آج – 10؍اپریل 1910
مقبول عام شاعر، مقبول عوام غزل گو شاعر، زندگی اور محبت پر مبنی رومانی شاعری کے لیے معروف شاعر” عبدالحمید عدمؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
عدمؔ ،عبدالحمید نام سیّد عبدالحمید، تخلص عدمؔ۔ ۱۰؍اپریل ۱۹۱۰ء کو تلونڈی، موسیٰ خاں ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ تعلیم وتربیت لاہو ر میں ہوئی۔ بی اے پاس کرنے کے بعد ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے میں ملازم ہوگئے اور اکاؤنٹس افسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اوائل عمر ہی سے شعروشاعری کا شوق تھا۔ کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ملک سے باہر بھی رہے ۔ نظم ،غزل، قطعہ میں طبع آزمائی کی ، لیکن غزل سے ان کی طبیعت کو خاص مناسبت تھی۔ عدم ایک مقبول عوام غزل گو شاعر تھے۔ ’’نقشِ دوام‘‘ عدمؔ کا اولین مجموعہ کلام تھا۔ اس کے بعد ان کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔چند نام یہ ہیں: ’خرابات‘، ’چارۂ درد‘، ’زُلفِ پریشاں‘، ’سر وسمن‘، ’گردشِ جام‘، ’شہرِ خوباں‘، ’گلنار‘، ’عکسِ جام‘، ’رم آہو‘، ’بط مے‘، ’نگارِ خانہ‘، ’سازِ صدف‘، ’رنگ و آہنگ‘۔
۱۰؍مارچ ۱۹۸۱ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:417
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
مقبول شاعر عبدالحمید عدمؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ اظہارِ عقیدت…
آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا
—
آنکھوں سے پلاتے رہو ساغر میں نہ ڈالو
اب ہم سے کوئی جام اٹھایا نہیں جاتا
—
اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے
سنا ہے زندگی اک خوبصورت دام ہے ساقی
—
اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
قافلے راہ بھول جاتے ہیں
—
اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں
رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتے ہیں
—
اے غمِ زندگی نہ ہو ناراض
مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی
—
بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ
بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا
—
بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدمؔ
اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے
—
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
—
آوارگی کا شوق بھڑکتا ہے اور بھی
تیری گلی کا سایۂ دیوار دیکھ کر
—
آنکھوں کے تصادم میں حکایات کی دنیا
ہونٹوں کے تصادم میں خرابات کا عالم
—
تخلیقِ کائنات کے دلچسپ جرم پر
ہنستا تو ہوگا آپ بھی یزداں کبھی کبھی
—
توبہ کا تکلف کون کرے حالات کی نیت ٹھیک نہیں
رحمت کا ارادہ بگڑا ہے برسات کی نیت ٹھیک نہیں
—
خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردشِ ایّام میں کچھ سوچ رہا ہوں
—
تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا
خوش ہوں کہ کچھ نہ کچھ تو مرے پاس رہ گیا
—
جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل خدا والے ہیں
—
جیب خالی ہے عدمؔ مے قرض پر ملتی نہیں
ایک دو بوتل پہ دیواں بیچنے والا ہوں میں
—
دروغ کے امتحاں کدے میں سدا یہی کاروبار ہوگا
جو بڑھ کے تائید حق کرے گا وہی سزاوار دار ہوگا
—
سو بھی جا اے دلِ مجروح بہت رات گئی
اب تو رہ رہ کے ستاروں کو بھی نیند آتی ہے
—
ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند
مجھ کو تری نگاہ کا الزام چاہیئے
—
زخمِ دل کے اگر سیے ہوتے
اہلِ دل کس طرح جیے ہوتے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
عبدالحمید عدمؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ