ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے؟
فانی دنیا سے جب کوئی جاتا ہے تو اس خلا کو پُر کرنے کے لیے دوسرے آجاتے ہیں اور ان کا نعم البدل ملنے سے سوگوار دلوں کو تسکین میسر آجاتی ہے۔ آج جس شخصیت کے لیے میں لکھنے بیٹھا ہوں ان کے جانے کا بے پناہ دکھ تو ہے ہی لیکن یہ بھی دُکھ ہے کہ اب یہ خلا کبھی بھی پُر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان کا کوئی نعم البدل دکھائی دیتا ہے۔ یہ کتنی بڑی صاحبِ علم ہستی ہم سے جدا ہوئی ہے۔ اس کا احساس عام فرد کو نہیں بلکہ صاحبِ شعور کو ہی ہوسکتا ہے۔ اسے ہوسکتا ہے جس کے ہاں علم کی تشنگی ہو اور وہ اسے مٹانے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتا ہو۔ ایسے لوگ کسی ایک گروہ یا فرقےکا آثاثہ نہیں ہوتے بلکہ پورا عالمِ اسلام ان کے وجود سے برکات حاصل کرتا ہے۔
ابوالفصاحت ، سلطان العلما علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے قلم رُک رُک ساجاتا ہے۔ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ ان کی علمی، ادبی و تحقیقی خیرات سے علمی دنیا فیض پاتی بھی رہی ہے اور تاقیامت فیض پاتی بھی رہے گی۔
علامہ غضنفر عباس کو میں نے پہلی بار کب دیکھا؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ والد محترم مجھے اور میرے بھائی (علامہ ناصر عباس شہید) کو محرم کی مجلس سنانے کے لیے حویلی مرید شاہ، ملتان لے گئے۔ فضائل تو میری سمجھ سے بالا تر تھے اس لیے میں تو بابا کی گود میں ہی سوگیا لیکن جب قبلہ نے مصائب میں شہزادہ علی اصغرؑ کی شہادت کا تذکرہ کیا تو سامعین کی آہ و بکا سے میری آنکھ کھل گئی اور میں زار و قطار رونے لگا۔ یہ شہادت ہے ہی ایسی پُردرد کہ ہر دل پہ اثر پذیر ہوتی ہے۔ قبلہ کی تصویربھی میری آنکھوں میں بس گئی کیونکہ عام طور پر جو علماء کی وضع قطع ہوتی ہے اس سے مختلف انداز کو دیکھ کر حیرت بھی ہوئی لیکن اچھا بھی لگا، وہ اس لیے کہ عوام سے عوامی انداز سے مخاطب ہونے والا میری نظر میں یہ پہلا عالم و خطیب تھا۔ نہ سر پر عمامہ نہ جناح کیپ اور نہ ہی شیروانی، گریبان کا دوسرا بٹن بھی گرمی کی وجہ سے کھلا ہوا۔
ملتان کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ علامہ غضنفر عباس نے اس علاقے کو بہت وقت عطا کیا۔ ہزاروں مجالس یہاں پڑھیں اور الحمد اللہ مجھے قبلہ کی اَن گنت مجالس نہ صرف سننے کا موقع ملا بلکہ میں نے اُن مجالس کو کتابی صورت میں ڈھالنے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔
علامہ نے مخدومۂ عالمین حضرت بی بی فاطمہؑ کے موضوع پر ایک خمسہ محلہ جوادیہ (النگ) ملتان میں پڑھا۔ آخری مجلس کے بعد میں نے عرض کی قبلہ میں یہ تقاریر شائع کرنا چاہتا ہوں، متبسم ہوئے اور کہا نام ’’الکوثر‘‘ رکھنا۔ کتاب جب چھپی تو بے حد خوش ہوئے۔ اس کتاب کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ پاکستان کے علاوہ ایران اور ہندوستان میں بھی اس کے کئی اڈیشن شائع ہوئے۔ اس کتاب میں قبلہ ہی کے حکم پر کاظمی ہاوس (گل گشت ملتان) میں بھی پڑھے جانے والے خمسے کو بھی شامل کیا گیا۔ قبلہ کی مجالس کی دوسری کتاب ’’حقیقتِ محمدیہؐ‘‘ کے عنوان سے شائع کی۔ یہ مجالس قبلہ نے لاہور میں پڑھی تھیں۔
ویسے تو قبلہ کی ہر مجلس بلکہ ہر جملہ ہی نایاب ہے لیکن ٹمبر مارکیٹ(ملتان) میں ’’قائم الِ محمدؐ‘‘ کے عنوان سے پڑھے جانے والے عشرے ایک ایسا علمی خزانہ ہیں، جس سے اہلِ علم و ادب صدیوں مستفید ہوتے رہیں گے۔
علامہ کی خطابت کا اسلوب نہایت دلکش اور منفرد تھا۔ قرآن سے بات شروع کرتے اور علومِ محمدؐ وال محمدؐ کی روشنی میں اپنے موضوع کی شرح انتہائی گہرائی اور گیرائی سے کرتے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے اور اتنی داد دیتے جس کا تصور بھی کوئی دوسرا اہلِ منبر نہیں کرسکتا۔
بہت سی صاحبِ مطالعہ شخصیات سے میرا ملنا ہوا لیکن کتاب دوستی جو ان کے ہاں دیکھی وہ کہیں اور کم کم ہی دکھائی دی۔ دنیا بھر میں جہاں بھی جاتے واپسی پہ نادر و نایاب کتابیں ہی ڈھونڈ لاتے۔ میں نے ایسی ایسی خستہ حالت ذاتی لائبریریوں میں قبلہ کو بچشم خود اپنے مطلب کی کتابیں تلاش کرتے دیکھا کہ جب باہر نکلے تو پورا جسم گرد آلود تھا۔ قبلہ کی اپنی لائبریری بھی پاکستان کی بڑی لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے۔
علامہ کی تمام تر زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ مجالس کی لیے اپنا ہر ایک لمحہ وقف کیے رکھا۔ بڑی بڑی رکاوٹوں کو خندہ پیشانی سے عبور کیا۔ لوگوں نے ان کے خلاف بہت سے محاذ کھولے لیکن انہوں نے صرف و صرف علم و عرفان ہی کا چراغ جلائے رکھا اور اپنے مخالفین کا تذکرہ کرنا بھی شایانِ شان نہ سمجھا۔
عالم و خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ قبلہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ عشرہ قائم آل محمدؐ کی آخری مجلس میں اپنے اشعار پڑھتے اور خوب داد سمیٹتے۔ ان طویل قصیدوں میں سے ایک مصرعہ اہلِ نظر کی نذر
ععیسیٰؑ ترا بیمار ہے، یوسف ترا گھائل
ان تمام قصائد کو ان کے بھانجے علامہ ناصر سبطین ہاشمی نے کتابی صورت میں بھی شائع کیا۔ ایک ملاقات میں، میں نے ان سے ان کے پسندیدہ لکھاری کا پوچھا تو کہا کہ مجھے افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی کا اسلوبِ نگارش پسند ہے پھر میں نے ابوالفضل کی بہت سی کتابیں انہیں تلاش کرکے دیں تو مسکراتے ہوئے وصول کیں۔
ایام عزا میں تو کالا لباس ہی ہوتا لیکن باقی دنوں میں ہمیشہ انہیں نئے لباس میں ہی دیکھا۔ ہر رنگ کا کپڑا انہیں جچتا تھا جشن کے موقعوں پر تو وہ دُلہا دکھائی دیتے۔
فرقہ واریت اور دل شکنی کے مضامین سے ہمیشہ دور رہے۔ علومِ محمدؐ والِ محمدؐ کا پرچار ہی زندگی کا واحد مقصد بنائے رکھا۔ ہر مجلس نیا اور اچھوتا مضمون لیے ہوئے ہوتی۔ میں نے پوچھا اتنا علم کیسے پایا؟ تو جواب دیا، میں اس دروازے سے وابستہ ہوں جہاں علم کی خیرات تقسیم ہوتی ہے۔
بہت دل تھا کبھی ان کے گھر (بہاولپور) جاکر بھی ان سے ملوں ان کے کتب خانے کو دیکھوں جہاں دنیا بھر کی کتابیں موجود ہیں۔ قبلہ سے علمی و ادبی مکالمہ ہو، ان سے ان کے بارے میں ڈھیروں سوالات کروں۔ لیکن ان کی مصروفیت کا خیال آتا تو یہی سوچ کر اپنا ارادہ تبدیل کرلیتا کہ میں اتنی دور بھی جاؤں، اور وہ اگر گھر پہ نہ ہوئے تو میرا سارا سفر رائیگاں جائے گا لیکن آج میں کم نصیب ان کے جنازے میں جارہا ہوں۔ وہ یقیناً گھر پہ ہونگے میرا سفر رائیگاں نہیں جائے گا۔ لیکن ان کے کتب خانے میں ان کے ساتھ بیٹھ کر مکالمے کی حسرت، دل میں ہی رہ جائے گی۔
؎اس خامشی کو توڑ خطابت سُنا ہمیں
منبر پہ چھا گئی ہے اُداسی ترے بغیر
تحریر : پروفیسر شاہد عباس