اس آدمی کی زندگی کے بارے میں جان کے سب سے پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ موت بھی کوئی ڈرنے والی چیز ہے۔
’گولی چلاؤ بزدلو۔۔۔تم صرف ایک آدمی کو ہی مار سکتے ہو‘۔
چی گویرا نے موت سے دو برس قبل الجزائر میں ایفرو ایشین سالیڈیرٹی سمینار میں اپنا آخری بین الاقوامی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔‘
چی گویرا نے اپنی مختصر سی زندگی میں کیا نہیں کیا تھا۔ رگبی اور شطرنج کا کھلاڑی، دمے کا مریض، ڈاکٹر، فوٹوگرافر، موٹر بائیک رائیڈر، شاعر، گوریلا کمانڈر، باپ، شوہر، ڈائری نویس، ادیب اور انقلابی۔۔۔بچپن سے دمہ کا مریض ہونے کے باوجود وہ ایک بہترین ایتھلیٹ تھا اور شطرنج کا بھی شوقین تھا۔ اپنی نوجوانی میں وہ کتابوں کا بہت زیادہ شوقین تھا، اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے گھر میں 3000 سے زائد کتابوں پر مشتمل ذخیرہ موجود تھا، جس سے اس نے اپنے علم میں بہتر اضافہ کیا۔
وہ آدمی کے بھیس میں چلتی پھرتی تکلیف تھا۔ایسا عبداللہ جو کسی بھی شادی کو دیوانہ ہونے کے لیے بیگانا نہیں سمجھتا تھا۔ اسکے لیے پورا لاطینی امریکہ اور پھر پوری دنیا ایک ہی ملک تھا ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 14 جون 1928 کو ارجنٹینا کے ایک معمولی قصبے روساریو کےایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والا ارنسٹو میڈیکل کی تعلیم مکمل کر کے کہیں نوکری کرلیتا یا اپنا کلینک کھول کر کچھ پیسے جمع کر کے شادی رچا کر دو چار بچے پیدا کرکے مر جاتا۔ لیکن چھلاوے کہاں ایسا کرتے ہیں۔
ارنسٹو نے بھی یہ سب نہیں کیا بلکہ دورانِ تعلیم ایک دن اپنے دوست البرٹو گراناڈو کو 500 سی سی کی نورٹن موٹر سائیکل پر بٹھا کر نامعلوم سفر پر چل پڑا۔ارجنٹینا سے گوئٹے مالا تک 8 ممالک کا سفر کیا۔
چی گویرا نے 1950ء سے لیکر 1953ء تک جنوبی امریکا کو تین بار اپنی سیاحت کا مرکز بنایا، جس میں پہلے1950ء میں اس نے سائیکل پر 4500 کلومیٹر کا سفر براعظم کے جنوب سے شمال کی جانب طے کیا۔
پھر دوسرا سفر اس نے 1951ء میں موٹر سائیکل پر طے کیا۔ جو تقریباً دگنا لمبا یعنی8000 کلومیٹر تھا۔ تیسرا سفر اس نے 1953ء میں کیا۔تینوں بار اس نے متعدد ممالک جیسے چلی، پیرو، ایکواڈور، کولمبیا،وینیزویلا، پانامہ،برازیل، بولیویا اور کیوبا کراس کیے۔
اس آخری سفر میں پیرو میں اس نے کئی ہفتے جذامیوں کی بستی میں گذارے۔ راستے میں اسے کبھی کوئی تھکن نہیں ہوئی کیونکہ لوگوں کی تکلیف دہ زندگی دیکھ دیکھ کر وہ تھکنا ہی بھول چکا تھا۔مگر لکھنا نہ بھولا۔مرنے سےایک دن پہلے تک کا ایک مشاہدہ ڈائری بند کیا ۔اس سفر نے ارنسٹو کے اندر سے اس چی گویرا کو جنم دیا جس نے طے کیا کہ انصاف مسلح جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
چی نے یہ طے کرنے کے بعد یونیورسٹی آف بیونس آئرس سے ڈاکٹری مکمل کی اور پھر اپنے ملک کو ایسا خیر آباد کہا کہ لاش بھی واپس نہ آئی۔
چی گویرا کے اگلے 13 برس کی زندگی غالب کے اس مصرعے میں ڈھل گئی کہ ’میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے۔‘
وہ گوئٹے مالا پہنچا جہاں امریکی سی آئی اے اصلاح پسند صدر اربینز کے خون کی پیاسی ہو رہی تھی۔ چی گویرا نے مزاحمت میں حصہ لیا لیکن جب صدر اربینز نے ہی میکسیکو کے سفارتخانے میں پناہ لے لی تو چی گویرا کا دل ٹوٹ گیا۔
چی گویرا طبعاً ایک بین الاقوامی روح رکھتا تھا جسے پابہ زنجیر ہونا پسند نہیں تھا لہذا ایک ایسے وقت جب وہ گوئٹے مالا میں مالی مشکلات میں گھر گیا اس نے بطور ڈاکٹر نوکری کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کیونکہ شرط یہ تھی کہ وہ مقامی کیمونسٹ پارٹی کا باقاعدہ ممبر بن جائے۔آزاد طبیعت چی گویرا کو مارکسسٹ نظریہ صرف اس لیے پسند تھا کیونکہ اسکے خیال میں دورِ حاضر میں یہ سب سے زیادہ عوام دوست نظریہ تھا۔
گوئٹے مالا سے اسکا رابطہ میکسیکو میں موجود کیوبا کے جلاوطن حریت پسندوں سے ہوا اور 1954ء میں میکسیکو چلاگیا، وہاں ایک سال تک جنرل ہسپتال میں الرجی کا شعبہ سنبھالنے کے بعد
1955 میں اسکی فیڈل کاسترو سے میکسیکو میں ہی میں پہلی ملاقات ہوئی ۔ چی گویرا نے کاسترو کا امریکہ نواز کیوبائی حکومت کا تختہ الٹنے اور گوریلا جدوجہد کے ذریعے انقلاب لانے میں اتنی جانفشانی اور خلوص سے ساتھ دیا کہ کبھی کبھی تو یہ شبہہ ہونے لگتا تھا کہ اس انقلاب میں کاسترو اور چی گویرا میں سے کس کا حصہ زیادہ ہے۔
ارجنٹائن کے شہری چی گویرا کی انقلابی خدمات کے طور پر انقلاب کے بعد اسے کیوبا کی شہریت دی گئی۔انقلابی عدالت کا سربراہ بنایا گیا جس نے سینکڑوں انقلاب دشمنوں کو سزائے موت دی۔ پھر چی گویرا کو نیشنل بینک آف کیوبا کا صدر بنایا گیا۔اس زمانے کے کیوبیائی کرنسی نوٹوں پر چی کے دستخط موجود ہیں۔ پھر چی کو وزارتِ صنعت کا قلمدان دے دیا گیا۔اس دوران چی نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں کیوبائی وفد کی قیادت کی، امریکی چینلز کو انٹرویو دیے، سینیٹرز کو اپنا فلسفہ زندگی سمجھانے کی کوشش کی اور راک فیلر خاندان کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے انہیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ امریکی پالیسیوں کو لاطینی امریکہ کا آدمی کیوں پسند نہیں کرتا۔
نیویارک سے چی گویرا فرانس، چین، شمالی کوریا ہوتا ہوا مصر پہنچا جہاں جمال عبدل ناصر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دھیرج رکھو ابھی بہت عمر پڑی ہے۔ چی گویرا نے ناصر کی یہ بات سنی اور پھر الجزائر سمیت سات نو آزاد افریقی ممالک کے دورے پر چل پڑا اور تین ماہ بعد 14 مارچ 1965 کو جب کیوبا میں اترا تو کاسترو نے ایرپورٹ پر استقبال کیا۔
دوہفتے بعد چی گویرا اچانک منظرِ عام سے غائب ہوگیا۔اور پھر ڈیڑھ برس بعد اسکے مرنے کی خبر آئی۔
ان ڈیڑھ برسوں میں کیا ہوا۔
چی گویرا اور کاسترو میں ملک کی اقتصادی پالیسی پر عمل درآمد کی حکمتِ عملی پر اختلافات ہوگئے۔چی گویرا ترقی کے چینی ماڈل پر عمل کرنا چاہتا تھا۔ جس طرح وہ امریکہ کو شمالی دنیا کا ایکسپلائٹر سمجھتا تھا۔اسی طرح سوویت یونین کو جنوبی دنیا کا استحصالی گردانتا تھا۔ اسی زمانے میں چین روس نظریاتی چپقلش عروج پر پہنچ گئی۔ کاسترو کو امریکی خطرے اور علاقائی صورتحال کے سبب سوویت یونین کا انتخاب کرنا پڑا۔ چی گویرا جو 1962 میں کیوبا میں سوویت میزائل آنے کے بعد خروشچیف کی جانب سے امریکہ کے مقابلے میں ہار مان کر یہ میزائل ہٹانے کے فیصلے سے سخت برافروختہ تھا اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کاسترو اسے نظریاتی بوجھ سمجھے اور اس سے نبھنا مشکل ہوجائے بہتر ہے کہ رختِ سفر باندھ لیا جائے۔
چنانچہ چی گویرا نے تمام سیاسی اور سرکاری عہدوں سے سبکدوشی اختیار کی اور کیوبائی شہریت واپس کی اور کاسترو سے کانگو جانے کی اجازت چاہی جہاں چی گویرا کو سی آئی اے کی سازش کے نتیجے میں قتل ہونے والے وزیرِ اعظم پیٹرک لوممبا کے بعد انقلابی جدوجہد کے آثار سازگار نظر آ رہے تھے۔
چی گویرا کچھ انقلابی لے کر اپریل 1965 میں کانگو پہنچا لیکن ابتدا ہی میں اسے مایوس ہونا پڑا۔یہ کیوبا نہیں تھا، جہاں انقلابی پرعزم اور ڈسپلن کے پابند تھے، جبکہ عوام بھی ان کے لیے اچھے جذبات رکھتے تھے۔ کانگو میں تحریک تو شروع تھی، مگر لوگوں میں وہ ڈسپلن اورجذبہ موجود نہیں تھا، جو کسی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے یہاں کی زبانیں بھی نہیں آتی تھیں جس کی وجہ سے اپنے خیالات اور منصوبوں پردوسرے لیڈروں کے ساتھ اظہار خیال کرنے میں اسے مترجم کی خدمات لینی پڑتی تھیں۔ جبکہ سی آئی اے بھی اس علاقے میں پوری طرح سرگرم تھی، جو اپنے جدید مواصلاتی آلات کی مدد سے ان کے اکثر پلان پہلے سے جان لیتی تھی
چنانچہ سات ماہ بعد چی گویرا نے مایوسی کے عالم میں کانگو چھوڑا اور موزمبیق پہنچ گیا۔جہاں پرتگیزی نوآبادیاتی حکومت سے نبردآزما فری لیمو تحریک کو اپنی خدمات پیش کیں۔ لیکن فری لیمو والے چی گویرا کو نہ سمجھ سکے۔
کاسترو نے چی گویرا کو پیغام بھیجا کہ واپس آجاؤ۔ لیکن چی گویرا نے جس ملک کی شہریت خود ترک کی وہاں اسکی غیرت نے دوبارہ کھلے عام جانا گوارہ نہیں کیا۔ چی گویرا نے کاسترو کو پیغام بھیجا کہ وہ صرف چند ماہ کے لیے خفیہ طور پر واپس آنا چاہتا ہے تاکہ کسی اور جگہ جا کر انقلابی جدوجہد کرسکے۔
چنانچہ موزمبیق سے چی گویرا چیکوسلواکیہ پہنچا اور اپنی شناخت و نام بدل کر مغربی یورپ کے کچھ ممالک کا سفر اختیار کرتے ہوئے وہ کیوبا پہنچ گیا۔ حسبِ خواہش اسکی موجودگی کو خفیہ رکھا گیا۔اس دوران کاسترو نے بولیویا میں ایک انقلابی چھاپہ مار تحریک کو منظم کرنے کے لیے بولیویا کے مقامی کیمونسٹوں کے توسط سے 3700 ایکڑ زمین خریدی۔ چی گویرا نے بولیویا کے مشن پر جانے کی حامی بھری۔اور نومبر 1966 میں وہ بولیویا پہنچا۔جہاں کچھ عرصے میں اس نے پچاس کے لگ بھگ تربیت یافتہ گوریلوں کا دستہ تشکیل دے دیا۔ لیکن بولیویا کی سوویت نواز کیمونسٹ قیادت نے چی گویرا کا محض رسمی ساتھ دیا۔
سی آئی اے جسے کانگو میں چی گویرا کی موجودگی کا پتہ چل گیا تھا بولیویا پہنچنے تک چی گویرا کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھ رہی تھی۔
بولیویا کے جنگلات میں چی کے چھاپہ ماروں اور بولیویائی دستوں میں متعدد جھڑپیں ہوئیں۔جب چھاپہ مار کسی زخمی فوجی کو قیدی بنالیتے تو ڈاکٹر چی گویرا اس قیدی کا علاج کرکے رہا کردیتا۔ایک جھڑپ میں چی گویرا کے چھ ساتھی مارے گئے اور چی گویرا خود بھی زخمی ہوا۔اسکے بعد نواحی علاقوں میں کئی مسلح کارروائیاں اس لیے کی گئیں کہ دواؤں کی کچھ مقدار ہاتھ آسکے۔
سی آئی اےنے چی کو زندہ پکڑنے کے لئے فیلکس روڈریگز نامی ایجنٹ کی قیادت میں ایک خصوصی دستہ تشکیل دیا ۔
7 اکتوبر 1967ء کی صبح ایک مقامی مخبر نے قریبی فوجی اڈے پر چی گویرا اور اس کے ساتھیوں کے ٹھکانے کی اطلاع دی، جس پہ فوج حرکت میں آگئی۔
تقریباً 1800 فوجیوں نے اس مشن میں حصہ لیا۔ سی آئی اے انھیں گائیڈ کر رہی تھی، چی اور اس کے ساتھیوں نے اگرچہ مقابلہ کیا، مگر وہ مٹھی بھر تھے، جلد ہی مارے گئے، چی زخمی ہوا اور گرفتار کر لیا گیا۔ پھر اسے پوچھ تاچھ کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر لیا گیا۔
جہاں اگلے روز شام تک اس پر کئی بار کوشش کی گئی، تاکہ وہ منہ کھول دے، مگر بقول ایک فوجی کے زخمی ہونے کے باوجود چی بالکل مطمئن بیٹھا ہواتھا اور کسی گھبراہٹ کے بغیر سب سے آنکھیں ملاکر انھیں گھور رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں ایسی رعب اور چمک تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی اس سے صحیح نظر نہیں ملا پا رہا تھا۔ آفیسر آجا رہے تھے اور اس سے پوچھ تاچھ کر رہے تھے، مگر وہ کسی سوال کا جواب نہیں دے رہا تھا۔ البتہ اس نے اپنے لیے تمباکو ضرور طلب کیا، جو میں نے اسے فراہم کیا، اس پر وہ کافی خوش ہوا اور میرا شکریہ بھی ادا کیا۔
پھر جب دو دن تک اس پر مغز ماری کرنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا، تو اس کی رپورٹ صدر کو دے دی گئی، جس نے کسی ممکنہ پریشر سے بچنے کے لیے اس کی فوری موت کا حکم صادر کر دیا۔ سی آئی اے چاہ رہی تھی کہ اسے پانامہ منتقل کیا جائے، تاکہ وہاں ان کی اسپیشل ٹیم اس سے مزید تفتیش کرے، مگر صدر کو ڈر تھا کہ اگر وہ فرار ہو گیا تو شاید پھر ہاتھ نہ آئے اور اس کی حکومت پھر خطرہ میں پڑ سکتی ہے، لہذا اس نے اپنا حکم برقرار رکھا۔
آرڈر کی تکمیل کی گئی اور 09 اکتوبر 1967 کی شام اسے ایک شرابی جلاد کے حوالے کیا گیا، جو جنگ میں اپنے تین ساتھی کھوچکا تھا اور چی گویرا کو ان کی موت کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا۔ جب وہ چی کے سامنے پہنچا تو چی گویرا نے اسے اکسایا، وہ ایک آسان موت کی توقع کر رہا تھا، مگر شرابی جلاد نے پلان کے مطابق آڑی ترچھی 9گولیاں برسائیں اور اسے بڑی اذیت ناک موت سے دوچار کیا۔
ان کا منصوبہ یہ تھا کہ چی کو واپس اسی مقام پر پھینک کر بعد میں اعلان کیا جائے، کہ وہ مقابلے میں مارا گیا، تاکہ اس طرح ٹرائل نہ کرنے کے الزام سے بچا جاسکے۔روڈریگز نے چی گویرا کی رولیکس گھڑی بطور سووئینیر رکھ لی۔ تدفین سے پہلے چی گویرا کے سر کے بالوں کا ایک گھچھا گستاوو ولولدو نے اکھاڑ کر اپنے بیگ میں چھپا لیا۔۔ جبکہ چی گویرا کی فلیش لائٹ سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے نوادرات میں رکھ ہوئی ہے۔
چی گویرا مرنے کے بعد اس طرح زندہ ہوا کہ 1968 میں طلبا کی عالمی تحریک کے دوران چی کی وہ تصویر جو فوٹو گرافر البرٹو کورڈا نے 1960 میں کھینچی تھی لاکھوں ٹی شرٹس اور پوسٹرز پر چھپ گئی۔اور وہاں سے ہوتی ہوئی پرچم، کافی کے مگ اور بیس بال کیپ پر پرنٹ ہوکر ملٹی ملین ڈالر صنعت میں تبدیل ہوگئی۔یہ دنیا میں سب سے زیادہ پرنٹ ہونے والی تصویر ہے۔
آج 51 سال گزرنے کے باوجود چی گویرا کی یاد لوگوں کے دلوں میں زندہ ہےچی گویرا کی پہلی سوانح حیات 1968 میں ارجنٹینا کے ناول نگار ہیکٹر اوسترہیلڈ نے مرتب کی تو اسکی پاداش میں ارجنٹینا کے اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوجی جنتا نے سوانح نگار کو اذیتیں دے کر ہلاک کر دیا۔
1996 میں چی گویرا کی سفری ڈائری موٹر سائیکل ڈائریز کے نام سے شائع ہوئی جسے 2004 میں فلم کی شکل دے دی گئی۔اس پورے عرصے میں دنیا بھر میں چی گویرا کے لیے سینکڑوں نظمیں اور بیسیوں گیت تخلیق ہوئے۔
نکارگوا کی سندانستا تحریک اور میکسیکو کی زپاتا تحریک کی بنیاد گویرا ازم پر ہے۔ وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز عام جلسوں سے عموماً چی گویرا کی تصویر والی ٹی شرٹ پہن کر خطاب کرتے ہیں۔
1997 میں چی گویرا کے دونوں ہاتھ کٹی ہوئی لاش کے باقیات ویلی گراندے کی فضائی پٹی کے نیچے سے دریافت ہوئے جنہیں چھ دیگر ساتھیوں کے باقیات سمیت کیوبا لایا گیا اور سانتا کلارا میں ایک مزار تعمیر کرکے پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔سانتا کلارا وہ جگہ ہے جہاں 1959 میں چی گویرا کی قیادت میں کیوبائی انقلاب کی آخری فیصلہ کن لڑائی ہوئی تھی۔
خود بولیویا میں زمانہ یوں بدلا کہ موجودہ صدر ایوو مورالیس نے کوکا کے پتوں سے بنی ہوئی چی گویرا کی تصویر صدارتی محل میں لگا رکھی ہے۔
ویلے گراندے کا قصبہ جہاں چی گویرا کو گھیر کر مارا گیا وہاں کی مقامی آبادی نے اپنے گرجے میں عیسی، کنواری مریم اور سینٹ ارنسٹو ( چی گویرا) کی شبیہیں ایک ساتھ لگا رکھی ہیں۔
شاید یہ سب اس لیے ہوا کہ مرنے سے پہلے چی گویرا کے آخری الفاظ تھے۔
’گولی چلاؤ بزدلو۔۔۔تم صرف ایک آدمی کو ہی مار سکتے ہو‘۔
اور شاید چی گویرا اس لیے بین الاقوامی مزاحمت کا سمبل ہے کہ اس نے کبھی کسی عام شہری کو نہیں مارا۔
ژاں پال سارتر کے بقول چی ہمارے دور کا مکمل ترین انسان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ عدیل الرحمان