آج اکبر الہٰ آبادی کا یومِ ولادت ہے۔ وہ 16 نومبر1846ء کو الہٰ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام سید اکبر حسین رضوی تھا ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم سرکاری مدارس میں پائی اور محکمہ تعمیرات میں ملازم ہو گئے۔ 1869ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ میں مسل خواں ہوئے۔ 1872ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880ء تک وکالت کرتے رہے۔ پھرمنصف مقرر ہوئے۔ 1894ء میں عدالت خفیفہ کے جج ہو گئے۔ 1898ء میں خان بہادر کا خطاب ملا۔ 1903ء میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ انہوں نے جنگ آزادی ہند 1857ء، پہلی جنگ عظیم کا زمانہ دیکھا ۔
اکبر الہٰ آبادی نے ابتدا میں حیدرعلی آتش سے اصلاح لی۔ پھر اپنا الگ رنگ پیدا کیا۔ ان کی شہرت ظرافت آمیز اور طنزیہ اشعار پر مبنی ہے۔ مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے سخت خلاف تھے۔ مغرب زدہ طبقے کو طنز و مزاح کی چٹکیاں لے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ کلام میں مس، سید، اونٹ، کالج، گانے، کلیسا، برہمن، جمن، بدھو میاں مخصوص اصطلاحیں اور علامتیں ہیں۔ مخزن لاہور نے انھیں ’’لسان العصر‘‘ خطاب دیا۔ اکبر الہٰ آبادی کے کلام کے تین مجمموعے شائع ہوئے۔ دو ان کی حیات میں اور تیسرا بعد میں شائع ہوا۔ 15 فروری 1921ء کو انتقال ہوا ۔
اکبر الہٰ آبادی کے کچھہ شعر
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھہ اٹھا نہیں سکتا
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
اب تو ہے عشق بتاں میں زندگانی کا مزہ
جب خدا کا سامنا ہوگا تو دیکھا جائے گا
بتاؤں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
بت کدہ میں شور ہے اکبرؔ مسلماں ہو گیا
بے وفاؤں سے کوئی کہہ دے کہ ہاں ہاں ہو گیا
دختر رز نے اٹھا رکھی ہے آفت سر پر
خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا
بتوں کے پہلے بندے تھے مسوں کے اب ہوئے خادم
ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے با خدا ہونا
عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سما میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھہ میں نہیں آتا
دم لبوں پر تھا دل زار کے گھبرانے سے
آ گئی جان میں جان آپ کے آ جانے سے
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے
تمہارے وعظ میں تاثیر تو ہے حضرت واعظ
اثر لیکن نگاہ ناز کا بھی کم نہیں ہوتا
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھہ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا
کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
موت آتی ہے شب ہجر نہ نیند آتی ہے
موت آئی عشق میں تو ہمیں نیند آ گئی
نکلی بدن سے جان تو کانٹا نکل گیا
پڑ جائیں مرے جسم پہ لاکھ آبلہ اکبرؔ
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
رہ و رسم محبت ان حسینوں سے میں کیا رکھوں
جہاں تک دیکھتا ہوں نفع ان کا ہے ضرر اپنا
تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
طفل سے بُو آئے کیا، ماں باپ کے اَطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے، تعلیم ہے سرکار کی
ماں باپ سے، شیخ سے، اللہ سے کیا ان کو کام
ڈاکٹر جنوا گئے، تعلیم دی سرکار نے
اس کی حرکت ہے کلیدِ مغربی پر منحصر
دل یہ سینے میں ہے یا پاکٹ کے اندر واچ ہے
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
میں کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے
بحثیں فضول تھیں یہ کھلا حال دیر میں
افسوس عمر کٹ گئی لفظوں کے پھیر میں
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
“