مجھے لمحے نہیں صدیاں سنیں گی
میری آواز کو محفوظ رکھنا
عالمی شہرت کے حامل اردو زبان و ادب کے نامور استاد ،مستند محقق،زیرک نقاد، ممتاز دانشور اوریگانہء روزگار فاضل پروفیسر ڈاکٹر غلام شبیر رانا 13 اکتوبر 2024ء کو جھنگ میں دائمی مفارقت دے گئے ۔علم و ادب کا وہ آفتاب جہاں تاب جو 15 جنوری 1950ء کو جھنگ سے طلوع ہوا، پوری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے منور کرنے اور سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کے بعد 13/ اکتوبر 2024ء کو عدم کی بیکراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار ہے ۔دلوں کو مسخر کرنے والے اس عظیم استاد نے اردو تحقیق و تنقید کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ان کی المناک وفات سے اردو زبان و ادب کے طلبا اور اساتذہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں ۔اردو تحقیق اور تنقید کا یہ مرد آہن اپنی ذات میں ایک انجمن تھا ۔زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔ان کی وفات اتنا بڑا سانحہ ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر فروغ اردو کوششوں پر بھی مرتب ہوئے۔پوری دنیا کے علمی اور ادبی حلقوں میں ان کی وفات پر صف ماتم بچھ گئی ۔انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز گورنمنٹ کالج جھنگ سے لیکچرر کے طور پر کیا۔ اس کے بعد ایک طویل عرصہ لیکچرر سے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدہ تک پڑھایا۔بعد ازاں جب گورنمنٹ کالج فیصل آباد کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو وہ گریڈ بیس میں ترقی ملنے پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو کے اولین سربراہ بن کر آئے۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند سال قبل وہ گورنمنٹ کالج جھنگ ٹرانسفر کروا کر واپس اپنے آبائی شہر چلے گئے اور وہیں سے 15جنوری 2010ء کو گورنمنٹ کالج جھنگ سے ریٹائر ہوئے ۔۔اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں اپنی خدمات سر انجام دینا شروع کر دیں ۔ان کی قیادت میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو نے کامیابیوں اور کامرانیوں کے درخشاں باب رقم کیے ۔
وہ زندہ دل ، خوش مزاج ،خوش لباس ، ملنسار ، محنتی ،متحرک اور نہایت فعال انسان تھے۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو کے پہلے صدر شعبہ رہے۔کچھ عرصہ بعد واپس لوٹ آئے ۔ادبی رسائل اور جرائد میں تسلسل کے ساتھ آپ کے تحقیقی ،تنقیدی مضامین ،افسانے اور انشائیے چھپتے رہے۔ اردو میں مزاحمتی شاعری جیسے موضوع پر ایم- فل کی سطح کا کام کیا اور “کرنل محمد خان احوال و آثار ” کے موضوع پر پی ایچ- ڈی کا مقالہ لکھا۔ایم – فل اور پی ایچ ۔ڈی کی سطح کے بے شمار اسکالرز کے مقالات کے نگران رہے۔15 سے زائد کتب چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔بلڈ کینسر نے آ گھیرا۔ایک عرصہ اس موزی بیماری کا مقابلہ کرتے کرتے ا 13 اکتوبر 2024 کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔
انھوں نے مختلف یونیورسٹیز میں بے شمار طلبا اور طالبات کو ایم ۔فل اردو اور پی ایچ- ڈی کی تعلیم دی اور بے شمار ریسرچ سکالرز نے ان کی رہنمائی میں پی ایچ۔ڈی کے تحقیقی مقالے تحریر کیے جو کہ ان کا منفرد اعزاز ہے ۔ ؎
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
ڈاکٹر غلام شبیر رانا کا تعلق جھنگ کےایک متوسط خاندان سے تھا۔پورے علاقے میں انھیں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا ایک شریف النفس ، منکسر المزاج اور نیک طینت انسان تھے ۔ شرافت، خود داری ،انسانی ہمدردی ،خلوص اور علم دوستی مسلمہ تھی ۔ حقیقت میں وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے شخص تھے ۔ان کی خاندانی روایات جو انھیں ورثے میں ملیں ان کے مطابق ان کے مزاج میں ایک استغنا تھا ۔ وہ در کسریٰ پر صدا کرنے کے قائل نہ تھے بلکہ نان جویں پر ہی گزر بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ وہ خودی کو برقرار رکھ کر غریبی میں نام پیدا کرنے کا عملی نمونہ تھے ۔مشرقی تہذیب اور اردو زبان و ادب کا اتنا بڑا شیدائی میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔تہذیب اور زبان و ادب کے اعتبار سے وہ آفاقیت کے قائل تھے ۔ان کی تربیت ہی ایسے انداز میں ہوئی تھی کہ وہ انسانی مساوات کو اولین ترجیح دیتے ۔علاقائی ،لسانی ،نسلی اور دیگر امتیازات ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔انسانیت کا وقار اور انسانی حقوق کی پاسداری زندگی بھر ان کا نصب العین رہا۔کسی کو دکھ اور تکلیف کے عالم میں دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے اور مقدور بھر کوشش کرتے کہ ان دکھوں کا مداوا کر کے آسانی کی کوئی صورت تلاش کر سکیں۔غریبوں کی حمایت ،درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔ہوائے جور و ستم میں بھی وہ رخ وفا کو بجھنے نہ دیتے تھے۔ان کی زندگی شمع کی صورت تھی اور وہ اذہان کی تطہیر و تنویر کے لیے وقف تھی ۔وہ خود ایک قادر الکلام شاعر،شعلہ بیان مقرر، بلند پایہ مضمون نگار، افسانہ نگار اور ماہر تعلیم تھے اس لیے ان کے شاگرد ان کی فکر پرور اور بصیرت افروز رہنمائی میں بلند ترین منزلوں کی جستجو میں رواں دواں رہتے تھے ۔وہ خاک کو اکسیر کرنے اور ذرے کو آفتاب بنانے کے لیے اپنے خون جگر کی آمیزش سے ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر تھے ۔غبار راہ سے جلوہ ہا تعمیر کرنا ان کی ایسی کرامت تھی جس میں ان کا کوئی شریک اور سہیم نہ تھا۔۔ وہ ایک ماہر نفسیات تھے وہ دلوں کا سب احوال جانتے تھے ۔چہرہ شناسی میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔وہ خود مستحق طلبا کو دعوت دے کر اپنے ہاں ٹھہراتے اور ان کے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھتے ۔ان کے ہاں ہر طالب علم ایک اپنائیت محسوس کرتا اور کھل کر اپنے مسائل پر گفتگو کرتا۔ان کے خلوص اور بندہ پروری نے لاکھوں دلوں کو مسخر کر لیا تھا۔
ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی علمی فضیلت اور قابلیت کا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا۔۔۔۔۔ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی بے شمار کتب انٹرنیٹ پر مفت برقی کتب موجود ہیں ۔۔۔ڈاکٹر غلام شبیر رانا کا قلم ہر وقت رواں دواں رہتا تھا ۔۔وہ ایک ہم شخصیت کے مالک خوبصورت قلم کار تھے ۔الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے اور پھر وہ بس لکھتے چلے جاتے ۔۔انہوں نے ہر موضوع اور ہر صنف پر کھل کر اور خوب خوب لکھا ۔۔ایسے کثیر الجہاد ادیب میں نے خال خال دیکھے ہیں ۔
وہ زندگی میں رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھنے کے متمنی تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ زندگی کی حسین مرقع نگاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے ۔اہل قلم سے ان کی ہمیشہ یہ توقع رہی کہ وہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھیں اور تخلیق فن کے لمحوں میں حسن کاری سے ید بیضا کا معجزہ دکھائیں ۔اس طرح زندگی کی حقیقی معنویت کا اجاگر کرنے میں مدد ملے گی ۔انھیں اس بات کا شدید قلق تھا استحصالی عناصر ہمیشہ مکر کی چالوں سے سادہ لوح عوام کو جل دے جاتے ہیں اور۔غریب اکثر مات کھا جاتے ہیں ۔وہ سلطانی ء جمہور کے زبردست حامی تھے ۔وطن اور اہل وطن سے ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کا امتیازی وصف تھا ۔ارض وطن کے ذرے ذرے سے ان کو پیار تھا ۔وہ یہ بات ببانگ دہل کہتے کہ حب وطن ملک سلیماں سے بہتر ہے اور وطن کا خار سنبل و ریحان سے حسیں ہے ۔وطن کو وہ مادر وطن کہتے تھے اور اسی لیے کہ یہاں سے تمام شہریوں کے لیے بلا امتیاز راحت ،مسرت ،خوشحالی ،ترقی اور وقار کے سوتے پھوٹتے ہیں جن سے نہاں خانہ ء دل میں امیدوں کی فصل سیراب ہوتی ہے ۔مادر وطن کے خلاف الزام تراشی کرنے والوں سے وہ بیزار تھے اور یہ شعر اس حوالے سے پڑھتے تھے : تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے ہر ملنے والے کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے بھر پور رویہ اختیا کرنا ڈاکٹر غلام شبیر رانا کا معمول تھا ۔ عجز و انکسار ،صبر و تحمل اور شفقت ان کی طبیعت کا اہم پہلو سامنے لاتے تھے ۔ان سے مل کر واقعی زندگی سے والہانہ محبت ہو جاتی تھی۔وہ ہر حال میں راضی بہ رضائے الٰہی رہتے ۔ان کی زندگی میں بھی متعدد نشیب و فراز آئے ،کئی سخت مقام آئے مگر انھوں نے مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کا جو ارفع معیار قائم کیا وہ نہ صرف لائق صد رشک و تحسین ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں جب کہ اہل جور نے دروغ گوئی ،غیبت طرازی اور ایذا رسانی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے ایسے افراد کا وجود پروردگار عالم کا بہت بڑا انعام ہے جو دکھی انسانیت کے لیے سراپا فیض ہیں۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی زندگی بھی پروانے کی صورت تھی جو انسانی ہمدردی کی شمع پر نثار ہونے کے لیے بے قرار رہا اورکسی خوف کی پروا کیے بغیر سب کچھ اپنے ابنائے وطن پر نچھاور کر دیا ۔اگرچہ کم گوئی اور سنجیدگی ان کا شعار تھا اس کے باوجود کبھی کبھی وہ مسکراتے بھی تھے ۔ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپانے کی سعی کر رہے ہیں ۔ان کی مستحکم شخصیت ماحول اور معاشرے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور متنوع کیفیات سے ایک تعلق استوار کر لیتی ۔
اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر غلام شبّیر رانا رقم طراز ہیں ۔
“اردو زبان و ادب کی چالیس سال تک تدریس کے بعدجب میں ملازمت کو خیرباد کہہ کرگھر پہنچا تومیرے ہاتھ کے لکھے ہوئے تدریسی اشارے میرے کاغذات میں موجودتھے۔ لسانیات اور تاریخ زبان وادب سے متعلق یہ تدریسی اشارے میرے جواں سال بیٹے سجاد حسین نے خود کمپوز کیے اور انھیں اپنے جدید ترین ذاتی کمپیوٹر اور یو ایس بی میں محفوظ کر دیا۔ اِن تحریروں کی اشاعت اس کی دیرینہ تمناتھی مگر تقدیر نے ہم الم نصیب جگرفگاروں کو عجب امتحان میں ڈال دیا۔چھے جولائی دو ہزار سترہ کو سجاد حسین دائمی مفارقت دے گیا ۔ ہمارے گھر کے آنگن سے اجل کا لشکر گزرا تو پورا گھر غرقاب غم تھااور کسی کو کچھ ہوش ہی نہ تھا۔اس عرصے میں بروٹس قماش کے کئی آستین کے سانپ ہمیں کاٹنے کے لیے نکل آئے اور گھر سے قیمتی سامان غائب ہو گیا ۔ بہو کا بھیس بنا کر آنے والی ایک سارق نام نہادمحقق نے ہاتھ کی صفائی دکھائی اور متاعِ علم پر ہاتھ صاف کیا۔سجاد حسین کے عمدہ کمپیوٹر ( لیپ ٹاپ )،یو ایس بی کا کہیںسراغ نہ ملا ۔ دائمی مفارقت ینے والے میرے لخت ِ جگر نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے یہ تحریریں گوگل ڈارائیو میں محفوظ کر لی تھیں ۔پاس ورڈ اتفاق سے مل گیاہے یہ تحریریں میرے لخت جگرخورشید جمال سجاد حسین کی ایسی آخری نشانیاں ہیں جو تا ابد اُس کی سعادت مندی کی گواہی دیں گی ۔میری آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے ،روح زخم زخم اور دِل کرچی کرچی ہو چکاہے ۔اب ایک لفظ لکھنا بھی میرے بس سے باہر ہے ۔اللہ نگہبان فقیر غلام شبیر
اپنے بچپن کے حوالے سے ڈاکٹر غلام شبیر رانا رقم طراز ہیں ۔
یہ 1966کی بات ہے جب میں نے اپنے گائوں کے مڈل سکول سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔گائوں کے نزدیک کوئی ثانوی مدرسہ نہ تھا اس لیے میرے والدین نے مجھے جھنگ کے ایک بڑے ثانوی مدرسے میں جماعت نہم میں داخل کرایا اور اسی مدرسے کے دارالاقامہ میں میرے قیام و طعام کا بندوبست بھی کر دیا۔گائوںکے محدود ماحول سے نکل کر جب شہر کی پر ہجوم فضا میں پہنچا تو کوئی پرانا آشنا چہرہ دکھائی نہ دیا ،ہجوم غم میں دل کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہے۔اس بدلے ہوئے ماحول میںنئے دوستوں اور رفقائے کار کی تلاش تھی جو اس تنہائی میں ڈھارس بندھائیں اور گھر سے ساٹھ میل کی دوری اور پرانی یادوں کی گرفت سے نکال کر نئے زمانے نئے صبح و شام پید اکرنے کا حوصلہ دیں۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ دارالاقامہ میں مجھے ارشد علی خان ،عزیز احمد خان،پرویز اقبال ،محمد اسلم،غلام محمد سرگانہ ،ظفر اللہ خان اور محمد سرور جیسے دوستوں کی رفاقت میسر آئی۔ دارالاقامہ میںمولا بخش اور شمشاد جیسے کہنہ مشق باورچیوں نے گھر کے کھانوں کے مزے کی یاد بھلا دی او ر طعام کے ایک انوکھے ذائقے سے آشنا کیا۔ نامور ماہر تعلیم او ر ثانوی مدرسے کے سینئیر استادعبدالحلیم انصاری دارالاقامہ کے مہتمم تھے۔ان کے چھوٹے بھائی حبیب الرحمٰن میرے ہم جماعت تھے۔ اس کے باوجود ہم سب کا بھری محفل میں دل ہی نہ لگتا تھا ہر وقت کسی کی کمی محسوس ہوتی تھی ۔جماعت نہم کے داخلے جاری تھے اسی دوران دو نئے مقامی طالب علم کیا آئے کہ پوری جماعت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ان میں سے ایک کا نام غلام قاسم خان اور دوسرے کا نام محمد سلیم خان تھا ۔ان دونوں طالب علموں نے مڈل کے امتحان میں پورے ریجن میں علی الترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔یہ نئے ہم جماعت نہ صرف علمی سطح فائقہ پر فائز تھے بل کہ اللہ کریم کے فضل و کرم سے مالی اعتبار سے بھی مستحکم تھے۔اپنی خاندانی شرافت اور عظمت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ مقامی طالب علم ہر سہ پہر کو دارالاقامہ پہنچتے ،چند دوستوں کو ساتھ لیتے ا ور ہیر کے شہر لے جاتے۔ہم مل کر مطالعہ کرتے اور شام کا کھانا بھی اپنے ان دوستوں کے گھر سے کھاتے۔اس دوران مجھے محمد سلیم خان کے والد ڈاکٹر محمد کبیر خان اور غلام قاسم خان کے والد غلام علی خان چین سے ملاقات کا موقع ملا۔قدرتِ کاملہ نے ان دونوں بزرگوں کو خاک کو اکسیر کرنے اور غبارِ راہ سے جلوہ ہا تعمیر کرنے کی صلاحیت سے نوازا تھا۔ یہ بزرگ کردار اور وقار کا ہمالہ تھے جن کے فیضانِ نظر سے مقدر بدل جاتے۔ انھوں نے استحقاق سے کہیں بڑھ کر ہماری پذیرائی اور قدر افزائی کی ان کی شفقت سے آج بھی دامنِ دل معطر ہے۔وہ ہم سب کو اپنے بچوں کی طر ح عزیز رکھتے تھے اورہماری ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔