"شیرو مجھے تنہائی سے بہت ڈر لگتا ہے"۔
" کیوں؟ تنہائی تو یادوں کو سنبھالنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ یہی تو وہ لمحات ہوتے ہیں جن کو بندہ اپنا کہہ سکتا ہے "۔
" نہیں، مجھے یادوں کو تازہ کرنے کے لیے تنہائی نہیں چاہیئے۔ پتہ ہے جب رات اپنی بھیانک تاریک چادر اوڑھ لیتی ہے اور زیست نصف موت میں مبتلا ہو کر اس جہانِ رنگ و بُو سے بے بہرہ ہو کر خوابوں کی دنیا میں ڈوب جاتی ہے تو میرے حواسِ خمسہ مکمل بیدار ہو جاتے ہیں۔ ہلکی سی آہٹ بھی مجھے ڈرانے کو کافی ہوتی ہے۔ دور چوراہے پہ لٹکا زرد رنگ کا بلب مجھے بے جان لعش کی زردی بکھیرتا معلوم ہوتا ہے۔ ساتھ والی کوٹھی کی رات کی رانی کو خوشبو مجھے زہر لگتی ہے۔ مجھے دیر تک کروٹیں بدلتا دیکھ کر ماں میری طبیعت معلوم کرنے کے لیے اپنی ہتھیلی میری سرد پیشانی پر لگاتی ہے تو میں زور سے چیخ ما رکے اُٹھ بیٹھتی ہوں "۔
"سارو، یہ سارا تمہارا وہم ہے۔ تم نہ اپنی خوراک کا خیال رکھتی ہو، نہ اپنے لباس کا۔ دن بھر ریاضی کی خشک کتابوں میں گزار کر تھوڑا بہت سکون لینا تم گناہ سمجھتی ہو۔ اب تو تم نے سوشل میڈیا کا استعمال بھی چھوڑ دیا ہے۔ ذہنی سکون واسطے کچھ بھی تو نہیں کرتی۔ دیکھو۔۔سارو، اپنے واسطے وقت نہیں نکالو گی تو ایسا ہی ہوگا۔ اپنے پر ترس کھاؤ۔ صرف چائے پی پی کر تم نے اپنا کیا حال کر دیا ہے۔ چہرے کی سرخی آہستہ آہستہ قصہ پارینہ بنتی چلی جا رہی ہے"۔
" شیرو اب تم بھی رسمی باتیں کرتے ہو۔ ویسی جیسے اماں ابا ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ میں دن بھر بالکل ٹھیک تو ہوتی ہوں۔ ہاں رات کی تنہائی مجھے ڈستی ہے۔ کاش میں ناروے میں پیدا ہوتی اور مجھے ظلمتِ شب نہ جھیلنا پڑتی۔ پتہ نہیں قبر میں مَیں کیا کروں گی۔ وہاں تو ہمیشہ کی تنہائی ہو گی اور ہمیشہ کا سناٹا۔ دیکھو اب میری عمر بائیس برس سے اوپر جا رہی ہے اور میں ابھی بھی اکیلے کمرے میں نہیں سو سکتی۔ رات تو درکنار مجھ سے تو دن کو بھی ایک پل اکیلے کمرے میں نہیں گزارا جاتا"۔
ان دنوں دسمبر میں خوب سردی پڑی۔ دسمبر کے آخری دو ہفتے اتنے سرد تھے جیسے ہم سائبیریا کے کسی خیمے کے مکین ہوں۔ انہی دنوں ایک وبائی مرض کا بازگشت سننے میں آئی۔ اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اگر اس وبا پر جلد قابو نہ پایا گیا تو چند ہفتوں میں پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لے گی۔ایک طرف دسمبر کی یخ اور طویل راتیں سائرہ کے لیے عذاب کا باعث تھیں تو دوسری طرف اس وبا کا خوف اس کے حواس پر طاری ہو رہا تھا۔ سردیوں کی چھٹیوں کے بعد جب دوبارہ کلاسیں شروع ہوئیں تو سائرہ کا بدلا ہوا سراپا سب نے محسوس کیا۔ لیکنمیں ہی اس حقیقت کو سمجھ سکتا تھا۔ گزرتے دنوں کے ساتھ وبائی مرض انسانیت کو دھیرے دھیرے اپنی گرفت میں لیتا چلا گیا۔ ایک ملک سے دوسرے ملک میں، دوسرے سے تیسرے، تیسرے سے چوتھے میں۔
یہ فروری کے دوسرے ہفتے کا واقعہ ہے جب ہم لائبریری کے سامنے والے سبزہ زار میں ایستادہ لکڑی کے بنچ پر بیٹھے تھے۔ سائرہ کچھ دنوں سے بہت خاموش تھی۔ میں اس کی کیفیت کو کچھ کچھ سمجھ چکا تھا۔ وہ اس وبائی مرض کی وجہ سے پریشان تھی۔ لیکن اس خوف کو اپنے ذہن پر یوں مسلط کر دینا بھی بیوقوفی تھی۔ سامنے کے پلاٹ میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیاں اپنی کسی ہم جماعت کی سالگرہ منا رہی تھیں۔ سیلفیاں بنائی جا رہی تھیں، موسیقی کی دھنوں پر گلابی اور نیلے پیلے مفلروں اور سٹالروں سے جھانکتے ہوئے سر دھن رہے تھے۔زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ روں دواں تھی۔
" سارو، ان لڑکیوں کو دیکھو، کیسے ہلا گلا کیے ہوئے ہیں۔ ادھر تم ہو کہ یاسیت اور قنوطیت کی مجسم صورت بنے اپنے آپ کو ہلکان کیے جا رہی ہو۔ کیا پھیلتی ہوئی وبا صرف تمھیں اپنی گرفت میں لے گی؟ اپنے آپ کو ان لڑکیوں کی طرح ایک عام لڑکی سمجھو۔چلو کیفے میں جا کر سموسے کھاتے ہیں "۔
" شیرو، اگر میں بیمار ہو گئی تو کیا مجھے بھی قطرینہ میں ڈال دیا جائے گا۔ کیا میں اکیلے میں سسکتے سسکتے مر جاؤں گی؟ شیرو تم میری تنہائیوں میں میرے ساتھی بنو گے یا تم بھی میرے جسم میں دوڑتے وائرس کی فوج سے خوفزدہ ہو کر مجھ سے چار ہاتھ دو ر کھڑے کھڑے رہو گے اور میرے لمس سے خوفزدہ ہو کر صرف مجھے دیکھا کرو گے"۔
" سارو، خدا کے لیے چپ ہو جاؤ۔ کیوں انجانے خطرات میں گھلتی چلی جا رہی ہو۔ کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ یہ وائرس تھوڑی دھوپ گرم ہوتے ہی خود ہی مر جائے گا۔ مومن بندہ اتنا مایوس نہیں ہوتا۔ میں اسی لیے تمہیں کہتا ہوں کہ پانچ وقت نماز پڑھا کرو، تسبیحات کیا کرو۔ ایمان کمزور پڑ جائے تو ایسے نا معلوم خدشات اور خطرات ہی انسان کی جان لے لیتے ہیں "۔
دھیرے دھیرے وبا دنیا میں اپنے پنجے جماتی گئی۔ اموات کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔ وبا کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ جب ہمارے شہر میں پہلا مریض اس مرض میں مبتلا ہوا تو سب کو اس آفت ناگہانی کی سنجیدگی کا احساس ہوا۔ پہلے مریض کے آنے کے بعد آہستہ آہستہ اور لوگ اس روگ میں پھنستے چلے گئے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر لوگ ایک دوسرے سے دور رہنے لگے۔ مصافحہ اور معانقہ متروک ہوا تو دلوں میں بھی وساوس نے گھر کر لیا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کے نگاہ سے دیکھنے لگا۔ دفاتر اور تعلیمی ادارے بتدریج بند ہونے لگے۔
مارچ کا وہ ایک خوبصورت دن تھا۔ شب بھر کی بارش نے ماحول کو فرحت اور تازگی بخش دی تھی۔ یونیورسٹی میں جا بجا پھولوں کی کیاریاں عجب بہار دکھا رہی تھیں۔ سفید بادلوں کے بڑے بڑے ٹکڑے آسمان پر یوں بھاگ رہے تھے جیسے اوقیانوس میں جہاز چلتے ہیں۔ چند دنوں کی مسلسل بارشوں نے سردیوں کا موسم طویل کر دیا تھا۔ میں اور سائرہ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ سائرہ کافی کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ آج تو اس سے ایک چائے کا کپ بھی ختم نہیں ہو رہا تھا۔ یہ وہی سائرہ تھی جو پہلے دو کپ چند سانسوں میں ختم کر دیتی۔ میں نے اس کے تھکن زدہ چہرے کو تشویش کی نگاہوں سے دیکھا اور اپنی ہتھیلی اس کی شفاف پیشانی پر رکھ دی۔ سائرہ کا ماتھا بخار سے تپ رہا تھا۔ اچانک اس کو کھانسی آنا شروع ہو گئی۔ چند منٹوں بعد اس کو کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ چائے کا کپ اس کے ہاتھ سے گر کر چکنا چور ہو گیا۔
دو گھنٹوں بعد ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ٹیسٹوں کے بعد سائرہ کی بیماری کی تصدیق کر دی۔ اس کو فورا" شہر سے پانچ میل دور بنے پرانے متروک ہسپتال کے قرنطینہ میں منتقل کر دیا۔ سائرہ کو کپڑے بدلنے اور کتابیں رکھنے کے لیے گھر جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ میں اب تک سائرہ کے ساتھ ہی تھا۔ والد اور بھائیوں کو اطلاع دی گئی۔ ان کی آمد سے پہلے سائرہ دیر تک میری آنکھوں میں گھورتی رہی۔ نم آنکھوں کے ساتھ ایک ہی جملہ اس کے منہ سے نکلا
" شیرو، مجھے تنہائی سے بہت ڈر لگتا ہے۔ دعا کرو میں اس قید تنہائی سے پہلے ہی مر جاؤں۔ اور اگر میری سانسیں چلتی رہیں تو تم میرا پتہ کرتے رہنا۔ تمہاری موجودگی میرے لیے حوصلے کا باعث ہو گی۔ رات کی تاریکیوں، تنہائیوں اور خاموشیوں کے لمحات جانے میں کیسے گزاروں گی"۔ میں نے انجانے میں اس کی کلائی پکڑنے چاہی تو بجلی جیسی تیزی سے اس نے اپنا بازو پیچھے کھینچ لیا۔" شیرو، اب مجھے ہاتھ مت لگانا۔ مجھے چھونے سے یہ روگ تمہاری رگوں میں بھی منتقل ہو جائے گا"۔
شہر کی آبادی سے باہر پرانے ہسپتال کی عمارت کو قرنطینہ بنا دیا گیا تھا۔ دن بھر ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہی تھیں۔ ہسپتال کی پرانی عمارت مغلیہ طرزِ تعمیر کا ایک خوبصورت نمونہ تھی۔ جس کمرے میں سائرہ کو رکھا گیا تھا ہسپتال کے عقبی جانب پیپل اور آم کے بوڑھے درختوں میں گھرا ہوا تھا۔ اینٹوں کی ایک راہداری اس کمرے کو ہسپتال کی باقی عمارت سے جوڑتی تھی۔ کمرے سے دس بارہ فٹ دور ہسپتال کی آٹھ فٹ اونچی دیوار تھی۔ دیوار کے باہر دور تک سرسبز کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ شام کے بعد یہ علاقہ خاموش ہو جاتا۔ اکا دکا موٹرسائیکل اور سائیکل سوار آتے جاتے دکھائی دیتے۔ صبح ہوتے ہی یہ سولنگ آباد ہو جاتی۔ سکول جاتے بچے، سبزی لادے ریڑھے، چنگ چیاں اور موٹر سائیکل ادھر اُدھر آتے جاتے نظر آتے۔یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک نئی کالونی آباد ہو رہی تھی۔ شہر سے دور ہونے کی بنا پر غریب غربا سستے داموں پلاٹ لے کر اس بے آباد علاقے کو آباد کر رہے تھے۔ دن بھر غریب خاندانوں کے بچے غربت کی مجسم تصویر بنے خالی پلاٹوں اور کھیتوں میں بھاگتے رہتے۔ شام ہوتے ہی یہ آوازیں معدوم ہونا شروع ہو جاتیں۔ مغرب کے بعد سکوت، اندھیرا اور خوف مل کر ایک عجب ماحول تخلیق کر دیتا۔
وہ اماوس کی رات تھی۔دور تک اندھیرے اور خاموشی کی حکومت تھی۔ دور زیرِتعمیر کالونی کے چھوٹے چھوٹے مکانوں کی کھڑکیوں سے جھانکتی کمزور بتیاں اندھیرے کے اس بت کو توڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔ سائرہ اپنے کمرے میں بیڈ پر اکڑوں بیٹھی تھی۔بیڈ کو صاف شفاف چادر نے ڈھانپ رکھا تھا۔ سائرہ کمرے میں جلتے واحد سیور بلب کو تک رہی تھی۔ ارد گرد پھیلے ہوئے اندھیرے میں یہ بلب ہی روشنی کا واحد ذریعہ تھا۔ ہسپتال میں پہلے دن ایک ڈاکٹر اور دو نرسوں کی ڈیوٹی تھی۔ سائرہ کے ساتھ اس قرنطینہ میں پہلے دن پانچ مرد بھی لائے گئے جن کے کمرے ہسپتال کے جنوبی بلاک میں تھے۔ سائرہ کے گھر والے رات دس بجے تک ہسپتال میں موجود رہے۔ بعد میں ہسپتال کے عملے نے ان کو گھر بھیج دیا۔
میں رات بارہ بجے جب ہسپتال کے دروازے پر پہنچا تو بوڑھا چوکیدار اونگھ رہا تھا۔ موٹرسائیکل کی آواز سن کر اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے اندرجانا چاہا لیکن اس نے مجھے اندر جانے کی اجازت نہ دی۔ میں نے موٹر سائیکل کا رخ موڑا اور عقبی دیوار کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ آواز دینا فضول تھا۔ موٹرسائیکل بڑے سٹینڈ پر لگا کر میں اس پر کھڑا ہوگیا۔ کھڑکی کے پردے کی اوٹ میں سے سائرہ کو میں دیکھ سکتا تھا۔ وہ بے حس و حرکت بلب کو تکے جا رہی تھی۔ رات دو بجے میں نے دیکھا تو وہ بستر پر لیٹی تھی۔ اس کی آنکھیں ابھی تک کھلی ہوئی تھیں۔ اس کی نگاہیں اس مرتبہ چھت کی طرف تھیں۔ میں اس کی نیند کا منتظرتھا۔ اس کے سوتے ہی میں نے واپس آجانا تھا۔ اچانک دور نوآباد کالونی سے کوئی بندہ ٹارچ پکڑے میری طرف آتا دکھائی دیا۔ میں جلدی سے موٹرسائیکل سٹارٹ کر کے روانہ ہو گیا۔ میں نے ہیڈ لائٹ بند کر دی تھی جس سے مجھے کافی دقت ہو رہی تھی۔ انجان راستے پر اندھیرے میں چلنا مشکل ہوتا ہے۔ بندے کو راستے کے اونچ نیچ کا اندازہ نہیں ہوتا جس کے باعث اچانک کسی کھڈے میں گرنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔
دن بھر اس کے خاندان والے اس کے کمرے کے باہر موجود رہتے۔ سائرہ نے کھانا پینا بہت محدود کر دیا تھا۔ اس کے روزانہ ٹیسٹ لیے جاتے۔ بیماری پہلے پانچ چھ دن بڑھتی رہی۔ اس کی قوتِ مدافعت خوراک کی کمی کے باعث کم ہوتی جا رہی تھی۔ آٹھویں رات جب میں نے دیوار پر سے جھانکا تووہ قدرے پرسکون دکھائی دی۔ چاند کی روشنی نے طاقت پکڑنا شروع کر دی تھی۔ روشن دانوں اور کھڑکیوں سے آٹھویں کے چاند کی پھیکی پھیکی روشن چھن چھن کر سائرہ کے کمرے کے اندر داخل ہو رہی تھی۔ اندر جلتے سیور بلب کی طاقتور روشنی نے چاند کی روشنی کی وقعت کو کم کر دیا تھا۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ سائرہ روشن دان سے باہر گھور رہی تھی۔ اس کی نگاہیں چاند پر مذکور تھیں۔ چاند کی حرکت کے ساتھ اس کی آنکھوں کا زاویہ بھی بدل رہا تھا۔
اب اس نے گھر والوں کی طرف سے بھیجا جانے والا کھانا کھانا شروع کر دیا تھا۔ خوراک میں اضافے سے اس کی قوتِ مدافعت بھی دھیرے دھیرے بڑھنا شروع ہو گئی۔ راتوں کو اکثر اس نے اونگھنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے چہرے سے جھلکنے والی وحشت قدرے کم ہو گئی تھی۔ شاید اب وہ اس نئے ماحول سے مانوس ہو چکی تھی۔ اس کے کمرے میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ پہلے پہل اس کی کتابیں اور دوسرا سامان بے ترتیب پڑا ہوتا۔ لیکن اب اس میں ایک ترتیب دکھائی دے رہی تھی۔
چودھویں کا چاند اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ میں دس بجے ہی دیوار کے اوپر سے اپنے مخصوص انداز میں سائرہ کو تکے جا رہا تھا۔ میرے اور سائرہ کے درمیان پندرہ فٹ کا فاصلہ تھا۔ لیکن میں اس کو اپنے بالکل قریب محسوس کر رہا تھا۔ اس کے ناک کی سنہری نتھلی سیور بلب اور چاند کی ملی جلی روشنی میں لشکارے مار رہی تھی۔ موٹی موٹی آنکھیں بھنووں کے غلاف میں ابھری ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ سائرہ کی آنکھوں کے ڈورے نرم و نازک پپوٹوں میں سکون کی نیند سو رہے تھے۔ سیاہ بالوں کی ایک آوارہ لٹ چوڑی پیشانی، آنکھوں اور ناک کو پھلانگ کر دودھیا رخسار کے ڈمپل تک چلی گئی تھی۔ ہونٹوں پر جمی باریک باریک پپڑیاں آج عنقا تھیں۔ اس کے برعکس ہونٹوں پر شہد ٹپکتا محسوس ہو رہا تھا۔ بائیں آنکھ کے نیچے کالا تل جو کھلی آنکھ کی موجودگی میں دکھائی نہ دیتا آج آنکھ بند ہونے پر اپنے وجود کا احساس دلا رہا تھا۔برقی اور قمری روشنیوں کے ملاپ کا کرشمہ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔
اگلے دن جب سائرہ کو ٹیسٹ منفی آنے پر اس قرنطینہ سے رہائی ملی اور اس کو گاڑی میں بٹھایا جا رہا تھا تو میں بھی اس کے خاندان والوں کے پیچھے چوری چھپے اسے دیکھ رہا تھا۔وہ اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ بہت خوش دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے ایک مہلک مرض کو دو ہفتوں میں شکست دی تھی۔ وہ بات بات پر کھلکھلا کر قہقہے لگا رہی تھی۔ میں نے اسے اس حالت میں پہلی دفعہ ہنستے دیکھا تھا۔ پہلے وہ جب بھی ہنسنا چاہتی زیرِ لب ہلکے سے مسکرا دیتی لیکن اب بیماری کو شکست دینے اور قیدِ تنہائی سے نجات نے اس کی اس عادت کو بدل دیا تھا۔ اس کی خوشی میرے لیے بھی سکون کا باعث تھی۔ لیکن جو حسن، تازگی اور رعب میں نے گزری رات اس کے چہرے پر دیکھا تھاوہ اب نظر نہیں آ رہا تھا۔ سائرہ میری طرف دیکھے بغیر گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئی۔ سائرہ سارو کو چھوڑ گئی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...