مستنصر حسین تارّر میرے محبوب ناول نگار ہیں .انکے ناول بہاؤ کی شروعات اس جملے سے ہوتی ہے …سرسوتی جو بڑے پانیوں کی ماں ہے / اور ساتویں ندی ہے / اسکے پانی آتے ہیں ، / شاندار اور بلند آواز میں چنگھاڑتے ہوئے.
آبشار کے مطالعہ سے گزرتے ہوئے پہلا خیال یہی آیا ..یہ خصوصی شمارہ بلند آواز میں ناول کی چنگھاڑ ہے .ہمارے سلیم فواد کنڈی صاحب اس حقیقت کو بھلے تسلیم نہ کرتے ہوں کہ یہ صدی ناول کی صدی ہے ،مگر اس خصوصی شمارہ سے گزرتے ہوئے یہ خیال غالب رہا کہ حقیقت میں یہ صدی ناول کی صدی ہے ہمارے ایک دوست دو نیی عمارتوں کو دیکھنے کے بعد لوٹے .پہلی عمارت کے بارے میں انکا بیان تھا کہ عمارت بھول بھلیاں کا شکار ہے .جہاں ڈرائنگ روم ہونا چاہیے تھا وہاں کچن بنا ہوا ہے .جہاں خالی جگہ ہونی چاہیے تھی وہاں اسٹور ..دوسری عمارت کے بارے میں بیان تھا ،اسکی ہر اینٹ سوچ سمجھ کر رکھی گیی .جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے .یہ ذرّہ اور آفتاب والی بات کا تعلّق آبشار سے ہے .ایک منظم شمارہ ،جس کے ہر باب میں ناول کی ایک نیی دنیا نظر آتی ہے .ظاہر ہے یہ کام آسان نہیں تھا .اور جہاں تک میرا خیال ہے ،اس کام کو آسان بنانے میں حمید شاہد صاحب ، قاسم یعقوب صاحب ،حامد سراج میرے دوست اور زینو والے محترم دوست وحید احمد کے مشورے ضرور شامل رہے ہونگے ..معاون مدیر کے طور پر شہناز رحمان کا بھی نام ہے .شہناز کے نام کو اب ادب میں اعتبار کا درجہ حاصل ہو چکا ہے .ہندوستان سے ناول پر کیی نمبر شایع ہوئے .دربھنگہ ٹائمز ، ادب سلسلہ ،ابرار مجیب کا راوی ،پٹنہ یونیورسٹی کے ترجمان رسالہ اردو جنرل ،قومی اردو کونسل کا رسالہ فکر و تحقیق نے بھی اس سلسلے کو آگے بڑھایا ..ایک نیی روایت پروان چڑھی ہے جسکا ذکر ضروری ہے .
ادب میں بہت حد تک ہند و پاک کے فاصلے ختم ہو چکے ہیں .ہندوستان سے جو بھی نمبر شایع ہوئے ،پاکستان کے نوجوان لکھنے والے بھی شامل رہے .آبشار کے ناول نمبر میں پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے ، اس عھد کے تمام بڑے ناول نگار شامل ہیں ..ابواب کی تقسیم میں بھی سلیقہ اور قرینہ نظر آیا — اس سے ناول کے مختلف شیڈس اور پہلوؤں کو سمجھنے میں آسانی ہوئی .سلیم فواد کندی کو میں اس خصوصی ،چنگھاڑتے شمارے کی اشاعت کے لئے مبارکباد دیتا ہوں اور دعا بھی ،کہ اب سنبھل سنبھل کر چلنے کا وقت ہے .جب قاری آپ پر اعتبار کرنے لگے تو پہلا کام اس اعتبار کو قایم رکھنا ہونا چاہیے ..امید کہ آئندہ بھی وہ اس معیار اور آبشار کے وقار کو قایم رکھیںگے ..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“