آج اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار محترمہ بانو قدسیہ کا یوم وفات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف ادیبہ بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئیں۔
ان کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا انتقال 31 سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی۔ بانو قدسیہ کی اپنی عمر اس وقت ساڑھے تین سال تھی۔ ان کا ایک ہی بھائی پرویز تھا جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے ہی میں حاصل کی۔ انھیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔
ہوا یوں تھا کہ وہ جب پانچویں جماعت میں تھیں تو ان کے اسکول میں ڈراما فیسٹیول کا انعقاد ہوا، جس میں ہر کلاس کو اپنا اپنا ڈراما پرفارم کرنا تھا۔ بہت تلاش کے باوجود بھی کلاس کو تیس منٹ کا کوئی اسکرپٹ دستیاب نہ ہوا۔ چنانچہ ہم جولیوں اور ٹیچرز نے اس مقصد کے لیے بانو قدسیہ کی طرف دیکھا، جن کی پڑھنے لکھنے کی عادت کلاس میں سب سے زیادہ تھی، ان سے درخواست کی کہ ’’تم ڈرامائی باتیں کرتی ہو لہٰذا یہ ڈراما تم ہی لکھ دو‘‘۔ بانو قدسیہ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بقول ان کے ’’جتنی بھی اُردو آتی تھی اس میں ڈراما لکھ دیا‘‘۔ یہ ان کی پہلی کاوش تھی، اس ڈرامے کو اسکول بھر میں فرسٹ پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس حوصلہ افزائی کے بعد وہ دسویں جماعت تک افسانے اور ڈرامے ہی لکھتی رہیں۔ طویل عرصے تک وہ اپنی کہانیوں کی اشاعت پر توجہ نہ دے پائیں اور ایم اے اُردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ ’’داماندگی شوق‘‘ 1950 میں اس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شایع ہوا۔
اپنے لکھنے کے حوالے سے بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقتیکہ میری شادی نہیں ہوگئی، پھر اشفاق احمد صاحب میرے بڑے معاون و مددگار بلکہ استاد ہوئے۔ انھوں نے مجھ سے کہا اگر تمہیں لکھنا ہے تو ایسا لکھو کہ کبھی مجھ سے دو قدم آگے رہو اور کبھی دو قدم پیچھے، Competition پورا ہو۔ اس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا۔ اشفاق صاحب نے Encourage بھی کیا اور Discourage بھی۔ میری کئی باتوں پر خوش بھی ہوئے۔ آخر تک ان کا رویہ استاد کا ہی رہا، میں انھیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی ہوں، جو کچھ مجھے آپ آج دیکھ رہے ہیں وہ اشفاق احمد صاحب کی وجہ سے ہی ہوں‘‘۔
بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا، جس وقت انھوں نے بی اے کا امتحان دیا اس وقت 47 کے فسادات کی آگ پھیل چکی تھی، گورداس پور اور شاہ عالمی اس آگ کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ اس آگ کے دریا میں بانو قدسیہ بی اے کے پیپرز دینے کے لیے ایف سی کالج جاتی رہیں کیونکہ فسادات کی وجہ سے کنیئرڈ کالج میں امتحانی سینیٹر نہ کھل سکا تھا۔ بی اے کا امتحان کسی طرح دے دیا، فسادات پھیلتے چلے گئے، بانو قدسیہ اپنے خاندان کے ہمراہ گورداس پور میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مطمئن تھیں کہ یہ حصہ پاکستان کے حصے میں آئے گا، مگر رات بارہ بجے اعلان ہوگیا کہ گورداس پور پاکستان میں نہیں ہے چنانچہ بانو قدسیہ اپنے کنبے کے ہمراہ پتن پہنچیں جہاں سے رات کو قافلے نکل کر جاتے تھے اور اکثر قافلے رات کو قتل کردیے جاتے تھے۔ بانو قدسیہ کا آدھا قافلہ بچھڑ گیا تھا اور آدھا قتل ہوگیا تھا، تین ٹرک پاکستان پہنچے، ایک میں بانو قدسیہ، ان کی والدہ اور بھائی بچ گئے تھے، دوسرے رشتے دار قتل کردیے گئے۔
پاکستان پہنچ کر بانو قدسیہ کو بی اے کے رزلٹ کا پتا چلا جس میں انھیں کامیابی ملی تھی۔ 1949 میں انھوں نے گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا۔ یہاں اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے، دونوں کی مشترکہ دلچسپی ادب پڑھنا اور لکھنا تھا۔ دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ کی شادی اشفاق احمد سے ہوگئی۔ دونوں رائٹرز تھے اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔شادی کے بعد دونوں رائٹرز کام میں جُت گئے، ایک سال بعد انھوں نے ایک ادبی رسالے ’’داستان گو‘‘ کا اجراء کیا، تمام کام خود کرتے تھے، رسالے کا سرورق بانو قدسیہ کے بھائی پرویز کا فنِ کمال ہوتا تھا جو ایک آرٹسٹ تھے۔ چار سال تک ’’داستان گو‘‘ کا سلسلہ چلا پھر اسے بند کرنا پڑا۔ اشفاق احمد ریڈیو پر اسکرین رائٹر تھے، وہ دونوں ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھتے تھے۔ ’’تلقین شاہ‘‘ 1962ء سے جاری ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد ایوب خان کے ہاتھوں تازہ تازہ سرکاری ہونے والے ایک جریدے ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے تھے۔
ٹیلی ویژن نیا نیا ملک میں آیا تو اس کے لیے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ مسلسل لکھنے لگے۔ اشفاق احمد کی کوئی سیریز ختم ہوتی تو بانو قدسیہ کی سیریل شروع ہوجاتی تھی۔ ٹی وی کے پہلے ایم ڈی اسلم اظہر نے اشفاق احمد کو ٹی وی کا سب سے پہلا پروگرام پیش کرنے کی دعوت دی۔ اس پروگرام میں انھوں نے ٹیلی ویژن کو متعارف کرایا تھا۔ اشفاق احمد ٹی وی کے پہلے اناؤنسر تھے، ان کا ریڈیو پر بہت وسیع تجربہ تھا۔ یہاں ایک اطالوی فلم بنی تھی، اس کے بھی اشفاق احمد مترجم تھے، ٹی وی پر سب سے پہلا ڈراما ’’تقریب امتحان‘‘ ان ہی کا ہوا تھا۔
ریڈیو اور ٹی وی پر بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نصف صدی سے زائد عرصے تک حرف و صورت کے اپنے رنگ دکھاتے رہے۔ ٹی وی پر بانو قدسیہ کی پہلی ڈراما سیریل ’’سدھراں‘‘ تھی جب کہ اشفاق احمد کی پہلی سیریز ’’ٹاہلی تھلے‘‘ تھی۔ بانو قدسیہ کا پنجابی میں لکھنے کا تجربہ ریڈیو کے زمانے میں ہی ہوا۔ ریڈیو پر انھوں نے 1965 تک لکھا، پھر ٹی وی نے انھیں بے حد مصروف کردیا۔ بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے جن میں ’دھوپ جلی‘، ’خانہ بدوش‘، ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ اس رائٹر جوڑے کے لکھے ہوئے ان گنت افسانوں، ڈراموں، ٹی وی سیریل اور سیریز کی مشترقہ کاوش سے ان کا گھر تعمیر ہوا۔
لاہور کے جنوب میں واقع قیامِ پاکستان سے قبل کی ماڈرن بستی ماڈل ٹاؤن کے ’’داستان سرائے‘‘ میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی یادیں بکھری ہوئی ہیں، ان دونوں کا تخلیقی سفر جیسے جیسے طے ہوتا گیا ’’داستان سرائے‘‘ کے نقوش اُبھرتے گئے۔ آج ’’داستان سرائے‘‘ ان دونوں کی شب و روز محنت کا امین ہے۔ بقول بانو قدسیہ کے ’’شادی کے بعد مفلسی نے ہم دونوں میاں بیوی کو لکھنا پڑھنا سکھادیا تھا‘‘۔ اشفاق احمد نے ایک فلم ’’دھوپ سائے‘‘ بھی بنائی تھی جو باکس آفس پر فلاپ ہوگئی تھی اور ایک ہفتے بعد سینما سے اُتر گئی تھی۔ ’’دھوپ سائے‘‘ کی کہانی بانو قدسیہ نے لکھی تھی، ڈائریکشن کے علاوہ اس فلم کا اسکرین پلے اشفاق احمد نے لکھا تھا۔ بانو قدسیہ نے افسانوں، ناولز، ٹی وی و ریڈیو ڈراموں سمیت نثر کی ہر صنف میں قسمت آزمائی کی۔ 1981 میں شایع ہونے والا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ بانو قدسیہ کی حقیقی شناخت بنا۔ موضوع کے لحاظ سے یہ ناول درحقیقت ہمارے معاشرے کے مسائل کا ایک ایسا تجزیہ ہے جو اسلامی روایت کے عین مطابق ہے اور وہ لوگ جو زندگی، موت اور دیوانگی کے حوالے سے تشکیلی مراحل میں گزر رہے ہیں، بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ، ان کے لیے یہ ایک گراں قدر حیثیت کا حامل ناول ہے۔
یہ ناول مڈل کلاس کی جواں نسل کے لیے محض اسی لیے دلچسپی کا باعث نہیں ہے کہ ناول کے بنیادی کردار یونیورسٹی کی کلاس میں ایک دوسرے سے آشنا ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کشش کا باعث ہے کہ بانو قدسیہ نے جذبات اور اقدار کے بحران کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے اور اسلامی اخلاقیات سے عدم وابستگی کو اس انتشار کا سبب اور مراجعت کو ’’طریقہ نجات‘‘ بتایا ہے۔ راجہ گدھ کا مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ کتنا اچھا ناول ہے۔ راجہ گدھ کے 14 سے زائد ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔
بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے، راجہ گدھ کے علاوہ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توجہ کی طالب، قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں 2003 میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور 2010 میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انھوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے
ﺑﺎﻧﻮ ﻗﺪﺳﯿﮧ 26 ﺟﻨﻮﺭﯼ 2017 ﺀ ﮐﻮ ﺑﻌﺎﺭﺿﮧ ﺿﯿﻖ ﺍﻟﻨﻔﺲ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﻭﮦ ﺩﺱ ﺭﻭﺯ ﺯﯾﺮ ﻋﻼﺝ ﺭﮨﯿﮟ۔
ﺑﺮﻭﺯ ﮨﻔﺘﮧ 4 ﻓﺮﻭﺭﯼ 2017 ﺀ ﮐﻮ ﺷﺎﻡ 5 ﺑﺠﮑﺮ 15 ﻣﻨﭧ ﭘﺮ ﺑﺎﻧﻮ قدسیہ 88 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ 5 ﻓﺮﻭﺭﯼ 2017 ﺀ ﮐﻮ E ﺑﻼﮎ، ﻣﺎﮈﻝ ﭨﺎﺅﻥ، ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﭘﮩﺮ 03:30 ﺑﺠﮯ ﺍﺩﺍﺀ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﺗﺪﻓﯿﻦ G ﺑﻼﮎ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﺎﮈﻝ ﭨﺎﺅﻥ، ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بانو کو جانتے ہیں چونکہ وہ مصنفہ ہے – قدسیہ کو نہیں جانتے جو فرد ہے- میں قدسیہ کو جانتا ہوں بانو کو نہیں جانتا- بانوقدسیہ ایک نہیں دوافراد ہیں جس طرح کسی کسی بادام میں دومغز موجود
ہوتے ہیں- اسی طرح بانوقدسیہ کی شخصیت کے دو پہلو ہیں الگ الگ – ایک بانودوسری قدسیہ-
میں بانوقدسیہ سے واقف نہیں لہذا اس کی شخصیت قلم بند کرنے سے قاصر ہوں- صرف یہی نہیں کہ
واقف نہیں سچی بات ہے میں اس سے واقف ہونا ہی نہیں چاہتا میں ہی نہیں اس کے گھرمیں بھی کوئی
اس سے واقف نہیں نہ اشفاق ، نہ نوکی ، نہ سیری ، نہ کیسی کوئی بھی بانوسے واقف نہیں ہونا چاہتا-
گھرمیں تین مظلوم رہتے ہیں – بانو، قدسی اوراشفاق احمد – بانو کو قدسی جینے نہیں دیتی ، قدسی کو
اشفاق جینے نہیں دیتا، اشفاق احمد کو خود اشفاق احمد جینے نہیں دیتا- اشفاق احمد پٹھان ہے
قدسیہ جاٹ ہے ، بانوبے ذات ہے- اشفاق براہمن ہے، قدسیہ شودہرہے ، بانوہاری ہے شہد کی مکھی ہے- قدسیہ پروانہ ہے ، اشفاق بھڑہے- بانوذہن ہے قدسی دل ہے، اشفاق ذہن ہے-
بانوکے فکرمنزل ہے ، قدسی کے لیے پتی بھگتی ہے ، اشفاق کے لیے ذات منزل ہے
قدسی کی شخصیت کا جزواعظم پتی بھگتی ہے- اگرآپ پتی بھگتی کا مفہوم سمجھنا چاہتے ہیں تو
میرا مخلصانہ مشورہ ہے چند روز اشفاق احمد کے گھرمیں قیام کیجیے-
اگراشفاق احمد قدسی کی موجودگی میں برسبیل تذکرہ آپ سے کہے کہ اس گھر میں تو سامان کے انبارلگے ہوئے ہیں میرا تو دم رُکنے لگا ہے تو اگلے دن گھر میں چٹائیاں بچھی ہوں گی اور پیڑھیاں دھری ہوں گی- اگرکسی روز لاؤڈ تھنکنگ کرتے ہوئے اشفاق کہے بھئی چینی کھانوں کی کیابات ہے تو چند دنوں میں کھانے کی میز پرچینی کھانے یوں ہوں گے جیسے ہانگ کانگ کے
کسی ریستوران کا میز ہو-
ایک دن اشفاق کھانا کھاتے ہوئے کہے کہ کھانے کا مزہ تو تب آتا تھا جب اماں مٹی کی ہانڈی میں
پکاتی تھیں- اگلے روز قدسی کے باورچی خانے میں مٹی کی ہاںڈیا چولہے پردھری ہوگی-
پہلی مرتبہ میں نے بانو کو سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا امی ایڈیٹر صاحب آپ سے
ملنے آئے ہیں قدسی ڈرائینگ چلی گئی-
پھرڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کررہی تھی – افسانوں کی باتیں- کرداروں کی باتیں- مرکزی خیال
اندازِ بیان کی خصوصیات کی باتیں- ان باتوں میں فلسفہ ، نفسیات اورجمالیات تھی-
میں حیرت سے سن رہا تھا-اللہ اندر توقدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کررہی ہے- قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں ، جی ہاں ہے اگرمگر، چونکہ ، چنانچہ کون ہے
تب مجھے پتہ چلا بانوکون ہے-
(ممتازمفتی کی بانوقدسیہ کے بارے تحریر سے ایک اقتباس )
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کرنیل کور کے ہونٹ بغیر ہلے کہہ رہے تھے
"یا رسول اللہ تیرے درپہ آئے ہوئے لوگوں کے لیے تیرے پیاروں نے دروازے کیوں بند کررکھے ہیں- مجھے اس بات کا رنج نہیں کہ سوڈھی سرداروں کی لڑکی تیلی سے بیاہی جارہی ہے
میں توپوچھتی ہوں کتنے سوبرسوں میں ایک نومسلم مسلمان ہوجاتا ہے – کلمہ پڑھنے کے بعد
مسلمان کہلانے کے لیے کتنے برسوں کی کھٹالی میں رہنا پڑتاہے"
کتنے سال —- کتنے سوسال ؟
(بانوقدسیہ کے افسانے کتنے سوسال سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاسم فردوس نے دیوار پر آویزاں دارالشکوہ کے قطعے پر نظریں جمائے کھڑاتھا – نہ جانے وہ سوچوں کی کن منزلوں میں تھا
یک ذرہ ندیدیم ازخورشید جدا
ہرقطرہ آب ہست عین دریا
حق رابچہ کس بتواندن؟
ہرنام کہ ہست است ازاسمائےخدا
کچھ سال پہلے وہ لندن کی انڈیا لائبریری میں دارالشکوہ کی جمع کردہ تصویروں کے البم سے متعارف ہواتھا- تب اس کے دل میں دارالشکوہ کے لیے
عجیب جذبات نے جنم لیاتھا- ہمیشہ سے مغل بادشاہوں کے متعلق دورُخے رویے کا شکاررہا تھا
جب کبھی ان کے متعلق سوچتا اس کے دل میں محبت ونفرت کا دوہراچکرچلنے لگتا
دارالشکوہ کی شخصیت پر اگرصوفی کا اطلاق ہوتا تھا تو ساتھ ہی بادشاہت کے نبردآزما ہونے کا چارج بھی تھا
بھلا کسی صوفی کا بادشاہت سے کیا سروکار؟ کوئی صوفی ملکیت کا دعویٰ دار کب ہواتھا-
کیا آبائی وطن سے دوری نے مغل شہزادوں کوایسا منقسم کیا کہ وہ کبھی بھی یکجائی اختیار نہ کرسکے؟
بکھرے ہوئے شہزادوں میں دارالشکوہ سب سے زیادہ ذات کے خنجرسے خودکشی کرنے والاتھا
اسے اورنگزیب سے کم اپنے وجود سے زیادہ تکلیف پہنچی تھی- وہ ایک ذات میں کئی روپ اکٹھے کرکے سب کی الگ الگ پرورش کرتا رہا-
قاسم فردوس نے پرگنہ باڑی کے اس صوفی کے متعلق سوچا جس سے دارالشکوہ کو والہانہ عقیدت تھی اوراسے اپنا نام یہ کہہ کر نہ بتاتا تھاکہ
ہرنام خدا کے ناموں میں سے ہے توپھراپنے نام سے کیا شناخت پیدا ہوگی؟
جب پانی کا قطرہ سمندرہے تو پھر اس کا نام کیا معنی رکھتا ہے؟
قاسم فردوس نے سوچا " اصل درالشکوہ کون تھا؟"
(آخرمیں ہی کیوں؟ سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود