آج – 11؍مارچ 2018
بھارت کے معروف شاعر” جعفر ساہنی صاحب “ کا یومِ وفات…
جعفرساہنی ، 5؍جنوری1941ء کو لکھمنیاں (بیگوسرائے) میں پیداہوئے۔البتہ انہوں نے زندگی کے زیادہ تر ایام شہرنشاط کلکتہ میں گزارے۔زمانۂ طالب علمی سے لے کر دورِمعلمی تک توموصوف کلکتہ کے ہی ہوکر رہے۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعدبھی انہوں نے یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ادھر کافی دنوں سے معذوری بڑھ گئی تھی۔ یہاں تک کہ جمعہ کی نماز کے لیے بھی مسجد جانا مشکل ہو گیا تھا۔ پسماندگان میں تین بیٹوں کے علاوہ دوبیٹیاں بھی ہیں۔ اہلیہ پچھلے سال انتقال کرچکی تھیں۔ ان کے دوشعری مجموعے ’ہواکے شامیانے میں‘ اور ’شاید‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کے ذریعہ بالترتیب 2010 او ر 2012 میں شائع ہوئے۔ دونوں ہی مجموعوں کو ادب نواز حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
زبیررضوی مرحوم نے جعفر ساہنی کی نظموں کے مجموعہ ’ہوا کے شامیانے میں‘ پر ایک مبسوط مقدمہ تحریر کیا ہے،جس میں انہوں نے جعفر ساہنی کو ’زندگی کے پرتو اورپرچھائیں کا شاعر‘قراردیاہے،جبکہ غزلوں کے مجموعہ ’شاید‘کامقدمہ علقمہ شبلی نے بہ عنوان’جہان معنی کی سیر‘تحریرکرتے ہوئے ساہنی کی غزلیہ شاعری کو مخصوص زاویۂ نگاہ کاآئینہ دارقراردیاہے۔
دو شعری مجموعوں (’ہوا کے شامیانے میں‘ اور’ شاید‘) کے خالق جعفر ساہنی اپنی گراں قدر تخلیقات سے برصغیر کے تمام ادبی رسالوں( بشمول شب خون، ذہن جدید، ابلاغ، آجکل، ایوان اردو، شاعر) کو زینت بخشتے رہے۔بہ حیثیت شاعر مرحوم کے مقام ومرتبہ کا اندازہ شمس الرحمن فاروقی کی اس رائے سے لگا یا جاسکتا ہے’’آپ(جعفر ساہنی) شب خون کے پرانے لکھنے والے ہیں، میں ہمیشہ سے آپ کا مداح رہا ہوں، نئے مضامین نکالنا اور ان میں بھی نئی طرح پیدا کرنا آپ کا خاصّہ ہے‘‘۔
جعفر ساہنی کا انتقال 11؍ مارچ 2018ء کو کولکاتہ میں ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر جعفر ساہنی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
دل میں خیال عشق تھا مہمان کی طرح
ارماں سجا تھا میرؔ کے دیوان کی طرح
وسعت زمیں کی کھو گئی بستی کی بھیڑ میں
گلیوں میں شور بس گیا میدان کی طرح
سر پر فلک کو اوڑھے بچھائے زمین وہ
بیٹھا ہے شان سے کسی سلطان کی طرح
غافل مرے وجود سے سایہ مرا رہا
تھا ہم سفر وہ شہر میں انجان کی طرح
رکھتا ہوں میں عزیز روایت کا سلسلہ
گرتے مرے مکان کے دالان کی طرح
یہ منفعل سی زندگی مجھ کو نہیں قبول
عہدِ جنوں کے چاک گریبان کی طرح
تیور سے اس کے آگ تمنا میں لگ گئی
جلنے لگا ہے دل مرا شمشان کی طرح
تیرے بغیر ساہنیؔ تاروں کے درمیاں
محفل اداس تھی رہِ ویران کی طرح
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
انداز کسی کا ہے صدا اور کسی کی
ہے چوٹ کوئی اور دوا اور کسی کی
تبدیل شدہ شخص نظر آنے لگا وہ
تیور میں سجا کر کے ادا اور کسی کی
اک شوخ سے سیراب نظر ہونے لگی ہے
قابض ہے مگر دل پہ حیا اور کسی کی
رہتا تھا گریزاں جو سدا میری وفا سے
ڈھونڈے ہے وہی آج وفا اور کسی کی
خاموش فضا تھامے رہا وہ مرے حق میں
میں لے کے چلا آیا دعا اور کسی کی
طوفاں میں چمن اپنے پریشاں تو بہت تھا
آسودہ نہیں پا کے صبا اور کسی کی
لکھا ہی نہیں جرم مرے نام کے آگے
ہوں پا کے بہت خوش میں سزا اور کسی کی
ہے خوب درخشاں سا نئے شہر میں آ کر
چپکا کے بدن پر وہ ضیا اور کسی کی
اے ساہنیؔ کیوں ایسا ہوا مجھ کو بتانا
روشن ہے ترے گھر میں فضا اور کسی کی
●━─┄━─┄═•••••═┄─━─━━●
خاموش نگاہوں سے وہ یلغار کا ہونا
ملتا ہے نفی میں کسی اقرار کا ہونا
محفوظ مرے خواب کو بتلاتا نہیں ہے
اک عکس تردد میں نگہ دار کا ہونا
حیرت میں نہیں ڈالتا اب شہر گماں کو
ہر روز لہو رنگ میں اخبار کا ہونا
آثار تعلق کو جلا دیتا ہے اکثر
گمنام کسی درد میں غم خوار کا ہونا
رستے کے تکلف سے چلو بات کریں کچھ
ممکن نہیں ہر موڑ پہ گھر بار کا ہونا
لمحوں کے اشاروں سے عیاں ہونے لگا ہے
گلیوں میں مرے یار کی اغیار کا ہونا
کرتا ہے بہت یاد شب و روز مرا دل
پھولوں کے نگر میں رہ پر خار کا ہونا
اقلیم جفا کیش میں تم دیکھنا جعفرؔ
لازم ہے پس در کسی دیوار کا ہونا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
جعفرؔ ساہنی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ