میں ایک شریف‘ عزت دار شخص ہوں‘ میں نہیں چاہتا کہ محلے میں لوگ میرے بارے میں کہتے پھریں کہ یہ آدمی اُدھار لیتا ہے اور واپس نہیں کرتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے کو سرراہ کوئی روک لے اور بلند آواز میں پیغام دے ’’اوئے باپ سے کہنا روز مختلف ٹائی لگا کر نکلتے ہو‘ میری رقم تو واپس کرو‘‘ میں نہیں چاہتا میرے بچے ایک دن کھڑے ہو کر طعنہ دیں ’’ابّو آپ اکثر خاندان کی عزت پر زور دیتے ہیں کیا خاندانی عزت یہی ہے جو ہماری ہے؟‘‘
میں واجبات کی اولین وقت میں ادائیگیاں کرتا ہوں۔ بجلی کا بل آئے تو آخری تاریخ کا انتظار نہیں کرتا۔ آخری تاریخ بھی ادائیگی کرنا ہی کرنا ہے اور اس سے پہلے بھی! چنانچہ بل آنے کے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دن بعد بل کی رقم جمع کروا دیتا ہوں۔ میرا جو بیٹا گھر کے اس قسم کے کام سنبھالے ہوئے تھا‘ بیرون ملک چلا گیا ہے۔ جانے سے پہلے اُس نے میری ’’ٹریننگ‘‘ کی۔ اس کا کہنا تھا آپ کو بینک جا کر بل جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کریڈٹ کارڈ سے گھر بیٹھے بیٹھے بل جمع کروا دیجئے گا۔ چنانچہ میں اب یہی کرتا ہوں۔ گیس کا بل آئے تو وہ بھی فوراً جمع کراتا ہوں۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کا بل بھی فوراً بلکہ فوراً سے پیشتر ادا کر دیتا ہوں۔ جس رہائشی کالونی میں بسیرا ہے‘ اس کی انتظامیہ پانی اور دیگر خدمات کے لیے ہر ماہ کچھ رقم لیتی ہے۔ اس کے لیے بینک جانا پڑتا ہے۔ نزدیک ترین بینک میرے گھر سے پیدل بارہ منٹ کا اور گاڑی میں تین چار منٹ کا فاصلہ ہے۔ وہ بھی وقت پر جمع کرا دیا جاتا ہے۔
میں ایک زندہ‘ گوشت پوست کا بنا ہوا انسان ہوں۔ مجھے قرض بھی لینا پڑ جاتا ہے۔ قرض سے غریب کو مفر ہے نہ کروڑ پتی کو۔ مگر میں قرض لیتے وقت ادائیگی کی تاریخ مقرر کرتا ہوں۔ اس تاریخ پر یا اس سے پہلے رقم واپس کرتا ہوں اور اگر خدانخواستہ نہ کر سکوں تو قرض خواہ کے پاس بنفس نفیس حاضری دے کر مدت کی توسیع کراتا ہوں۔ مجھ سے عزیز‘ احباب‘ قرض لیتے بھی ہیں۔ اگر کوئی وقت پر وعدے کے مطابق واپس نہ کرے تو آئندہ دینے سے اجتناب کرتا ہوں!
یہ صرف میری کہانی نہیں! ہر شریف‘ عزت دار شخص کا یہی معاملہ ہے۔ آپ بھی یقیناً ایسا ہی کرتے ہوں گے۔ قارئین کی اکثریت کا یہی حال ہو گا! ہم میں سے کم ہی تعداد ایسے حضرات کی ہو گی جو ادائیگیوں سے بے نیاز ہوں اور قرض خواہوں کا خیال جھٹک کر سو سکتے ہوں۔ دو سال پہلے میلبورن میں پاکستان سے ایک دوست کا فون آیا کہ فلاں صاحب سڈنی میں ہیں۔ اتنی رقم انہیں پہنچانی ہے۔ عرض کیا میرے پاس تو اتنی رقم نہیں‘ بیٹے سے کہتا ہوں پہنچائے۔ بیٹے نے اسی دن بینک کی مدد سے پہنچا دی۔ وطن واپسی ہوئی۔ اس دوست عزیز سے یہ پہلا مالی معاملہ تھا۔ میں نے یاد دلایا نہ انہوں نے ذکر کیا مگر کچھ دن بعد تشریف لائے اور رقم ڈالروں ہی میں واپس کی۔ منی چینجر سے تُڑواتے تو کچھ روپے اُن کے بچتے تھے۔ اگلی ملاقات میں وہ ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔
آپ کی اُس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جو اُدھار لے کر غائب ہو جاتا ہے؟ جو بجلی‘ گیس اور پانی کی ادائیگیاں نہیں کرتا۔ پھر جب بجلی‘ گیس اور پانی کے کنکشن کاٹنے والے آتے ہیں تو انہیں بُرا بھلا کہتا ہے۔ محلے والے اکٹھے ہوتے ہیں چوک پر تماشا لگتا ہے‘ یہ بجلی کاٹنے والوں کو دھمکیاں دیتا ہے۔ بجلی کاٹنے والے اس کی عزت اچھالتے ہیں‘ پھر دوسرے دن یہی شخص کلف لگے کھڑکھڑاتے لباس پر ہلکے پیلے رنگ کی خوشنما واسکٹ پہنے گاڑی کے ایکسیلیٹر پر پائوں دبائے زُوں کر کے ٹھاٹھ سے گزرتا ہے۔ عزّت؟ کون سی عزّت؟
یہ ہیں ہمارے منتخب نمائندے!
ہماری اشرافیہ کے نشان!
ہمارے معزز ایم این اے!
ہمارے سینیٹر!
ELITE
کلاس کے چشم و چراغ
یہ عزت دار ہیں! اس لیے نہیں کہ ادائیگیاں وقت پر کرتے ہیں! اس لیے کہ اُس ایوان میں بیٹھے ہیں جہاں استحقاق کی تحریکیں پیش ہو سکتی ہیں! ان کے فرائض کوئی نہیں! صرف استحقاق ہی استحقاق ہے۔ یہ مہذب دنیا میں اُس واحد‘ بدقسمت‘ تیرہ بخت ملک کے ایسے قانون ساز
(LAW MAKER)
ہیں جن کا قانون سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا جنوری کی برف باری کا جون کی کڑکتی چلچلاتی دُھوپ سے ہوتا ہے!
یہ شرفاء‘ یہ عزت دار‘ بجلی کا بل تک نہیں ادا کرتے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ریاست کے جوائی (داماد) ہیں اور انہیں بجلی‘ پانی‘ گیس ٹرانسپورٹ سب کچھ مفت میں ملنا چاہیے۔ واپڈا کی اسلام آباد برانچ نے طویل انتظار کے بعد مجبوراً ایم این اے ہوسٹل کی بجلی کاٹی۔ اس پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف کے ارکان کو آگ لگ گئی‘ آپ دھاندلی‘ تکبر اور ڈھٹائی کا اندازہ لگائیے کہ ان عزت داروں نے ’’ذمہ داروں‘‘ کے خلاف کارروائی کرنے اور تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے کوئی اپنی عینک اور دستاویزات اٹھا اٹھا کر پٹختا ہے اور کوئی واپڈا کے مقامی سربراہ سے جواب طلبی کرتا ہے کہ میرا فون کیوں نہیں سنا؟ کہتے ہیں ایک شخص نے دوسرے کو شرم دلانے کے لیے طعنہ دیا کہ تمہاری پشت پر درخت لگا ہوا ہے۔ شرم کرنے کے بجائے دوسرے نے جواب دیا کہ ہم اس کی چھائوں میں بیٹھیں گے! تمہیں کیا؟
ان حضرات کی ذہنی سطح ملاحظہ فرمائیے۔ عدم ادائیگی کی بنا پر قانون حرکت میں آیا تو یہ کیسی زبان استعمال کر رہے ہیں۔
٭…’’آئیسکو کے لب و لہجہ میں فرعونیت ٹپک رہی ہے‘‘
٭…’’بجلی منقطع کرنے کی گھٹیا حرکت کی ہے‘‘
٭…’’اوپر سے نیچے تک تمام کو سزا ملنی چاہیے‘‘
ان کے سرخیل خورشید صاحب
جو اپوزیشن لیڈر ہیں فرماتے ہیں ’’تحریک استحقاق لائیں‘ سب ساتھ ہیں‘‘!
دودھ سے دُھلے ہوئے اشرافیہ کے یہ ارکان پبلک اکائونٹس کمیٹی میں فرض منصبی ایک طرف ڈال دیتے ہیں اور شور برپا کرتے ہیں کہ ان کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ انکوائری کرائی جائے! غوغا کرتے ہیں!
برقی رو صرف پانچ گھنٹے منقطع رہی۔
اس پر یہ حال ہے! پونے تین کروڑ روپے واجب الادا ہیں! واپڈا والے چیخ رہے ہیں کہ انفرادی میٹر اُن کی رسائی میں نہیں! پہریدار اندر نہیں جانے دیتے! پوری بلڈنگ کی بجلی نہ کاٹیں تو کیا کریں!
مجھے شرم آ رہی ہے ان ڈیفالٹرز کو اپنے نمائندے کہتے ہوئے! میں اپنی ادائیگیاں وقت پر کرتا ہوں۔ قانون پر عمل پیرا ہونے کے لیے! عزت کی خاطر! مگر میرے یہ نمائندے کس مٹی کے بنے ہیں! ان میں سے اکثر بے تحاشا دولت کے مالک ہیں۔ صنعت کار ہیں‘ فیوڈل ہیں! کروڑوں کے کاروبار کرتے ہیں مگر چند ہزار کے ماہانہ بل ادا نہیں کرتے‘ کیونکہ ان کا خیال ہے یہ ملک کے مالک ہیں۔ ان پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ قانون کے مطابق ادائیگیاں نہ کریں تو یہ حرکت گھٹیا نہیں مگر قانون حرکت میں آئے تو یہ گھٹیا حرکت ہے! اگر بجلی کاٹنے والے طنز کریں کہ ’’ہک بل نہیں دیندے‘ اُتوں ممبر بنے پھردے نیں (ایک تو بل نہیں دیتے‘ اُوپر سے ممبر بنے پھرتے ہیں) تو ان کی عزت اتنی بلند ہے کہ اُس پر کوئی چھینٹا نہیں پڑتا‘ اتنی پختہ ہے کہ اس میں ذرا سا شگاف بھی کوئی نہیں ڈال سکتا‘ یہ عزت اتنی محفوظ ہے کہ کوئی بے عزتی‘ کوئی عدم ادائیگی‘ کوئی پست حرکت‘ اس عزت کو متاثر نہیں کر سکتی!
یہ ہمارے معززین ہیں۔ یہ ہمارے لا ء میکر ہیں!
آئیے! ہم عام شہری ایسی لا میکنگ سے‘ ایسی عزت سے خدا کی پناہ مانگیں! آئیے ہم عام شہری ان غریبوں‘ ان مفلسوں‘ ان قلاشوں‘ ان تہی دستوں‘ ان بے چاروں کے لیے چندہ کریں تاکہ یہ بجلی‘ پانی اور گیس کے بل ادا کریں تاکہ یہ ٹیکس دے سکیں۔ تاکہ ان کی تجوریاں ان کے وارثوں کو بھری ہوئی ملیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“