ستمبر 2019 ء میں مکتبہ دانیال ، کراچی نے محمد حنیف کے انگریزی ناول 'A Case of Exploding Mangoes ' شائع شدہ ، مئی 2008 ء کا اردو میں ترجمہ ' پھٹتے آموں کا کیس ' کے نام سے شائع کیا ۔ اسے سید کاشف رضا نے ترجمہ کیا تھا ۔ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ کچھ نامعلوم افراد نے مکتبہ دانیال کے دفتر پر ہلہ بولا ، مینجر اور عملے کو ڈرایا دھمکایا اور اس ترجمے کی ساری کاپیاں اٹھا کر لے گئے ۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا ؛ اس سے پہلے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب ' Military Inc ' کی پہلی اشاعت کے وقت بھی یہی واقعات پیش آئے تھے، جب اُن کی یہ کتاب دکانوں سے نا معلوم افراد اٹھا کر لے گئے تھے ۔ اس وقت بھی باقاعدہ عدالتی پا بندی والا معاملہ نہیں کیا گیا تھا جیسا کہ اس وقت بھی ہوا ہے ، کیونکہ عدالت میں پابندی لگوانے کے کیس کو ثابت کرنے کے لیے کہیں زیادہ محبت کرنا پڑتی ہے ۔
محمد حنیف کا انگریزی ناول جب شائع ہوا تھا تو اس کا بدیس ( امریکہ ) میں چھپا پہلا ایڈیشن پاکستان میں فقط 795 روپے میں آمر ' مشرف ' کی ناک تلے ہر پاکستان کے ہر شہر کے سرکردہ کتب فروش سے دستیاب تھا اور میں نے یہ اتنے کا ہی لے کر اسے پڑھا تھا ؛ ممکن ہے کہ مشرف ایک ' سافٹ پاکستان ' کے نظریے کے تحت اس پر پابندی نہیں لگا سکا تھا یا شاید اسے ضیاء الحق سے کوئی پرخاش رہی ہو ۔
میں نے اس ناول پر نومبر 2008 ء میں تبصرہ بھی کیا جو ہم نے اپنے رسالے ' عوامی جمہوری فورم ' میں شائع بھی کیا تھا ؛ نومبر میں پی پی پی کی سول حکومت آ چکی تھی اس لیے ہمارا رسالہ کسی عتاب کا شکار نہیں ہوا ۔ اب جبکہ محمد حنیف اپنے مترجم کے ذریعے پھر سے ' لائم لائٹ ' میں آئے ہیں ، ان کا بزبان انگریزی ناول تو اب بھی کئی دکانوں پر موجود ہے لیکن اس کے ترجمے نے جو کھلبلی عسکری و حساس اداروں میں پھیلائی ہے ، وہ تقاضا کرتی ہے کہ میں اپنا تبصرہ آپ کے سامنے پیش کروں ؛ یہ چونکہ سید کاشف رضا کے ترجمے پر نہیں ہے اس لیے اس میں ترجمے کی خوبیوں ، خامیوں کا ذکر نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ
مین بُکرانعام (Man Booker Prize) برائے 2008ء کے لیے جن تیرہ فکشن کی کتابوں کو پہلی سطح پرمنتخب کیا گیا ان میں محمد حنیف کا ناول ' قصہ پھٹتے آموں کا ' (A case of exploding mangoes) بھی شامل ہے ۔ البتہ دوسری سطح پر ان تیرہ کتابوں میں سے جن چھ کتابوں کو چنا گیا ہے ان میں یہ ناول شامل نہیں رہ سکا ۔ وجوہ کا پتہ جیوری کو ہوگا پر ہمیں اس سے بحث نہیں ۔ ہم اس ناول پر اس لیے بات کر رہے ہیں کہ محمد حنیف ایک پاکستانی ہیں جو اوکاڑہ میں پیدا ہوئے اور پھر وہ پنجابی پیارے بھی ہیں ۔ وہ موٹر سائیکل یا کار چلانے کی بجائے سیدھا ہوائی جہاز اڑانے کے لیے پاکستان ایئرفورس میں بھرتی ہوئے ۔ تربیت کے دوران ہی انہیں احساس ہوا کہ وہ کسی اور کام کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔ تربیت مکمل ہوتے ہی ائیرفورس چھوڑی اور صحافت کے میدان میں آ گئے ۔ کراچی سے نکلنے والے مشہور انگریزی جریدے نیوزلائن (News Line) کے لیے کام کیا ۔ اس کے علاوہ انڈیا ٹوڈے اور واشنگٹن پوسٹ کے لیے بھی لکھا ۔ یونیورسٹی آف ایسٹ انجلیا سے ”تخلیقی تحریر“ (Creative Writing) میں ڈگری حاصل کی ۔ سٹیج اور ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھے ۔ آج کل وہ بی بی سی کی اردو سروس کے انچارج ہیں *۔
اب آئیے ان کے ناول کی طرف۔ جب میں یہ ناول پڑھ رہا تھا تو مجھے فریڈرک فورسائتھ (Forsyth) کا ناول ' ڈے آف دی جیکال ' ( Day of the Jackal ) یاد آیا پھر مجھے کچھ اور ناول بھی یاد آئے۔ ان میں جیفری ہاﺅس اولڈ کا ' بدمعاش مرد ' (Rouge Man) ، رچرڈ کن ڈون (Richard Condon) کا ' منچورین امیدوار ' ( Manchurian Candidate ) ، ڈون ڈی لیلو (Don Dellilo) کا ' لبرا ' (Libra) اور جیمز ایل رائے (James Ellroy) کا ' امریکی ٹیبولائڈ ' ( American Tabliod ) شامل ہیں ۔ ان تمام ناولوں میں ایک بات مشترک ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کو قتل کرنے کا منصوبہ کیسے بناتے ہیں ۔ ” ڈے آف دی جیکال “ میں فرانسیسی صدر جنرل ڈیگال کو قتل کرنے کا منصوبہ بنتا نظر آتا ہے۔ قاتل کس طرح اس تقریب میں پہنچتا ہے جہاں جنرل ڈیگال نے خطاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے ناول کا اختتام قاتل کی ناکامی پر ہوتا ہے۔ زیرتبصرہ ناول بھی ایسے ایک قتل کے منصوبے کا مرکزی خیال لیے ہوئے ہے ۔ مجھے جوزف ہیلر (Joseph Heller) کا ناول کیچ ۔ 22 ( Catch-22 ) بھی یاد آیا جس کا کردار یوسارین (Yossarain) محمد حنیف کے ناول کے کردار علی شگری سے خاصی مماثلت رکھتا ہے ۔ Catch-22 فوجی آمریت اور اس کے تحت معاشرے میں آنے والے مصنوعی نظم و ضبط پر ایک بڑھیا طنز ہے ۔ محمد حنیف کے ناول میں بھی اسی طرح کا چَس موجود ہے ۔
محمد حنیف نے اپنے ناول میں ایک ایسے انسان کے قتل کو موضوع بنایا ہے جو بالآخر ' ریڈالرٹ ' حفاظتی بندوبست کے باوجود قتل ہو جاتا ہے اور وہ شخص ہے پاکستان کا فوجی آمر جنرل ضیاءالحق ۔
جاری کردہ حقائق کے مطابق 17 اگست 1988ء کو ضلع بہاولپور میں ٹینکوں کی جنگی مشق دیکھنے کے بعد جنرل ضیاءالحق ' پاک ۔ ون ' سی ۔ 130 ہرکولیس طیارے میں بیٹھا اورجو اسلام آباد کی جانب محو پرواز ہوا جنرل اسلم بیگ کو چھوڑ کر پاکستان آرمی کے تقریباً تمام اعلیٰ افسران بھی اس جہاز میں سوار تھے ۔ علاوہ ازیں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر آرنلڈ رافیل کے ہمراہ ایک امریکی فوجی عہدیدار بریگیڈئیر واسم بھی اسی طیارے میں ان کے ساتھ تھے ۔ طیارے کے پرواز کرنے سے کچھ دیر پہلے اس میں آموں کی پیٹیاں بھی لا دی گئیں ۔ جب طیارہ زمین سے بلند ہو کر فضا میں پرواز کرنے لگا تو جلد ہی طیارے نے متوازن پرواز کرنے کی بجائے ہوا میں اوپر نیچے ڈولنا شروع کر دیا ۔ کچھ ہی دیر بعد جہاز زمین پر گر کرتباہ ہو گیا اور اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے۔
اس حادثے پر قیاس آرائیوں کا ایک انبار ہے جو طیارے کے انجن میں خرابی سے لے کراس انتہا کو چھوتی ہیں کہ آموں کی پیٹیوں میں سے ایک میں نروس سسٹم کو تباہ کرنے والی گیس کے ڈبے تھے جو ایک خاص وقت پر پھٹے ۔ گیس جہاز کے ایئرکنڈیشننگ سسٹم میں شامل ہوگئی جس سے جہاز پر سوار تمام بمع دونوں پائلٹوں کے ہلاک ہو گئے۔ بعدازاں جہاز بے قابو ہو کر زمین پر گر کر تباہ ہو گیا ۔
تمام قیاس آرائیاں ایک ہی نتیجے پر پہنچتی ہیں ؛ جنرل ضیاءالحق کو منصوبے کے تحت قتل کیا گیا تھا ۔ اس کے ذمہ دار ٹھہرائے جانے والوں میں سی آئی اے ، موساد ، کے جی بی ، راء ، مرتضیٰ بھٹو کی تنظیم ' الذوالفقار ' شامل ہیں ۔ تاہم سابق سفارت کار اکرم ذکی کا کہنا ہے کہ گھر کے بھیدی کے بغیر یہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ ضیاء الحق کے فرزندان نے تو جنرل اسلم بیگ کو بھی مشکوک افراد کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے ۔
محمد حنیف نے اپنے ناول کا پس منظر اور پیش منظر ”پاک ۔ ون“ کے کریش کرنے سے پہلے اور اس کے بعد کے زماں و مکاں میں بُنا ہے ۔ البتہ اوپر دی گئی تمام ممکنات کے علاوہ محمد حنیف نے چھ اور مشکوک کردار تخلیق کئے ہیں ۔ ان میں ایک تو نابینا عورت ہے جسے زناکاری کے جرم میں موت کی سزا سنائی جا چکی ہے ۔ دوسرا ماﺅ نواز مارکسسٹ ہے جو گلیاں صاف کرتا ہے ۔ تیسرا ایک سانپ ہے۔ چوتھا ایک کوا ہے، پانچواں کینچوﺅں کی ایک فوج ہے اور چھٹا پاکستان ایئرفورس کا ایک جونئیر افسر جو ابھی زیرتربیت ہے ۔ اس کا نام علی شگری ہے۔ علی شگری اس ناول کا ایک طرح سے راوی بھی ہے ۔
ناول کا زیادہ تر حصہ پاکستان ایئرفورس کی تربیتی اکیڈیمی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے ۔ ناول کا پہلا باب کچھ یوں شروع ہوتا ہے؛
” ان بیہودہ سکواڈرن لیڈروں کے بارے میں کچھ تو ہے جو انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اگر انہوں نے آپ کو ایک کوٹھری میں قید کر دیا ہے اور وہ اپنا بدبودار منہ آپ کے کان کے پاس لے جائیں اور آپ کی ماں کے بارے میں بیہودہ گالی چلاتی ہوئی آواز میں نکالیں تو وہ آپ سے اپنی مرضی کا جواب اُگلوا لیں گے ۔ یہ سکواڈرن لیڈروں کی ایک ایسی محروم کھیپ ہے جن کے پاس سکواڈرن کی اَگوائی کرنے کے لیے کوئی سکواڈرن ہے ہی نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود میں رہنمائی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔ اس لیے اپنے کیرئیر میں آگے نہیں بڑھ پائے اور اب ایک یا دوسری تربیتی اکیڈیمی میں ہمیشہ کسی نہ کسی کمانڈر کے نمبر۔ ٹو رہتے ہیں ۔“
ناول کے آغاز میں ہی حنیف پاکستان ایئرفورس کی تربیتی اکیڈیمیوں کے بارے میں ایک پنچ لائن (Punch Line) مارتے ہیں جو کچھ یوں ہے؛
” پارٹ ٹائم ایم بی اے اور ایک نئی زندگی کی شروعات کی سکیمیں یہ کوشش تو کر رہی ہیں کہ وہ ان ترقی اور پنشن سے محروم ہو جانے والے افسروں کو نئی راہ دکھا سکیں . “
علی شگری ایک اکھڑ ، سست الوجود اور ہر بات میں کیڑے نکالنے والا کردار ہے۔ اس کے اردگرد تربیتی اکیڈیمی کا پس منظر ہے جس میں اس کے اردگرد لیفٹیننٹ بینن (Bannon) ، امریکی ڈرل ماسٹر اور دھوبی انکل سٹرا چی (Strachy) جیسے کردار گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ علی شگری کے سوا یہاں سب ایک سے بڑھ کر دیوانے اور نااہل ہیں ۔ امریکی ڈرل ماسٹر کو اولڈ سپائسس (Old Spices) پرفیوم کی پوری بوتل کپڑوں پر انڈیلنے کا شوق ہے ۔ انکل سٹراچی کو سانپ سے ڈسوانے کی لت ہے ۔ عبید بھی خوشبو کا دیوانہ ہے پر اولڈ سپائسس کا نہیں ، اسے Poison پسند ہے۔ سکون حاصل کرنے کے لیے اسے فلم ' گنز آف نیورون ' دیکھنے کا جنون ہے ۔ کبھی کبھی اس پر عشق کا بھوت بھی سوار ہو جاتا ہے ۔ اکیڈیمی کے کیڈٹ بھی دیوانے ہیں ۔ اپنی جنس کی تسکین کے لیے مصنوعی طریقے تلاش کرتے ہیں ۔ علی شگری البتہ ان دیوانوں کی دنیا میں قدرے نارمل ہے۔ لیکن اسے بھی یہ گمان کھائے جاتا ہے کہ اس کے باپ کرنل قلی شگری کو جنرل ضیاءالحق کے حکم پر قتل کیا گیا تھا ۔ وہ بدلے میں جنرل ضیاءالحق کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے جس میں وہ بینن ، سٹریچی کے سانپ اور اپنے دوست عبید عرف ” بی بی۔او“ کو شامل کرتا ہے ۔
محمد حنیف کا کمال ہے کہ وہ ناول میں علی شگری کی بنائی ، قتل کے منصوبے کی کہانی ، ضیاءالحق اور اس کے اردگرد کے کرداروں کے بیان کا امتزاج اس خوبی سے کرتا ہے کہ آپ ناول پڑھ کر یہ کہہ اٹھیں گے کہ محمد حنیف کمال کا قصہ گو ہے۔ یہ امتزاج ہی اس ناول کی ایک بنیادی خصوصیت ہے ۔ محمد حنیف اپنے ناول میں لطیفوں ، چٹکلوں اور طنزیہ جملوں کا بھرپور استعمال کرتا ہے جو ایسے ایسے مقامات پر آپ کو پڑھنے کے لیے ملتے ہیں کہ آپ چونک جاتے ہیں ؛ ضیاءالحق خاص طور پر اس مشق کا نشانہ ہے ۔ یہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا کہ جب ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو اس کی ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں مگر طویل اقتدار نے اسے موٹا اور بھدا کر دیا تھا ۔ وہ نمازی پرہیزگار بھی تھا پر عیار اور خونخوار بھی ۔ محمد حنیف اس حوالے سے اپنے ناول میں ایک جگہ لکھتا ہے؛
” وہ نماز پڑھتے پڑھتے ہچکیاں لے کر رونا شروع کر دیتا ہے جبکہ دوسرے لوگ منہ ہی منہ میں نماز پڑھتے رہتے ۔ وہ نماز پڑھنے کے دوران جنرل ضیاء کے اس طرح کے رونے کو سننے کے عادی تھے۔ البتہ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ خدا سے شدید عقیدت کے باعث روتا ہے یا پھر۔ ۔ ۔ “
ناول کا ایک کردار زینب بھی ہے جو ایک اندھی عورت ہے اس کو اس لیے سنگسار کیا جانا ہوتا ہے کہ اس پر زناکاری کا جرم ثابت ہوا تھا ۔ اصل میں وہ اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی ہوتی ہے ۔
علی شگری جب قتل کے منصوبے کی وجہ سے دھر لیا جاتا ہے اور اسے پوچھ گچھ کے لیے لاہور کے شاہی قلعے میں لا کر ایک کوٹھری میں بند کر دیا جاتا ہے تو اس قید کے دوران اس پر ایسی حقیقتیں بھی کھلتی ہیں کہ وہاں تو لوگ نو نو سال سے کوٹھریوں میں بند ہیں ۔ یہ بھی کہ اس قلعے کو ” ٹارچر سنٹر“ بنانے میں اس کے باپ کرنل قلی شگری کا بھی ہاتھ تھا ۔ ناول میں اس طرح کے بہت سے دلچسپ موڑ آتے ہیں ۔
ناول کے ذریعے محمد حنیف ہمیں اس زمانے کی بدلتی سیاسی صورتحال پر ایک بار پھر نظر دوڑانے کا موقع دیتا ہے ۔ جب امریکی خارجہ پالیسی رُخ بدلتی ہے اور ضیاءالحق کے ذریعے افغان مجاہدین کو ڈالر، اسلحہ اور فوجی تربیت سب کچھ ملنے لگتا ہے تاکہ وہ سوویت فوجوں کے خلاف لڑ سکیں ۔
محمد حنیف نے اپنے ناول میں اسامہ بن لادن کا ذکر کرنے کے لیے ایک ایسی بار بی کیو دعوت کی منظرکشی کی ہے جو 4 جولائی 1988ء کو اسلام آباد میں پاکستان میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل نے افغان مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دی ۔ اس دعوت میں شریک تمام افراد نے افغان مجاہدین کا مخصوص لباس شلوار قمیض پگڑی وغیرہ پہن رکھا تھا ۔ اس دعوت میں ایک نوجوان سعودی بھی ہے جسے سب او بی ایل (OBL) کے نام سے پکار رہے تھے ۔ وہ جہاں سے گزرتا لوگ اسے مبارک باد دیتے ۔ OBL لادن اینڈ کو، کنسٹرکشن کمپنی کے لیے کام کرتا ہے۔ جب وہ پاکستان میں سی آئی اے کے مقامی چیف سے ملتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے:
” تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ اچھا کام ہے اسے جاری رکھو۔ “
محمد حنیف کا خیال تھا کہ پاکستان میں اب ضیاء کے چاہنے والے کچھ زیادہ نہیں ہوں گے ۔ یہ سوچ کر انہوں نے اسے پاکستان سے شائع کروانا چاہا ۔ انہیں حیرت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کسی بھی پبلشر نے ان کا ناول چھاپنے کی حامی نہ بھری ۔ اس پر محمد حنیف نے کراچی کے انگریزی جریدے نیوز لائن والوں سے بات کی ۔ انہوں نے چھاپنے کی حامی تو بھرلی مگر جب مسودہ چھپنے کے لیے چھاپے خانے گیا تو چھاپے خانے کے مالک نے اسے چھاپنے سے انکار کر دیا ۔ یوں محمد حنیف کو یہ ناول بیرون ملک ہی چھپوانا پڑا ۔ گو یہ ناول پاکستان میں تو نہیں چھپا البتہ اس کی جتنی بھی کاپیاں پاکستان آئیں وہ ہاتھوں ہاتھ بک گئیں ۔
محمد حنیف کا اپنے ناول کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ ان کا مقصد ایک ایسا چونکا دینے والا ناول لکھنا تھا جس میں مزاح اور طنز بھی ہو اور جس میں تاریخی واقعات کی سچائی فِکشن میں گم نہ ہو جائے ۔ وہ ایسا کرنے میں یقینا کامیاب ہوئے ہیں ۔ انہوں نے انتہائی مہارت سے بین السطور پاکستان کے آمروں کے بیہودہ ، ظالم اور دوغلے پن کا بھی پردہ چاک کیا ہے۔
ناول پاکستان میں 795 روپے *میں دستیاب ہے ۔
( شائع شدہ ؛ عوامی جمہوری فورم ، شمارہ نمبر 46 ، نومبر 2008 ء )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* اب شاید نہیں
سید کاشف رضا کا ترجمہ دستیاب ہوا تو دوسری قسط کے طور پر اس بھی بات کروں گا ۔ ویسے مجھے حیرت ہے کہ سید کاشف رضا / محمد حنیف نے اس ناول کے ترجمے کو شائع کروانے میں اتنی دیر کیوں لگائی ؛ سنا ہے کہ سید کاشف رضا نے یہ ترجمہ کچھ برس پہلے کیا تھا ۔ انہوں نے وقت بھی وہ چنا ، جب پاکستان کی عسکری قیادت اور حساس ادارے عمران خان نیازی کی شکل میں خود ہی برسر ِاقتدار ہیں ۔