آئینہ۔۔۔
ہم ھندستان میں غربت اور خوف کی زندگی گزارتے تھے۔
پاکستان بنا تو یہاں پر آئے۔جب ہم یہاں پہنچے تو ھمارے تن پر کپڑے، پائوں میں چپل اور پیٹ میں روٹی نہیں تھی یہاں کے لوگوں نے یہ سب کچھ فوراً ھمیں دیا۔ ہم نے یہاں پہنچ کرجائداد کے جھوٹے کلیم داخل کروائے اور پھر سندھ کے تمام بڑے شہروں میں گھر ، دکان، مکان، زمین اور کاروبار حاصل کئے۔ جو پڑھے لکھے مہاجرین تھے انکو بہت ساری نوکریاں بھی ملی۔ یہاں کے لوگوں نے ہمیں اپنے سینے سے لگایا اپنے بند پڑے ہوئے اضافی گھر و کاروبار ھمارے حوالے کئے اس طرح قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ یہاں کے لوگ اہل بیت کی شان اور محبت میں بھی بہت ہی آگے تھے، ھم نے اس بات کا بھی فائدہ اٹھایا اور زیادہ تر جعلی سید بن گئے۔ پھر تو جیسے ھماری پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑہائی میں تھا۔ ھمیں صرف اردو اور اپنی اپنی مادری زبان بولنا آتی تھی مگر یہاں کے لوگوں نے ہمیں سندھی زبان سیکھنے پر کبھی بھی مجبور نہیں کیا بلکہ سارے سندھی اردو زبان بولنا سیکھ گئے۔ مگر ھمیں آج بھی سندھی زبان سمجھ میں نہیں آتی۔ بلکہ ہم تو اس سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ھماری سب سے بڑی سیاست یہ ہے کہ ہم ستر سالوں سے مہاجر ہیں اور پاکستانی نہیں بنے مگر مقامی لوگوں کو کہتے ہیں کہ پاکستانی بن جائو۔ آج سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہر اور ان میں موجود گھر و کاروبار نوکریاں اور بہت کچھ ھمارے پاس ہیں مگر پھر بھی ہم مظلومیت کا رونا روتے ہیں تاکہ مزید اگر کچھ مل سکتا ہے تو لے لیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں مہاجر قوم کا پکا نام دینے والا شخص خود دس سالوں میں برطانیہ کا شہری بن گیا مگر ہم آج بھی مہاجر ہیں، اور تو اور ہمارے اس لیڈر نے ہماری قوم کی بیٹیوں کو بھی اس قابل بھی نہ سمجھا کہ ان سے شادی کرے، اس نے شادی بھی کی تو بلوچوں میں سے ۔ ہمارا لیڈر ھمیشہ سے اس کوشش میں رہا کہ کسی طرح پاکستان کو توڑا جائے۔ اور پھر اپنے آبائی ملک ھندستان سے مل جائیں مگر یہ کم بخت سندھی، سرائیکی، بلوچ، پنجابی اور پٹھان ھماری اس سازش کو سمجھ گئے ہیں۔ اور ھمیں ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ ھمیں یہ بھی پتہ ہے کہ اندرون سندھ کے لوگ بہت ہی کسم پرسی کی زندگی گزارتے ہیں ان لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے تعلیم نہیں اسپتال نہیں۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ اندرون سندھ کے لوگ بہت بری زندگی گذارتے ہیں۔ اور ہم لوگ ان کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور آرام دہ زندگی شہروں میں گزار رہے ہیں جہاں زندگی کی تمام تر سہولیات موجود ہیں۔ ہم دیہات میں جاکر رہیں گے بھی نہیں مگر دھرتی کے مالکان سے انکے گائوں دیہات بھی خالی کروانا چاہتے ہیں۔ بس ھمیں ایسا کرنے میں مزا آئے گا کیونکہ لوٹ مار اور احسان فراموشی تو ھمارے خمیر میں شامل ہے۔ ھمیں یہ بھی پتہ کہ ھمیں سندھ میں کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں ہے۔ مگر پھر بھی مظلومیت کا رونا روئیں گے۔
ھم پاکستان کی واحد قوم ہیں جو ستر سالوں سے مہاجر ہیں حالانکہ ہماری چوتھی نسل یہاں چل اور پل رہی ہے۔ ہم پاکستان کی واحد قوم ہیں جنہوں نے قومیت کی بنیاد پر کسی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور مہاجر قومی موومنٹ بنائی اور یہ بھی سن لیں کہ ہم نے لسانیت کی آخری حد کو چھوتے ہوئے مہاجر قومی موومنٹ کے تمام نمائندے کامیاب کروائے اور ان کو اسمبلیوں میں بھیجا، اور لسانیات کا الزام ان سندھیوں پر لگایا جنہوں نے آج تک ایک بھی قوم پرست سیاسی نمائندہ کسی بھی اسیمبلی میں نہیں بھیجا۔ ہم لوگ بہت ہی امن پسند قوم ہیں اسی لئے ہمارے جھگڑے ھمیشہ سندھی بلوچی پنجابی اور پٹھان سے چلتے رہتے ہیں۔
ہماری قوم سے صدرِ وزیراعظم اور آرمی چیف تک بنے صوبائی و وفاقی وزراء بنے مگر پاکستان نے پھر بھی ہمیں کچھ نہیں دیا۔
ہماری یہ دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان میں موجود تمام قومیتیں اپنی اپنی زبان کو چھوڑ کر صرف اور صرف اردو زبان کا استعمال کریں حالانکہ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ یہ سب لوگ پہلے سے ہی اردو زبان بولتے اور سمجھتے ہیں۔ جبکہ ھمیں ان کی کوئی بھی زبان نہ بولنا آتی ہے اور نہ ہی سمجھ آتی ہے۔ مگر پھر بھی یہ سب لوگ قوم پرست اور تعصبی ہیں۔ اگر کہی دس سندھی، بلوچی، پنجابی، سرائیکی یا پٹھان کھڑے ہونگے تو و سب اس ایک اردو بھائی کی وجہ سے اور اس سے یکجہتی کے لئے اردو زبان بولنا شروع کر دیں گے۔ مگر افسوس ہمیں آج تک سندھی یا کوئی اور زبان بولنا نہیں آئی۔
ہم اپنے لیڈر کے پیچھے چلتے ہوئے سندھ دھرتی جس نے ہمیں اور ہمارے آباؤ اجداد کو پناہ دی اس میں الگ صوبہ بنانے کی بات کرتے ہیں۔ جبکہ ھمیں یہ بھی پتہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے مگر ہماری فطرت میں جو تعصب اور بغض بھرا ہوا ہے اسکو کہی تو ظاہر کرنا ہے نہ۔
ہمیں تو یہ بھی پتہ ہے کہ اردو ہرگز ہماری زبان نہیں تھی۔ بلکہ ہمارے بڑے تو ھندستان میں اپنی اپنی مادری زبان بولتے تھے۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ اردو زبان ترکی، فارسی، عربی ھندی اور سندھی زبان وغیرہ سے ملکر بنی ہے۔ مگر میں نہ مانوں والی بات ہے۔ جیسے ہی الیکشن قریب آئیں گے پھر ہمیں سندھی مہاجر بناکر لڑوایا جائے گا۔۔۔ اور یو سیاست چلتی رہے گی۔۔۔
(انور مقصود کے نام)۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“