کیا خبردیں۔۔ اشفاق سلیم مرزا صاحب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔ علم و فکر کا ایک بڑا چراغ اپنی روشنیاں بکھیر کر بجھ گیا۔۔ ترقی پسند، پاکستان کی بالعموم اور اسلام آباد شہر کی بالخصوص روشن خیال فکری فضا۔۔۔۔ دھندلا گئی ہے۔۔ ان کے ساتھ میرا پچھلے 20 سال کا فکری دوستی کا رشتہ تھا۔۔ وہ شخص نہیں ایک استاد تھے، ایک انجمن تھے۔۔ ایک رونق تھے، نرمی، محبت اور خلوص ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔۔۔ اسلام آباد ویران ہوگیا۔۔۔ یہاں بہت سے لوگ چلے گے ہیں۔۔ یا ان لوگوں/دوستوں نے محفلیں سجانی چھوڑ دی ہیں۔۔
پاکستان تیزی سے ویران ہو رہا ہے۔۔۔ یہاں سیکولر، لبرل، ترقی پسند انسان دوست لوگ ختم ہو رہے ہیں۔۔ یہ جرنیلی اور ملا مافیا کا دیس بن کررہ جائے گا۔۔۔ کوئی سچ بولنے اور لکھنے والا نہیں رہے گا۔۔۔۔ یہ ایسی شخصتیں تھی۔۔۔ جن کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔۔۔
میں پچھلے 20 سال سے آج کا اسلام آباد دیکھتا ہوں۔۔۔۔ انٹیلیچوئل معنوں میں۔۔۔ تو مجھے تنہائی اور ویرانی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ پاکستان میں علمی تاریکیاں چھا رہی ہیں۔۔۔ اشفاق مرزا صاحب بہت کچھ لکھ گے۔۔ بہت دے گے ہیں۔۔ اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔ لیکن ایسے لکھنے والے تو ہر دور کی ضرورت ہوتے ہیں۔۔۔ ایسی انجمن ساز شخصتیں۔۔۔ معاشروں کے پھلنے پھولنے کی جان ہوتے ہیں۔۔۔
آہ اشفاق صاحب۔۔ کئی دنوں سے سوچ رہا تھا۔۔ آپ کو ملنے آنے کے لئے۔۔ چند دن پہلے۔۔ انہوں نے فون پر بات بھی کی۔۔ ان کے چلے جانے کا گمان ہی نہ تھا۔۔۔ نہ انہوں نے اپنی کسی ایسی بیماری کا ذکر کیا۔۔ جس سے ناگہانی موت واقع ہو جاتی ہو۔۔
بہرحال یہی زندگی ہے۔۔ جینے مرنے کا عمل تو جاری رہنا ہے۔۔ میں چند دن پہلے قاضی جاوید کی خبر پر ایک دوست سے کہہ رہا ہے۔۔کہ اب ہماری نسل اگلی صفوں پر کھڑی نظر آتی ہے۔۔۔ یہ وہ لوگ تھے۔۔ جن کے جانے کے بعد روشنی نہیں اندھیرے چھاتے ہیں۔۔۔ پاکستان ایک بدقسمت ملک اور بدنصیب معاشرہ ہے۔۔ جہالت اور لوٹ مار کی اتھاہ گہرائیوں میں تیزی سے گر رہا ہے۔۔ اس نے روشنیوں کو قبول نہیں کیا۔۔۔
“