تنہا عورت ( امرا ٗ ة وحیدة )
( A Lonely Woman )
مصنف ؛ زِکریا تامر
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
عزیزہ ایک خوبصورت لڑکی تھی لیکن اسے کالی بلیوں سے ڈر لگتا تھا ۔ وہ تب سے فکر مند تھی جب وہ شیخ سعید کے سامنے بیٹھی تھی ۔ اس کی سیاہ کالی اور انگارہ آنکھیں عزیزہ پر گڑھی تھیں جو اپنے بڑھتے ہوئے خوف پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ یہ خوف اس لئے بھی بڑھ رہا تھا کہ تانبے کی طشتری میں رکھے لوبان کی باس اُس کے نتھنوں میں گھس کر اُس کے جسم کو سن کر رہی تھی ۔
شیخ سعید نے کہا ؛ ” اچھا ، تو تم چاہتی ہو کہ تمہارا خاوند تمہارے پاس واپس آ جائے؟ “
” ہاں ، میں یہی چاہتی ہوں “ ، عزیزہ نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا ۔
شیخ سعید تاسف بھری آواز میں کہتے ہوئے مسکرایا ، ” اس کے گھر والے تو یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک اور شادی کرے ۔“
اس نے دہکتے کوئلوں والی تھالی میں مزید لوبان ڈالتے ہوئے کہا ؛ ” تمہارا خاوند تمہارے پاس آ جائے گا اور کوئی دوسری عورت اسے حاصل نہ کر پائے گی ۔“
اس کی آواز نرم اور سنجیدہ تھی جس سے عزیزہ کو سکون ملا اور اس نے طمانیت بھری ایک گہری سانس لی ۔ شیخ کا چہرہ کھِل اٹھا ۔” لیکن میرا ’ عمل ‘ سستا نہیں ہے ۔“، وہ بولا ۔
عزیزہ کا منہ نیچے لٹک گیا ۔ اس نے اپنی کلائی پر بندھے سونے کے بازو بند کو دیکھتے ہوئے کہا ، ” آپ جو چاہیں گے ، میں وہ دینے کے لئے تیار ہوں ۔“
شیخ نے دانت نکالے اور کہا ، ” تمہیں بس ذرا سا ہی کھونا ہو گا لیکن تمہیں تمہارا خاوند مل جائے گا ۔ کیا تم اس سے محبت کرتی ہو؟ “
عزیزہ نے بھاری سانس کے ساتھ غصے سے کہا ، ” نہیں ، میں اس سے محبت نہیں کرتی ۔“
” کیا تم اس سے لڑی تھیں ؟ “
” میں اس کے گھر والوں سے لڑی تھی ۔“
” کیا تمہارا سینہ تنومند ہے ؟ “
” مجھے کبھی کبھار یہ محسوس ہوتا ہے جیسے میرے سینے پر کوئی بوجھ ہے ۔“
” کیا تمہیں پریشان کر دینے والے خواب آ تے ہیں ؟ “
” میں راتوں میں اکثر جاگ جاتی ہوں اور مجھے ڈر لگتا ہے ۔“
شیخ سعید نے اپنا سر کئی بار ہلایا اور بولا ، ” یقیناً ، تمہارے سسرال والوں نے تم پر جادو کیا ہوا ہے ۔“
عزیزہ کو خوف نے گھیر لیا اور وہ چِلائی ، ” میں پھر کیا کروں ؟ “
” ان کا جادو ختم کرنے کے لئے دس ’لیرات ‘کے برابر لوبان درکار ہو گا ۔“
عزیزہ کچھ لمحوں کے لئے خاموش رہی ۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ اپنی چھاتی پر رکھا اور اپنے لباس میں سے دس لیرات نکالے ۔ اس نے یہ رقم شیخ سعید کو دی اور کہا، ” میرے پاس بس یہی ہیں ۔“
شیخ سعید اٹھا اور اس نے تنگ گھومتی ہوتی گلی میں جھانکتے ہوئے دونوں کھڑکیوں کے سامنے کالے پردے تان دئیے ۔ پھر وہ واپس آ کر تانبے کی اس تھالی کے سامنے بیٹھ گیا جس میں سفید راکھ پر انگارے دہک رہے تھے۔ اس نے اس میں کچھ اور لوبان ڈالا اور بولا؛ ” میرے بھائیو، جِنو ، تاریکی سے محبت کرو اور روشنی سے نفرت کہ ان کے گھر زیر زمین ہیں ۔“
باہر اس وقت دن ایسے روشن تھا جیسے کسی گوری عورت کا جسم ہو ۔ سورج کی پیلی شعاعیں گلی میں آگ برسا رہی تھیں جن میں ہجوم کی بڑبڑاہٹ کا امتزاج تھا ۔ شیخ سعید کا کمرہ البتہ تاریک تھا اور اس میں خاموشی تھی ۔
” میرے جِن بھائی مہربان ہیں ۔ اگر تم ان کی محبت پا سکو تو تم خوش قسمت ہو گی ۔ انہیں خوبصورت عورتوں سے پیار ہوتا ہے ۔ اپنا لبادہ اتار دو ۔“
عزیزہ نے اپنا کالا لبادہ اتار دیا جس کے نیچے سے ایک چست لباس میں اس کا گداز جسم شیخ سعید کے سامنے آیا ۔ شیخ نے پیلے دھبوں والی ایک کتاب سے مدہم اور پراسرار آواز میں کچھ پڑھنا شروع کیا ۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا ، ” نزدیک آﺅ ۔ ۔ ۔ اور یہاں لیٹ جاﺅ۔“
عزیزہ لوبان والی طشتری کے پاس لیٹ گئی ۔ شیخ سعید نے اس کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور اپنے عجیب وغریب الفاظ کا وِرد جاری رکھا ۔ پھر اس نے اچانک عزیزہ سے کہا؛ ” اپنی آنکھیں بند کر لو ، میرے جِن بھائی بس آتے ہی ہوں گے ۔“
عزیزہ نے آنکھیں بند کر لیں اور شیخ کی آواز تیز اور حکمیہ انداز میں ابھری؛ ” سب کچھ بھول جاﺅ ۔“
شیخ کے ہاتھ نے اس کے ملائم چہرے کو چھوا ۔ اسے اپنے والد کا خیال آیا ۔ شیخ کا ہاتھ کھردرا تھا اور اس میں ایک عجیب بھی باس تھی ۔ یہ ایک بڑا ہاتھ تھا گو اس پر بہت سی جھریاں پڑی تھیں ۔ اس کی آواز بھی عجیب تھی ؛ یہ خاموش اور خاکی دیواروں والے کمرے میں آہستہ آہستہ اونچی ہو رہی تھی ۔
شیخ کا ہاتھ اب عزیزہ کی گردن پر تھا ۔اسے اپنے خاوند کا ہاتھ یاد آیا ؛ جوایک عورت کی طرح نرم اور ملائم تھا ۔ وہ اپنے باپ کی پرچون کی دکان پر کام کرتا تھا ۔ اس نے کبھی بھی اس کی گردن کو سہلانے کی کوشش نہ کی تھی جبکہ اس کی انگلیاں اس کی رانوں کی جلد کو ہی ٹٹولتی رہتیں ۔
شیخ نے اب اپنے دونوں ہاتھ اس پر رکھ دئیے اور نرمی سے اس کی چھاتیوں پر پھیرتے ہوئے انہیں اس کے جسم پر اور بھی نیچے لے گیا ۔ اس کے ہاتھ سارے جسم کا طواف کرکے واپس اس کے سینے پر آ گئے ۔ اب ان میں نرماہٹ نہیں تھی اور وہ اس کی چھاتیوں کو بے دردی سے دبا رہے تھے ۔ عزیزہ نے آہ بھری ۔ اس نے مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں اور کمرے میں پھیلے دھویں کے مرغولوں کو گھورنے لگی ۔
شیخ سعید نے عزیزہ کے جسم سے اپنے ہاتھ ہٹا لیے ۔ اس نے دہکتے انگاروں پر کچھ اور لوبان چھڑکا اور اپنا وِرد جاری رکھا؛ ” میرے جِن بھائی آ رہے ہیں ۔۔۔۔ وہ آ رہے ہیں ۔ “
عزیزہ کا جسم ایک تیز جھٹکے سے لہرا گیا اور اس نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں ۔ شیخ اب ایک ایسی آواز میں بول رہا تھا جو عزیزہ کو دنیا کی پرلی طرف سے آ تی محسوس ہوئی ۔
” میرے جن بھائیو! خوبصورت عورتوں سے پیار کرو۔ تم خوبصورت ہو اور وہ تم سے پیار کریں گے ۔ میں چاہتا ہوں کہ جب وہ آئیں تو تم انہیں عریاں نظر آﺅ ۔ وہ تم پر کیا گیا سارا جادو اپنے ساتھ لے جائیں گے ۔“
خوفزدہ عزیزہ نے سرگوشی کی ، ” نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔“
شیخ نے سختی سے جواب دیا ، ” اگر وہ تم سے پیار نہ کر سکے تو وہ تمہیں تکلیف پہنچائیں گے ۔“
عزیزہ کو اس بندے کا خیال آیا ، جسے اس نے گلی میں دیکھا تھا ۔ وہ بے ہوش ہونے سے پہلے زخمی جانور کی طرح چیخ رہا تھا ، اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور اس کے ہاتھ پاﺅں ہوا میں ادھر ادھر یوں ہل رہے تھے جیسے وہ ڈوب رہا ہو۔
” نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں “
” وہ آ رہے ہیں ۔ “
لوبان کی باس اور تیز ہو گئی ۔ عزیزہ اب زور زور سے سانس لے رہی تھی ۔ شیخ سعید چلایا ؛ ” آﺅ ، بابرکت بھائیو ،آﺅ ! “
عزیزہ نے مدہم لیکن خوشی بھرے قہقہے اورایسے الفاظ سنے جنہیں وہ سمجھ نہ پائی ۔ اس نے محسوس کیا جیسے کمرے میں بہت سے بونوں جیسے لوگ موجود ہیں ۔ وہ بار بار کوشش کے باوجود بھی اپنی آنکھیں نہ کھول سکی ۔ اسے اس مخلوق میں سے ایک کی گرم سانس اپنے چہرے پر محسوس ہوئی ۔ ایک نے اس کے نچلے ہونٹ کو قابو کر رکھا تھا اور اسے چوسے جا رہا تھا ۔ اسے اپنی ننگی کمر کے نیچے قالین کھردرا لگنے لگا ۔ لوبان کا دھواں اکٹھا ہوا اور اس نے ایک آدمی کی شکل اختیار کر لی جس نے اسے بازوﺅں میں سمیٹ رکھا تھا اورجو اپنے بوسوں سے اسے مدہوش کر رہا تھا ۔ جیسے ہی اس منہ نے اس کے ہونٹ چھوڑے اس کے خون میں ایک جنگلی آگ ابھری اور اس کے سارے جسم میں پھیل گئی ۔ عزیزہ ہانپتے ہوئے حرکت کرنے سے بھی ڈر رہی تھی ۔ پھر اس کا خوف آہستہ آہستہ ختم ہو گیا اور اسے دھیرے دھیرے خوشی کے ایک انوکھے احساس کا تجربہ ہونے لگا ۔
’ وہ سفید تاروں ، گہرے نیلے آسمان ، پیلے میدان اور آگ اگلتے لال سورج کو دیکھ کر مسکرائی ۔ اسے دور بہتے دریا کے پانی کی آواز آئی لیکن یہ دریا زیادہ دیر دور نہ رہا ۔ وہ لطف سے ہنسی ۔ اداسی ایک ایسا بچہ تھا جو اس سے دور بھاگ رہا تھا ۔ اب وہ بلوغت پا چکی تھی ۔ ہمسائے کے بیٹے نے اسے گلے لگایا اور اس کا بوسہ لیا ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں ، یہ شرمناک حرکت تھی ۔ ویسی ہی جیسے نانبائی کے کارندے نے اسے ، اس وقت کچھ روٹیاں دیں جب وہ اپنے گھر کے دروازے میں کھڑی تھی ، پھر اچانک اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس کی چھوٹی چھوٹی چھاتیوں میں سے ایک کی چُو چی مڑور ڈالی ۔ اسے درد ہوئی ، وہ غصے میں آئی لیکن مضطرب بھی ہوئی ۔ اس کا ہاتھ کہاں ہے ؟ آہ ، یہ یہاں ہے ۔ اس کا ہاتھ ایک بار پھر اس کے جسم کو چھو رہا تھا ۔ اپنی سہاگ رات کو وہ درد سے چِلا اٹھی تھی لیکن اب وہ چِلا نہیں رہی تھی ۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ماں خون سے بھرا رومال لئے کھڑی ہے اور اس کے رشتہ دار اسے تجسس سے دیکھ رہے ہیں ۔ اس کی ماں چِلا رہی تھی اوراس کے چہرے پر خوشی پھوٹ رہی تھی ۔” میری بیٹی سب سے زیادہ باعزت ہے ! ہمارے دشمنوں کو حسد سے مر جانا چاہیے ! “
عزیزہ ، پھر سے خشک پیلے کھیتوں میں لوٹ آئی ۔ اب بادل آسمان میں اوپر اٹھ چکے تھے اور سورج کی تپش اس کے نزدیک آ گئی تھی ۔ وہ گھومی ، مڑی اور بہہ گئی اور ۔ ۔ ۔ اوراس کا جسم تیز آگ سے جھلس گیا ۔ دہکتا سورج اس کے نزدیک آتا جا رہا تھا اور اس کی تپش اس کے خون میں گھستی جا رہی تھی ۔ عزیزہ نے ابال سے بچنے کی کوشش کی لیکن اسی لمحے بارش ہونے لگی اور اس کا سارا جسم کانپ کر رہ گیا ۔ ‘
کچھ دیر بعد شیخ سعید عزیزہ کے ننگے بدن سے دور ہٹ گیا اور کھڑکی کی طرف بڑھا ۔ اس نے پردے ہٹا دئیے ۔ کمرے میں دن کی روشنی کا سیلاب امڈ آیا جس نے عزیزہ کی سفید چمڑی کو اجلا دیا ۔
عزیزہ بے چین ہوئی ۔ اس نے آہستگی اور احتیاط سے آنکھیں کھولیں اور سورج کی روشنی کے اُجلے پن پر حیران ہوئی ۔ وہ اٹھ بیٹھی ۔ اسے خوف کا احساس ہو رہا تھا ۔ شیخ سعید نے کہا ، ” فکر نہ کرو میرے جِن بھائی جا چکے ہیں ۔“
تھکی ماندی اور شرمندہ عزیزہ جھکی بیٹھی رہی ۔ اس نے اپنے لباس کا کونہ پکڑا ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ دیر تک وہیں بِنا ہلے جلے ، آنکھیں بند کئے لیٹی رہے ۔
شیخ سعید نے اپنے ہاتھ کی پشت سے منہ پونچھا اور اسے کہا ، ” ڈرو مت ۔ ۔ ۔ وہ جا چکے ہیں ۔“
اس کی آنکھوں سے آنسو جارے ہو گئے ۔ اس لمحے اسے گلی میں ایک ہاکر کی چیخ سنائی دی ۔ اسے ، اس کی چیخ کچھ ایسی لگی جیسے کوئی بندہ ، جو مرنا نہ چاہتا ہو ، رو رہا ہو ۔ کچھ منٹوں بعد عزیزہ گھومتی تنگ گلی میں اکیلے چلے جا رہی تھی ۔ اس نے امید بھری نظروں سے سر اٹھا کر اوپر دیکھا ، لیکن وہاں پر کوئی پرندہ نہ تھا ۔ آسمان نیلا تو تھا لیکن خالی ۔ ۔ ۔ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کہانی کے ترجمے کے لئے جو ٹیکسٹ استعمال کئے گئے ہیں وہ ’ دوزبانی ‘ کتاب ” ماڈرن عریبک شارٹ سٹوریز“ سے لیا گیا ہے ۔ یہ کتاب عربی اور انگریزی دونوں ٹیکسٹس کے ساتھ ہے ۔ اسے رونک حسنی اورڈینئل ایل نیومین نے2008 ء میں مرتب کیا تھا ۔
87 سالہ زکریا تامر ، شام کے شہر دمشق میں 2 جنوری 1931 ء کو پیدا ہوا ۔ عربی زبان کے اہم ترین ادیبوں میں شمار ہوتا ہے ۔ افسانہ نگاری کے علاوہ بچوں کے ادب کے لئے بھی مشہور ہے۔ اس کی بہت سی کہانیوں کی بنیاد لوک ادب پر ہے جسے وہ بہت مہارت کے ساتھ ما ورائے حقیقی (Surrealistic) انداز میں سیاسی و سماجی جبر اور ہر طرح کے استحصال کے خلاف احتجاج کے لئے برتتا ہے ۔ وہ عربی میں افسانچے لکھنے میں ویسے ہی ماہر ہے جیسے جاپانی زبان میں کاواباتا یاسوناری، جرمن میں کافکا ، روسی میں سلوگب اور اردو میں منٹو۔ افسانوں اور افسانچوں کے دس سے زائد مجموعوں ، طنزیہ مضامین کے دو انتخاب اور بچوں کے لئے لکھی گئی ان گنت کتابوں کے ساتھ وہ اب بھی باقاعدگی سے لکھ رہا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔