبی دنیا ‘‘میں میراجی نے تعریفی نوٹ کے ساتھہ شائع کی تھی۔
ملازمت کے دوران تین چار اردو ، انگریزی کتابیں لکھیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تصنیف و تالیف اور تحقیق میں مصروف ہوگئے۔ سرائیکی اردو اور اردو سرائیکی لغت اور قرآن کے سرائیکی ترجمے سمیت ستر کے قریب کتابیں شائع ہوئیں۔ دو کتابوں پر اکادمی ادبیات سے اور ایک کتاب پر حکومت پنجاب سے سال کی بہترین کتاب کے انعامات ملے۔
تصنیف و تالیف کا شوق ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوا۔ ایک بیٹی مسرت کلانچوی کی آٹھہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ دوسری بیٹی اختر صباح اور بیٹے جمشید اقبال اعوان کلانچوی تین تین اور پوتے عون محمد اور نواسے امروز اسلم بھی ایک ایک کتاب کے مصنف ہیں۔
ملاحظہ فرمائیے وکی پیڈیا میں پروفیسر دلشاد کلانچوی کا تعارف :
https://ur.wikipedia.org/wiki/دلشاد_کلانچوی
دلشاد کلانچوی
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پروفیسر دلشاد کلانچوی
پیدائش عطا محمد
24 مئی 1915ء
بستی کلانچ والا، ریاست بہاولپور، (برطانوی ہند)
وفات 16 فروری 1997 (عمر 81 سال)
بستی کلانچ والا، بہاولپور، پاکستان
قلمی نام دلشاد کلانچوی
پیشہ شاعر، محقق، مترجم، ناول نگار، پروفیسر، نقاد، ماہر اقبالیات
زبان اردو،سرائیکی
قومیت پاکستانی
نسل سرائیکی
تعلیم ایم اے (معاشیات)، ایم اے (اردو)
مادر علمی اسلامیہ کالج لاہور،صادق ایجرٹن کالج بہاولپور
اصناف غزل، تحقیق، ترجمہ، تدریس، اقبالیات، ناول
نمایاں کام چنگا بال اقبال
کون فرید فقیر
سارے سگن سُہا گڑے
لغات دلشادیہ
سرائیکی زبان تے ادب
اہم اعزازات خواجہ فرید ایوارڈ
جام درک ایوارڈ
خواجہ فرید میڈل
دلشاد کلانچوی (پیدائش: 24 مئی، 1915ء – وفات: 16 فروری، 1997ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر اور سرائیکی زبان و ادب کے نامور محقق، نقاد، شاعر، ناول نگار، مترجم، ماہرِ اقبالیات اور شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر تھے۔
خاندان پس منظر و پیدائش
دلشاد کلانچوی کا سلسلہ نسب حضرت علی بن ابی طالب کی غیر فاطمی اولاد سے جا ملتا ہے۔ ان کا قبیلہ 1035ء میں محمود غزنوی کے دور میں ہرات سے گزر کر وادی سون سکیسر کے علاقہ سبھرال میں آباد ہوا۔ دلشاد کلانچوی کے دادا کا نام محمداحمد تھا۔ محمد احمد تقریباً سو سال قبل اپنے بیٹے غلام محمد کے ہمراہ ریاست بہاولپور چلے آئےاور بہاولپور شہر کے مغرب کی جانب تقریباً اٹھارہ میل کے فاصلے پر کلاچ والا میں رہائش پزیر ہوگئے۔ کلانچ والا میں اس زمانے میں قریشی خاندان علم و فضل اور درس و تدریس میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ دلشاد کلانچوی کے دادا محمد احمد نے اپنے اکلوتے بیٹے غلام محمد کو قریشی خاندان کے ایک بزرگ مولوی امام الدین قریشی کی شاگردی میں دے دیا۔ دلشاد کلانچوی کے والد حافظ غلام محمد نہایت نیک سیرت اور شریف الطبع انسان تھے۔ ان کے استاد امام الدین قریشی ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی دختر کا رشتہ ان سے کر دیا اور انہیں گھر داماد بنا لیا۔ یہیں بستی کلانچ والا، ریاست بہاولپورمیں 24 مئی، 1915ء کو دلشاد کلانچوی پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عطا محمد تھا لیکن ادبی دنیا میں دلشاد کلانچوی کے نام سے مشہور ہوئے۔[1]
ابتدائی زندگی اور تعلیم
دلشاد کلانچوی کے گھر کا ماحول دینی و مذہبی تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔سات سال کی عمر میں انہیں بستی سندیں میں واقع پرائمری اسکول میں دخل کر دیا گیا۔ ابھی 6 سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کی والدہ باہمت خاتون تھی جنہوں نے دونوں بیٹوں کو ماں کی محبت کے ساتھ باپ کی شفقت بھی دی۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلشاد کچھ عرصے تک گھر پر ہی رہے۔ والدہ نے ان کے تعلیمی ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے 1929ء میں انہیں اپنے کزن مولوی عبد القادر صدیقی کے پاس بہاولپور بھیج دیا جنہوں نے دلشاد کو صادق ڈین ہائی اسکول بہاولپور میں داخل کرا دیا۔یہاں انہوں نے پہلے سال انگلش جونئیر کی تعلیم حاصل کی اور وہ 1930ء میں شعبہ ثانوی میں آ گئے۔ بڑے بھائی انہیں اخراجات کے لیے رقم روانہ کیا کرتے تھے لیکن صادق اسکول میں داخل ہونے کے ڈیڑھ سال بعد ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا اور گھر سے رقم آنے کا سلسلہ یکدم منقطع ہو گیا[2]۔ان حالات سے مجبور ہرکر دلشاد نے نے سرکاری یتیم خانہ میں داخلہ کے لیے درخواست دی اور انہیں شیخ غوث محمد ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز کی سفارش پر کلاس ہفتم کے دوران میں ڈیڑھ سال کے لیے (آٹھویں جماعت پاس کرنے تک) سرکاری یتیم خانہ (دارالطفال) میں داخل کر لیا گیا۔ یتیم خانے کے قواعد کے مطابق ایک طالب علم خاص مدت تک زیرِ تعلیم رہ سکتا تھا اور دسویں جماعت تک وظیفہ پا سکتا تھا۔ دلشاد ذہین بھی تھے اور محنتی بھی، انہوں نے دل لگا کر تعلیم حاصل کی اور 1933ء میں آٹھویں کے امتحان میں ریاست بہاولپور میں اول آئے، جس کے سبب یتیم خانہ کے سپرنٹنڈنٹ نے انہیں خصوصی اجازت نامہ کے ذریعے بی اے تک یتیم خانہ کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دلا دی۔ 1935ء میں انہوں نے میڑک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ میٹرک کے بعد اسی سال وہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں داخل ہوگئے، جہاں سے 1939ء میں انہوں نے بی اے کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد 1941ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے (معاشیات) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں 54-1953ء میں ایم اے (اردو) کی ڈگری بطور پرائیویٹ امیدوار حاصل کی۔[3]
ملازمت و ادبی خدمات
دلشاد کلانچوی نے ایم اے (معاشیات) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لاہور سے واپس بہاولپور آئے اور 1942ء میں ان شادی ان کے استاد اور ماموں مولوی عبد القادر صدیقی کی بیٹی سے ہوگئی۔ شادی کے بعد ملازمت کی تلاش شروع کر دی اور آخر کار 27 مئی 1942ء میں ریاست بہاولپور کے محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں وہ تقریباً ایک سال تک کام کرتے رہے۔ یکم جون 1943ء میں ایس ای کالج بہاولپور میں ایک لیکچرار کی نئی آسامی پیدا کی گئی اور انہیں بطور لیکچرار مقرر کر دیا گیا۔ ریاست بہاولپور کے پاکستان میں ضمن ہونے کے بعد 14 اکتوبر 1955ء میں انہیں ترقی دے کر پروفیسر بنا دیا گیا۔ 30 ستمبر 1963ء میں گورنمنٹ انٹر کالج مظفرگڑھ کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں 19 اکتوبر 1965ء گورنمنٹ ڈگری کالج بہاولنگر کے پرنسپل کا چارج سنبھالا۔ 19 مارچ 1970ء کو وہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور کے پرنسپل بنا دئیے گئے جہاں سے 3 مارچ 1971ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔[4]
ریٹائرمنٹ کے بعد 6 جنوری 1972ء کو امیر آف بہاولپور نواب عباس خان عباسی نے انہیں صادق عباسی (پرئیویٹ) کالج ڈیرہ نواب کا پرنسپل مقرر کر دیا جہاں وہ 4 مارچ 1974ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 1989ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی شعبہ کا آغاز ہوا تو دلشاد کلانچوی اکتوبر 1989ء سے جز وقتی پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہو گئے اور تادمِ مرگ وہاں پڑھاتے رہے۔[5]
ادبی خدمات
دلشاد کلانچوی کی ادبی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی میں ہی ہو گیا تھا۔ وہ ابھی چھٹی یا ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھے کہ بچوں کے رسالوں کے لیے لکھنے لگ گئے۔ میٹرک پاس کرنے تک ان کی متعدد کاوشیں چھپ چکی تھیں۔ ایس ای کالج بہاولپور میں داخل ہوئے تو کالج میگزین کے لیے لکھتے رہے۔ اسی زمانے میں انہوں نے نظمیں بھی لکھیں۔ ان کی ایک نظم معریٰ انتظار اسی زمانہ طالب علمی کی یادگار ہے[6]۔ دلشاد کلانچوی بنیادی طور پر معلم تھے۔ انہوں نے ساری زندگی درس و تدریس میں گزار دی، اسی زمانے میں انہوں نے طلبہ کی درسی ضروریات کے لیے چھ کتب لکھیں جن میں اصلاحات معاشیات، رہبر معاشیات پاک و ہند، نظریات معاشیات وغیرہ نمایاں ہیں[7]۔ ان کا پہلا سرائیکی افسانہ روہی دا خواب ماہنامہ سرائیکی بہاولپور میں شائع ہوا۔ انہوں نے چھوٹی بڑی 69 کتابیں تصنیف و تالیف کیں، جن میں 10 اردو زبان میں، 3 انگریزی میں اور 56 سرائیکی زبان میں ہیں۔ انہیں سرائیکی زبان سے بہت زیادہ محبت تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے خود کو سرائیکی زبان کے لیے وقف کر دیا۔ 23 مارچ 1971ء کو انہوں نے سرائیکی لائبریری بہاولپور قائم کی جہاں سے سرائیکی زبان و ادب پر کام کرنے والے محققین نے بہت فیض پایا۔ انہوں نے سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کے لیے جنوری 1986ء میں چار صفحات پر مشتمل ایک ماہانہ خبرنامہ سرائیکی زبان جاری کیا جو 1989ء تک جاری رہا۔ ان کی سرائیکی زبان سے محبت کے بارے میں ان کی بیٹی نامور افسانہ نگار و ڈراما نویس مسرت کلانچوی کہتی ہیں:
” سرائیکی اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے، اُن کی زندگی کا مقصد ہے، اُن کی عزیز ترین شے ہے۔ انہوں نے خود کو اس کے لیے وقف کر دیا۔ وہ ایک دن اداس بیٹھے تھے کہ چچا نظام الدین آئے، پوچھا بھائی صاحب آپ نے سب بچوں کو پڑھا لکھا کر برسرِ روزگار کر دیا۔ ان کی شادیاں کردیں، سب بچے خوش اور آباد ہیں، پھر بھی آپ پریشان ہیں۔ آخر کیوں؟ انہوں نے جواب دیا مجھے سرائیکی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ میں اپنے بچوں کے فرض سے تو سبکدوش ہو گیا ہوں لیکن سرائیکی کا فرض ابھی ادا کرنا ہے۔[8] “
تصانیف
سرائیکی
سوکھے ترجمہ آلا قرآن مجید (قرآن مجید کا سرائیکی ترجمہ)
چنگا بال اقبال (اقبالیات)
کون فرید فقیر (اقبالیات)
ساڈا بخت اقبال (اقبالیات)
سارے سگن سُہا گڑے (ناول)
کلام کلانچوی(شاعری)
غالب دیاں غزلاں (غالب کی غزلیات کا سرائیکی ترجمہ)
ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبۃ النصوع کا سرائیکی ترجمہ)
توبہ زاری (ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبۃ النصوح کا سرائیکی ترجمہ)
سرائیکی گُل پُھل (مضامین)
ضلع بہاول پور (تاریخ)
کون فرید فقیر (فریدی شناسی)
فریدیات (کلام فرید کا تنقیدی مطالعہ)
سرائیکی زبان تے ادب (تنقید)
سرائیکی باغ و بہار (تنقید)
فرید کافیاں (منتخب کلام فرید کا ترجمہ و تشریح)
فریدی ڈوہڑے (فریدی شناسی)
چار سرائیکی صوفی شاعر (تنقید)
قدیم سرائیکی شاعر تے ادیب (تنقید)
بہاول پور دی تاریخ تے ثقافت (تاریخ و ثقافت)
چنگیر (بچوں کے نظمیں)
لغات دلشادیہ -اول (لسانیات)
لغات دلشادیہ -دوم (لسانیات)
سرائیکی لسانیات (لسانیات)
سرائیکی شاعری دے اوزان تے قوافی (فن شعر و شاعری)
سرائیکی ادب دی چنگیر (تنقید)
قرآن مجید آپڑیں متعلق کیا آہدے؟ (اسلام)
انارکلی تے اقتدار دی ہوس (امتیاز علی تاج کے ڈرامے انارکلی کا سرائیکی ترجمہ)
چالیھ حدیثاں (سرائیکی ترجمہ احادیث)
خواباں وچ خیال (محمد حسین آزاد کی کتاب نیرنگ خیال کا سرائیکی ترجمہ)
خیابانِ خرام (خرم بہاولپوری کے سرائیکی کلام کی ترتیب و تدوین)
رات دی کندھ (ڈرامے، افسانے)
قصے تے پِڑ قصہ (میر امن کی باغ و بہار کا سرائیکی ترجمہ)
مثنوی دلبہار (میر حسن کی مثنوی سحر البیان کا سرائیکی ترجمہ)
نور نامہ (ترتیب و تدوین)
معراج نامہ (ترتیب و تدوین)
نعتیہ سی حرفی (شاعری)
رسول کریم دے معجزے (مولانا سعید احمد دہلوی کی کتاب معجزات رسول کا سرائیکی ترجمہ)
سرائیکی مطالعہ دے سو سال (ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل کی کتاب کا سرائیکی ترجمہ)
اردو
اقبال شناسی اور ایجرٹن کالج میگزین (اقبالیات)
اقبال اور اس کی اردو شاعری پر ایک نظر (اقبالیات)
آؤ مجھے پہچانو (بچوں کے لیے نظمیں)
نیا ستارا (بچوں کے لیے نظمیں)
مثنوی یوسف زلیخا (عبد الحکیم اُچوی کی مثنوی کا نثری اردو ترجمہ)
اصطلاحات معاشیات (درسی کتاب)
نظریات معاشیات (درسی کتاب)
انتخاب دیوان خواجہ غلام فرید (منتخب کافیوں کا اردو ترجمہ)
سرائیکی اور اس کی نثر (تحقیق)
انگریزی
Descriptive Economic of Bharat & Pakistan
Economic Terms
Intermediate Economics (Made Easy)
نمونۂ کلام
—نظم —
علامہ اقبال کی یاد میں
اے کہ ترا وجود ہے باعث فخر ادبیات اے کہ ترا دماغ ہے مایہ صد تخیلات
اے کہ ترے سخن میں ہے رنگ کلام سامری اے کہ ترے نفس سے ہے جاگی خدا کی کائنات
اے کہ تری نگاہ میں مصر و حجاز و جنیوا شام ہے یا ہے قرطبہ روم و فرنگ و سومنات
اے کہ تری خودی ہی ہے راز حیات جاوداں اے کہ تری شہنشہی رشک ملوک شش جہات
اے کہ ترا یہ فلسفہ درس و پیام و ذکر و فکر اے کہ یہ درد و سوز و غم مظہر راز قومیات
اے کہ رموز بے خودی تیرے قلم کی رازدار اے کہ طریق رند و شیخ تیرے رموز و نظریات
اے کہ ترا مقام ہے چاند ستاروں سے بھی دور اے کہ ترا قیام ہے جائے دل و تصورات
اے کہ غلام غیر کی تو نے نگاہیں پھیر دیں بندہ حُر کے سامنے رکھ دئیے سب مشاہدات
اے کہ ترے لیے اگر کارِ جہاں دراز تھا ہم سے کیوں جلد موڑ لی تونے نگاہِ التفات
اعزازات
کون فرید فقیر پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے 1983ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا گیا۔
سرائیکی زبان تے ادب اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے 1988ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا گیا۔
بہاولپور دی تاریخ تے ثقافت پر حکومت پاکستان کے محکمہ اطلاعات و ثقافت جانب سے 1989ء میں جام درک ایوارڈ دیا گیا۔
1998ء میں خواجہ غلام فرید کے صد سالہ جشن کے موقع پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی جانب سے خواجہ فرید اور ان کے کلام کی تشریح و ترجمہ پر خواجہ فرید میڈل بعد از مرگ دیا گیا۔
وفات
دلشاد کلانچوی 16 فروری 1997ء کو بہاولپور، پاکستان میں وفات پاگئے۔ انہیں بستی کلانچ والا میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔[9]
“