آج عہدِ یُوسفی تمام ہوا
ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔یوسفی صاحب کے بارے میں یہ بات ابنِ انشا نے آج سے تقریباََ نصف صدی قبل کہی تھی۔ہمیں فخر ہے کہ ہم اس عہد کا حصہ ہیں۔ اگرچہ آج یہ عہد تمام ہوا۔مگر اس عہد ساز شخصیت کے قلم سے نکلے رنگ ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔اُردو ادب کا یہ انتہائی درخشندہ ستارہ اگرچہ ڈوب گیا ہے لیکن اس کی روشنی تا ابد قائم رہے گی۔
یوسفی صاحب اُردو ادب کا ایساروشن مینار تھے جس کی سنہری کرنیں پچھلے ستّر برس سے برّ صغیر پاک و ہند کو منوّر کر رہی ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی جیسے نابغہِ روزگار افراد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔اُردو ادب نے اب تک صرف ایک ہی مشتاق احمد یوسفی پیدا کیا ہے۔ اُن کا کوئی ثانی ہے نہ ہو گا۔ یوسفی صاحب نے اُردو مزاحیہ ادب کو اس اوجِ کمال تک پہنچا دیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس صنفِ ادب میں قدم رکھنے والوں کے لئے یوسفی صاحب کی شکل میں ایسا نمونہ موجود ہے جس تک پہنچنے کا صرٖف خواب دیکھا جا سکتا ہے۔حالانکہ یوسفی صاحب کے دور میں ابنِ انشاء،پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمن اور بریگیڈئر صدیق سالک جیسے بڑے بڑے صاحبِ کمال مزاح نگار موجود تھے۔ مگر یوسفی صاحب کا رنگ ان سب سے نمایاں، سب سے گہرا اور دیر پا ہے۔
یوسفی صاحب نے نصف صدی سے زائد تک اُردو ادب کے قارئین کو اپنے سحر میں جکڑ ے رکھا۔ان کے فکر و فن اور ذہنِ رسا کے ماننے والوں میں بڑے بڑے ادیب، شاعر، دانشور اور سکالر بھی ہیں اور عام قاری بھی۔ ان کی تحریروں کو پڑھنے، سمجھنے اور ان سے حِظ اُٹھانے کے لئے بلند ذہنی سطح کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ نہ تو ان کا طرزِ تحریر عام ہے اور نہ ان کے نظریات وخیالات کی پرواز سطحی ہے۔ وہ مزاح کے لئے لفظوں کے ہیر پھیر اور لطیفہ گوئی سے کام نہیں لیتے تھے۔بلکہ ہمارے معاشرتی رویّوں اورروزمرّہ زندگی کے واقعات کو اس انداز میں پیش کرتے تھے کہ نہ صرف اس سے انتہائی لطیف مزاح تخلیق ہوتا ہے بلکہ اُسے پڑھ کر رونا بھی آتا ہے۔ وہ بیک وقت گدگدانے اور رُلانے پر قدرت رکھتے تھے۔ وہ ایک جملے میں نہائت آسانی سے ایسی بات کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں جسے کہنے کے لئے دوسرے لوگ کئی صفحے کالے کر دیں تو بھی نہ کہہ پائیں۔یہ کام صرف یوسفی ہی کر سکتے تھے۔
یوسفی صاحب نے صرف پانچ کتابیں آبِ گُم، چراغ تلے، زرگزشت،خاکم بدہن اور شامِ شہرِ یاراں، تحریر کی ہیں۔ ان کی ہر کتاب کا درمیانی وقفہ کم از کم دس برس کا ہوتا تھا۔ اس عرصے میں وہ اپنی تحریروں کو بناتے اور سنوارتے رہتے تھے۔ جب یہ کتابیں منظرِ عام پر آتی تھیں تو ہر خاص و عام ان کو داد دینے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ وہ ادب میں معیار کے قائل تھے۔ بھرتی کی چیزیں لکھتے تھے نہ پسند کرتے تھے۔یوسفی صاحب اپنے مخصوص انداز میں معاشرے کی دُکھتی رگوں پر اس طرح ہاتھ رکھتے تھے کہ بیک وقت ٹیس بھی اٹھتی تھی اور راحت بھی محسوس ہوتی تھی۔ وہ ایسے نبّاض تھے جن کے سامنے تمام معاشرتی امراض اپنے اسباب و علل سمیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتے ہیں۔وہ پھر اپنے نشترِ قلم سے ان امراض کی اس طرح جراحّی کرتے تھے کہ مجروح خود مسکرا اُٹھتا تھا۔ وہ قاری کی انگلی پکڑ کر مشکل سے مشکل مقام تک اس طرح پہنچ جاتے ہیں کہ قاری خود کو اس منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔
یوسفی صاحب مزاح برائے مزاح نہیں لکھتے تھے۔ مقصدیت اور پیغام ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔ مزاح ان کا ندازِ تحریر ہے جس کے ذریعے یہ پیغام قارئین تک پہنچتا ہے۔اُنہیں پڑھ کر قاری بیک وقت ہنسنے اور رونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ پھلجڑی بھی کھلاتے ہیں اور زخم بھی کریدتے ہیں۔ یوسفی صاحب کا قوتِ مشاہدہ اتنا عمیق ہے کہ بظاہر عام سے منظر کے اندر سے وہ ایسی دلچسپ بات اخذ کر لیتے ہیں کہ انسان بے اختیار مسکرا اُٹھتا ہے۔ جب وہ اپنے مخصوص طرز میں اُسے بیان کرتے ہیں تو وہ ادبی شہ پارہ بن جاتا ہے۔ اُن کے خیالات کی گہرائی اور گیرائی کا یہ عالم ہے کہ جس موضوع پر وہ لکھتے ہیں اس کا کوئی پہلو ان کی دسترس سے باہر نہیں رہتا۔ اس موضوع پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔اپنے مشاہدات اور خیالات کی غواصی سے وہ ایسے موتی چُن کرلاتے ہیں جو عام شخص کے تصور سے بالاتر ہو تا ہے۔
ٰیوسفی صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ کراچی میں گزرا۔ جہاں عشروں تک نفرت و عداوت کی ایسی لُو چلتی رہی جس سے ہر خاص و عام متاثر ہوا۔ بڑے بڑے دانشور بادِ صر صر کی ان آندھیوں میں اپنا توازن کھو بیٹھے۔ اس زہریلی فضا اور عداوت کی آندھی میں بھی جن لوگوں نے محبتوں کے چراغ روشن رکھے ان میں مشتاق یوسفی کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔ یوسفی صاحب نے اپنی تحریرو تقریر سے ہمیشہ محبت و یگانگت کی خوشبو پھیلائی ہے۔ وطنِ عزیز کے ہر علاقے اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی محبتوں کا حق دار جاناہے۔وہ سیاستوں، حکومتوں اور سازشوں سے دُور علم و ادب کی حسین بستی بسا کررہتے رہے۔اتنے طویل عرصے تک ان آندھیوں کے سامنے ڈٹے رہنا یوسفی صاحب کی شخصیت کا انتہائی روشن پہلو ہے۔یوسفی صاحب اردو ادب کا یسا درخشندہ ستارہ ہیں جو ڈوب کر بھی نہیں ڈوبتا۔ ان کی تحریروں کی روشنی سدا جگمگاتی رہے گی۔ یوسفی صاحب کا اُردو ادب، اس کے قارئین اور پوری قوم پر احسان ہے۔ہمیں اپنے اس محسن کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔ وہ ہمیں جن محبتوں کا آمین بنا کر گئے ہیں اس کی حفاظت ہم سب پر قرض ہے۔ ( سڈنی۔ ۱۲ جون۔ ۸۱۰۲)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔