تلوک چند محروم اردو کے عظیم شاعر تھے۔ محروم ان کا تخلص تھا۔ وہ 1887ء میں تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔
محروم نے بعد بی اے تک روایتی تعلیم حاصل کی اور ایس اے وی فاصلاتی طور پر کامیاب کیا تھا۔ 1908ء میں مشن ہائی اسکول، ڈیرہ اسماعیل خان میں وہ انگلش ٹیچر کے طور پر تقرر ہوئے تھے۔ 1933ء میں کنٹونمنٹ بورڈ مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے تھے۔
جگن ناتھ آزاد مشہور شاعر ان کے فرزند ہیں
زمانہ طالب علمی میں محروم کی نظمیں پنجاب کے اخبارات اور رسائل میں شائع ہونی شروع ہوگئیں۔ 1929ء میں ان کا مجموعہ کلام’گنج معانی‘ کے نام سے میسرزعطر چند کپور نے لاہور سے شائع کیا۔ ان کے دوسرے شعری مجموعے کا نام "شعلہ نوا" ہے ۔
تقسیم ہند کے بعد دہلی چلے گئے اور یہیں 6 جنوری 1966ء کو ان کا انتقال ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشی تلوک چند محروم
تحریر ستیہ پال آنند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 1944-45ء کا زمانہ تھا۔ میں ابھی مشن ہائی اسکول راولپنڈی میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ڈی اے وی کالج کے مشاعرے میں منشی تلوک چند محروم کو سننے کے ایک ہفتہ بعد میں اپنا بستہ ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے سیدھا گورڈن کالج جا پہنچا کالج ہمارے اسکول سے صرف آدھ میل دور تھا۔ اونچے آہنی پھاٹک سے اندر جاتے ہوئے میں بالکل نہیں جھجکا۔ دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ مجھے علم تھا کہ پروفیسر صاحبان اس کمرے میں بیٹھتے ہیں جس کو اسٹاف روم کہا جاتا ہے۔ میں کنکریٹ کی بنی ہوئی چھہ سات سیڑھیاں چڑھ ہی رہا تھا کہ ایک چوکیدار نے مجھے روکا
”لڑکے، کس سے ملنا ہے؟“
”پروفیسر تلوک چند محروم سے!“ میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا۔میں نے یہ بعد میں سوچا، ’میں نے منشی تلوک چند محروم نہیں کہا۔ پروفیسر تلوک چند محروم کہا ہے۔‘
چوکیدار نے لان کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا، ”وہ سامنے بیٹھے ہیں محروم صاحب …دھوپ میں اخبار پڑھ رہے ہیں۔ ان کے رشتہ دار ہو؟“
میں بغیر کچھ کہے اس طرف کو ہو لیا۔ دھیرے دھیرے چلتا ہوا پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے کلاہ پر بندھی ہوئی اپنی لنگی پاس پڑے ہوئے میز پر رکھ دی تھی۔ سر کے بال چھدرے تھے لیکن چہرے پر بشاشت تھی اور دھوپ کی حدت سے کہیں کہیں پسینے کے قطرے ابھر آئے تھے۔ جب بزرگ شاعر کو احساس ہوا کہ ان کے حصے کی دھوپ میں کچھ رخنہ پڑ گیا ہے، تو انہوں نے اخبار سے نظریں اٹھائیں۔
جی، سر نمستے … میں آپ کے نیاز حاصل کرنے چلا آیا …“ ’آداب عرض‘ کہنے کا آداب ابھی نہیں سیکھا تھا میں نے۔
انہوں نے میرے لڑکپن کے بے داغ چہرے کو دیکھا، پھر پوچھا، ”کہاں پڑھتے ہو؟“
”جی، مشن ہائی اسکول میں … ہائی کلاس میں …“ اور پھر ہمت بٹور کر کہا، ”کل آپ کو اور آزاد صاحب کو ڈی اے وی کالج کے مشاعرے میں سنا، تو سوچا، مجھے آپ کے نیاز حاصل کر کے کچھ سیکھنا چاہیے …“
مسکرائے۔ کہا، ”تو شاگردی کے لیے آئے ہو؟ برخودار، کسی سے پوچھ تو لیتے …. میں شاگردی استادی میں یقین نہیں رکھتا ‘۔ پھر کچھ سوچ کر بولے ، ”ہاں ، کبھی کبھی ملتے رہو تو کوئی ہرج نہیں ہے…. ذرا دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہو جاو … کرسی تو کوئی نہیں ہے، گھاس پر ہی بیٹھ جاو۔“
میں بیٹھ گیا، اپنا بستہ کھول کر اپنی غزلوں کی کاپی نکالنے لگا، تو محروم صاحب کے ہونٹوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ”یہ تو بتاو، برخوردار، کیا تمہیں علم ہے ، یہ جملہ ’دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہو جاو ‘ کہیں تاریخ کے اوراق میں پہلے بھی نظر آیا ہے تمہیں؟“
”جی …“ میں نے ذہن پر زور دیے بغیر کہا ، ”یہ وہ جملہ ہے جو یونانی فلسفی دیو جانس کلبی نے اسکندر اعظم سے کہا تھا !“
خوش ہوئے، لیکن کچھ چیں بجبیں ہو کر بولے، ”اسکندر کیوں کہتے ہو، سکندر کیوں نہیں؟“
”اردو میں اسکندر ہی کہتے ہیں، سر !“
”غلط کہتے ہیں ..“ فرمایا۔ ” صوبہ جات متحدہ یو پی والے کوئی بھی وہ لفظ ’ س‘ سے شروع نہیں کر سکتے اس لیے ’الف‘ پہلے ٹانک دیتے ہیں۔ تم تو پنجابی ہو، ’سکندر‘ بخوبی کہہ سکتے ہو۔“
”جی …“ میں کچھ ہچکچایا،منشی تلوک چند محروم سے بحث؟ اور اس بحث میں اختلاف کی جرات؟ میں کیا کر رہا ہوں یہاں بیٹھا ہوا؟ لیکن پھر بھی میں نے مزید ہمت بٹور کر کہا،
”اہلِ زبان کی پیروی تو ضروری ہے، سر!“
پھر چیں بجبیں ہوئے۔ ”کس نے کہا، ضروری ہے۔ اگر صحیح تلفظ سکندر ہے تو بصد شوق سکندر کہو۔ یو پی والوں نے کیا اردو کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟“
میں اپنی کاپی نکال ہی رہا تھا کہ انہوں نے کہا، ”مجھے کچھ مت دکھاو۔ میں اصلاح نہیں دیتا۔“ پھر کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا،” میرا ایف اے کے دوسرے سال کی کلاس کے ساتھ ابھی پیریڈ ہے۔اس سے پہلے پنتالیس منٹ کا وقت خالی ہوتا ہے، کبھی کبھی آ جایا کرو۔“
اٹھتے اٹھتے پھر انہوں نے کہا، ”میں نے جگن کو بھی یہی رائے دی تھی، کہ اچھا لکھو، صاف لکھو، صحیح لکھو، لیکن بولنے میں یو پی والوں کی نقل مت کرو !“
وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے کہیں تحت الشعور کی سطح پر یہ محسوس کیا کہ اپنے بیٹے جگن ناتھ آزاد کا نام لیتے ہوئے انہوں نے اس نام یعنی ’جگن‘ کا خالصتاً سرائکی تلفظ ادا کیا تھا ، یعنی ج گ ن …’گ‘ پر ضمہ یا پیش کی آواز کو ادا کرنا صریحاً صحیح ہندی تلفظ نہیں تھا، اس نام کا … لیکن میں ان کا منشا بخوبی سمجھ گیا تھا۔
میں دوسرے دن پھر گیا۔ اسی کرسی پر بیٹھے تھے۔ میں نے اس بار’ آداب ‘کہا۔ چونک کرمیری طرف دیکھ، کہا، ”ہنھ ! طور طریق سیکھ گئے اردو والوں کے؟ اچھا ہے، کام آئیں گے…“ پھر اسی سانس میں بولے، ”میری نظم’ نور جہاں کے مزار پر ‘پڑھی ہے؟“
میں نے کہا، ”جی ہاں، ہمارے کورس کی کتاب میں ہے۔ مجھے زبانی یاد ہے۔“
بولے، ”تو سناو !“
میں نے فی الفور نظم سناناشروع کی۔
”دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں ، یہ آرام گہ نورِ جہاں ہے“
مجھے ٹوک کر بولے، ”بس، آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم ’نور جہاں‘ پڑھتے ہو یا ’نورے جہاں‘ پڑھتے ہو۔ اچھا یہ بتاؤ، ان دو مصرعوں میں کیا خوبی ہے۔“
میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا، ”جی، پہلے مصرعے میں دن کو بھی اندھیرا ہونے کا ذکر ہے اور دوسرے میں، بر خلاف اس کے، یہ کہا گیا ہے، کہ یہاں تو جہان کا نور سویا ہوا ہے۔ گویا نور جہان کا نام بھی اور دنیا بھر کا نور بھی … ایک ہی لفظ کے دو مطلب نکل آئے۔“
ہنس کر بولے، ”نکل نہیں آئے، پہلے سے ہی موجود تھے۔ ایسے الفاظ کو ذو معنی کہا جاتا ہے۔ جانتے ہو۔“
میں جانتا تھا لیکن صاف جھوٹ بول گیا، ”ا ب جان گیا ہوں، سر!“
جانے لگا میں ان کے پاس، ہر دوسرے تیسرے دن، اسی وقت جب وہ لان میں کرسی پر بیٹھے ہوئے اخبار پڑھ رہے ہوتے۔
مجھے سب کچھ یاد ہے کیونکہ واپس گھر آنے کے بعد میں اپنی کاپی میں اپنے تجربات لکھتا رہتا تھا۔ آج یہ ہوا، آج وہ ہوا۔ کس لڑکے سے اسکول میں کہا سنی ہوئی۔ کس ٹیچر نے کیا کہا۔ محروم صاحب کے ارشادات تو تبرک کی طرح تھے، اس لیے انہیں لکھنا ضروری تھا۔
کچھ دنوں کے بعد میں نے اپنی غزلوں کی کاپی سامنے کر دی۔ بولے، ”پڑھ کر سناو۔ تم خوش خط ضرور ہو، لیکن میں پڑھوں گا نہیں۔“
میں نے پہلے ایک غزل کے اور پھر ایک دوسری غزل کے کچھ اشعار سنائے۔
چپکے بیٹھے رہے، تو میں نے پوچھا، ”سر، کیسے ہیں؟“
بولے، ”وزن میں بے شک موزوں ہیں، لیکن کوئی نئی بات نہیں ہے۔“
پھر یکدم آرام کرسی پر اٹھ کر بیٹھ گئے۔ کوئی نظم بھی کبھی لکھی ہے؟
”جی ہاں، “ میں نے کہا، ”تین چار نظمیں لکھی ہیں، جن میں سے ایک کو پچھلے دنوں ایک جلسے میں بہت پسند کیا گیا تھا۔“
بولے، ”سناو !“
میں نے جلدی جلدی میں کاپی کے ورق پلٹے، نظم سامنے آئی اور سنانے لگا، تو فرمایا، ”کھڑے ہو کر سناؤ، جیسے جلسے میں یا مشاعرے میں سناتے ہیں۔“
میں کھڑا ہو گیا۔ نظریں ان سے ملائیں تو بغور میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے ذرا بلند آواز میں کہا، ”ایک رومانی نظم پیش کر رہا ہوں۔ عنوان ہے، ”خواب اور زنجیر“۔ اور پھر ان سے نظریں ملائے بغیر، سامنے ہوا میں دیکھتے ہوئے نظم پڑھنے لگا۔
وہ خوشگوار چاندنی راتیں کہاں سے لاؤں
جو بھولتی نہیں ہیں وہ باتیں کہاں سے لاؤں
اب کیا کروں وہ پہلے سے حالات ہی نہیں
….
ہر آرزو کا ایک ہی مقسوم ہو گیا
کیا ہو چکا ہے، سب مجھے معلوم ہو گیا
ہر خواب کے نصیب میں تعبیر تو نہیں
کچھ بھی ہو میرے پاوں میں زنجیر تو نہیں!
میں نے آخری دو مصرعے دو بار پڑھے۔ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے، مجھے گلے سے لگایا، میری پیشانی چومی۔ کئی بار چومی۔ پھر کہا، ”بہت خوب نظم ہے۔ ’پوچھتا ‘ اور ’جانتا‘ کے قوافی کو درست کر لو۔ لیکن، عزیز من، یہ نظم کیا واقعی تم نے لکھی ہے؟“
میں نے عرض کیا، ”جی ہاں، میری ہی لکھی ہوئی ہے اور کئی جگہ سنا بھی چکا ہوں۔“
بولے، ”پندرہ سولہ برس کی عمر میں یہ نظم ! آفرین ہے تم پر … سنو، ایک بات غور سے سنو۔ میں نے تمہاری غزلیں بھی تم سے سنی ہے اور آج یہ نظم بھی۔ تم غزل شزل مت لکھا کرو، اس صنف کو تلانجلی دے دو !“
کچھ سوچ کر مسکرائے۔”تلانجلی کا مطلب جانتے ہو نا؟ ….تمہاری طبیعت نظم کے لیے موزوں ہے۔ غزل میں تمہارے ذہن سے بھرتی کے ہی اشعار نکلیں گے … میری مانو، تو صرف نظم میں ہی طبع آزمائی کیا کرو … میں نے جگن کو بھی یہی رائے دی ہے، لیکن وہ اب بھی کبھی کبھار غزل لکھ لیتا ہے۔ “
ایک دن فرمانے لگے۔ ”جانتے ہو، ٹامک ٹوئیں مارنا کیا ہوتا ہے؟“
میں نے عرض کیا، ”جی پڑھا تو ہے، لیکن مطلب نہیں جانتا۔ ٹامک ٹوئیاں شاید جوووں کو کہتے ہوں گے۔“
ہنسے، بولے، ”اچھا یہ بتاو، جب کسی بوڑھی عورت کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ اس نے جھک کر بچے کی بلائیں لیں، تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟“
میں نے فلموں میں اس منظر کو بارہا دیکھا تھا جس میں کوئی بزرگ عورت ( مرد نہیں!) جھک کر اپنے دونوں ہاتھوں کو خم دے کر کسی بچے کے سر اور کانوں کے پاس سے واپس اپنی طرف لاتی ہے۔ میں نے فوراً کہا، ”بلائیں لینے کا مطلب چومنا ہوتا ہے، یعنی ہاتھوں سے، ہونٹوں سے نہیں۔“
پھر ہنسے، ”جیسے کہ میں فرض کر رہا تھا، ویسے ہی جواب دے رہے ہو۔ اچھا یہ بتاو، کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ سب اصطلاحیں یا محاورے ہمارے پنجاب کے نہیں ہیں، اس لیے ہمیں نہیں آتے۔ تو کیا یہ اشد ضروری ہے کہ ہم انہیں سیکھیں۔ کیوں نہ اردو میں پنجاب کے محاوروں کو چلن دیں؟“
میری کیا رائے ہو سکتی تھی۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ کچھ ثانیوں کے بعد میں نے عرض کیا، ”بلائیں لینے کا کیا مطلب ہے، سر؟“
اب سنجیدگی سے بولے۔ ”یہ فرض کیا جاتا ہے کہ بچوں کے سر پر بلائیں یعنی مصیبتیں منڈلاتی رہتی ہیں۔ بزرگ عورتوں ہاتھوں کی ان جنبشوں سے وہ بلائیں اپنے سر پر لے لیتی ہیں۔“
”اور ٹامک ٹوئیاں مارنا، سر؟“
پھر ہنسے، ”جگن کو شاید آج تک یہ لفظ نہیں آتا۔ اسے ٹامک ٹوئے مارنا بھی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب تو اٹکل پچو یعنی اندازے پر چلنا ہے، دوسرے الفاظ میں بغیر پوری تفتیش کیے اپنی دانست میں صحیح کام کیے جانا لیکن اندازے سے ہی چلتے جانا، جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ یہ لفظ کشیدہ کاری سے آیا ہے، جس میں سوئی تاگے سے ٹانکے لگائے جاتے ہیں۔“
سنجیدگی سے فرمایا۔ ”میں اہلِ زبان نہیں ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اردو کو اگر سارے ہندوستان کی زبان بننا ہے تو اسے صوبجات کی زبانوں اور بولیوں سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔“
ایک دن پھر کہا، ”بی اے کرنے کے دوران میں نے ایک کتاب پڑھی تھی، جس میں لکھا تھا کہ انگلستان میں بھی،جو ہمارے پنجاب سے بھی نصف رقبے کا ملک ہے، انگریزی ایک طرح سے نہیں بولی جاتی۔ ڈکشنری کے تلفظ کے مطابق انگریزی شاید صرف ایک یا دو فیصد لوگ بولتے ہیں جسے آر پی یا Pronunciation Received کہا جاتا ہے۔ باقی ہر پچاس سو میل پر بولنے کا انداز، تلفظ، مقامی محاوروں کا امتزاج اس کو بد ل دیتا ہے۔ اگر یہ حال انگلستان کا ہے، تو دس گنا بڑے ہندوستان میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم لکھنو والوں یا دلّی والوں کی اردو سیکھیں؟“
ایک دن پھر ذکر آیا تو کہا، ”ایک عالم و فاضل شاعر تھے اردو کے جن کا نام امام بخش ناسخ تھا۔ سنا ہے نام ان کا؟“
میں نے عرض کیا، ”صرف نام سنا ہے، سر۔ جانتا نہیں کہ وہ کس قسم کے شاعر تھے۔“
”شاعر تو برے نہیں تھے، لیکن کچھ کام انہوں نے ایسے کیے جواردو کے حق میں نہیں تھے۔“
میں ان کا منہ دیکھتا رہا۔
بولے، ”ناسخ نے ان سب الفاظ کو جو بھاکھا یعنی روزمرّہ کی زبان سے آئے تھے جسے ہندوستانی بھی کہا جا سکتا ہے، اردو سے خارج کر دینے کی سفارش کی۔ سفارش کیا کی، بلکہ حکم دیا کہ اگر اردو کو خالص رکھنا ہے تو اس ملاوٹ کو دور کرنا پڑے گا۔بہت سے محاوروں کو ترک کرنا پڑے گا۔ وہ الفاظ جو فارسی اور ہندی کے امتزاج سے بنے ہیں، انہیں تلانجلی دینا ہو گا۔“
ہنسے، بولے۔ ”اب میں نے ایک محاورہ تلانجلی دینا استعمال کیا ہے۔ تم اس کا مطلب جانتے ہو، مجھے یقین ہے، لیکن یہ لفظ کیسے بنا ہے، یہ نہیں جانتے۔ انجلی ہندی میں ہتھیلی کو کہتے ہیں ، تِل وہ بیج ہیں جن کا تیل نکالا جاتا ہے۔ بنگال میں کسی عورت کا مرد سے یا مرد کا عورت سے رشتہ ازدواج ختم کرنے کا ایک روایتی طریقہ یہ ہے کہ ایک فریق دوسرے کو اپنی ہتھیلی پر تل رکھ کرپیش کرے….“
کچھ رک کر پھر فرمایا : ”ناسخ صاحب کو یہ سوجھی کہ اردوئے معلےٰ کو مقامی ہندوستانی بولیوں کے ’ناپاک‘ الفاظ سے پاک کرنے کے لیے انہیں متروک کر دیا جائے۔ اور انہوں نے متروکات کی ایک فہرست بنائی تا کہ شعرا اور نثر نگار ان الفاظ یا محاوروں سے پرہیز کر سکیں۔ اس میں ایسی اصطلاحیں بھی تھیں جن میں ایک لفظ فارسی کا اور ایک ہندی کا تھا۔ مثلاً ’ٹکڑ گدا‘ جس کے معنی ہیں، روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترسنے والا نادار شخص۔ ان کی منطق یہ تھی، کہ ’ٹکڑ‘ ہندی کا لفظ ہے اور ’گدا‘ فارسی کا، اس لیے ان کا انسلاک بجائے خود غلط ہے ….“
میں نے پوچھا، ”تو، سر، کیا لوگوں نے یہ بولنا یا لکھنا چھوڑ دیا؟ کیا ناسخ صاحب نے اس کی جگہ کوئی اور محاورہ تجویز کیا؟“
ہنسے، ”نہیں، عزیزِ من۔ کچھ بھی نہیں ہوا، لوگ اس محاورے کو ویسے ہی استعمال کرتے رہے اور انہوں نے کوئی متبادل بھی تجویز نہیں کیا …. بس فہرست بنا کر جاری کر دی۔ ان کے چیلے چانٹے شاید اس پر عمل کرتے رہے۔ لیکن اردو شاعری کی تاریخ میں یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم اردو کے شاعر ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی ہندوستانی بننے سے کتراتے رہے ہیں۔ ناسخ کو یہ چھوٹی سی بات سمجھ میں نہیں آئی ، یا وہ سمجھنا نہیں چاہتے تھے کہ عوام زبان کے پیچھے نہیں چلتے، زبان عوام کے پیچھے چلتی ہے!“
ایک دن پھربات ہوئی تو انہوں نے کہا، ”مرزا غالب بھی اپنے فارسی کے دیوان کو وہ اہمیت دیتے تھے جو انہوں نے اپنے اردو کے دیوان کو کبھی نہیں دی، لیکن آج دیکھ لیں، ان دو دواوین میں کس کی زیادہ تاریخی اہمیت ہے!“
اگلی بار میں گیا تو جیسے مجھ سے بہت سی باتیں کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ بولے، ”آج جو باتیں میں نے کلاس روم میں کی ہیں ، وہی تم سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔یہ بتاو نوجوان، کہ کیا کبھی ان محاوروں پر غور کیا جن کو فارسی کی اضافت یعنی کسر سے جوڑا جاتا ہے یا عطف سے یعنی عربی کے واؤ سے جن کو گرہ بند کر دیا جاتا ہے؟“
میں نے عرض کیا، ” سر، میں سمجھا نہیں!“
”اچھا !“ بولے، ”کچھ مثالوں سے سمجھاتا ہوں۔ کیا تم نے کبھی یہ اصطلاح پڑھی یا سنی ہے ، ”لذّتِ کام و دہن“؟ لذّت کے بعد کسر ہے اور پھر کام و دہن کے درمیان ایک عطف ہے، یعنی واو ہے۔ دونوں کا مقصد ان کو جوڑ کر یہ معنی نکالنا ہے، ” کام اور دہن کی لذت“ ….
میں نے کہا، ”جی، اتنا تو میں سمجھتا ہوں۔“
بولے، ”ہاں ہاں ، یقیناًجانتے ہو گے۔” دہن “کے معنی یعنی” منہ“ ہے یہ بھی تم جانتے ہو گے۔ لیکن ”کام“ کے کیا معنی ہیں، یہ جانتے ہو؟“
میں ان کا منہ تکتا رہ گیا۔ بولے، ”تو تم بھی میرے ایف اے کے طلبہ کی طرح اس سوال کے جواب میں فیل ہو گئے۔ وہ کم بخت بھی سارے کے سارے اس کا جواب نہیں دے سکے۔ کام کے معنی وہ نہیں ہیں، جو تم جانتے ہو، یعنی جیسے گھر کا کام یا نوکری کا کام۔ اس کا مطلب ہندی کا ”کام دیوتا“ بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے، آدمی کے منہ میں اوپر کی چھت، یعنی تالو … گویا لذتِ کام و دہن کا مطلب ہوا، منہ اور تالو کا ذائقہ…“
پھر پوچھا، ”اچھا ، ایک اور اصطلاح واو کے عطف کے ساتھ بولی جاتی ہے، ’ ’بے سر و سامان“ … ’ب ‘ تو صاف سمجھ میں آتا ہے، ’سر و سامان‘ کے بیچ میں واو عطف ہے، اس میں لفظ ’سامان‘ بھی سمجھ آ سکتا ہے، لیکن ’سر‘ کا کیا مطلب ہے، جانتے ہو؟ یعنی کیا یہ وہ ’سر‘ ہے، جو تم اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہو؟“
میں نے پھر شرمندگی سے نفی کے اظہار کے طور پر سر ہلایاتو بولے، ”مجھے یہ علم تھا کہ تم بھی میرے ایف اے کے طلبہ کی طرح نہیں جانتے ہو گے۔پھر فیل ہو گئے۔ اچھا، میں بتاتا ہوں۔ پرانے زمانے میں جب فوجیوں کو نقل مکانی یعنی آگے مارچ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا، تو وہ اپنا سارا سامان، یعنی کپڑوں کا جوڑا، لوٹا، کچھ روٹی وغیرہ تو پیٹھ پر باندھ ہی لیتے تھے۔ یہ تو ”سامان“ تھا۔ اب ”سر“ کے معنی ہیں، وہ ہتھیار یعنی تلوار، خنجر ، تیر کمان یا پرانی بندوق وغیرہ جو انہیں ساتھ ہی اٹھانے پڑتے تھے۔ “ …..بولتے بولتے تھک گئے تو رک گئے۔ چند لمحوں کے بعد کہا، ”ان کو ہی ”سر“ کہتے تھے….
اب ایک آخری سوال …ایک اصطلاح ہے ، ” لبِ لباب“۔ ہم سب اس کے ماخوذ معانی سمجھتے ہیں، یعنی کسی بات کا مختصر ترین الفاظ میں بیان۔ لیکن یہ دونوں الفاظ اسم ہیں، اگر نہ ہوتے تو ان کے درمیان’ کسر ‘ کیسے آ سکتی تھی۔ کیا ان دو الفاظ کے الگ الگ معانی جانتے ہو؟“
میں نے فوراً کہا، ”لب…تو میں سمجھتاہوں، یعنی ہونٹ ..لیکن لباب نہیں جانتا۔ًً“
مسکرائے، ”یہی جواب تو ان کند ذہنوں نے بھی دیا تھا کمرہ جماعت میں، جو میٹرک پاس کر کے اب کالج میں بیٹھے ہیں۔ وہ سبھی فیل اور تم بھی فیل! یہ لفظ لب نہیں ہے، لب ہے، یعنی ل کے اوپر ضمّہ ہے۔ اور اس کا مطلب ہے، نچوڑ، عطر، عرق وغیرہ، اب یہ فارسی والوں کا عجوبہ ہے کہ دوسرا لفظ یعنی ”لباب “ اسی لفظ کا صیغہ جمع ہے۔ تو لبِ لباب کا مطلب ہوا، نچوڑیوں کا نچوڑ، عطروں کا عطر… انگریزی میں کیا کہیں گے؟“
میں نے فی الفور کہا، The essence of Essences
خوش ہو گئے۔ ”شاباش!“ اب جب بھی کبھی کوئی فارسی یا عربی اصطلاح استعمال کرو، تو یہ دیکھنے سے پہلے کہ اس کے ماخوذ معانی یعنی Derivative Meaning کیا ہیں، اس کے اصل معانی دریافت کرنے کی کوشش کیا کرو!“
ڈیڑھ دو برس کا عرصہ ہوتا ہی کیا ہے! 1945ء سے اپریل 1947ءتک۔ لیکن اس دوران میں منشی تلوک چند محروم کے ساتھ میں نے تیس چالیس ملاقاتیں کیں اور ہر بار کچھ سیکھ کر ہی لوٹا۔ کاغذ قلم سے اصلاح دینے کو وہ اپنے اصول کی نفی سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ جو اساتذہ اپنے شاگردوں کی غزلیات پر اصلاح دے کر فی شعر آٹھ آنے یا بارہ آنے یا ایک روپیہ وصول کرتے ہیں ، انہیں استاد کہلوانے کا کوئی حق نہیں ہے، ”گویا استادی نہ ہوئی، تجارت ہو گئی، سودا فروشی ہو گئی!“
قبلہ محروم صاحب سے دو تین ملاقاتیں جو ان کی راولپنڈی سے ہجرت اور دہلی میں سکونت کے بعد ہوئیں، ان کی بھی اپنی ایک کہانی ہے، لیکن اسے کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔آئیے، اب ان کی مشہور زمانہ نظم ”نو ر جہاں کے مزار پر“ کے کچھ اشعار پڑھتے ہیں
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہِ نورِ جہاں ہے
….
اے حسنِ جہاں سوز، کہاں ہیں وہ شرارے
کسی باغ کے گل ہو گئے، کس عرش کے تارے
….
کیا بن گئے اب کرمک شب تاب کے سارے
ہر شام چمکتے ہیں جو راوی کے کنارے
یا ہو گئے وہ داغ جہاں گیر کے دل کے
قابل ہی تو تھے عاشقِ دلگیر کے دل کے
….
ایسی کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی
ہوتی ہے مگر یوں سر ِ صحرا نہیں ہوتی