جمہوری ہندوستان میں 6 دسمبر کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس تاریخ میں سیکو لرزم شرمسار ہوٸ ، اس کی آبرو کو پامال کیا گیا ، اس کے تمام اصول و ضوابط کو تار تار کیا گیا، اور اس کی تمام حدوں کو پار کرکے اسے ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل کیا گیا، ہندوستان کی آزادی کے بعد جو آٸین تیار ہوۓ اس سے ایک نۓ دور کا آغاز ہوا جس کی پانچ خصوصیات ہیں ، پہلا وطن عزیز کی سالمیت یعنی جمہوریت“ دوسرا مذاہب کا احترام یعنی سیکولرزم “ اور تیسرا عوام کی حکومت یعنی سوشلزم “ اور پھر ری پبلک یعنی عوام کی گورنمنٹ“ اس آٸین نے بھارت کو سب سے بڑا جمہوری ملک بنادیا ، جسمیں قومیت اور شہریت نہ مذہب پر مبنی ہے ، نہ ذات پر اور نہ دولت پر بلکہ شہریت سکونت پر مبنی ہے ، ایک ایسی جمہوریت جہاں آزادی راے اور آزادٸ اختلاف ہے ، سیکولرزم کا دعوی یہ ہیکہ یہاں ہر شخص اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہے ، اور مذہب کی تمام چیزوں اور علامتوں کا احترام کیا جاتا ہے ، نہ اس کی عبادت گاہوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا جاٸیگا اور نہ اس کی تعلیم گاہوں میں دخل اندازی کی جاٸیگی ، لیکن 6 دسمبر کو سیکولرزم پر ڈکٹیر کا ایسا حملہ ہوا کہ جس سے اس کا وقار پاش پاش ہوگیا ، اور مذہب کے احترام کا سارا دعوی گندے نالی میں بہ گیا ، 6 دسمبر کی تاریخ میں ایسے ناگہانی واقعہ کا صدور ہوا جس کو دنیا آج تک نہیں بھلاسکی اور نہ بھلا پاۓ گی ، یوں تو کسی بھی مذہب کے تقدس کو پامال کرنا اور خاص طور سے اس کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا اور ان میں بھی ایسی عبادت گاہوں کو جسمیں اللہ کی عبادت کی جاتی ہو ، اس کے سامنے انسان گڑگڑاتا ہو ، عاجزی و انکساری دکھلاتا ہو ، ایسی پاک اور مقدس جگہوں کو مسمار کردینا کسی بھی ملک کی تاریخ کا سب سے سیاہ تاریخ ہے ، ہمارے ملک ہندوستان کی تاریخ میں وہ سیاہ تاریخ بھیھی موجود ہے ، جسمیں بابری مسجد کو شہید کیا گیاتھا ، اس کے عظمت و تقدس کو پامال کیا گیا تھا ، کہانی 1949 سے شروع ہوتی ہے جب اسمیں مورتی کو نصب کیا گیا تھا اور نماز پڑھنے پر روک لگادی گٸ تھی ، اسی تاریخ سے اس پر نگاہ رکھی گٸ اور وہیں سے سیکولرزم پر ڈکٹیٹر کا حملہ شروع ہوا ، آخر کار دنیا نے دیکھا کہ 6 دسمبر 1992 کو مسجد شہید کردی گٸ ، اور اس کو مندر میں تبدیل کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ، مسجد شہید ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سینکڑوں بے قصور جانیں اس میں ضاٸع ہو جاتی ہیں جو اس کی تحفظ و بقا کیلۓ آگے آۓ تھے ، 1992 سے یہ ایک متنازع مسٸلہ بن گیا جس کے پیچھے سیاست دانوں نے خوب سیاست کے گل کھلاۓ ، کٸ جانیں بھی گٸں ، یہ متنازع مسٸلہ پہلے الہ آباد ہاٸ کورٹ میں پہنچا وہاں سے کچھ اس طرح فیصلہ آیا کہ اس کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کردی گٸ ، ایک حصہ حکومت کے نام ، دوسرا حصہ مسجد کیلۓ اور تیسرا حصہ مندر کیلۓ مختص ہوا ، لیکن اس فیصلہ میں بھی سیاسی لیڈروں نے اپنی زور کا استعمال کیا اور اپنی قابلیت دکھاتے ہوۓ اس فیصلہ کو رد کیا اور اسے سپریم کورٹ تک پہنچادیا ، سپریم کورٹ میں یہ متنازع مسٸلہ ایک عرصہ دراز تک رہا جس کی مدت تقریبا 25 سے 30 سال تک کی ہے ، اس بیچ نہ جانے لیڈروں نے کیسے کسے گل کھلاۓ اور اس کے پیچھے خوب سیاسی فاٸدہ اٹھایا ، اس بیچ رہنماٶں نے اپنی اپنی راۓ بھی رکھی جو صلح کی شکل میں تھی حتی کہ سپریم کورٹ نے بھی کٸ بار صلح کی بات کی اور بھاٸ چارہ کے ساتھ اس قضیہ کو حل کرنے کیلۓ کہا لیکن شرپسند عناصر آڑے آۓ اور بھاٸ چارگی کے تمام راہوں کو مسدود کردیا ، آخر کار سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنانے پر مجبور ہوا اس نے بے انصافی کا ثبوت دیتے ہوۓ مسجد کے تمام ثبوت و شواہد کے باوجود 9 نومبر 2019 کو مندر کے حق میں فیصلہ سنادیا ، اس مسٸلہ کو حل کرنے کیلۓ چالیس دن لگے چالیس دن تک دونوں فریق آمنے سامنے رہے اور اپنے اپنے دلاٸل پیش کرتے رہے لیکن جب ڈکٹیٹر اور غنڈہ گردی کا حملہ ہو تو دلاٸل کسی کام نہیں آتے، پھر وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہۓ تھا ، اس فیصلہ نے پورے امت مسلمہ کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا اور پوری دنیا نے اس بے انصافی کا مشاہدہ کیا ، شاید دنیا کی یہ پہلی تاریخ ہوگی کہ جب ایک مسجد کو اس کے تمام شواہد کے باوجود مسمار کرکے مندر میں تبدیل کیا جاۓ گا ، مسجد تو شہید کردی گٸ لیکن اپنے پیچھے ایک عبرتناک سبق چھوڑ گٸ خاص طور سے مسلمانوں کیلۓ کہ جب مسلمان ہی مسجد سے دور ہو جاٸیں گے اور اس کے دل میں اس کی عظمت نہیں رہ جاۓ گی تو یقینی بات ہیکہ اس پر غیروں کا قبضہ ہوگا اور پھر بابری مسجد کی طرح اسے بھی بت خانہ میں تبدیل کیا جاۓ گا ، ۔
لہذا ہر مسلمان کیلۓ ضروری ہے کہ وہ اپنے مذہب پر مکمل طور سے عمل پیراہ ہوں اپنی مسجدوں اور عبادت گاہوں کو آباد کریں مسٸلہ ایک مسجد کا نہیں ہے بلکہ تین ہزار مسجدوں کا ہے جو ان کے شکنجہ میں ہے ، ان کو بچانے کی بس ایک ہی تدبیر ہے کہ اسے آباد کیا جاۓ ، یہ سیکولرزم اور یہ جمہوری ہندوستان نے اپنا رخ دوسری جانب موڑ لیا ہے جہاں انسانیں جانیں تیزی سے ضاٸع ہو رہی ہیں ، عصمتیں لوٹی جارہی ہیں ، گھروں کو ویران کیا جارہا ہے ، طرح طرح کے فسادات رو نما ہورہے ہیں ، شریعت میں دخل اندازی ہورہی ہے، اس لۓ بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور بابری مسجد کے اس قضٸیہ سے عبرت لینے کی ضرورت ہے “
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...