اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
( حیدر علی آتش)
یوں تو موت ایک اٹل حقیقت ہے۔کل نفس ذائقۃ الموت۔موت کا وقت مقرر ہے۔ موت عمر نہیں دیکھتی جب وقت پورا ہوا انسان کو لبیک کہناہی پڑتا ہے۔ اپنے اچھے برے اعمال کے ساتھ اللہ کے رو برو حاضر ہونا پڑتا ہے لیکن جب پے در پے بری خبریں ملنے لگے تو انسان کو اپنا آپ سنبھالنا مشکل ھوجاتا ہے ۔سال 2020 واقعی دنیا کے لیے افلاس لے کر آیاہے ۔ابتدائے سال سے ہی ساری دنیا میں موت کا ننگا ناچ جاری ہے۔ ہر سو سوگ ہی سوگ۔ کسی بھی انسان کی موت چاہے وہ کسی بھی ملک‘ مذہب اور قوم سے تعلق رکھتاہو۔ ہر ایک ذی فہم اور درد مندانِ دل کیلئے غم والم کا باعث ہی ہوتی ہے لیکن ایسے میں اپنے خاندان میں اور جان پہچان کی مشہور شخصیات کی اموات کی مسلسل خبریں ملنے لگیں تو زندگی کی بے ثباتی کا شدید احساس دل کو مسوس کر رکھ دیتاہے۔
پچھلے ہفتے لگاتار تین مشہور شخصیات کے انتقال نے غم زدہ کردیا تھا تو شاعر راحت اندوری کی وفات نے افسردہ کردیا ہے۔ سعدیہ دہلوی اردو کی ایک مشہور ادیبہ جو رسالہ "شمع" اور "بانو" کی توسط سے ہم سے جڑی ہوئی تھیں۔خان لطیف خان روزنامہ "منصف"اور اپنی قوم کے لئے گوناگوں کارناموں کی وجہہ سے جانی مانی شخصیت تھے‘ انجم شافعی حیدرآباد دکن کے منفرد لب و لہجہ کے استاد شاعرادبی حلقوں کی ہر دلعزیز شخصیت اللہ کو پیارے ہوگئے۔
سعدیہ دہلوی 5 اگسٹ 2020 کوبعمر 63 /سال دارمفارقت دے گئیں۔ ذرائع ابلاغ و صحافت کی فعال شخصیت کالم نگار سماجی کارکن اور ایک بہترین ادیبہ تھیں۔ سعدیہ دہلوی کے مضامین روز نامہ اخبارات ، نوائے وقت ، فرنٹ لائن اردو ، انگریزی اور ہندی اخبارات اور میگزین میں اکثر شائع ہوتے رہتے تھے۔ سعدیہ نے شمع گروپ کے رسالے ’ بانو ‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے۔ ان کے والد یونس دہلوی جو رسالہ "شمع" کے ایڈیٹر تھے کا گزشتہ 7 فروری 2019 کو انتقال ہوا تھا۔ سعدیہ ، دہلی کی سماجی اور ثقافتی زندگی کا لازمی حصہ تھیں اور ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ وہ رسالہ شمع کے بانی حافظ یوسف دہلوی خاندان کی تیسری نسل کی نمائندگی کرنے والی صحافیہ، مصنفہ، کالم نگار تھیں۔
سعدیہ دہلوی نے ٹی وی کے لیے کئی پروگرام لکھے اور کئی دستاویزی پروگرام پروڈیوس بھی کیے۔ جن میں "اماں اور فیملی" 1995 ء شامل ہیں جسے ایک تجربہ کار اسٹیج اداکارہ زہرہ سہگل پر فلمایا گیا تھا۔ وہ اجمیر کے خواجہ غریب نواز اور دہلی کے نظام الدین اولیاء کی بہت عقیدت مند تھیں۔ وہ اسلام کی ابتدائی بنیادی تشریحات پر تنقید کے لیے بہت مشہور تھیں اور اسلام کی انتہا پسندی کو سمجھنے کا مشورہ دیتی تھیں۔
سعدیہ دہلوی نے 2009 میں صوفی ازم پر کتاب لکھی جس کا نام ’ صوفی ازم اور اسلام کا دل ‘ ہے جو ہائپر کولنز پبلشرز کی مدد سے شائع ہوئی تھی۔ ان کی دوسری کتاب ’ صوفی کا آنگن ‘ فروری 2012 میں شائع کی گئی۔ 1989 میں انہیں بہترین صحافی کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا. پسماندگان میں بیٹا ارمان علی دہلوی، والدہ زینت کوثر دہلوی اور بڑے بھائی وسیم دہلوی ہیں۔
حیدرآباد دکن کی مشہور شخصیت خان لطیف خان ایڈ یٹر روزنامہ منصف. وسلطان العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی کے چیر پرسن بنیادی طور پر ایک انڈسٹریلسٹ تھے۔ آپ ایک متمول این آر آئی شمار کئے جاتے ہیں۔ وہ حیدرآباد، دکن میں بطور خاص منصف کے ادارت کے لیے جانے جاتے ہیں جسے انہوں نے 1995 ء سے اپنی ملکیت میں لیا اور شہر کی اردو صحافت میں ایک نیا انقلاب لانے کی کوشش کی ۔ وہ صحافت کے میدان میں اپنی ایک چھاپ چھوڑنے کے خواہش مند تھے، حالاں کہ قلم کی دنیا سے ان کا کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے منصف اخبار میں اپنا کافی سرمایہ لگایااور اسے بام عروج پر پہنچا یا۔
1990 ء کے دہے سے پہلے اردو اخبارات میں صرف کاتبوں کے حسن خطاطی پر زور تھا۔ لطیف خان کی ادارت میں اخبار کمپیوٹر کے ذریعے چھاپا جانے لگا۔ اس کے علاوہ اردو اخبارات میں رنگین صفحات بھی کم ہی ہوتے تھے۔ انہوں نے اخبار میں رنگین صفحات کو مروج کیا۔ مہمان کالموں اور سنڈی کیٹ کالموں کو خاص جگہ دی۔ کئی اہم موضوعات مثلًا کیریئر کی رہنمائی پر بھی خاص توجہ دی۔
راحت اندوری کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔ ان کو میں نے آخری بار خلوت کے مشاعرے میں دیکھا۔ انہیں میں اسّی کی دہائی سے شنکرجی میموریل مشاعرے میں بالمشافہ دیکھتی اور سنتی آئی ہوں۔ منفرد اسلوب رکھنے والے، بے باک اور نڈر شاعر، کسی بھی ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے کسی بھی بڑی طاقت سے ڈرے بغیرظلم و استبداد کے حامل حکمران حکومت یا جماعت پر بلا جھجھک تنقیدی اشعار کہنا ان کی انفرادیت رہی۔
راحت اندوری کی پیدائش اندور میں یکم جنوری، 1950 ء کو ہوئی۔نام راحت اللہ اور تخلص’’راحت‘‘ کرتے تھے۔ ایک ٹیکسٹائل مل کے ملازم رفعت اللہ قریشی اور مقبول النساء بیگم کے یہاں پیدا ہوئے ۔ وہ ان کی چوتھی اولاد ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور میں ہوئی ۔انہوں نے اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے 1973ء میں اپنی بیچلر کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد وہ 19751ء میں راحت اندوری نے برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اعلٰی ترین تعلیمی سند کے لیے 1985 ء انہوں نے مدھیہ پردیش کے مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔وہ ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر اور گیت کار ہیں۔ انہوں نے کئی بالی وڈ فلموں کے لیے نغمے بھی لکھے ہیں جو مقبول اور زبان زد عام بھی ہوئے ہیں۔
راحت اندوری نے11/اگسٹ 2020 کو اس فانی دنیا کو الوداع کہہ دیا ہے لیکن اپنی شاعری کے ذریعے اپنے مداحوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔آج نہ صرف اردو دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد بلکہ راحت اندروی کی آواز حق کے مداح خواہ وہ کسی بھی شعبہ و زبان سے تعلق رکھتے ہوں غم زدہ ہیں۔
دکھوں کی ایک بات میں بہت مماثلت ہوتی ہے کہ آخر میں سب کے دکھ ایک ہی جیسے ہو جاتے ہیں اور ایک تازہ غم پچھلے سارے غموں کی یاد تازہ کر جاتا ہے۔
اللہ عزوجل تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ ان کے آخری سفر کے تمام مرحلے آسان کرے۔ ان کے درجات بلند کرے اور انہیں اعلی علین میں مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
"