عابد جمیل عابد بھی ہماری بزمِ وفا سے کوچ کر کے عدم کی بے کراں وادیوں کو سدھار گئے۔ علم و ادب کا وہ آفتاب جو فیصل آباد میں طلوع ہوا۔ ۔8/ اگست 2020ء ہفتہ کی صبح فیصل آباد میں غروب ہو گیا۔ عابد جمیل عابد کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل دہل گیا اور آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔۔خوبصورت شاعر اور نفیس انسان اردو اور پنجابی ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے والے اس لافانی ادیب کی رحلت ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے ، جس کی تلافی ممکن ہی نہیں ۔ ان سے مل کر زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس ہوتاتھا اور زندگی سے محبت کے جذبات کو نمو ملتی تھی ۔ اس روشن دماغ کی دائمی مفارقت کے سانحے پر شہر کا شہر ہی سوگوار ہے ۔ جامعہ سلفیہ اسلامیہ حاجی آباد ، فیصل آباد کے سامنے قبرستان میں ان کا نماز جنازہ ادا کیا گیا ۔ اور حاجی آباد میں واقع شہرِ خموشاں کی زمین نے اُردو زبان کے عظیم شاعر ،انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے جدوجہد کرنے والے دانش ور ، انسانی ہمدردی کے پیکر ،اخلاق اور اخلاص کی مجسم صورت اور حکمت و دانش کے آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں نہاں کر لیا ۔ اُردو اور پنجابی زبان و ادب کی تخلیقی نثر اور شاعری کے حوالہ سے ایک فطین اور روشن دماغ فرشتہء اجل کے بے رحم ہاتھوں سے زمین بوس ہو گیا ۔۔۔
عابد جمیل عابد کی شاعری نوجوان نسل کی ترجمان ہے ان کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ایک اچھی شاعری میں موجود ہونی چاہیے ۔ان کے ہاں شعر کامل ریاضت کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے وہ اپنے اشعار کو تجزیاتی کھٹالی میں سے گزارتے ہیں ۔۔ان کا مشاہدہ ان کے تجزیے کی بنیاد بنتا ہے تشویش اور تشکیک نسل نو کے مسائل ہیں ،وہ اپنے آپ کی دریافت کے قریب سے بھی گزارتے ہیں ان کی شاعری میں ایک دل کش سا رچاؤ اور دلنشیں سبھاؤ موجود ہے ،جو اسے پرتاثیر بناتا ہے ۔۔
اپنے شعری مجموعہ "فصل گل ہے آگئی"میں عابد نے کوئی انوکھی عجیب یا انہونی بات نہیں کی ،اس نے نا ہی پاتال سے باہر نکالنے یا آسمان سے تارے توڑ لانے کی بات کی ہے بلکہ ایک عام انسان کی طرح عام فہم اسلوب میں اپنی محبت کے تذکرے ،چاہت کے قصے، ہجر و فراق کے دکھ، ماحول کی داستان خاک سے جنم لینے والے واقعات اور سچائیوں کا اظہار کیا ہے ۔اس کی مووی والموضوعۃ وہی ہے جو ایک عام آدمی سوچتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ وہ سوچتا ہے تو اسے دوسروں کے ساتھ شئیر بھی کرتا ہے اس کے پاس لفظوں کے جوڑ توڑ سے بات کو خوبصورت بنا کر آگے پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے۔۔اور جسے وہ جانتا ہے اس نے جن مضامین کو شعر و سخن بنایا ہے ان میں ایک طرف دل برداشتگی اور نا امیدی کا اگر اظہار ہے جس سے وہ کچھ یوں بیان کرتا ہے۔۔
مری ساری کتابیں بھیج دو بابا
اکیلا بھوک سے تو لڑ نہیں سکتا
مری قسمت میں مزدوری ہی لکھی ہے
کسی صورت بھی اب میں پڑھ نہیں سکتا
خواہشوں کا پورا نہ ہونا یا اسحتصال طبقہ کا پورا نہ ہونے دینا ایک ایسا المیہ ہے جو ماضی بعید سے چلا رہا ہے یہ حسرتیں، خواہشیں،حرماں نصیباں ہنوز موجود ہیں۔۔ مسائل کی غلط اور غیر منصفانہ تقسیم کو عابد جمیل عابد ایک المیہ قرار دیتا ہے۔۔ جو کہہ اٹھتا ہے ۔۔
دل میں لے کر ارماں کتنے
مر جاتے ہیں انسان کتنے
عابد جمیل عابد نے اپنی شاعری میں خوبصورتی ردیفوں میں بڑے اچھؤتے مفاہیم نکالے ہیں۔ان کی ردیفوں میں اب تلک، مت دہراؤ ، کہانی ،دیکھنا ،سائے میں، ہے بھائی ،آج بھی ،خاموش ہے ،چپ رہو، شہر میں، پڑھ کر، ٹھیک ہے ، سوچ لو ، مار ڈالے گی ،نہیں کوئی ،کر دے گی ،کیسا ہے ،ہو جائیں گی ،کرتے رہو وغیرہ شامل ہیں ۔۔۔۔۔جو اس جدت شوق اور شدت احساس کی غماز ہیں اور اس کے موضوعات کی ترسیل کا ذریعہ بنتی ہے۔ عابد جمیل عابد نے اپنی شاعری میں مزدوروں ،کسانوں اور محنت کشوں کے مسائل بھی بیان کئے ہیں اور ان حالات و جذبات کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیا ہے ۔۔
اگر پڑھنا ہے تو لہلہاتی کھیتاں پڑھ
سناتی ہے یہ محنت کش کسانوں کی کہانی
منیر نیازی نے تو حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ ہونے کی بات کی تھی لیکن آج کا دور اس سے بہت آگے جاچکا ہے اب گھر میں بیٹھی مائیں سہمی رہتی ہیں کہ مزدوری ہوگیا بیٹا خدا جانے صحیح سلامت واپس آئے گا یا کوئی بھیانک اور منہوس خبر سننے کو ملے گی ،عابد جمیل آباد اس حوالے سے شہروں میں خوف و ہراس کی کیفیت ،موت کے مہیب سائے ،امن کا فقدان ،ان تمام عوامل کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں ۔۔
بوڑھی ماں کے سامنے بیٹھا رہو
چاند میرے کیا رکھا ہے شہر
عابد جمیل عابد نے اپنی شاعری میں حقیقت نگاری کا اعلیٰ ترین معیار پیش کیا ہے ۔ان کی شاعری تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی مظہر ہے اس لیے اس کا مطالعہ کرتے وقت تاریخی تناظر پر بھی نظر رکھنی چاہیے ۔یہ بات درست ہے کہ انھوں نے بالعموم زندگی کے تضادات کو موضوع بنا کر حریت فکر کا علم بلند رکھنے کی سعی کی ہے ۔وہ افراد اور معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر بہ یک وقت نگاہ ڈالتے ہیں ۔اس عمل میں وہ تعمیری اور اصلاحی پہلو کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں ۔حرف صداقت لکھنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا ۔ان کی شاعری کے موضوعات آفاقی نوعیت کے ہیں جن کا جغرافیائی حدود سے کوئی تعلق نہیں ۔سارے جہاں کا درد ان کے جگر میں سمٹ آیا ہے ۔ان کی شاعری میں قلبی ،روحانی اور وجدانی کیفیات کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔۔حالات کے تھپیڑوں سرد و گرم زمانہ اور زندگی کے نشیب و فراز نے عابد جمیل عابد کی شاعری میں پختگی ،شیفتگی شائستگی اور تازگی پیدا کر دی ہے ۔اس نے مسلسل ریاضت اور پیہم مشق سے شاعری کی روایت کو اپنےاندر سمویا ہے۔۔شاعری کی باریکیوں اور اسرار و رموز کو جہد مسلسل سے کشید کیا ہے ،اپنے تن کا سیروں لہو خشک کیا' تب کہیں جا کے یہ صورت پیدا ہوئی۔۔۔انہوں نے اپنی سوچ اور فکر کو اشعار کے سانچے میں ڈھالا ہے اور اپنے ڈکشن اور اپنا لب و لہجہ اپنایا ہے۔۔۔مستعار لی ہوئی سوچ اور بیگانے لہجے میں اس نے بات نہیں کی ۔۔عابد جمیل عابد نے اپنے احساسات و محسوسات اور کیفیات کو شاعری کا روپ دیا ہے ۔۔مگر انداز اپنا ہے ۔۔اس نے کسی کی پیروی اور تقلید سے اس کو زنگ آلود نہیں ہونے دیا.. دکھی انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کرنے والاادیب ہماری بزم وفا سے کیا اُٹھا کہ در و دیوار حسرت و یاس کی تصویرپیش کر ر ہے ہیں۔اس کی رحلت کے بعد درد کی جو ہوا چلی ہے اس کی وجہ سے تنہائیوں کا زہر رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ عابد جمیل عابد کے الفاظ زندہ رہیں گے۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے وہ اندھیروں کی دسترس سے دُور سدا روشنی کے مانند سر گرم ِ سفر رہے گا ۔اس کا ہر نقش ِ پا ہمالہ کی رفعت کا مظہر ہے ۔اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس زیرک تخلیق کار کے افکار میں سمندر کی سی بے کرانی تھی۔ عابد جمیل عابد کا سدا بہار اسلوب اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔۔۔۔۔۔
پروین شاکر نے سچ کہا تھا :
مر بھی جائوں تو کہاں لوگ بُھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، میرے ہونے کی گواہی دیں گے
“