آج – 31؍مارچ 1973
بھارت کے مشہور شاعر” افتخار راغبؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام افتخار عالم اور تخلص راغبؔ ہے۔ وہ ٣١؍مارچ ١٩٧٣ء کو نرائن پور صوبۂ بہار( بھارت) میں پیدا ہوئے۔
میٹرک، نبی گنج، میر گنج، سیوان، بہار، ہائر سکنڈری کالج آف کومرس بہار سے کیے اور اعلیٰ تعلیم بی۔ ٹیک سیویل، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے 1998 میں حاصل کیے۔
پیشے سے سول انجنئیر ہیں اور 1999 سے قطر میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ آپ کے پانچ شعری مجموعۂ کلام،
’ لفظوں میں احساس‘ ، ’ خیال چہرہ ‘، ’غزل درخت‘، "یعنی توٗ" اور "کچھ اور" منظرِ عام پر آکر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ غزلوں کا چھٹا اور مزاحیہ شاعری کا پہلا مجموعہ زیرِ ترتیب ہیں۔ آپ کا شمار قطر کے فعال ترین ادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر افتخار راغبؔ کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
تم نے رسماً مجھے سلام کیا
لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے
—
پردیس میں رہ کر کوئی کیا پانو جمائے
گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے
—
غمِ دل ہو غمِ جاناں کہ غمِ دوراں ہو
سب مسائل کا مِرے ایک ہی حل یعنی توٗ
—
ڈھونڈ کر لاؤں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی توٗ
—
کون مجھ سے مجھے چُرائے گا
مجھ کو جس شخص پر ہے شک تم ہو
—
اُن کی ضد کا تھا سامنا راغبؔ
دھجّیاں اُڑ گئیں دلائل کی
—
دھیان اپنی جگہ نہیں راغبؔ
لکھ دیا کس کا نام اپنی جگہ
—
تیرے ہاتھوں میں ڈور ہے یا دل
ہو گیا ہوں پتنگ یا کچھ اور
—
اُس نے یوں آج شب بخیر کہاں
صبح تک خیریت نہیں میری
—
ابتدا مجھ سے انتہا مجھ پر
ختم ہو تیری ہر جفا مجھ پر
—
اور کر لوں میں نرم دل اپنا
سیکھ لو تم ستم گری کچھ اور
—
آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا
دل میں تھا عشق تو آنکھوں کو بھی نم رکھنا تھا
—
شدّتِ عشق میں کرنا تھا اضافہ راغبؔ
اور بے تابیٔ جذبات کو کم رکھنا تھا
—
میں اوروں کو سمجھاتا تھا، اے عشق مجھے معلوم نہ تھا
جب کچھ نہ سمجھ میں آئے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
—
دِل کے دو حرفوں جیسے ہی ایک ہیں ہم
اِک متحرک ہر لمحہ اور اِک ساکن
—
عیاں پیکر بہ پیکر عکس بر عکس
محبت روشنی ہی روشنی ہے
—
مُسکرا دیتا ہوں میں تکلیف میں
اور ہو جاتی ہے زحمت آپ کو
—
اے دل گر اس کے حُسن پہ کرنی ہے گفتگو
حدِّ جمالیات سے آگے کی سوچنا
—
ہم اپنی پیاس پی کر جی رہے ہیں
ہمارے دل کو ہے تسکین بادل
—
خوش فہمیوں کے فریم میں چہرہ تو کوئی اور تھا
آئینہ رکھ کے سامنے دیکھا تو کوئی اور تھا
—
تمھارے دل میں کیا ہے کچھ تو بولو
تمھارا ’’کچھ نہیں‘‘ بھی کم نہیں ہے
—
عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹّی
بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار یعنی میں
—
کہہ دیا تھا کہ دل نہیں راغبؔ
آج پکڑا گیا ہمارا جھوٹ
—
زعم تھا بے حساب چاہت ہے
اُس نے سمجھا دیا حساب مجھے
—
گفتگو ہے ابھی ہمہ تن گوش
کر رہی ہے خطاب خاموشی
—
وہ ندی بھی خشک اک دن ہو گئی
جس کی طغیانی پہ دل کو ناز تھا
—
کیسے نکلے گی اُف کبھی راغبؔ
اُن کو دے دی ہے اب زباں میں نے
—
کیا وہی دل ہے آج بھی جس میں
بے قراری ہی بے قراری تھی
—
پڑھتا رہتا ہوں آپ کا چہرہ
اچھّی لگتی ہے یہ کتاب مجھے
—
ترکِ تعلقات نہیں چاہتا تھا میں
غم سے تِرے نجات نہیں چاہتا تھا میں
—
خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے
گُل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھِل جانے کے بعد
—
ڈائری لے کے مِری چپکے سے
اپنی تصویر بنا دی اُس نے
—
تم نے دیکھا ہے میری آنکھوں میں
خوش گمانی ہی خوش گمانی ہے
—
واپس جانے کے سب رستے میں نے خود مسدود کیے
کشتی اور پتوار جلا کر میں نے خود کو روکا ہے
—
ﷲ دیتا ہے عزّت بھی ذلّت بھی
جھوٹی شان میں کیا رکھا ہے سچ بولو
—
مِرے دل کو بچپن میں لُو لگ گئی
سو گھر کر گیا دل میں ڈر دھوپ کا
—
اِک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں میں
ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں میں
—
دنیا میں ہم پیڑ لگانا بھول گئے
جنّت کے باغات کی باتیں کرتے ہیں
—
مجھ کو چھُو کر ذرا بتاؤ مجھے
میں ہوں موجود یا نہیں موجود
—
اُس لفافے میں بند ہوں راغبؔ
جس پہ نام اور پتہ نہیں موجود
—
زندگی کا عظیم مقصد ہے
یہ کسی گلستاں کی سَیر نہیں
—
وقت بدلا ہے مگر ذہن کہاں بدلا ہے
آج بھی ہو گئی تاخیر ہمیشہ کی طرح
—
دل تو کہتا ہے کہ ہم لوگ ملیں گے اِک دن
عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا
—
ایک اندھے کی نصیحت راغبؔ
پیار کرنا ہے تو کر آنکھوں سے
—
جب آپ کو خدا پہ مکمّل یقین ہے
حیرت زدہ ہوں آپ کے ذہنی تناو پر
—
اُس شوخیِ گفتار پر آتا ہے بہت پیار
جب پیار سے کہتے ہیں وہ شیطان کہیں کا
—
چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی
ہم طرزِ جہاں سے ہٹ کے روئے
—
بے سبب راغبؔ تڑپ اُٹھتا ہے دل
دل کو سمجھانا پڑے گا ٹھیک سے
—
تیرے چہرے پہ کوئی داغ نہیں
کیسے کہہ دوں کہ ماہتاب ہے تو
—
آج پھر ہوگئی بڑی تاخیر
آج پھر لگ رہا ہے خیر نہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
افتخار راغبؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ