آج – 22؍فروری 1933
نرم نازک لب و لہجہ، نئی غزل کے ممتاز پاکستانی شاعر، اپنی غزل ’وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا۔۔‘ کے لئے مشہور جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی، مقبول شاعر” اطہرؔ نفیس صاحب“ کا یومِ ولادت…
نام کنور اطہر علی خاں اور اطہرؔ تخلص تھا۔ ۲۲؍فروری۱۹۳۳ء کو علی گڑھ(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان آگئے۔ اطہرنفیس طویل عرصے تک روزنامہ ’’جنگ‘‘ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے کالم بھی لکھے اورمختلف عہدوں پر کام کیا۔تمام عمر تنہا گزاری اور کسی کو اپنا شریکِ حیات نہیں بنایا۔ یوں تو شعرگوئی کا آغاز علی گڑھ ہی میں ہوگیا تھا لیکن سنجیدگی اور باقاعدگی کے ساتھ شعر کہنے کا سلسلہ کراچی آکر شروع ہوا۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن تھی ، لیکن انھوں نے آزاد نظمیں بھی لکھیں ہیں ۔ اطہرؔ نفیس کی شاعری کا مجموعہ ’’ کلام‘‘ کے نام سے ۱۹۷۵ء میں ’’فنون‘‘ لاہور سے شائع ہوا۔ وہ طویل علالت کے بعد ۲۱؍نومبر ۱۹۸۰ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:274
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز پاکستانی شاعر اطہرؔ نفیس کے یومِ ولادت پر چند اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اس نے مری نگاہ کے سارے سخن سمجھ لیے
پھر بھی مری نگاہ میں ایک سوال ہے نیا
—–
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
—–
اطہرؔ تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
—–
اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے اک صورت دل میں سمائی ہے
ہم آج بہت سرشار سہی پر اگلا موڑ جدائی ہے
—–
با وفا تھا تو مجھے پوچھنے والے بھی نہ تھے
بے وفا ہوں تو ہوا نام بھی گھر گھر میرا
—–
بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے
—–
داستانِ شبِ ہجر ان کو سنانے کا دن یہ نہیں
محفلِ عشق میں آج ہی تو وہ کچھ مہرباں آئے ہیں
—–
خوابوں کے افق پر ترا چہرہ ہو ہمیشہ
اور میں اسی چہرے سے نئے خواب سجاؤں
—–
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو
—–
لمحوں کے عذاب سہ رہا ہوں
میں اپنے وجود کی سزا ہوں
—–
وہ دور قریب آ رہا ہے
جب دادِ ہنر نہ مل سکے گی
—–
کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا
ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا
—–
ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم
مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں
—–
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشاں کرے گی
کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ
—–
کیا وقت پڑا ہے ترے آشفتہ سروں پر
اب دشت میں ملتے نہیں ملتے ہیں گھروں پر
—–
مثل بادِ صبا تیرے کوچے میں اے جانِ جاں آئے ہیں
چند ساعت رہیں گے چلے جائیں گے سر گراں آئے ہیں
—–
پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو
اس دل کی خبر لے جو تجھے بھول چلا ہو
—–
جس طرح دل آشنا تھا شہر کے آداب سے
کچھ اسی انداز سے شائستۂ صحرا بھی تھا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
اطہرؔ نفیس
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ