آج وہ بہت پُر ملول تھی کیوں کہ اُس کی دادی اماں وفات پا گئیں، وہ دادی اماں جو ہمیشہ ہر غم میں اُس کی ڈھارس بندھاتی تھی اور کبھی بھی اُسے غمزدہ نہیں ہونے دیا ،اپنے گھر میں رہتے ہوئے جب بھی اُس کے والدین یا کسی بہن، بھائی نے ڈانٹا تو فوراً دادی جی کے پاس چلی جاتی اور دادی جی اُسے سمجھاتی کہ بیٹا یہ سب تیرے اپنے ہیں، تیرے بھلے اور اچھے کیلئے تجھے ڈانٹ دیتے ہیں اِن کی باتوں کا بُرا نہ منایا کر اور پھر دادی کوئی نہ کوئی چٹکلا سنا دیتی اور اُس کا جی بہل جاتا، اِس کی بعد جب نگہت کی شادی ہوئی اور اُس کے شوہر سے اُس کی نہ بن سکی کیونکہ ہر رات وہ نشے میں دھت لوٹتا اور اُس بیچاری پر طرح طرح کے تشدد کرتا تھا وہ آفت کی ماری اگر سسر، ساس کو کچھ کہہ بھی دیتی تو وہ لوگ بھی اسی کو قصور وار ٹھہرا دیتے اور یہ کرماں والی اکیلے میں رو دھو کر چپ ہو جاتی اور کر بھی کیا سکتی تھی مگر ایک رات تو ظلمت کی انتہا ہو گئی جب اس کا شوہر نشہ کر کے گھر آیا تو اُس کے ساتھ اُس کے آوارہ دوست بھی تھے سب نے مل کر اس پہ تشدد کیا اور وہ سوائے چیخنے چلانے کے کچھ نہ کر پائی، اس کے شوہر میں کوئی بیماری تھی جس کی وجہ سے نگہت کے اولاد نہیں ہوئی اور طعنہ زنی کا شکار بھی وہی بنی کیونکہ اس کے سسرالیوں نے اُسے شبانہ روز یہ کہہ کر ذلیل کرنا شروع کر دیا کہ یہ ہے ہی کوئی آفت کی ماری۔۔۔آخر ایک دن سب نے مل کر رات کے وقت اُسے گھر بدر کر دیا وہ کسی ہمسائی کو ساتھ لے کر اپنے میکے پہنچی مگر میکے والوں نے اسی کا قصور گردان کر اسی کو دھتکارا تو دادی اماں ہی اس کا سہارا بنیں اور سب کو سمجھایا کہ ہماری نگہت بُری ہے نہ اِس کے کرم پھوٹے ہیں بس جہاں بیاہی گئی ہے وہ لوگ بھیڑیا صفت ہیں اور یوں اللہ اللہ کر کے اُس کی جان چھوٹی، وہ چشمِ پُر نم لیے بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ دادی کے رخصت ہونے کے بعد اب اُس کا کوئی سہارا ہی نہیں رہا کہ اچانک اُس کے کندھوں پر اُسے نرماہٹ محسوس ہوئی، مڑ کر دیکھا تو اُس کے ابو سامنے کھڑے تھے پہلے تو اُن کے گلے لگ کے خوب روئی، پھر لب گویا ہوئی کہ ابو اب میر ا کیا بنے گا؟ میں کہاں جاؤں گی؟ ابا میرا بھی گلا گھونٹ دو تا کہ میں بھی دادی کے ساتھ چلی جاؤں، اس کے ابو نے کہا کہ بیٹا، ہم سب بھی تو تیرے ہیں، ہم تجھے کیوں اکیلا چھوڑیں گے، یہ سُن کر اُسے تھوڑی تشفی ہوئی اور اُس نے رونا بھی بند کر دیا، چند دن بعد اُس کے ابو اُسے سسرال چھوڑ آئے اور اُن لوگوں کو یہ دھمکی بھی دی کہ اب میری بیٹی کو آپ کے بیٹے یا آپ میں سے کسی نے تھوڑی سی ایزہ بھی پہنچائی تو میں اِسے لے کر پولیس اسٹیشن جاؤں گا اور کیس کروا دوں گا ساتھ ہی آپ کو نکاح میں لکھا گیا سب کچھ دینا پڑے گا، جس سے وہ لوگ تھوڑا دبک گئے اور نگہت کو تنگ کرنا بھی بند کر دیا پھر ایک دن نگہت کے شوہر نے شراب بہت زیادہ پی لی اور گاڑی کے نیچے آ گیا جب اُس کے گھر والوں کو اِس سانحہ ارتحال کی خبر ملی تو انھوں نے پہلی بات ہی یہی کی کہ بس ہم نہ کہتے تھی کہ یہ تو ہے ہی آفت کی ماری، بس اب تو اُن لوگوں نے جیسے قسم کھا لی کہ نگہت کو اپنے گھر میں ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کر سکتے اور رات کے وقت ہی اُس بیچاری کو گھر سے چلتا کیا، پھر اِس نے بھی والدین کے گھر میں مستقل رہن بسیرہ ہونے کا ارادہ کر لیا، اپنے گھر میں آئے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ اُس کے دادا جی بھی داغِ مفارقت دے گئے بس اب تو اہلِ محلہ نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ یہ لڑکی، واقعی، ہے ہی آفت کی ماری، پہلے یہاں تھی تو دادی مری وہاں گئی تو شوہر مر گیا، پھر اب اِدھر لوٹی تو دادا جی بھی چل بسے، وہ سب سے چھپ کر اندر کمرے میں جا کر خوب روئی اور اپنی مرگ کی دعا کرنے لگی اب اُس کی ماں نے آ کر سمجھایا کہ بیٹا دل غمگین نہ کرو، اور نہ مرنے کی دعا کر، سب اللہ کی کرنی ہوتی ہے، بندے کا اُس کے معاملات میں کیا دخل، چند دنوں کے بعد نگہت کے ابو نے نگہت سے کہا کہ چلو آج بازار سے کچھ خریداری کر کے آتے ہیں تُم بھی اپنے لیے کپڑے وغیرہ خرید لینا یہ کہہ کر دونوں باپ بیٹی چل پڑے، بازار سے واپسی پر موٹر سائیکل ایک ٹرالی سے ٹکرائی اور اس کے بعد اس کے ابو کا کنٹرول موٹر سائیکل پہ نہ رہا اور وہ ٹرالی کی طرف گرے اور ٹرالی کا ٹائر اُن کے اوپر چڑھ گیا اور یوں موقع پر ہی اُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی، وہ جس طرف گری اُس طرف کچی تھی اُسے تھوڑی بہت چوٹیں آئیں مگر جان بچ گئی، جب اُس کے ابو کی میت گھر لوٹی تو علاقے میں کہرام مچ گیا اور تمام لوگوں نے یہی کہنا شروع کر دیا کہ یہ تو حقیقت میں ہے ہی آفت کی ماری، ایک اور جان کا بھی خاتمہ ہوا اس کی وجہ سے، ورنہ یہ تو ٹرالی کی سمت گر سکتی تھی مگر سچ کہتے ہیں کہ آگے بھی اچھے لوگوں کی پہلے ضرورت ہے اور یہ ٹھہری آفت کی ماری، کلموہی، اُس کے اپنے گھر والوں نے بھی اُسے بدقسمت، منحوس کہنا شروع کر دیا ،اس صدمے کو وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی اس لیے ایک رات خود کو ختم کرنے کا ارادہ کیا اور گھر سے بھاگ کھڑی ہوئی، قریبی نہر میں چھلانگ لگا دی تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھلیں تو سمجھی اگلے جہان پہنچ گئی ہے مگر آنکھیں کھول کے دیکھتی ہے تو وہی گاؤں کے لوگ اور اُن کی زبان پہ وہی الفاظ کہ یہ آفت کی ماری اگر اس نہر میں ڈوب کے مر جاتی تو کبھی اس کے پانی سے فصلیں تیار نہ ہوتیں اور ہمارے ہرے بھرے کھیت بھی اجاڑ دیتی اس نہر کو شکر ہے کہ ہم نے بچا لیا ہے اور اب اِسے کسی سنسان علاقے میں چھوڑ آؤ تا کہ یہ اپنی موت آپ ہی مر جائے، وہ لوگ اسے ایک ویران و سنسان علاقے میں چھوڑ آئے، نگہت کو بہت ڈر لگ رہا تھا اور اُس کیلئے پہلی پانچ چھ راتیں بہت قیامت کی تھیں مگر آہستہ آہستہ اس کا جی اس سنسانے سے لگتا گیا وہ قریب کی نہر سے پانی پیتی اور کبھی قریبی گاؤں سے روٹی مانگ کر کھا لیتی اور کبھی پتے کھا کر گزارا کرتی اور کبھی پھل وغیرہ جو بھی ہوتا، ایک دن اُسے گاؤں میں ایک ادھیڑ عمر شخص ملا جس نے اُسے اپنا نام خالد بتایا اور نگہت سے اُس کی روداد سنی، نگہت کی داستان سُن کر خالد کی آنکھیں بھر آئیں، اُس نے نگہت سے استفسار کیا کہ اس نےکچھ پڑھا لکھا بھی ہے تو نگہت نے کہا کہ بی ایس سی تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد شادی ہوئی اور پھر حالات کی کایا ایسے پلٹی کہ پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئی وہ اسے اپنے گھر لے کے گیا، گھر والوں سے نگہت کا تعارف کرایا اور نگہت سے کہا کہ اُس کی بی ایس سی کی ڈگری درکار ہے نگہت نے کہا کہ ہے تو مشکل پر آپ اگر گاؤں والوں سے چوری چھپے مجھے گھر لے جائیں تو کچھ ہو سکتا ہے ایک رات وہ نگہت کے گھر گئے، نگہت کے گھر والوں میں سے کسی نے اُس کے ساتھ سلام تک لینا گواا نہ کیا اور بس یہی کہا کہ جو اسے آفت کی ماری کو چھو لے گا پھر اُس کی موت یقینی ہے، وہ روتی ہوئی ڈگری لے کر خالد کے ساتھ روانہ ہوئی، خالد نے اُسے ایک ہسپتال میں نرسنگ کا کورس کروانے واسطے داخلہ دلوا دیا اور شام کے وقت ایک پرائیویٹ ادارے میں نوکری دلوا دی یوں وہ اپنا گزر اوقات کرنے لگی اور سکون سے رہنے لگی،دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں مہینے سالوں میں بدل گئے اور نگہت ترقی کرتی کرتی ایک بڑی ڈاکٹر بن گئی،ایک دن وہ گہری سوچ میں گُم تھی کہ خالد کی اچانک موجودگی نے اُسے چونکا دیا ،اُس نے دوپٹہ صحیح کرتے ہوئے خالد سے پوچھا، آپ کب آئے؟ خالد لب جو ہوا کہ میم بس ابھی آیا جب آپ کسی سوچ میں مستغرق تھیں، دنیا و مافیا سے بے خبر، خالد عمر میں اُس سے کافی چھوٹا تھا اور وہ بھی ڈاکٹر تھا، ایک سلجھا ہوا، نیک دل اور نیک سیرت لڑکا تھا، اُس نے کہا کہ میم ایک بات پوچھوں آپ ناراض تو نہیں ہو جائیں گے اُس نے نفی میں سر ہلایا کہ نہیں ناراض کیوں ہونا ہے، خالد نے دریافت کیا ک میم آپ نے دوسری شادی کیوں نہیں کی؟ حالانکہ آپ ابھی جوان ہیں اور پُرکشش بھی، وہ بولی کہ خالد سب کہتے ہیں کہ میں بہت منحوس ہوں جس کے پلو سے بندھتی ہوں اُسے اجاڑ دیتی ہوں، سچ پوچھو تو تم میری زیست نہ بدلتے تو میں بھی اپنے بارے میں یہی گمان کرنے لگی تھی کہ واقعی میں بہت ابھاگی ہوں، خالد نے فوراً اس پر گرہ لگائی کہ جب زندگی بدل ہی دی ہے تو پوری طرح نہ بدل دوں، نگہت بولی میں کچھ سمجھی نہیں، خالد نے کہا کہ کیوں نہ ہم ایک ہو جائیں؟ وہ شرما کے دوڑی دوڑی اندر چلی گئی اور خالد سے کہا کہ جانا نہیں میں چائے لے آتی ہوں، اُن دونوں کا سادگی سے نکاح ہوا اور خوش و خرم رہنے لگے، سال بعد اللہ نے انہیں چاند سا بیٹا عطا کیا.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دن اُس کا چھوٹا بھائی اُس کے ہسپتال میں آیا اور نرس سے پوچھا کہ آپ کی بڑی ڈاکٹر کون ہیں مجھے اس سے مشورہ کرنا ہے نرس نے نگہت کے کمرے کی طرف اشارہ کر دیا وہ جب اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ نگہت ڈاکٹر صاحبہ والی کرسی پہ براجمان ہے پوچھا کہ ڈاکٹر کدھر ہے اور تُو منحوس شکل لیے یہاں کیا کر رہی ہے، او اچھا!! یہاں جھاڑو وغیرہ دیتی ہو گی، مجھے واپس لوٹ جانا چاہئے کیونکہ تو جو مل گئی ہے اب فتح کہاں، اسے من ہی من میں بہت افسوس ہوا کہ اور کے اپنوں کی سوچ ابھی بھی رتی برابر نہیں بدلی، اسے بھائی کی باتیں سُن کر بڑا قلق ہوا، وہ بولی بڑی ڈاکٹر تو آج چھٹی پر ہیں مجھے بتاؤ کیا مسلئہ ہے میں بھی جھاڑو دیتے دیتے میم کی باتیں اور ہر مرض کی دوائیاں سنتی ہوں شاید کچھ کر دوں،بھائی غصہ میں اور نفرین بھیجنے والے لہجے میں بولا کہ بس بس میں نے کسی اور مروانا نہیں ہے، اس نے بڑی منت سماجت کی تو آخر اس کے بھائی نے مسلئہ بتایا اور اس نے دوا لکھ دی اور ہفتے بعد پھر آنے کا کہا، ہفتے بعد جب یہ آیا تو بہت خوش تھا اور کہنے لگا کہ نگہت اب امی بالکل ٹھیک ہیں اور میری بیوی بھی اب پہلے سے بہت بہتر، پر نگہت پورا گاؤں اس وبا۶ یعنی ڈینگی کی لپیٹ میں ہے کیا کریں؟؟ سب غریب لوگ ہیں اپنی میم سے کہو کہ مناسب قیمت میں انہی دوائیوں کا سب کیلئے بندوبست کر دے، نگہت نے کہا کہ بھیا تم جاؤ اگر میم مان گئیں تو دوائیاں پہنچ آئیں گیں، اگلے دن دوائیوں کا ایک رکشہ گاؤں میں پہنچ گیا نرسوں نے گاؤں والوں کو میم کا ،پیغام دیا کہ میم کا حکم ہے جب آپ سب ٹھیک ہو جائیں تو اُن سے ملنے آئیں، بس یہی اس دوائی کی قیمت ہے، دو ہفتے بعد سبھی گاؤں والے پھولوں کے ہار لیے ہسپتال آ وارد ہوئے، ہر ایک کی زبان پہ تھا کہ ہم نے اپنی مسیحا ڈاکٹر میڈم سے ملنا ہے، اتنے میں نگہت باہر نکلی، ایک دم سب کے منہ سے نکلا یہ آفت کی ماری ادھر کیا کر رہی ہے؟؟ پیچھے سے نرس نے آ کر کہا کہ میم جو دوائی آپ نے گاؤں میں اپنے خرچے سے بھجوائی تھی وہ ان گاؤں والوں کو مل گئی ان سب کو افاقہ ہو گیا اورآج یہ آپ کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں، گاؤں والوں یہ سُن ہکا بکا رہ گئے کہ یہ آفت کی مای اور ڈاکٹر؟ وہ بولی کہ گاؤں والوں اس آفت کی ماری سے مل کے جانا اور چائے پی کے جانا، اور میرے خاندان والو تیار رہنا کیونکہ میں نے اگلے ہفتے گاؤں میں ایک اسکول اور ایک ہسپتال کا سنگِ بنیاد آپ کے ہاتھوں سے رکھوانا ہے ۔۔۔گاؤں والے جب واپس لوٹے تو سب کی زبان گنگ تھی اور سر لجا سے جھکے ہوئے اور سب ایک دوسرے سے ایک ہی سوال کیے جا رہا تھے کہ آفت کا مارا کون ہے ہم یا نگہت؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...