(Last Updated On: )
آج – 16؍نومبر 1854
کلاسیکل اردو شاعری کے استاد، خاقانیٔ ہند ملک الشعراء ”شیخ ابراہیم ذوقؔ صاحب“ کا یومِ وفات…
محمد ابراہیم نام اور ذوقؔ تخلص تھا۔
٢٢؍اگست ١٧٩٠ء کو ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے یہاں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوقؔ بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوقؔ بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفرؔ ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفرؔ کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد ١٦؍نومبر ١٨٥٤ء کو دنیائے ادب کا یہ مہرِ درخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
🌹✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
━━━━━━ ❃❃✺ ✿✺❃❃ ━━━━━━
💐💐 استاد شاعر شیخ ابراہیم ذوقؔ کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…💐💐
تیرا عاشق نہ ہو آسودہ بہ زیر طوبیٰ
خلد میں بھی ترے کوچے کی ہوا یاد رہے
—
اے ذوقؔ دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
—
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
—
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
—
بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی
—
ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا
ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے
—
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
—
معلوم جو ہوتا ہمیں انجامِ محبت
لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت
—
مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے
نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے
—
بوسہ جو رخ کا دیتے نہیں لب کا دیجئے
یہ ہے مثل کہ پھول نہیں پنکھڑی سہی
—
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے
—
ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقؔ
اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے
—
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
—
رلائے گی مری یاد ان کو مدتوں صاحب
کریں گے بزم میں محسوس جب کمی میری
—
وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
—
کیا دیکھتا ہے ہاتھ مرا چھوڑ دے طبیب
یاں جان ہی بدن میں نہیں نبض کیا چلے
—
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
—
تم جسے یاد کرو پھر اسے کیا یاد رہے
نہ خدائی کی ہو پروا نہ خدا یاد رہے
—
جو کہو گے تم کہیں گے ہم بھی ہاں یوں ہی سہی
آپ کی گر یوں خوشی ہے مہرباں یوں ہی سہی
—
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے
—
نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
—
شکر پردے ہی میں اس بت کو حیا نے رکھا
ورنہ ایمان گیا ہی تھا خدا نے رکھا
—
ہمیں نرگس کا دستہ غیر کے ہاتھوں سے کیوں بھیجا
جو آنکھیں ہی دکھانی تھیں دکھاتے اپنی نظروں سے
—
کل جہاں سے کہ اٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پھر دل بے تاب مجھے
—
موت نے کر دیا لاچار وگرنہ انساں
ہے وہ خودبیں کہ خدا کا بھی نہ قائل ہوتا
—
پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مرجھا گئے
—
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوقؔ
اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
◼️ شیخ ابراہیم ذوقؔ◼️
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ