کسی بھی لت یا عادت کو ختم کرنا ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے البتہ اس آرٹیکل میں ایک طریقہ پر بات کروں گی جو عموماً کارآمد ثابت ہوتا ہے (بہت ممکن ہے کہ آپ کے لیے نہ ہو)۔ سب سے پہلے آپ کو عادت کی نیوروسائنس معلوم ہونا ضروری ہے کیونکہ دماغ آپ کے ذہن، خواہشات اور تصورات کے تابع نہیں ہے، آپ خود سے کہتے ہیں کہ کل سے میں وڈیو گیمز نہیں کھیلوں گا، تو کیا آپ کھیلنا بند کردیتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔
جب آپ پہلی بار کسی ایسی سرگرمی کو انجام دیتے ہیں جس میں مزہ اور پلیژر موجود ہے تو آپ کا دماغ اس سرگرمی کو “دوبارہ دہرانے”(reinforcement) کی تلقین کرتا ہے، اور پھر وہ وقت کے ساتھ آپ کی عادت یا لت میں بدل جاتی ہے کیونکہ دماغ میں “عادت والا سرکٹ” (habitual circuit) محرک ہوتا ہے اور مضبوط ہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ فطرت نے ہمیں زیادہ فضول کی آزادی نہیں دی ہوئی، ہم جب بھی پہلی بارکوئی پلیژر والا کام کرتے ہیں تب جو مزہ ہمیں آتا ہے وہ وقت کے ساتھ ختم ہوتا جاتا ہے۔ آپ نے پہلی بار وڈیو گیم کھیلا آپ کو پسند آیا، اب اگر آپ روز وڈیو گیم کھیلیں گے آپ کو مزہ آنا بند ہوجائے گا یا پھر بہت ممکن ہے کہ شروع کا ایک گھنٹہ تھوڑا مزہ آئے اور باقی کے گھنٹے آپ برا محسوس کررہے ہیں لیکن لاشعوری طور پر وڈیو گیم کھیلے جارہے ہیں، ایسا ہی ہوتا ہے پورن وڈیوز،سگریٹ، جنک فوڈ، اور باقی کی تمام مزہ دینے والی عادتوں کے ساتھ۔ آپ کو مزہ پہلی بار جیسا نہیں آرہا لیکن عادت والے سرکٹ پختہ ہونے کی وجہ سے آپ چھوڑ نہیں پارہے اور مزید برا محسوس کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں چھوڑ نہیں پا رہے؟؟؟
کیونکہ لت کو انجام دینے میں پلیژر سرکٹ آپ کو موٹیویٹ کررہا ہے جس کی وجہ سے آپ نہ چاہتے ہوئے بھی عادت میں مبتلا ہیں، اس کے برعکس جب آپ کسی عادت کو چھوڑنے کا سوچتے ہیں تو اس میں……. پلیژر سرکٹ محرک نہیں ہوتا، جب پلیژر نہیں تو موٹیویشن نہیں۔ عادت کو روکنے میں پلیژر نہیں تبھی آپ نہیں چھوڑ پارہے اسے۔
عادت چھوڑنے میں آپ کے دماغ کا وہ حصہ شامل ہوتا ہے جس کا کام کنٹرول کرنا ہوتا ہے تبھی وہ حصہ “کنٹرول سرکٹ” بناتا ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ آپ کے دماغ میں کنٹرول سرکٹ اور پلیژر سرکٹ کے درمیان رابطہ بہت کمزور یا پھر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آپ کو وہ رابطہ مضبوط کرنا ہوتا ہے مختلف تکنیک اور باربار ہار کر دوبارہ اٹھنے کے ذریعے۔
آپ اپنی قوتِ ارادی (will power) سے زیادہ عرصہ خود کو قابو نہیں کرپائیں گے۔ زندگی میں بہت سارے دن ناخشگوار اور کٹھن ہوتے ہیں جب ہمیں اسٹریس سے گزرنا پڑتا ہے، عموماً وہ لوگ جنہیں لت یا بری عادتوں کا سامنا ہو انہیں اپنے اندرونی جذباتی حالات کے متعلق کوئی علم نہیں ہوتا اور روز جمع ہونے والے اسٹریس کا گھڑا جب ایک دن بھر جاتا ہے تو اسی دن آپ پرانی عادت/لت کی جانب دوبارہ دوڑتے ہیں۔ تبھی میں نے کہا کہ آپ کچھ بھی سوچ لیں ضروری نہیں کہ آپ کا دماغ اس سوچ کے تابع ہو۔ دماغ کی اپنی کچھ حدود اور کام کرنے کے طریقے ہوتے ہیں۔
اگر آپ کسی لت یا عادت کا جڑ سے خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ “زیادہ بیداری” (hyper-awareness) کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اس تکنیک میں آپ نے خود کو روکنا نہیں ہے عادت سے، بلکہ آپ نے اپنے جذبات، جسم اور سوچوں کا معائنہ (scan) کرنا ہے اس عادت کو انجام دیتے ہوئے۔ آپ نے خود کو وہ عادت کرتے ہوئے دیکھنا ہے کہ کیوں کررہے ہیں آپ ایسا؟۔ ہم عموماً اپنے جذبات، حالات یا سوچوں سے بھاگنے کے لیے لت کا سہارا لیتے ہیں۔ آپ نے نوٹ کرنا ہے ہر بار کہ وہ کونسے جذبات، حالات یا معاملات ہیں جو آپ کی قوتِ ارادی کو توڑ دیتے ہیں جن کا سامنا نہ کرنے کے لیے آپ لت یا بری عادت میں مبتلا ہیں۔
یہ تکنیک بہت پرانی ہے جس میں یوگی یا بدھ-اسٹ اپنی طلب پر قوتِ ارادی سے نہیں بلکہ جسم کے معائنے (body scan) کی تکنیک کے ذریعے قابو پاتے تھے، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ قوتِ ارادی سے بات نہیں بنے گی، جذبات اور سوچوں کو سمجھنا اور ان کا معائنہ کرنا کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ خود کو اس عادت کو کرتا دیکھتے ہیں، آپ روز اس عادت کو بیدار ہوکر کرتے ہیں تو ایک ایسا سہانا دن یا پوائنٹ آہی جاتا ہے جب وہ لت/عادت اپنی طاقت کھو دیتی ہے، کوئی بھی عادت یا رویہ تب تک طاقتور ہے جب تک لاشعور میں ہے، جیسے ہی شعور میں آتا ہے اسی دن سے اسکی طاقت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ طریقہ آپ کو اپنی لت پر مکمل قابو پانے کی قوت دیتا ہے کیونکہ آپ بہت آہستہ خود کو اور جذبات کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں وقت اور صبر درکار ہوتاہے، کیونکہ دماغ میں نئے سرکٹ دو دن میں یا قوتِ ارادی سے نہیں بنتے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...