آج 6 جنوری معروف شاعر رسا چغتائی کا یوم وفات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کی آبرو رسا چغتائی
تحریر خرم سہیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دورِ حاضر کا سب سے بڑا خسارہ ماضی کی کھو جانے والی سنہری روایتیں ہیں۔ شاعری کے منظرنامے پر، تہذیبی لہجے کے مالک، غزل کی آبرو، مغل زادوں کا داستان گو، سادہ اور کم گو شاعر ’رسا چغتائی‘ بھی ہم سے رخصت ہو گئے۔ وہ شاعری نہیں بلکہ احساس قلم بند کیا کرتے تھے، محبت کی سرگوشیاں سنتے اور سماج کے دُکھ لکھتے تھے۔
اُن کے اندر ایک جہاں آباد تھا، مگر وہ اپنے محدود سے گھر میں گوشہ نشین رہنے کو سہولت گردانتے تھے، اُن کے لیے جدید دور کی ٹیکنالوجی پریشان کردینے والی ایجاد تھی، وہ ویسے بھی دل کی بات دل تک پہنچانے پر دسترس رکھتے تھے، وہ استاد شاعر تھے، مگر اپنی زندگی میں اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ استاد تو صرف داغ جیسا شاعر ہی ہوسکتا ہے یا پھر وہ میر تقی میر جیسا باکمال شاعر ہوتا ہے۔
آج سے ٹھیک 10 برس قبل، راقم نے اُن سے کراچی کے علاقے کورنگی میں واقع اُن کے گھر پر ملاقات کی تھی۔ اُس سادہ سے مکان میں گزشتہ اور موجودہ صدی کا اہم شاعر مقیم تھا، جس کا شعری کینوس پر اپنا گہرا رنگ موجود تھا، لیکن دُکھ کی بات یہ تھی کہ جہاں یہ شاعرِ بے بدل موجود تھا اُس کے در و دیوار کا رنگ اُکھڑا ہوا تھا، بالکل اُن کے جذبات کی طرح، کیونکہ موجودہ سماج وہ نہ تھا جہاں علم دوستی اور فکری سنجیدگی کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔
نہ وہ چراغ رہے، نہ روشن ماتھے، نہ ہی وہ لہجے، جن کو سماعت کرنے سے دانش کے دریچے وا ہوتے تھے۔ خود سوچیے جب تنہائی کی عمر ایک صدی پر محیط ہونے لگے تو دل کیسی خانہ ویرانی میں مبتلا ہوتا ہوگا؟ استاد اسی کیفیت کو رقم کرتے رہے، رومان اور اُداسی کے رنگوں میں شعروں کا زاویہ بدلتا رہا لیکن احساس کی کیفیت برقرار رہی۔
رسا چغتائی کا خود بھی ماننا یہی تھا کہ شہرت اور چرچے کے بجائے، اُداسی اور گوشہ نشینی ہی تخلیق کے دریچے وا کرتی ہے، خیال سے تخلیق تک جانے کے لیے کوئی اور راستہ سازگار نہیں ہوسکتا ہے
وہ کہا کرتے تھے کہ
’بنیادی بات یہ ہے کہ جو شاعر ہے، اُس کے پاس اپنی ایک زندگی اور مشاہدہ ہوتا ہے، اُس کا اظہار بھی وہ اپنے انداز میں کرتا ہے لیکن وہ اپنا تخلیقی اظہار کسی دوسرے کے انداز میں پیش کرے گا تو اُس کی تخلیق کمزور پڑجائے گی، اگر کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر کے انداز میں لکھے گا تو اُس کی اپنی شاعری کمزور پڑجائے گی اور وہ نقل کہلائے گی۔ جب تک وہ اپنی انفرادیت کو استعمال نہیں کرے گا، اُس کی تخلیق میں جان پیدا نہیں ہوگی اور وہ منفرد نہیں کہلائے گا، لیکن شاعری صرف اپنے لیے نہیں ہوتی، شاعری کا تعلق معاشرے اور زندگی سے ہوتا ہے۔‘
وہ 1928ء میں ہندوستان کی ایک ریاست ’جے پور‘ کے ضلع ’سوائی مادھو پور‘ میں پیدا ہوئے۔ وہاں سے جب ہجرت کرکے آئے تو ان کے ساتھ صرف چھوٹا بھائی آیا تھا، خاندان کے باقی تمام لوگ وہیں رہ گئے تھے۔ پاکستان پہنچ کر کراچی میں قیام کرنے کے بعد جس پہلے ادبی شخص سے ان کی دوستی ہوئی وہ سرشار صدیقی تھے۔
دوستی کا یہ تعلق پُرانا تھا، دونوں تقسیمِ ہند سے پہلے ایک دوسرے سے واقفیت رکھتے تھے۔ سرشار صاحب اُنہیں اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے پر اصرار کرتے مگر وہ جانے سے کتراتے، وجہ ادبی فضاء میں موجود ایک عجیب سی وحشت تھی۔ اِس کے باوجود جن لوگوں سے ان کی دوستی ہوئی ان میں قمر جمیل، محبوب خزاں، عزیز حامد مدنی، قمر جلالوی، رئیس امروہوی، ساقی فاروقی، حبیب جالب اور دیگر شامل ہیں۔ فیض احمد فیض سے بھی اُن کا اچھا تعلق بن گیا۔ وہ اپنے سے کم عمر شعراء کی حوصلہ افزائی بھی دل کھول کر کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ میں نے اُن سے پوچھا کہ ادب سے جڑے رہنے کے لیے کیا قربانی دینا ناگزیر ہوتا ہے؟ اس پر وہ گویا ہوئے کہ،
’یہ کام پوری توجہ مانگتا ہے، چاہے تخلیق کی کوئی بھی صنف ہو، جب آپ اُس سے وابستہ ہوتے ہیں تو بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں روزنامہ حُریت میں بحیثیت پروف ریڈر کام کرتا تھا، مجھے میگزین ایڈیٹر کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے معذرت کرلی کیونکہ اُس میں میرا ذہن بٹتا اور تخلیق متاثر ہوتی، ہر چند کہ میرے گھر کے مالی حالات بہتر نہ تھے، مگر اس کے باوجود میرے بیوی بچوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا، میری وجہ سے اُنہیں کئی بار مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تخلیق میں سمجھوتہ نہیں کرسکتے جو میں نے بھی تمام زندگی نہیں کیا، کیونکہ مجھے یہ لگتا تھا کہ میں اسی کام کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ آپ خود کو جس شعبے کا سمجھتے ہیں، اُس شعبے میں کام کریں اور خود کو اس کام کے لیے وقف کردیں۔‘
رسا چغتائی کے اب تک شایع ہونے والے مجموعوں میں، 'ریختہ'، 'زنجیر ہمسائیگی'، 'تصنیف' اور 'چشمہ ٹھنڈے پانی کا' شامل ہیں۔ 1980ء میں پہلا مجموعہ ’ریختہ‘ شایع ہوا جبکہ اُن کی زندگی میں چھپی ہوئی شاعری کی ایک کلیات ’تیرے آنے کا انتظار رہا‘ کے عنوان سے کراچی آرٹس کونسل نے شایع کی، اب اس ادارے کی طرف سے ان کی مکمل کلیات شایع کیے جانے کا بھی امکان ہے۔
وہ خود سادہ طبیعت ہونے کی وجہ سے مزید مجموعہ شایع نہ کروا سکے، اپنے بچوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر چاہو تو میری غیر مطبوعہ شاعری چھپوا لینا، لیکن ان کی زندگی میں 2007ء کے بعد کوئی کتاب شایع نہ ہوسکی۔ وہ اس بات کی پرواہ بھی نہیں کرتے تھے، ان کا ارتکاز تخلیقی تھا نہ کہ اشاعتی اور انہوں نے ساری زندگی اسی رویے کو اپنائے رکھا۔
رسا چغتائی کی زندگی میں حسین ماضی کی یادیں بھی اہم سرمایہ رہی ہیں۔ اُن کے والد مرزا محمود علی بیگ عرضی نویسی سے گُزر بسر کرتے، جبکہ دادا مرزا نجف علی بیگ اُردو زبان کے استاد تھے اور اُن کے شاگردوں میں ہندو مسلمان دونوں ہوا کرتے تھے۔ دادا کے توسط سے مُغل سلطنت کے آخری دنوں کی ہچکیاں وہ اپنے تصور میں سنتے تھے، پاکستان کی چاہ میں ہجرت بھی کی، زندگی کئی پہلوؤں سے خوش نما اور اُداسی کا استعارہ بھی بنی مگر وہ ہرحال میں قناعت پسند اور صابر رہے۔
رسا چغتائی کی شاعری میں انتظار، شام، پیاس، رات، خواب، سایہ، چاندنی، سناٹا، مٹی، آنسو، آدمی، باغ، چلمن، عمر، جسم، خاک، سمندر، داستان سمیت کئی حروف استعارے اور علامتوں کی صورت شاعری میں اپنا جادو جگاتے ہیں۔ چند نمونے ملاحظہ کیجیے:
گرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا
شاخ بدن سے لگتا ہے
مٹی راجستھانی ہے
آن اپنی جگہ مغل زادے
عشق تو ٹوٹ کر کیا ہوتا
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
رسا چغتائی اپنے شعروں میں جہاں سماج کے غم و خوشی کی عکاسی کرتے ہیں، وہیں دل کی بات، شکوے اور اُمیدوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ میر تقی میر جیسے شاعر کے رنگ میں رنگے ہوئے، سہل ممتنع کی شاعری کرنے والے اس شاعر کے ہاں غاؔلب کے جیسا فلسفہ بھی دکھائی دیتا ہے، وہ ماضی کے نقوش کو بھی لکھتے جاتے ہیں، اب یہ لہجہ تو خاموش ہوا مگر قلم بند حروف، تہذیبی تمثیل، داستان ماضی اور روایت کا حال کہتے رہیں گے، اُنہوں نے خود بھی اپنے بارے میں کہہ دیا تھا کہ،
آنے والے وقت کی آواز ہوں
میں نہیں لمحہ کوئی گزرا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔