باپو کی تصویر*
ترپاٹھی صاحب نے آفس میں داخل ہوتے ہی اپنی سکریٹری کو پوچھا" اس سال گاندھی جینتی کے موقع پر *گاندھی وادی مانو* کا پرسکار دینے کے لیے کونسے نام ہے بتانا اس میں سے کسی ایک کا آج انتخاب کرتا ہوں۔ " شرما نے اپنی فائل میں نظر گھومائی اور کہا " سر دو نام خاص ہے ایک آزاد پارٹی کے سیٹھ دھنی لال اور سماجی کارکن شیر عالم۔ سر شیر عالم نے اس سال کئی فلاحی کام انجام دیے ہیں اور" ترپاٹھی صاحب نے بات کاٹ کر کہا "سیٹھ دھنی لال۔۔۔ہمم ٹھیک ہے تم جاؤ۔" اپنے فون سے ایک نمبر ڈائل کیا" رام رام سیٹھ جی اس سال کا *گاندھی وادی مانو* کا پرسکار آپکی جھولی میں کرنے کا سوچ رہا تھا اگر زرا ہمیں باپو کی پیٹی بھر گلابی تصویریں دیکھنے مل جاتی۔"
*بیٹی*
روپا اپنی بہن کو انصاف دلانے آج مشعل مورچے میں شامل ہوئی۔ اس میں کئی سیاسی پارٹی کے افراد اس کی بہن کی چتا پر اپنی سیاست کی روٹیاں سینک رہے تھے۔ اس مورچے کا رخ اب ایم ایل اے صاحب کے بنگلے کی طرف تھا۔ روپا اس ایم ایل اے کو دیکھ کر بھنا گئ کیونکہ وہ ہی تو اس کی بہن کاجل کا گنہگار تھا۔ وہ سفید پوش حیوان سب کے سامنے انصاف کی یقین دہانی کرارہا تھا۔ ایم ایل اے صاحب کی بیٹی کے ہاتھ نا جانے کیسے تیل کا کین گر گیا اور اسی وقت روپا کے ہاتھ کی شریر مشعل اس پر گر پڑی۔ بیچارے ایم ایل اے شعلوں کی لپیٹ میں آگئے۔ ایم ایل صاحب کی بیٹی نے روپا کی طرف مسکرا کر دیکھا۔
*ہیرو*
وہ سامنے لگی بھیڑ کو دیکھ حیران ہورہا تھا جس کی وجہ سے اس کا گھر تک پہنچا محال ہوا تھا۔ کسی طرح وہ بھیڑ سے بچ کر دو سال بعد اپنے گھر پہنچا۔ گھر کے دروازے پر اس کی بیوی اور 5 سالہ بیٹی اس کا انتظار کررہے تھے بارڈ پر ہوئی فائرنگ سے جہاں سارا ملک پریشان تھا اس کے گھر والوں کا تو برا ہی حال تھا اسے سامنے کھڑا دیکھ کر وہ خوش ہو رہے تھے۔ "ہیرو آگیا ہیرو آگیا " کے شور نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ " امّی کیا سب لوگ ابو کے لیے کھڑے ہیں۔" عارف نے ننھی صبا کو گود میں اٹھا کر کہا- "نہیں بیٹا" لیکن امّی تو کہتی ہے کہ آپ ہیرو ہے اصلی کے ہیرو ہمارے ملک کی حفاطت کرتے ہیں۔" عارف نے اپنی بیٹی کا ماتھا چومتے ہوئے کہا "بیٹا یہ دنیا پردے پے اداکاری کرنے والوں کو ہیرو کہتی ہے اپنی جان پر کھیل ان کی حفاطت کرنے والوں کو نہیں۔"
*سبزی فروش*
"امی کھیرا بھی لو نا۔۔ میری ٹیچر کہتی ہے کہ اس سے جلد نکھرتی ہے۔" ثناء نے نظر نے اٹھا کے دیکھا سامنے اس کے کلاس کی ننھی رمشہ اپنی والدہ کے ساتھ کھڑی تھی- چاہتے ہوئے بھی ثناء کے زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ اتنے میں رمشہ کی امّی بول پڑی"اچھا دو کلو کھیرا بھی دے دیجیئے- اور کل رقم بتادیں -" "ارے آنٹی جی آپ تو ہمارے ثناء مس کی طرح دکھتے ہے۔آپ ان کی بہن ہے۔" تبھی اسکی امّی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔"بےوقوف لڑکی کچھ بھی کہتی ہے۔ ٹیچر اور ان کے گھر کے افراد اتنے تعلیم یافتہ ہے۔ کیا وہ یوں سبزی فروخت کریں گے؟" یہ کہہ کر وح دونوں تو چلے گیے لیکن ثناء کی آنکھیں نم ہوگئیں وہ ایک پرائیویٹ اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دیتی تھی لیکن اس لاک ڈاؤن کے سبب وہ معاشی تنگی کا شکار ہو چکی تھی اور مجبوری میں سبزیاں فروخت کررھی تھی رمشہ کو دور جاتے دیکھ ثناء نے سکون کا سانس لیا۔
افسانچہ : دروازہ
آکسیجن سلنڈر کے بٹن پر ہاتھ رکھے رحیم صاحب سوچ میں گم تھے کہ وہ جو کرنے جارہے غلط ہے یا حالات کے تحت مناسب ہے۔۔۔ ہاتھ سے بٹن کی دوری ہونے جارہی تھی کہ اچانک ان کے آنکھوں کے سامنے کچھ دیر پہلے کا منظر گھوم گیا، جب ان کے لاڈلے بیٹے سے اس کی بیوی کہہ رہی تھی"ایک طرف مہنگائی کی مار اور لاک ڈاون، دوسری طرف ابا جی کی یہ بیماری۔۔۔ روزانہ ہزاروں روپے ان پر خرچ ہو رہے ہیں۔ پیسے کی بربادی سے تو اچھا ہے کہ وہ مر جائے اور ہماری جان چھوٹے۔" رحیم صاحب کی آنکھیں ڈبڈبائیں، ہاتھ اور بٹن کی دوری کم ہونے لگی۔۔۔ اور اچانک دو دروازے کھولے۔۔۔ ایک پر نرس کھڑی تھی اور دوسرے پر ملک الموت۔۔۔
افسانچہ : صحیح قدم
ماجد صاحب ڈرائنگ روم میں بیٹھے، نم آنکھوں سے اپنے بیٹے اور بہو کی پرانی تصاویر دیکھ رہے تھے کہ ڈوربیل بجی۔ لاک ڈاؤن میں رات کے 11 بجے کون ہوسکتا ہے؟ سوچتے ہوئے دروازہ کھولا۔ سامنے ان کی بہو کھڑی تھی "ارے ماہین بیٹی! تم اس وقت؟؟" سامنے ماہین کو ننھے ارشد کے ساتھ کھڑے دیکھ کر وہ چونک گئے۔
"جی ابو ۔۔۔۔ شام کو جیسے ہی رحیمن بوا کا فون آیا کہ وہ گاؤں جارہی ہیں تو میں نے ندیم سے کہا اور آپ کے یہاں آنے کی بات کی۔ پھر ہم آپ کے پاس چلے آئے۔ آپ لوگ بیٹھیے، میں نے آپ کی پسند کا کھانا تیار کیا ہے، ابھی گرم کرکے لاتی ہوں۔" ماجد صاحب نے تصویر میں اپنے مرحوم بیٹے کو دیکھا، پھر بازو میں کھڑے ندیم کو دیکھا۔ ماہین کا مسکراتا چہرہ ان کی آنکھوں میں رقص کررہا تھا اور وہ یہ سوچ کر خوشی سے مسکرا دیے کہ سماج کے خلاف جا کر اپنی فرمانبردار بیوہ بہو کو اپنی بیٹی کی طرح، اس کی زندگی میں خوشیاں لانے کی خاطر ماہین کا دوبارہ نکاح کرنے کا ان کا فیصلہ، واقعی صحیح قدم ثابت ہوا۔