آج – 24؍مئی 2000
برِصغیر کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، ممتاز فلم نغمہ نگار اور اردو غزل کا البیلا شاعر ” مجروحؔ سلطان پوری صاحب “ کا یومِ وفات…
اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر مجروحؔ سلطان پوری کا اصل نام اسرار الحسن خاں تھا ۔ مجروحؔ تخلص کرتے تھے ۔ مجروحؔ ، یکم؍اکتوبر ١٩١٩ء کو اترپردیش کے ضلع سلطان پور میں قصبہ کجہڑی میں پیدا ہوئے۔ مجروحؔ کے والد سرکاری ملازم تھے ۔ مجروح اپنے والدین کی اکیلی اولاد تھے اس لئے خاصے لاڈ پیار سے پالے گئے ۔ مجروح کے والد خلافت تحریک سے بہت متاثر تھے ۔ اس لئے انہوں نے انگریز اور انگریزی زبان کی دشمنی میں طے کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی نہیں پڑھائیں گے ۔ چناچہ انہیں ایک مقامی مکتب میں داخل کیا گیا جہاں انہوں نے عربی فارسی اور اردو پڑھی ۔ درس نظامی کی تعلیم بیچ میں چھوڑ کر مجروح نے لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا ۔ ۱۹۳۸ میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کرلیا ۔ یہاں مجروح کو ایک خوبصورت لڑکی سے عشق ہوگیا تھا اور یہی عشق ٹانڈہ سے مجروح کی واپسی کی سبب بنا، وہ لوٹ کر سلطان پور چلے آئے ۔ اس عشق کے زخموں نے مجروح کی شاعرانہ طبیعت میں اور اچھال پیدا کر دیا ۔ مجروح شاعری تو پہلے ہی شروع کر چکے تھے لیکن اب باقاعدہ شعر کہنے لگے اور مشاعروں میں جانے لگے ۔ مشاعروں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر مجروح نے شاعری اور مشاعروں ہی کو اپنا ذریعۂ روزگار بنا لیا ۔ ان دنوں میں مجروحؔ کو جگرمرادآبادی اور رشید احمد صدیقی سے شرف نیاز حاصل رہا اور انہیں کے مشورے سے مجروح نے اردو کی کلاسیکی شاعری کا خوب مطالعہ کیا ۔
۱۹۴۵ء میں مجروح جگرمرادآبادی کے ساتھ ممبئی میں مشاعرہ پڑھنے گئے ۔ مشاعرے میں جب مجروح نے اپنا کلام سنایا تو فلم ڈاٗریکٹر کاردار مجروحؔ کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان دنوں کاردار ’’ شاہجہاں‘‘ کےنام سے ایک فلم بنارہے تھے ۔ نوشاد میوزک ڈائریکٹر تھے ۔ کاردار نے مجروح کو پانچ ہزار روپئے مہینے کی ملازمت کی پیشکش کی ، مجروح نے فورا منظور کرلیا ۔ انہوں نے شاہجہاں فلم کے گانے لکھے ، نوشاد نے موسیقی دی ۔ مجروح کے یہ گانے بہت مقبول ہوئے ۔ اس کے بعد مجروح ممبئی ہی میں مقیم ہوگئے اور فلموں کیلئے گانے لکھتے رہے ۔ مجروح نے اپنی فلمی زندگی کے پچپن برسوں میں تقریبا ساڑھے تین سو گانے اردو میں لکھے اور تین بھوجپوری میں ۔ مجروح کے لکھے ہوئے نغموں کا جادو سر چڑھ کر بولا ، یہ گانے آج بھی اسی دلچسپی کے ساتھ سنے جاتے ہیں ۔
مجروح ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور اس کے سرگرم رکن تھے مزدوروں کے حق میں شعر کہنے کے جرم میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا ، وہ ایک سال تک جیل میں رہے ۔
مجروح کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ فلمی دنیا اور ترقی پسند تحریک سے سرگرم وابستگی ان کے تخلیقی وجود کو اپنے اشاروں پر نہ چلا سکی ۔ انہوں نے غزل کی صنف میں شاعری کی جس کے بعض ترقی پسند سخت مخالف تھے کہ اس میں صرف حسن و عشق کی باتیں ہوتی ہیں ۔ اور ساتھ ہی انہوں نے غزل کے کلاسیکی اور روایتی لہجے کو برقرار رکھ کر اس میں نئے امکانات تلاش کئے ۔ اپنی ان خصوصیات کی بنا پر مجروح تمام ترقی پسند شاعروں میں بہت نمایاں ہیں ۔
اردو غزل کا البیلا شاعر ٢٤؍مئی ٢٠٠٠ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
ممتاز نغمہ نگار مجروحؔ سلطان پوری صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
آ ہی جائے گی سحرِ مطلعِ امکاں تو کھلا
نہ سہی بابِ قفس روزنِ زنداں تو کھلا
—
اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم
اٹھنے کو اٹھ تو آئے ترے آستاں سے ہم
—
اشکوں میں رنگ و بوئے چمن دور تک ملے
جس دم اسیر ہو کے چلے گلستاں سے ہم
—
بڑھائی مے جو محبت سے آج ساقی نے
یہ کانپے ہاتھ کہ ساغر بھی ہم اٹھا نہ سکے
—
ہم ہیں کعبہ ہم ہیں بت خانہ ہمیں ہیں کائنات
ہو سکے تو خود کو بھی اک بار سجدا کیجیے
—
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
—
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
—
غمِ حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ
تھی آرزو کہ ترے در پہ صبح و شام کریں
—
مجروحؔ قافلے کی مرے داستاں یہ ہے
رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ
—
مجھے یہ فکر سب کی پیاس اپنی پیاس ہے ساقی
تجھے یہ ضد کہ خالی ہے مرا پیمانہ برسوں سے
—
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
—
شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا
—
زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروحؔ
ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے
—
جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی
—
ترے سوا بھی کہیں تھی پناہ بھول گئے
نکل کے ہم تری محفل سے راہ بھول گئے
—
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
—
دست پر خوں کو کف دستِ نگاراں سمجھے
قتل گہہ تھی جسے ہم محفلِ یاراں سمجھے
—
ہٹ کے روئے یار سے تزئین عالم کر گئیں
وہ نگاہیں جن کو اب تک رائیگاں سمجھا تھا میں
—
مجروحؔ اٹھی ہے موجِ صبا آثار لیے طوفانوں کے
ہر قطرۂ شبنم بن جائے اک جوئے رواں کچھ دور نہیں
—
جب ہوا عرفاں تو غمِ آرام جاں بنتا گیا
سوزِ جاناں دل میں سوزِ دیگراں بنتا گیا
—
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
—
گو رات مری صبح کی محرم تو نہیں ہے
سورج سے ترا رنگِ حنا کم تو نہیں ہے
—
مرے عہد میں نہیں ہے یہ نشانِ سربلندی
یہ رنگے ہوئے عمامے یہ جھکی جھکی کلاہیں
—
ادائے طولِ سخن کیا وہ اختیار کرے
جو عرضِ حال بہ طرزِ نگاہِ یار کرے
—
سکھائیں دستِ طلب کو ادائے بیباکی
پیامِ زیرلبی کو صلائے عام کریں
—
مجروحؔ سنے کون تری تلخ نوائی
گفتارِ عزیزاں شکرآمیز بہت ہے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
مجروحؔ سلطانپوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ