آج – 08؍اپریل 1943
کالم نگار، محقق اور معروف شاعر” ناصرؔ زیدی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام سیّد ناصر زیدی اور تخلص ناصرؔ ہے۔ ۸؍اپریل ۱۹۴۳ء کو مظفر نگر ( یو پی ) میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں تعلیم وتربیت پائی۔ بی اے لاہورسے کیا۔ لاہور ہی میں ان کا ذوق شعری پروان چڑھا۔ ہفت روزہ ’’حمایت اسلام‘‘ سے کالم نویسی کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ روزنامہ ’’امروز‘‘ میں سامع بصری، کے قلمی نام سے لکھتے رہے۔ پندرہ روزہ ’’آہنگ‘‘ کراچی میں لاہور کی ادبی ڈائری بھی لکھتے رہے۔ ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کے علاوہ متعدد ادبی ونیم ادبی رسائل کے ایڈیٹر رہے۔ کئی وزرائے اعظم کے سپیچ رائٹر رہے۔ آج کل لاہور میں مقیم ہیں اور مختلف اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’ڈوبتے چاند کا منظر‘‘، ’’وصال‘‘، ’’التفات‘‘ (شعری مجموعے) ۔ ان کے علاوہ وہ لگ بھگ ڈیڑھ درجن مختلف کتب کے مؤلف اور مرتب ہیں جن میں حضرت قائد اعظم سے متعلق ’’وہ رہبر ہمارا وہ قائد ہمارا‘‘ اور علامہ اقبال کے بارے میں ’’بیادِ شاعر مشرق‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
آج ہی کے دن ٣؍جولائی ٢٠٢٠ء کو اسلام آباد، پاکستان میں انتقال کر گئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:366
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر ناصرؔ زیدی کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت
وہی عزیز اسی سے محبتیں تھیں بہت
وہ جب ملا تو دلوں میں کوئی طلب ہی نہ تھی
بچھڑ گیا تو ہماری ضرورتیں تھیں بہت
ہر ایک موڑ پہ ہم ٹوٹتے بکھرتے رہے
ہماری روح میں پنہاں قیامتیں تھیں بہت
پہنچ گئے سر منزل تری تمنا میں
اگرچہ راہ کٹھن تھی صعوبتیں تھیں بہت
وہ یوں ملا ہے کہ جیسے کبھی ملا ہی نہ تھا
ہماری ذات پہ جس کی عنایتیں تھیں بہت
ہمیں خود اپنے ہی یاروں نے کر دیا رسوا
کہ بات کچھ بھی نہ تھی اور وضاحتیں تھیں بہت
ہمارے بعد ہوا اس گلی میں سناٹا
ہمارے دم سے ہی ناصرؔ حکایتیں تھیں بہت
༺━━━━━━━━━━━━━━━༻
جو میری آخری خواہش کی ترجماں ٹھہری
وہ ایک غارت جاں ہی متاعِ جاں ٹھہری
یہ غم نہیں کہ مرا آشیاں رہا نہ رہا
خوشی یہ ہے کہ یہیں برق بے اماں ٹھہری
وہ تیری چشمِ فسوں ساز تھی کہ موجِ کرم
وہیں وہیں پہ میں ڈوبا جہاں جہاں ٹھہری
کبھی تھے اس میں مری زندگی کے ہنگامے
وہ اک گلی جو گزر گاہِ دشمناں ٹھہری
وہی تھی زیست کا حاصل وہی تھی لطفِ حیات
وہ ایک ساعتِ رنگیں جو بے کراں ٹھہری
میں اس کو بھول بھی جاؤں تو کس طرح ناصرؔ
جو شرط خاص مرے ان کے درمیاں ٹھہری
══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══
جسے چاہوں اسے اپنا بنا کر چھوڑ دیتا ہوں
حسینوں کو بہت نزدیک لا کر چھوڑ دیتا ہوں
میں اپنے دشمنوں سے بھی عداوت کر نہیں سکتا
خود اپنے قاتلوں کو مسکرا کر چھوڑ دیتا ہوں
جنونِ شوق میں حائل نہ ہوں منطق کی دیواریں
خِرد کی راہ میں کانٹے بچھا کر چھوڑ دیتا ہوں
مجھے معلوم ہے رسم و رَہِ الفت کی دشواری
پری چہروں سے میں پینگیں بڑھا کر چھوڑ دیتا ہوں
کسی زلفِ رسا کے پیچ و خم پر جاں فدا میری
کسی جُوڑے میں پھولوں کو سجا کر چھوڑ دیتا ہوں
کوئی شعروں کی فرمائش کرے مجھ سے اگر ناصرؔ
میں اس کو صرف حالِ دل سنا کر چھوڑ دیتا ہوں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
ناصرؔ زیدی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ