فینش افسانہ
ایک ننھا جھوٹ ( Pieni valhe )
( A Small Lie )
رعیا سئیکینین (Raija Siekkinen)
سفید بلی نے اس سے نفرت کرنا شروع کر دی تھی ۔
’مارجا ‘ کو یاد آیا کہ صرف چھ ماہ پہلے ، وہ اس کے لبادے کی جھالر سے کھیلا کرتی تھی ؛ تب وہ صبح کاوقت گزارنے کے لئے کافی پیتے ہوئے کتابیں پڑھا کرتی تھی ۔لیکن اب وہ کتابوں والی الماری سے ، جہاں وہ رہتی تھی ، اسے شقاوت سے گھورے جا رہی تھی ؛ وہاں وہ اس کی پہنچ سے باہر تھی ۔ اس نے سوچا ۔ اس کا گھورنا نہ صرف حاسدانہ تھا بلکہ اس میں سنگدلی بھی موجود تھی ۔رات کے وقت اس نے، اس کے ٹخنوں پر حملہ بھی کیا تھا؛وہ اپارٹمنٹ کی ایک دراڑمیں گھات لگائے بیٹھی تھی اور جیسے ہی اس نے ، اس کے قدموں کی چاپ کو نزدیک پایا ، وہ دھاڑتی ہوئی اس کے ٹخنوں کے پاس سے بھاگی اور پردوں یا میز کی طرف گئی ۔ پردے گر گئے،کتابیں بھی فرش پر جا پڑیں اوربلی انہیں آنکھیں پھاڑے دیکھتی رہی ؛ اس کی آنکھوں کی پُتلیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ اسے بلی کو ایک دوسرے کمرے میں بند کرنا پڑا ، جہاں وہ میاﺅں میاﺅں کرنے کے علاوہ اپنے پنجوں سے دروازہ بھی کھرچتی رہی ؛ وہ یہ سب سنتی رہی اور تب ہی سو پائی جب بلی نے یہ سب کرنا بندنہ کیا ۔دن میں جب وہ اس کے پاس گئی اور اسے سہلاتے ہوئے اس کا نام لیا تو اس نے ، بِنا حرکت کئے اسے ایسے دیکھا جیسے اس نے سب دیکھ لیا ہو اور سب کچھ جان لیا ہو ۔تب اس نے اپنا آپ پیچھے کر لیا اور پیچھے ہٹ کر ایسے ظاہر کرنے لگی جیسے اپارٹمنٹ میں بلی موجود ہی نہ ہو ۔
” اس کو کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔“ ، مارجا نے سوچا اور وہ یہ بھی سوچنے لگی کہ وہ اس بلی کا کیا کرے ، جیسے وہ جاندار نہیں کوئی شے ہو؛ وہ اب نہ تو اس کی طرف دیکھ رہی تھی اور نہ ہی اس کے پاس جا رہی تھی ۔
جب اپارٹمنٹ خالی کرنے کا نوٹس آیا تو اس نے بلی کے بارے میں پھر سے سوچنا شروع کیا کہ وہ اس کا کیا کرے ؛ کیا وہ اسے سُلا دے یا ساتھ لے جائے ۔
جب وہ وہاں سے جانے کی تیاری کر رہی تھی تواسے اپنی تمام روانگیاں یاد آئیں ؛ خاص طور پر آخری والی جو طلاق کے بعد ہوئی تھی ۔اسے وہ کتابیں یاد آئیں جو اس نے لوگوں کو دے ڈالی تھیں یا انہیں بیچ دیا تھا ۔ اسے وہ ریکارڈ اور کپڑے یاد آئے جو اس نے پھینک دئیے تھے ، وہ چیزیں جو اس کے خاوند نے اس سے چھین لی تھیں ۔ وہ چیزیں جو وہ برت رہی تھی اور اس نے خریدی تھیں ۔ اس کی اپنی خریدی ہوئی چیزیں بہرحال اس کے اپنے پاس ہی تھیں ۔ یہ سب خوبصورت اور نئی کی نئی ہی تھیں اور ان پر ایک بھی خراش نہ آئی تھی ۔ چھریاں ، کانٹے ، چمچ ، کافی کی پیالیاں ، چائے کے پیالے ، کانچ کے برتن جنہیں ایک بار بھی استعمال نہ کیا گیا تھا ؛ جب وہ یہ سب سمیٹ رہی تھی تو اسے وہ چمکتا پیالہ یاد آیا جس کے کنارے کے پاس ایک باریک ، بال جیسی پتلی ’تریڑ‘ تھی جو گرد کی وجہ سے سرمئی نظر آ رہی تھی اور وہ برتن بھی جو ایک جگہ سے ذرا پچکا ہوا تھا ۔ پھر یہ بھی کہ ان سب چیزوں سے شکست کا احساس ، ابل ابل کر اس پر طاری ہوا تھا ؛ لیکن کیا یہ پرانی چیزوں سے ابل رہا تھا کہ نئی چیزوں سے ، اسے کچھ معلوم نہ تھا ۔ اسے ، البتہ وہ دن یاد تھا جب وہ عدالت میں گئے تھے ؛ کتنی تیز ژالہ باری تھی اور وہ بیٹھی کھڑکیوں کے ساتھ لگے ، گیلی برف کے ان بڑے ڈَلوں کو دیکھتی رہی تھی ؛ اسے یہ یاد تھا کہ جیسے ہی وہ شیشوں سے ٹکراتے تو پگھل کر پانی بنتے اور نیچے بہہ جاتے اور پھر مزید اولے ان کی جگہ لے کر یہی عمل مسلسل دوہراتے رہے تھے ۔ وہاں عدالت کے کمرے میں لگے ’ بلیٹن بورڈ ‘ پرجیلوں اورگاڑیوں کا ایک نقشہ بھی موجود تھا ؛ ملک کی ساری جیلیں ، ریل کی پٹریاں ، شہر، جن سے یہ گزرتی تھیں ، اس پر سفید پس منظر میں موجود تھے اور اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے اس ملک میں سوائے جیلوں اور ان کو ملاتی ریل کی پٹریوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا ۔ اسےاب بھی یہ راستے یاد تھے اورنیلے رنگ کا وہ وینائل صوفہ بھی جس میں ایک سوراخ تھا جسے فوم ربڑ کے ساتھ بھرا گیا تھا اور سخت ژالہ باری تو تھی ہی ۔
اس پر ناگواری کی کیفیت کئی روز تک چھائی رہی تھی ۔ اس نے گھر صاف کیا ، کھڑکیاں دروازے کھول کر اسے ہوا لگوائی ، کپڑے دھوئے اور گھر کی پشت پر پڑے کوڑا دان میں فالتو چیزوں کا انبار لگایا جنہیں اگلی صبح سویرے پوڑھے مرد اور عورتیں اٹھا لے جانا تھا اور دن میں بچوں نے ۔
اسے یہ بھی یاد آیا کہ ایک بار موسم بہار میں دو فاختائیں ایک کھلی کھڑکی سے گھر میں گھس آئی تھیں ۔ اس نے کھڑکیوں کے ساتھ پنجوں سے دھپے مارنے کی آوازیں سنی تھیں جیسے کوئی گیند کو ٹھوکریں مار رہا ہو ۔ ان کی بیٹھوں نے دیواروں اور فرش پر داغ ڈال دئیے تھے اور ان کے پھڑپھڑانے کی آوازوں اور پروں نے گھر کی فضا بھر دی تھی ۔ وہ بھاگ کر غسل خانے میں جا گھسی تھی اور ٹب کی بنی پر بیٹھ گئی تھی اور بند دروازے کے پیچھے سے ان کے شیشوں اور چیزوں کے ساتھ ٹکرانے کی آوازیں سنتی رہی ؛ اسے لگا تھا کہ ہر شے برباد ہو گئی ۔ مہتر نے ان فاختاﺅں کو باہر نکالا اورخود اس نے سارے پر جمع کرکے فاختائوں کے ڈالے داغ صاف کیے تھے ۔ لیکن اسے تو ایک نئی زندگی ، ایک خوبصورت زندگی چاہیے تھی ؛ صاف ستھری زندگی ؛ انہی دنوں اس نے ایک نیا اپارٹمنٹ دیکھنا شروع کیا تھا جہاں نئی زندگی ممکن ہو سکتی تھی ۔
اب وہ اس اپارٹمنٹ میں آخری چند روز گزار رہی تھی جہاں وہ سال پہلے آ کر بسی تھی ۔ کھڑکیوں نے باہر کے نظارے کو چھوٹے چھوٹے مربعوں میں تقسیم کر رکھا تھا ۔ دوپہر کا سورج ہو یا رات میں گاڑیوں کی روشنی یہ ہر بار ’ کراﺅن ‘ شیشوں سے مختلف طرح سے منعکس ہوتی جیسے پانی سے گزر کر آ رہی ہو ۔ اس کا عکس دیواروں ہر لمحاتی سا ہوتا اور اس کا یہ اختصار ایک عجیب سی اداسی طاری کرتا ۔ وہ اپارٹمنٹ میں چکر لگاتی اور سوچتی کہ اسے اور کیا کرنا تھا ۔ باورچی خانے کے فرش میں ایک تختہ ایسا تھا جو ہمیشہ چِر چِرکرتا تھا ، ساتھ والے اپارٹمنٹ میں جب بھی کوئی نلکے کی ٹونٹی کھولتا تو پانی کے پائپ دیواروں میں غراروں جیسی آواز پیدا کرتے ۔ باتھ روم کی ٹنکی بھی سی سی کی آواز پیدا کرتی ۔ اس نے یہ سب محسوس کیا اور یہ بھی کہ وہ اس آوازوں کی اتنی عادی ہو چکی تھی کہ اس نے ان کی طرف ، ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود پہلے کبھی دھیان ہی نہیں کیا تھا ۔
بلی نے یہ آخری دن اس سے گریزاں رہتے ہوئے گزارے ، گو وہ رہتی اس کے پاس پاس ہی تھی ۔ مارجا کو اس کی ایسی گُھوری کا دن میں کئی بار سامنا کرنا پڑتا جیسے وہ سب کچھ جانتی ہو ۔
اس نے وہاں سے جانے کا فیصلہ آخری لمحے تک ملتوی کر دیا جیسے اسے توقع ہو کہ بیدخلی کا نوٹس منسوخ ہو جائے گا ۔ اس کی نیند کم ہو گئی تھی اور وہ جب بھی جاگتی تو اسے اُس رات کا خیال آتا جو اس گھر میں اس کی پہلی رات تھی ۔
اسے یاد آیا کہ جب وہ اس مکان میں آئی تھی تو اس نے کتنی خواہش کی تھی کہ وہ اس گھر سے مطابقت پیدا کر لے ۔ یہ گھر باغ کے کنارے واقع تھا اور یہ باقی مکانوں سے مختلف تھا ۔ کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے آپ اس کی سطح پر قوس قزح دیکھ سکتے تھے ؛ جیسے پانی پر تیل کی بوند میں یہ نظر آتی ہے ۔ اس کی کھڑکیوں اور چھت کے چھجوں پر لکڑی کے فریم یوں جڑے تھے جیسے کپڑوں پر لیس لگی ہو ۔ مکان کے ایک حصے میں ایک مینار تھا جو اندر سے خالی تھا اور اس کی ہیرے کی شکل کی کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی ، جس میں پرندے آتے جاتے رہتے تھے ۔ وہ اوپر سے آتی سرسراہٹ اور باغ میں درختوں میں سے گزرتی ہوا کی سائیں سائیں سننے کے لئے جاگتی رہتی ؛ یہ چونکہ شہر کے وسط میں تھا اس لئے اسے لگتا کہ یہ آوازیں کسی اور دنیا سے آ رہی ہوں ؛ صبح کے وقت باغ میں پرندوں کا جاگنا بھی کچھ ایسا ہی لگتا تھا ۔ اس کی سابقہ اور موجودہ زندگی میں ایک واضح لکیر تھی اور اس گھر ، جو سو سال پرانا تھا ، میں اس کی زندگی خوبصورت تھی اور اسے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا ۔ یہاں رہتے ہوئے اس نے پچھلی زندگی میں اپنی ذات کو اجنبی گرداننا شروع کر دیا تھا جس کی حرکات اسے اب معمہ لگتیں ۔
اب ، لیکن ، نیا فلیٹ ایک ایسے اپارٹمنٹ ہاﺅس میں تھا جس میں دو ہی کمرے تھے گو یہ نیا بنا ہوا تھا لیکن اس میں قباحت یہ تھی کہ وہاں نہ تو گھر جیسی آوازیں تھیں ، نہ درخت اور نہ ہی پرندے بس ہمسایوں کی آوازیں ہی سنی جا سکتی تھیں ۔ وہ جب بھی اس نئے مکان اور اپارٹمنٹ میں بلی کا تصور کرتی تو اسے چینی کی مٹی کی بنی وہ بلی یاد آ جاتی جو اس نے کسی بوڑھی عورت کے گھر کی کھڑکی کی منڈیر پر رکھی دیکھی تھی جس کے گردن میں سرخ ربن بندھا تھا ۔
ایک رات جب وہ جاگی تو بلی اس کے ساتھ لیٹی تھی ۔ دروازہ کھلا رہ گیا تھا ۔ بلی اس طرح خر خر کر رہی تھی جیسے وہ تب کرتی تھی جب وہ ابھی بلونگڑی تھی ۔ اس نے اسے سہلانے کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن اسے چھونے سے پہلے ہی پیچھے کھینچ لیا ۔ بلی نے اپنے پنجے اس کی طرف بڑھا رکھے تھے اور وہ کمبل میں نرمی سے اٹکے ہوئے تھے ۔ ایسا تب ہوتا تھا جب وہ اپنی ماں کا دودھ پی رہی ہوتی تھی ۔ گو اس کے پاﺅں کمبل سے باہر تھے لیکن بلی ان کی طرف نہیں گئی تھی ۔ اس نے اپنی گردن اس کے گال سے لگا رکھی تھی ۔ یہ دیکھ کر وہ خوفزدہ ہو کر ساکت و بے حرکت ہو گئی ۔
بلونگڑی کے طور پر وہ ، اس کے ہی کمبل میں سوتی تھی ۔ وہ اسے کندھے پر لیے پھرتی ، فلیش لائٹ کی مدد سے تہہ خانے کے کونوں یا پچھلے صحن میں اسے تلاش کرتی ۔ لیکن اب یہ بڑی ہو چکی تھی اور اپنی راتیں باہر گزارنے لگی تھی ۔ اسے یاد آیا جب پہلی بار وہ بلیوں کی لڑائی کی آوازیں سن کر جاگی تھی ۔ یہ ایسی تھیں جیسے ابتر حالت والی عورتیں پچھلے صحن میں چِلا رہی ہوں ۔ اگلی صبح باہر برف پر خون کے دھبے موجود تھے ۔ اور پھر ہر رات بِلوں کے رونے کی آواز سنائی دیتی جو کبھی اونچی ہوتی اور کبھی مدہم ۔ پھر ان کی لڑائی شروع ہوتی اور ان کے پنجوں کی دھب دھب دیواروں کے ساتھ یا سیڑھیوں کے تختوں پر محسوس ہوتی ۔ وہ اس وقت آپس میں گھتم گھتا ہوئے ہوتے ۔ زمین پر بالوں کے گھچے گرے ملتے اور بلی کا کان کترا ہوا ہوتا ۔ بعد ازاں جب وہ دوبارہ اندر سونے لگی تو وہ اسے اپنے بستر سے بھگا دیتی اور دوسرے کمرے میں بند کر دیتی ۔ بلی نے بہت کوشش کی کہ اس کا پرانا وقت لوٹ آئے لیکن اس نے ایسا نہ ہونے دیا ؛ وہ یہ بھولنے والی نہ تھی ۔ اسے یہ بھی یاد آیا کہ تب لفٹ کی آوازیں آنے لگتیں ،اخبار بیچنے والے کے قدموں کی آوازیں خالی گلیوں ابھرتیں اور آخر میں صبح کی پہلی بسوں کی گڑگڑاہٹ شروع ہوتی تھی ۔
” تمہیں چاہیے تھا کہ تم اسے خصی کروا لیتیں ۔ “ ، عورتوں نے اس سے کہا تھا ؛ وہ عورتیں جو اس کے ساتھ کام کرتی تھیں ، وہ اس وقت کافی کے وقفے کے دوران لائبریری کے چھوٹے اور بِنا کھڑکی کے سگریٹ پینے والے کمرے میں بیٹھیں تھیں ۔ اب تو گزرے سالوں کے یہ کافی کے وقفے بھی دیواروں پر پیلے اور گندی بو والے داغ بن چکے تھے ۔ یہ سب کی سب طلاق یافتہ عورتیں تھیں ؛ جب وہ سگریٹ پی رہی ہوتیں تو وہ دوسروں اور اپنے سابقہ خاوندوں کی شادیوں کے بارے میں باتیں کرتیں اور ان میں کیڑے نکالتیں اور کہتیں کہ ان میں بھی جلد ہی طلاق ہوجانی تھی ۔
” تم ابھی بھی اسے خصی کرا سکتی ہو ۔“
” اب ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ پوری طرح پل چکی ہے ۔“
” اسے’ سُلوا ‘ کر جان چھڑاﺅ “ ، کسی نے کہا ، ” اور ایک نئی بلونگڑی لے کر اسے خصی کروا لو ۔“
بلی نے اپنا آپ چاٹنا شروع کر دیا تھا ۔ بندہ اندھیرے میں بھی اسے زبان سے اپنی کھال چاٹتے ہوئے سن سکتا ہے ۔ مارجا اور بھی پرے ہو گئی اور دیوار کے ساتھ لگ کر سو گئی لیکن پھر جاگ گئی ۔ نیند میں اسے بلی کی غر غر ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی مکھی اس کے کان کے پاس بھنبھنا رہی ہو اور وہ خیالوں میں اپنی ساس کے مکان میں پہنچ گئی جو مضافات میں تھا ، جہاں وہ ایک بڑے کمرے میں بینچ کے آخری سرے پر بیٹھی تھی اور کی گود میں ایک بند کتاب رکھی تھی ؛ وہ خالی سڑک کے پار جنگل کی نیلی لکیر کو مزید گہرا ہوتے دیکھ رہی تھی جس سے اس کے ذہن پر دباﺅ بڑھ رہا تھا اور اس پر اداسی طاری ہو رہی تھی ۔ اب وہ پوری طرح جاگ چکی تھی ؛ نیند کے مختصر عرصے میں وہ اپنی ساس کو سمجھ چکی تھی ، وہ جو وقت سے پہلے بوڑھی ہو گئی ، جو اکیلی رہ گئی ، جس کے ہاتھ ٹھنڈے پانی کی وجہ سے سوج گئے اور نیلاہٹ بھرے سرخ ہو گئے تھے اور سالوں رونے سے اس کا چہرہ سانچے کی طرح ڈھل گیا تھا ۔ لیکن نہیں ، اس نے سوچا ، اپنی ساس کے الفاظ اور تیکھی نظروں کے بارے میں اور یہ بھی کہ وہ وہاں صبح سویرے ، گرم اور بند کمرے میں روشنی اورمکھیوں کی بھنبھناہٹ سے اٹھ جایا کرتی اورجھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی تھی ۔
اس نے بلی کو اور پرے دھکیلا ۔ اس کی آنکھیں آدھی بند تھیں لیکن بندہ ان میں چمک کو دیکھ سکتا تھا ۔ اس کی بالوں بھری کھال بہت نرم تھی ۔ اس کی غر غر اس کے گلے میں سے کہیں دور سے ابھر رہی تھی ۔اس کی ناک کے کنارے گیلے اور ٹھنڈے تھے ۔ اس کو چھونا کچھ ایسے ہی تھا جیسے وہ سکول میں بلیک بورڈ کو چھو کر محسوس کرتی تھی یا پھر ویسا جب وہ لائبریری میں طویل دن گزار کر اپنے ہاتھوں میں کاغذ کا احساس محسوس کرتی تھی ۔
مارجا اٹھ گئی اور ایک خالی بینچ پر بیٹھ کر باہر صبح کو دیکھنے لگی ، جہاں درختوں اور مکانوں کے رنگ آپس میں گڈ مڈ تھے ۔ اسے لگا جیسے وہ کسی خطرے کے نزدیک جا پہنچی ہو جس سے وہ اب تک بچتی آ رہی تھی ۔ اسے یاد آیا کہ جس طرح اس نے ایک ہی لمحے میں اپنی ساس کے بارے میں جان لیا تھا اور اس جانکاری کی روشنی میں اس نے یہ بھی جانا تھا کہ اس نے اب تک جو کیا تھا وہ کتنا فضول تھا اور اس بہتر حالت سے نکل کر اگلی زندگی کیسی ہو گی ، جب ہر شے اپنی جگہ سے ہٹ جائے گی ، ایسے جیسے کوئی شطرنج کا تختے کو لگی بازی کے دوران ہلا دے ، جس سے سارے مہرے ہل جائیں ۔ باہر اب ، اس کے سامنے ، خدوخال وضع ہونے لگے تھے ۔ جھاڑیوں کی آپس میں جڑی شاخیں ، برچ کے پتے ایک دوسرے سے الگ الگ یوں دکھائی دینے لگے جیسے چھٹتی دھند سے باہر آ رہے ہوں ۔ اسے بھی اپنی زندگی کے واقعات ، ایک ایک کرکے آہستگی کے ساتھ یاد آنے لگے ۔ اور جب وہ سورج نکلنے کے بعد بستر پر واپس گئی تو بلی اسے مزید تنگ کرنے کے لئے وہاں موجود نہ تھی ؛ مارجا خود میں اپنا فیصلہ کر چکی تھی ۔
وہ اپنی کار چلا کر مکان کے پچھلے صحن میں گئی اور گاڑی کا انجن بند کرکے ہینڈ بریک لگائی ؛ مارجا کارمیں ہی بیٹھی رہی ۔ اسے سامنے کی سکرین سے سیمنٹ کی سرمئی دیوار نظر آئی اور اس کے اوپر انیٹوں کی چنائی والی دیوار جو درختوں کی ٹہنیوں سے بھی اوپر جا رہی تھی ۔ بائیں طرف کی کھڑکی سے اسے تارکول اور پھر کالی مٹی نظر آئی جس میں گھاس کے بیج اور کچھ ننھے پودے تھے ؛ ان میں سے کچھ نے تو تن آور درخت بن جانا تھا جب کہ پاقیوں نے تو مرنا تھا ۔ اس کے ساتھ بلی کی خالی ٹوکری پڑی تھی ۔ اس نے اس میں ہاتھ ڈالا اور اس کی سطح کو اپنی انگلیوں سے محسوس کیا ۔ جب وہ وہاں آ رہی تھی تو نجانے کیوں اسے ایک واقع کا خیال آیا جو سالوں پہلے پیش آیا تھا اور کچھ زیادہ اہم نہیں تھا ؛ پھر بھی وہ اسے بھلا نہ پائی تھی ۔ اس کے ساتھ یہ سوال جڑا تھا کہ وہ کہاں گئی تھی ۔ اس نے کہا تھا کہ وہ بنک گئی تھی لیکن اصل میں تو وہ فارمیسی میں گئی تھی ۔ وہ مسکرائی ۔ یہ ایک معمولی بات تھی جس کا کوئی مطلب نہ تھا ۔ لیکن اس نے اسی طرح کے مزید واقعات یاد کرنے شروع کر دئیے جن میں چھوٹی چھوٹی غلط باتیں تھیں لیکن یہ پھر بھی اسے پریشان کرتی تھیں ۔
اس نے ٹوکری سے اپنا ہاتھ کھینچا، اس ڈھکن بند کیا اور ٹوکری کوپچھلی سیٹ پر رکھا ؛ وہ اسے شاپنگ کے لئے استعمال کر سکتی تھی ۔ یہ ہاتھ کی بنی ہوئی عمدہ ٹوکری تھی جسے ایک نابینا نے بنایا تھا ۔ اس نے گاڑی کا شیشہ چڑھایا ، دوسرا دروازہ اندر سے بند کیا ۔ گاڑی کی چابی نکالی لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ اس نے آگے کیا کرنا تھا ۔ پلستر والی دیوار میں ایک عمودی پتلی دراڑ تھی ۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور سیٹ کی پشت کے ساتھ نیم دراز ہو کر اس دراڑ کو دیکھنے لگی ۔ کیا یہ دراڑ مکان کی بنیادوں تک جاتی ہے ، اس نے سوچا ، یا یہ صرف پلستر کی حد تک ہی ہے ؛ اب اسے اسی طرح باتیں تنگ کرنے لگی تھیں ۔
” کیا اسے پِسو پڑ گئے ہیں کیڑے یا پھر اسے پیچش لگ گئی ہے ۔ ۔ ۔ یا پھر کوئی اور مسئلہ ہے “ ، اسے یاد آیا ، جانوروں کے ڈاکٹر نے پوچھا تھا ۔
” نہیں اسے ’ سلانے ‘ کی ضرورت ہے ۔ “
” اوہ، اچھا ، تو اسے ’سلانے‘ کی ضرورت ہے ۔“
” یہ کچھ بدکردار ہو گئی ہے ۔ “ ، اس وضاحتی جواب دیا ۔ اسے یاد آیا کہ ڈاکٹر نے کیسے بلی کی تھوڈی کے نیچے گُدگُدایا تھا اور کتنے آرام سے معائنے والی میز پر لٹا دیا تھا ۔
” تو اسے یہ مسئلہ ہے کہ یہ کچھ بد کردار ہو گئی ہے ۔“ ، ڈاکٹر نے بلی کا معائنہ کرتے ہوئے کہا ۔ وہ اس دوران اسے بتاتی رہی کہ بلی میں کیا تبدیلی آئی تھی اس دوران ڈاکٹر بھی کبھی کبھی اس کی طرف نظر کر لیتا تھا ۔
'' اور یہ بھی ہے کہ میں اب ایک اپارٹمنٹ ہاﺅس میں منتقل ہو رہی ہوں ۔ “
” اور بلی کے لئے ایک نیا گھر تلاش کرنا مشکل کام ہو گا ، ایسا ہی ہے نا ؟ ویسے بھی کون چاہے گا کہ وہ ایک پلی پلائی بلی لے ، وہ تو ایک بلونگڑی ہی لینا چاہے گا ۔ “
” جی ، ایسا ہی کچھ ہے ۔ “ ، اس کے منہ سے فوراً نکلا ۔ اسے یہ بھی یاد آیا کہ وہ کیسے دروازے میں کھڑی تھی اور کیسے ڈاکٹر نے بلی کے گلے کو پکڑ کر اسے ٹیکہ لگایا تھا اور پھر اپنے ڈیسک پر جا کر بِل بنانے لگا تھا ۔
” تمہیں رکنے اور انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، میں سب سنبھال لوں گا ۔“ ، ڈاکٹر نے کہا ۔ اس نے اسے پیسے دئیے اور پھر خالی ٹوکری لئے باہر نکل آئی تھی ۔ میز پر سفید بلی لیٹی تھی ، اس کی ٹانگیں سیدھی تھیں اور وہ ویسی ہی چینی کی مٹی کی بنی بلی لگ رہی تھی جیسی اسے ہمیشہ سے یاد تھی ۔
اور یہاں آتے ہوئے ، کار میں اسے اور بہت سارے چھوٹے چھوٹے جھوٹ یاد آئے جن کو بولنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی ۔
اس نےمکان کی طرف دیکھا ۔ اپارٹمنٹ میں ابھی تازہ رنگ و روغن کی بو تھی ، ہر شے ، ہسپتال کی طرح نئی اور صاف ستھری تھی ۔ وہ اس مکان کے رہائشیوں سے پہلے ہی مل چکی تھی ؛ بوڑھی عورتیں ، وہ اسی کی طرح دو کمروں والے فلیٹوں میں اکیلی رہ رہیں تھیں ۔ انہوں نے اسے دیکھ کر ایک منحنی مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا اور اپنی تجربہ کار سرد آنکھوں سے اس کا جائزہ لیا تھا ۔اب جبکہ وہ کار میں بیٹھی انیٹوں کی چنائی والی دیوار ، تارکول اور مٹی کو دیکھ رہی تھی جس میں ننھے پودے تواتر سے نکل رہے تھے ، تو اسے معلوم تھا کہ وہ اب محفوظ ہے ؛ اس نئے مکان میں ان عورتوں کے درمیان ، ان جیسی ہی ایک ، جو اس مکان اور اپارٹمنٹ میں رہے گی اور بہت جلد ہی اسے اپنا گھر کہنا شروع کر دے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رعیا سئیکینین (Raija Siekkinen ) 11 فروری 1953 ء کو ’ کوٹکا ‘ میں پیدا ہوئی ۔ اس نے 1981 ء میں فینش ادب ، گوک شاعری اور فلسفہ پڑھتے ہوئے ہیلسنکی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی اور کچھ عرصہ بطور محقق اور لائبریرین کام کیا ۔ اس نے پھر 1984 ء سے ادب کی طرف رجوع کیا ۔ تب سے اس کے مرنے تک افسانوں کے آٹھ مجموعے ، تین ناول ، بچوں کے لئے چار کتابیں اور ایک ڈرامہ سامنے آیا ۔’ Kalliisti ostetut päivät‘) Dearly bought days ( اس کی کہانیوں کا آخری مجموعہ تھا جو 2003 ء میں شائع ہوا ۔ اس نے دو بار ’ سٹیٹ پرائز برائے ادب ‘ حاصل کیا ۔ وہ فینش ادب میں پہلی خاتون ناول نگار بھی مانی جاتی ہے ۔ اس کا پہلا ناول ’ Saari ‘ سن 1988 ء میں شائع ہوا تھا ۔
7 فروری 2004 ء کو ’ کوٹکا ‘ میں اس کے گھر میں آگ لگی جس وہ بھی جل کر فوت ہو گئی ۔
مندرجہ بالا افسانہ اس کی کتاب ’ Pieni valhe‘ ( A small lie ) ، جو 1986 ء میں شائع ہوئی تھی ، سے لیا گیا ہے ۔