آج اشفاق احمد کا یومِ وفات ہے
پانچویں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا کہ ’’روحِ ادب ‘‘ نامی رسالے کا ضخیم سالنامہ ہاتھہ لگا۔ اس میں جہاں تک یاد پڑتا ہے 1954 کے ادب کا اانتخاب تھا۔ ایک کہانی ’’گڈریا‘‘ ایسی دل کو لگی کہ وہ کہانی اور اس کا مصنف اشفاق احمد پھر کبھی نہ بھولے۔ پھر ان کی بے شمار کہانیاں پڑھیں، عرصے تک تلقین شاہ سنتا رہا ( یہ پروگرام اشفاق صاحب نے 41 سال تک لکھا اور خود بھی صداکاری کی)
بی اے تک میں نے ٹیلی ویژن نہیں دیکھا تھا کہ بہاولپور میں ٹیلی ویژن نظر ہی نہیں آتا تھا، پنجاب یونیورسٹی آیا تو اشفاق صاحب کے ڈرامے بھی التزام سے دیکھے۔
خواہش کے باوجود ان سے میل جول نہ بڑھا پایا وجہ اس کی یہ بنی کہ ’’امروز‘‘ کی انتظامیہ میں تبدیلی آئی تو بد دلی کی وجہ سے اردو سائینس بورڈ کا اشتہار دیکھہ کر ریسرچ آفیسر کے لئے درخواست دے دی۔ انٹر ویو ہوا تو میں نے ادبی جریدہ ’’سویرا‘‘ پر اپنا ایم اے صحافت کا تھیسس سامنے رکھہ دیا۔ انہوں نے بہت پسند کیا اور کہا
’’آپ سلیکٹ ہوگئے، کب آنا ہے؟‘‘
ان دنوں منو بھائی کا بیٹا کاشف بیمار تھا۔ میں بورڈ سے نکل کر اسے دیکھنے ہسپتال گیا۔ وہاں منو بھائی کے ساتھہ جاوید شاہین اور کشور ناہید بھی موجود تھیں۔ میں نے بتایا کہ امروز چھوڑ کر اردو سائینس بورڈ جا رہا ہوں تو جاوید شاہین نے کہا ’’بڑی دکان چھوڑ کر چھوٹی دکان پر جانے کا کیا فائدہ؟‘‘۔ کشور ناہید نے یہ کہہ کر منع کیا کہ’’ اشفاق صاحب ویسے بڑے میٹھے بنتے ہیں لیکن باس بہت بُرے ہیں، مت جاؤ‘‘
( ویسے خود کشور آپا کی بھی بطور باس شہرت کچھہ زیادہ اچھی نہیں ، یہ اور بات ہے کہ اپنی سختی سے انہوں نے مردہ اداروں کو زندہ کر دیا)
پھر امروز میں اشفاق صاحب کا کئی بار فون آیا ، کہتے’’یہاں آکر جوائن کرلو،امروز کا نوٹس پیریڈ مہینہ، تین مہینہ جتنا بھی ہو، وہاں کام کرتے رہو، کبھی کبھار ادھر بھی چکر لگا لیا کرنا ‘‘
لیکن ان بزرگ دوستوں نے جس طرح ڈرایا تھا، مجھے بورڈ جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ یوں شرمندگی سے، بعد میں تقریبات میں بھی اشفاق صاحب سے نظریں چرانے کی کوشش کرتا رہا۔ یہ اچھا ہی ہوا کہ بورڈ نہ گیا ، ورنہ اشفاق صاحب اور ان کے بابوں کی بیعت نہ کر پاتا اور مسٔلہ ہوتا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“