انجان نگر میں کھلی ایک کھڑکی ( Una finestra sull’ignoto)
( A Window into the Unknown )
مصنف کے افسانوں کے مجموعے ’ Racconti con figure ‘ 2011 سے ایک افسانہ
انتونیو تیبوچی (Antonio Tabucchi)
وہ وہاں رہنے کے لئے کیوں گیا تھا ؟ اسے خود بھی اس کی وجہ معلوم نہ تھی ۔ لیکن شاید اسے معلوم تھا ۔ وہ وہاں اس لئے گیا تھا کہ وہاں کا مخصوص منظر اس کی پریشانیاں دور کر سکے ؛ کھلی جگہیں ، کھیت ، خاموشی ، ماضی کے گھروندے ، جب گھر ، گھر ہوا کرتے تھے ؛ جن کے اندر لوگوں کے ساتھ وہ اوزار و آلات بھی تھے ۔ ۔ ۔ ایسے جو روزمرہ کی مانوس سرگرمیوں کے لئے ضروری تھے اور ان کے لئے بھی جو ان گھروں کے قریب والی جگہوں پر کی جاتی تھیں ۔
لیکن ایک دن ایک معمار آیا ۔ ۔ ۔ وہ ایک دوست ہونے کے علاوہ بڑے شہر ، جہاں کانچ اور آہن سے بنی ، دیکھنے میں خوبصورت عمارتیں تھیں ، میں ایک مانا ہوا معمار بھی تھا ۔ ۔ ۔ اس نے اُسے کہا ؛
” اس دیوار نے تم سے باہر کا نظارہ چھپا رکھا ہے ۔ تمہیں اس میں ایک کھڑکی بنانی چاہیے ؛ یہ تمہارے گھر میں ایک پینٹنگ کی مانند لگے گی ، ایک قدرتی پینٹنگ ایک ایسی پینٹنگ جس کا فریم فطرت کے حسن کو دعوت دے گا اور تمہیں اس کھڑکی کے ذریعے قدرت کو اندر آنے دینا چاہیے اور دیوار کے ذریعے اس کا راستہ روکنا نہیں چاہیے ۔ “
اس نے اپنے ہاتھوں سے دیوار پر ایک خیالی کھڑکی بنا ڈالی ؛ اس دیوار پر جس کے ساتھ الماری کے خانوں میں نمک ، مرچیں اور تیل رکھا تھا اور جہاں کیلوں پر برتن ٹنگے تھے ۔ معمار بولتا رہا ؛
” اس پرانے کاٹھ کباڑ کو کسی الماری کے درازوں میں ڈال دو۔ میں تمہارے لئے اس کھڑکی کے نیچے ’ کلسی تُف ‘ کی ایک شیلف بناﺅں گا جس پر تم ایک پیالہ رکھنا اور اس کے ساتھ دو سیب یا دو مالٹے رکھنا ، یوں یہ ایک مضافاتی قربان گاہ لگے گی ، ایک ایسی عجز بھری’ سَٹِل لائف ‘ جو کھیتوں کی شاہانہ عاجزی سے لگا کھائے گی ۔“
لیکن اس نے ہمت کرکے کہہ ہی دیا تھا ، ” کلسی تُف نہیں ، میں تم سے استدعا کرتا ہوں ۔ میں اس گھر میں ’ کلسی تُف‘ نہیں چاہتا ۔ “
” ٹھیک ہے ۔“ ، معمار نے جواب دیا تھا ، ” میں اسے پلاسٹر سے بنا دوں گا اور اسے مصنوعی ’ کلسی تُف ‘ سے رنگ دوں گا ۔ اس سے یوں لگے گا جیسے زنگ جیسا پلاسٹر ’ کلسی تُف ‘ جیسا دکھائی دے ۔ اور میں کھڑکی پر نہ تو پردے ڈالوں گا اور نہ ہی بلائنڈز ؛ کھڑکی ویسے بھی شمال کی جانب کھلتی ہے ، اس لئے سورج ، جو یہاں ، اس علاقے میں غصے سے چمکتا ہے ، تمہاری میز پر اپنی دھوپ کی بھرمار نہیں کر پائے گا ؛ اور تم گرمیوں میں ، جب رات اترتی ہے تو شام کا دھندلکا پھیلتے دیکھ سکو گے جب یہاں آسمان کی حدت کم ہوتی ہے اور آسمان کوبالٹ دھات کی طرح نیلا ہو جاتا ہے اور درخت ایک خاص طرح کے سبز رنگ سے روشن ہو جاتے ہیں ۔ کیا تم نے کبھی یہ جانا ہے کہ درختوں کا یہ عجیب سبز رنگ کونسا ہے ؟ سبز ایک مرکب رنگ ہے ، جسے بنانے کے لئے تمہیں پیلے اور نیلے رنگوں کی ضرورت ہوتی ہے ؛ شام میں پتے اپنا نیلا پن چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی سطح پیلی رہ جاتی ہے اور رات کے اولین سائے گہرے نکتوں کی طرح ان پر چھا جاتے ہیں جیسے انجانے علاقوں کے نقشے ہوں ۔ مثالی طور پر تو یہی بہتر ہو گا کہ تم باہر کے عناصر کے لئے کھڑکی کھلی رکھو تاکہ جو اندر ہے وہ آسانی سے باہر جا سکے اور ان کو اندر آنے کی دعوت دے سکے ۔ اور جب تم وائن پیتے ہوئے اپنا کھانا بنا اور موسیقی سن رہے ہو گے ( مجھے معلوم ہے کہ تم کھانا بناتے ہوئے موسیقی ضرور سنتے ہو) ، تو تمہارے سامنے دیوار نہیں ہو گی بلکہ اِرد گرد کے ماحول کا کھلا پن ہو گا ۔ یہ ایک مثالی صورت حال ہو گی ۔ لیکن ایک بلند پایہ معمار کے خوابوں کی ایک حد ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ یہاں سردیاں بھی آئیں گی ، بارش اور ہوائیں بھی آئیں گی ۔ اس کے حل کے لئے میں اس پر ’ پلیکسی گلاس‘ کی ایک شیٹ لگا دوں گا جو دو سنٹی میٹر سے بھی کم موٹی ہو گی ؛ یہ ہوا کی مانند نظر نہ آنے والی ہو گی ؛ وہ آج کل ایسی ہی بناتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ بسا اوقات تمہیں یہ اِچھا ہو گی کہ تم اس پر اپنا ہاتھ رکھو تاکہ تم شام کی ٹھنڈک محسوس کر سکو ۔ ویسے مجھے یہ بتاﺅ کہ تم وائن پیتے اور اپنے لئے ’ سپیگیٹی ‘ بناتے ہوئے ، رات کا سامنا کرنے سے پہلے کیا سننا پسند کرتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری سوچیں کورے کاغذ پرالفاظ میں ڈھل جاتی ہیں ۔ “
” یہ اس وقت پر منحصر ہوتا ہے ۔“ ، اس نے جواب دیا ، ” عام طور پر ’ موزارٹ ‘ لیکن ’ چیٹ بیکر ‘ بھی ، خاص طور پر جب وہ سرگوشی کے انداز میں اپنی بھرائی ہوئی آواز میں گاتا ہے ۔ اس سے میری پریشانیاں کم ہو جاتی ہیں اور اس کا گانا مجھے ایک لوری کی مانند لگتا ہے اور میں پر سکون ہو جاتا ہوں ؛ وہ الفاظ کو یوں کھینچ کر لمبا کرتا ہے کہ میں انہیں سمجھ نہیں پاتا اور پھر وہ آرام سے ٹرمپٹ بجانے لگتا ہے ۔ اور یہ سب ایک قدیمی نوحے کی طرح مجھے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔ “
***
شام دھیرے دھیرے اتر رہی تھی ، آسمان کوبالٹی نیلا ہو چکا تھا اور درخت زرد ہو رہے تھے جیسے ان کے پتوں کا سبز رنگ اچانک گم ہو گیا ہو ۔ وہ اپنے لئے ’ سپیگیٹی ‘ بنا رہا تھا اور اس میں ’ پایوپینو ‘ کی کھمبیاں ، جو اس نے ایک درخت کے تنے سے توڑی تھیں ، کے ساتھ مقامی ’ پیکورینو‘ ڈالنے کے ساتھ ’ ہنی سکل‘ کی ایک چٹکی بھی ڈالی تھی ؛ اس نے چیٹ بیکر کی سی ڈی لگائی اور آنکھیں اٹھا کر اپنے گھر کے پچھواڑے والے گھر کو دیکھا ۔ یہ ایک متروکہ مکان ہے ۔ مالک مکان نے بہت عرصہ پہلے اسے بتایا تھا کہ وہاں ایک کسان خاندان رہتا تھا جو اس وقت وہاں آیا تھا جب ’ پولسین ‘ کے علاقے میں سیلاب آیا تھا ۔ اور یہ بھی کہ انہیں مرے ہوئے کئی سال بیت گئے تھے ۔
اس مکان کی اوپرلی منزل کی کھڑکیوں میں روشنی تھی ، ایک بڑی کھڑکی اور ایک چھوٹی ، جو یقیناً اس کی ایٹک کی کھڑکی تھی ۔ مکان کے ماتھے پر ایک تکونی ، بالکل جیومٹیری والی مثلث شکل میں روشنی دمک رہی تھی جیسے وہاں سے روشنی کو آگے کی جانب پھینکا جا رہا ہو لیکن چراغ نظر نہیں آ رہے تھے ۔ مکان کے ایک کونے میں دیوار کے ساتھ ایک پہیہ ٹِکا ہوا تھا ۔ دیکھنے میں یہ کسی بائیسکل کا پچھلا پہیہ لگتا تھا لیکن یہ اتنا بڑا تھا کہ بائیسکل کا پچھلا پہیہ نہیں لگتا تھا ۔ اور پھر اسے خیال آیا کہ اس نے مکان کے اسی کونے میں کسی کا سایہ دیکھا جو اندھیرے میں گم ہو گیا تھا لیکن اسے اس بارے میں یقین نہ تھا ۔ شاید یہ اس کا وہم تھا ۔ وہ کھڑکی کے پاس گیا اور جبلی طور پر اپنا ہاتھ باہر نکالنے کی کوشش کی جیسے وہ کسی کو ہاتھ ہلانا چاہتا ہو ، کسی کو ، جو وہاں موجود نہ تھا یا وہ شاید باہر کی ہوا کو محسوس کرنا چاہتا تھا ۔ اس کا ہاتھ ’ پلیکسی گلاس ‘ سے ٹکرایا ۔ پہلے تو اس نے اسے وہیں رہنے دیا لیکن پھر جلدی سے پیچھے کر لیا ۔ اس کے ہاتھ کے پسینے کے نشانات کچھ لمحے شیشے پر موجود رہے ۔ اس نے موسیقی بند کی اور اپنی سوچوں کو مجتمع کرنے لگا ۔ اس نے سوچا کہ کتنا عجیب لگتا ہے جب ہم اپنے گرد پھیلی حقیقت کو دیکھتے ہیں جیسے یہ ہماری انگلیوں کی پوروں پر موجود ہو ۔ پھر اسے خیال آیا کہ ہمارے انگلیوں کی پوروں پر تو کچھ بھی نہیں ہوتا ، خاص طور پر اس وقت جب ہم دیکھتے ہیں اور بسا اوقات جو ہمیں نزدیک نظر آتا ہے وہ تو اس سے بھی دور ہوتا ہے جتنا دور ہم اسے سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ اس نے سوچا کہ اپنے معمار دوست سے فون پر بات کرے لیکن شاید کئی مخصوص باتیں فون پر نہیں کہی جا سکتیں ۔ بہتر ہو گا کہ وہ انہیں لکھ لے ورنہ یہ سب بے معانی لگیں گی ۔ ایک نوٹ لکھنا ہی بہتر ہو گا ؛ ’’ تم نے میرے لئے انجان نگر میں ایک کھڑکی کھول دی ہے ۔‘‘
’ وہ یہ لکھے گا لیکن اِس وقت نہیں بلکہ اگلے روز ۔‘ ، اس نے سوچا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتونیو تیبوچی(Antonio Tabucchi) 24 ستمبر 1943ء کو پیسا ، اٹلی میں پیدا ہوا ۔ یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے وہ پرتگالی شاعر ’ فرنینڈو پیسوا ‘ کا شیدائی ہو چکا تھا اور اسی طرح ’ فیدو ‘ موسیقی کے گڑھ ’ لزبن‘ نے بھی اسے بری طرح متاثر کیا تھا ۔ 1969ء میں تعلیم مکمل کرتے وقت اس کے مقالے کا نام ’ Surrealism in Portugal ‘ تھا ۔ 1973ء میں اسے بلوگنا میں پرتگالی زبان اور ادب کا استاد بنا دیا گیا ۔ 1975ء میں اس کا پہلا ناول ’ Piazza d'Italia‘ شائع ہوا ۔ 1978ء میں جب وہ یونیورسٹی آف گینوا میں تھا تو اس کے ناول ’Il piccolo naviglio‘ کے بعد کئی اور ناول سامنے آئے ۔ اسے شہرت 1984ء میں ملی جب اس کا ناول ’ Notturno Indiano‘ شائع ہوا ۔ اس ناول کو فرانسیسی فلمساز’ Alain Corneau‘ نے 1989 ء میں فلما کر اس کی شہرت میں اضافہ کیا ۔ اس نے اپنی زندگی میں تیس سے زائد کتابیں لکھیں ۔ اس کی کہانیوں کی کتاب ’ Racconti con figure‘ سن 2011 ء میں سامنے آئی تھی ۔ اس سے اگلے برس جب اس کی آخری کتاب ’ Girare per le strade‘ شائع ہوئی تو وہ اسی برس 68 سال کی عمر میں کینسر سے ایک لمبی لڑائی لڑتا 25 مارچ 2012 ء کو فیدو کے گڑھ ’ لزبن ‘ ، پرتگال میں زندگی کی بازی ہار گیا ۔ اس نے کئی عالمی انعام حاصل کئے اور کہا جاتا ہے کہ عمر کے آخری حصے میں وہ نوبل انعام کے لئے بھی نامزد گیوں میں شامل تھا ۔
اس کا ماننا تھا کہ ادب کو پیشے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ، اس کے لئے یہ کچھ ایسا تھا جس میں خواب ، تخیل اور فطرت کی سچائی شامل ہوتی ہے اس لئے وہ خود کو ’ Ontology‘ کے اعتبار سے تو ادیب مانتا لیکن پیشے کے اعتبار سے خود کو یونیورسٹی کا ایک پروفیسر ہی سمجھتا ۔ اس نے پرتگالی ’ فرنینڈو پیسوا ‘ کا بہت سا کام اطالوی زبان میں ترجمہ بھی کیا ۔ اس کے ناولوں اور کہانیوں کا بیانیہ پوسٹ ماڈرن ہے اور’ intertextual‘ اشاروں سے بھرپور ہے ۔ اس کا ناول ’ Indian Nocturne‘ کا مرکزی کردار ویسے تو اپنے ایک گمشدہ دوست کی تلاش میں انڈیا جاتا ہے لیکن بین السطور وہ اپنی ذات کی شناخت میں سرکرداں دکھائی دیتا ہے ۔ اس کی تحریریں دانشورانہ ہونے کے ساتھ ساتھ علمیت سے بھری ہیں لیکن ان میں انسان کی علم ، خوبصورتی اور محبت کی تلاش بھی نمایاں طور پر جھلک مارتی دکھائی دیتی ہے ۔ مندرجہ بالا کہانی میں بھی وہ آرٹ اور زندگی کے ساتھ ساتھ تخیل اور حقیقت کی سرحدوں کی کھوج کرتا مشاہدے اور لکھنے کے تعلق پر بات کرتا نظر آتا ہے ۔
اس کہانی کے بینر میں اطالوی مصور ’ Alessandro Tofanelli‘ کی بنائی پینٹنگ کا استعمال کیا گیا ہے جو اس نے بورڈ پر آئل کلرز میں بنائی ہے ۔ اس میں آسمان کا کوبالٹی نیلا رنگ ویسا ہی ہے جیسا انتونیو تیبوچی کی کہانی میں نظر آتا ہے ۔