اردو تنقید کے بانیوں میں نمایاں، عظیم مورخ، عالم دین، سیاسی مفکر اور فارسی شاعر، اپنی تنقیدی کتاب’ شعرُ العجم‘ کے لئے مشہور” علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ صاحب “ کا یومِ ولادت…
محمد شبلی نام تھا ۔ شبلیؔ تخلص کرتے تھے ۔موضوع بنڈول ضلع اعظم گڑھ میں 3؍جون 1857ء کو پیدا ہوئے۔ بڑے بڑے فاضل استادوں سے تعلیم پائی کئی سال تک علی گڑھ کالج میں پروفیسر رہے ۔ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی اور اپنا سفرنامہ قلمبند کیا انگریزی گورنمنٹ سے شمس العلما کا خطاب پایا۔ ندوۃ العلما کو قائم کیا ۔ ” ندوۃ المصنفین“ انہی کی یادگار میں قائم کیا گیا ہے جس نے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے متعلق نہایت اہم اور نہایت قابل قدر کتابیں شائع کی ہیں ۔
18؍نومبر 1914ء کو انتقال ہوا۔
شعرالعجم پانچ جلدوں میں فارسی شاعروں کی مبسوط تاریخ ہے الماموں، سیرۃ النعمان ،سوانح مولانا روم ،الغزالی ان کی مشہور کتابیں ہیں ۔اسلامی تمدن و تہذیب کے متعلق جس قدر بلند پایہ مضامین انہوں نے لکھے وہ رہتی دنیا تک مولانا کے نام کو زندہ رکھیں گے ۔نظم شبلی ان کی نظموں کا مختصر سا مجموعہ ہے ۔سب سے آخری تصنیف سیرۃ النبیؐ ہے جو ان کا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
عظیم مورخ علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں
پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں
اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں
کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو میں راضی کر لوں
اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانۂ دل
غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں
جورِ گردوں سے جو مرنے کی بھی فرصت مل جائے
امتحانِ دمِ جاں پرورِ عیسیٰ کر لوں
دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلیؔ
خوب گذرے فلکِ دوں سے جو یاری کر لوں۔۔۔!!
══━━━━✥•••••◈•••••✥━━━━══
پوچھتے کیا ہو جو حال شبِ تنہائی تھا
رُخصتِ صبر تھی یا ترکِ شکیبائی تھا
شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا
وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا
میں تھا یا دیدۂ خوننابہ فشانی شبِ ہجر
ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا
پارہ ہائے دلِ خونیں کی طلب تھی پیہم
شب جو آنکھوں میں مری ذوقِ خود آرائی تھا
رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو
قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا
آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا
لب پہ اے جان تو اعجازِ مسیحائی تھا
خون رو رو دیے بس دو ہی قدم میں چھالے
یاں وہی حوصلۂ بادیہ پیمائی تھا
دشمنِ جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج
اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا
انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رُخِ پیہم
جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا
کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقشِ قدم
چشمِ عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا
خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا
لحد تیرہ میں بھی کیا عالمِ تنہائی تھا
ہم نے بھی حضرت شبلیؔ کی زیارت کی تھی
یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا
✧◉➻══════════════➻◉✧
یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے
گُلِ تر کو ہوسِ خار نہ ہونے پائے
اس میں در پردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ
شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے
فتنۂ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا
بخت خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے
ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں
آبلے ہم سخن خار نہ ہونے پائے
باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے
سبزہ بیگانہ ہے دو چار نہ ہونے پائے
جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبئ بزم
بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے
آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں لیکن شبلیؔ
حالِ دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے
آپ علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔