(Last Updated On: )
’’وزیر خارجہ ۔۔۔۔۔۔۔پڑوسی سیارہ زمین کے باشندوں کے بارے میں کیا خبر ہے ؟ ہمارے سیارے پر ہوٹل اور شاپنگ مال تعمیر کرنے کے ان کے منصوبوں کا کیا ہوا؟‘‘
ملکہ نے اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوتے ہی با رعوب آواز میں پوچھ لیا۔
’’ملکہ کا اقبال بلند ہو ۔۔۔۔۔۔جان کی امان پاؤں تو بتاؤں‘‘ ۔
’’ جلدی بتاؤ ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’دو مہینوں سے زیادہ وقت سے ہمارے چک پوائینٹ سے نظر آنے والی حدود “جہاں سے روزانہ زمین والوں کے سینکڑوں جہاز گزرتے تھے” سے ایک بھی جہاز نہیں گزرا ہے ۔ہم نے اپنے جاسوس جہاز بھیج کر اس سیارے کا ایک خفیہ سروے بھی کرایا ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔؟
لیکن کیا ،وزیر خارجہ ؟ کوئی خطرے کی بات تو نہیں ہے؟‘‘
ملکہ نے پریشان کن لہجے میں پوچھا۔
’’بالکل نہیں ملکہ عالی جان ۔۔۔۔۔۔ سروے کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس کے مطابق سیارہ زمین کے حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں ، وہاں جیسے زندگی کا پہیہ جام ہو کے رہ گیا ہے ‘‘۔
وزیر خارجہ نے رپورٹ ملکہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ۔
’’یہ تو بڑی گھمبیر صورت حال ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
ملکہ نے رپورٹ پر سرسری نظریں دوڑانے کے بعدفکر مند لہجے میں کہا اور قلم اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگائے کچھ دیر کے لئے گہری سوچوں میں ڈوبے رہنے کے بعد گویا ہوئی ۔
’’وزیر خارجہ ۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
’’جی ملکہ ۔۔۔۔۔‘‘۔
’’آپ جلد از جلد ایک مشن زمین پر بھیجنے کی تیاری کریں جو وہاں کے حالات کی مکمل جانکاری حاصل کر کے تفصیلی رپورٹ پیش کرے گا، تاکہ ہم آئیندہ کے لئے پالیسی مرتب کر سکیں‘‘۔
’’جو حکم ملکہ عالی جان ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’اور ہاں ۔۔۔۔۔۔ ذرا احتیاط سے سب کچھ سنبھا لنا،کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوجائے کیوں کہ زمین والے بڑے شاطر ہیں اور ان کے پاس طاقت ور اور جدید ترین ہتھیار ہیں ‘‘۔
’’ملکہ عالی جان ۔۔۔۔۔۔ آپ بالکل بے فکر رہیں‘‘۔
وزیر خارجہ دربار سے رخصت ہو کر سیارہ زمین پر مشن بھیجنے کی تیاری میں جُھٹ گیا اور دوسرے دن صبح پو پھٹنے کے ساتھ ہی تجربہ کار عملے پر مشتمل مشن زمین پر ایک خفیہ جگہ پر اتر گیا ۔
’’کیپٹن شوقی ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ یس سر‘‘ ۔
’’مجھے لگتا ہے کہ آج اس سیارے کی شکل ہی بدلی ہے ۔اتنا صاف شفاف اور پر سکون ماحول میں نے آج سے پہلے یہاں کبھی نہیں دیکھا ہے ‘‘۔
مشن کے سربراہ نے جہاز سے اتر کر ادھر اُدھر کا جائیزہ لینے کے بعد کہا۔
’’یس سر ۔۔۔۔۔۔ میں بھی آپ کو یہی بتانا چاہتی تھی ‘‘۔
’’اینی وے ۔۔۔۔۔۔ اب ہمیں مشن پر کام شروع کرنا چاہئے تاکہ مقررہ وقت پر ہم اپنا مشن مکمل کرکے ملکہ کو رپورٹ پیش کر سکیں ‘‘۔
اس نے ضروری ہدایات دے کر ٹیم کے اراکین کو اپنے اپنے تفویض شدہ کام پر لگا دیا اوراپنی سیکریٹری کو ان کی نگرانی پر معمور کرکے خود جہاز کی سیکورٹی کا جائیزہ لے کرکچھ دیر ارد گرد کے پر کشش ماحول اور فضا میں تیرتے پرندوں اور ان کے کانوں میں رس گھولنے والے خوش لہن سریلے نغموں سے محظوظ ہونے کے بعد دوربین کی مدد سے بڑی گہرائی سے ارد گرد کا جائیزہ لینے لگا ۔دوربین گھماتے ہوئے دفعتاً اس کی نظر یں کچھ دوری پر مختلف قسم کے جنگلی جانوروں کے ایک بڑے جھنڈ پر بڑی ، کچھ دیر بڑی دلچسپی سے ان کی حرکات وسکنات کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہ سیکریڑی اور کچھ محافظوں کو ساتھ لے کرعجلت میں ان کی جانب گیا ۔۔۔۔۔۔
’’ میرے پیارے ساتھیو ۔۔۔۔۔۔انسانی آبادی کی نقل حرکت بند ہونے کی وجہ سے زمین کے آب وہوا اور ماحول میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے ۔ ندیوں ،جھیلوں اور جھرنوں کا پانی چمک اٹھا ہے ۔ ہوائوں میں موجود زہریلی گیسوں اور گرد غبار میں خاطر خواہ کمی آئی ہے جب کہ او زون (OZONE)کی پرتوں میں پیداشدہ شگافو ں میں مرمت کا کام بھی خود بہ خود ہونے لگا ہے ۔ اب صدر محترم سے گزارش ہے کہ یہ موجودہ حالات پر اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں‘‘۔
’’ ایک جسیم ہاتھی ،جس کے ایک طرف بزرگ شیر بیٹھا تھا ، جانوروں کے اس جھنڈ سے مخاطب تھا ،نے اپنی بات ختم کرکے شیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘‘۔
’’ میری سلطنت کے عزیز واسیو ۔۔۔۔۔۔جب کوئی ماہر کوئی چیز بناتا ہے ساتھ میں اس چیز کو استعمال کرنے کی ہدایات بھی دیتا ہے۔اگر اس چیز کو ان ہدایات کے مطابق استعمال نہ کیا جائے تو لازماًاس چیز میں خرابی پیدا ہوتی ہے یا وہ چیز ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہے اور آج اس سیارے کا بھی یہی حال ہو چکا ہے جس خالق نے اسے تخلیق کیا ہے اُس نے یہاں رہنے بسنے کے لئے بھی با ضابطہ طریقہ کار وضع کیا تھا لیکن اس سیارے کی افضل ترین مخلوق اولاد آدم نے اس طریقہ کار کو پھلانگتے ہوئے اپنی ہی من مانی کرکے اپنی خواہشات کے مطابق اپنی زندگی جی اور آ ہستہ آہستہ اس سیارے میں خرابی پیدا ہونے لگی لیکن دو ٹانگوں پر چلنے والے یہ انسان ،جن کے دل اور ضمیر پتھر کے ہو چکے ہیں ، پھر بھی بے فکری سے اپنے خوابوں کی تکمیل میں مست رہے ۔اب لگتا ہے کہ شاید اس سیارے کے خالق نے اس کی مرمت کا پلان بنایا ہے اور یہ سیارہ اس وقت شاید اسی مرمت کے دور سے گزر رہا ہے ۔ آپ توجہ سے میری بات سنیں ‘‘۔
شیر کی باتیں سن کر مجموعے میں مختلف قسم کی آوازیں آنے لگیں تو شیر نے گرجدار آواز میں کہا اور کچھ توقف کے بعد اپنی بات جاری رکھی۔
’’ اس سیارے پر بود باش کرنے والی اہم مخلوق آدم زاد ،جو اس وقت اپنے اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئی ہے، سخت مشکلات اور کٹھن حالات سے گزر رہی ہے۔ ان کے مشکلات سے اگر چہ ہمارے نسل سمیت یہاں آباد تمام دوسری مخلوقات کو بھی بے پناہ راحت محسوس ہورہی ہے لیکن پھر بھی ہمیں ہرگز انسانوں کی اس حالت پر خوش نہیں ہونا چاہئے اور اس مخلوق کی بہتری کے لئے کوشاں رہنا چاہئے ورنہ ان میں اور ہم میں فرق ہی کیا رہے گا ۔۔۔۔۔۔؟ ہاں ایک اور ضروری بات ، جیسے کہ پہلے ہی آپ کو ہدایات دی جا چکی ہیں کہ انسانوں سے ہر حال میں دوری بنائے رکھیں ورنہ ہمارے لئے بھی پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں‘‘ ۔
شیر نے اپنی بات ختم کی تو تمام جنگلی جانوروں نے ضرور ۔۔۔ ضرور کے نعرے بلند کئے اور انتہائی نظم وضبط کے ساتھ منتشر ہوگئے ۔
’’کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے ‘‘۔
واپس آکر گروپ کا باس خود سے بڑ بڑایا اور شیر اور ہاتھی کی باتوں کو لے کرگہری سوچوں میں ڈوب گیا ۔۔۔۔۔۔
’’سر ۔۔۔۔۔۔ جاسوس نمبر دو نے ایک رپورٹ اور کچھ تصویریں بھیجی ہیں ‘‘۔
کچھ دیر بعد دفعتاً سیکریٹری کی آواز نے اسے چونکا دیا اور وہ اٹھ کر مواصلاتی سسٹم کے سامنے بیٹھ کر چیک کرنے لگا ۔ تصویریں،جن سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ زمین والے کسی بڑے سنکٹ میں پھنسے ہیں، دیکھ کر اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی ۔زمین پر زندگی کی تمام رونقیں غائب تھیں ۔ائیر پورٹ بند جہاں جہاز ایسے قطاروں میں کھڑے تھے جیسے کوئی شو روم ہو ۔۔۔۔۔۔ریل گاڑیاں بند ۔۔۔۔۔۔موٹر گاڑیاں بند ۔۔۔۔۔۔پارکیں ویران ۔۔۔۔۔۔کھیل کے میدان سنسان۔۔۔۔۔۔۔ بازا ر بند جب کہ کشادہ سڑکیں خوف کا منظر پیش کر رہیں تھیں۔
’’کیپٹن شوقی ۔۔۔۔۔۔ یس سر ‘‘۔
’’سیارہ زمین کی اس ترقی یافتہ مخلوق کی یہ کیا حالت ہو کر رہ گئی ہے ؟۔آپ کو معلوم ہے کہ زمین کی دو ٹانگوں پر چلنے والی اس مخلوق نے کتنی ترقی کی ہے اور یہاں کے حکمران اور سائینس دان آئے روز ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور ترقی کے نئے نئے منازل طئے کرنے کے دعوے کرتے رہتے ہیں ۔ زمین پر آباد آدم زاد کا معیار زندگی کافی اونچا ہے ۔ان کو زندگی کی ہر ایک سہولت دستیاب ہے ۔ رہنے کے لئے اونچے محل،کھانے کے لئے عمدہ عمدہ ضیافتیں،پہننے کے لئے بہترین سے بہترین لباس ،نمبر ون ہیلتھ کئیر سسٹم علاوہ ازین ان کے پاس بڑی تعداد میں طاقت ور ہتھیار جیسے جدید ترین جنگی جہاز،ایٹم بم ،نیو کلیر بم ،میزائیل اور نہ جانے کون کون سے ہتھیار ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
’’سر وہ تو میں نے بھی سنا ہے ۔۔۔۔۔۔ شاید آپسی تناءوکی وجہ سے جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہو اسی لئے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ایسا ہی میں بھی سوچتا تھا لیکن جنگلی جانوروں کی باتیں کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہیں‘‘ ۔
باس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
اس دوران ان کو زمین کے مختلف حصوں سے دوسرے جا سوسوں سے بھی تفصیلی رپورٹیں اور تصاویر موصول ہوتی رہیں جن کے مطابق واقعی زمین پر زندگی کا پہیہ ہی جام ہو کر رہ گیا تھا۔زمین کے مختلف علاقوں میں بھوک سے نڈھال ہزاروں انسان عالم یاس واضطراب میں چہروں پر ماسکیں پہنے ایک دوسرے سے دوری بنائے ہوئے روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے دکھائی دے رہے تھے ۔اسپتا لوں میں سخت بھیڑ بھاڑ اور افرا تفری کے ماحول میں سینکڑوں لوگ موت کا نوالہ بن رہے تھے ،یہ حالات زمین کے کسی ایک حصے کے نہیں بلکہ تمام علاقوں میں یہی صورتحال تھی ۔وہ رات دیر گئے تک صورتحال کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیتا رہا لیکن یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ آخر زمین پر ایسے حالات کیوں کر پیدا ہوئے ہیں ۔
’’ کیپٹن شوقی ۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
’’یس سر ۔۔۔۔۔‘‘۔
’’حالات بتارہے ہیں کہ آدم زاد کو کسی خطرناک بیماری نے آن گھیرا ہے‘‘ ۔
’’مگر سر ۔۔۔۔۔۔ میلن ڈالر سوال یہ ہے اتنی ترقی اور بہترین ہیلتھ کئیر سسٹم کے ہوتے ہوئے انہیں کیسے کوئی بیماری پریشان کرسکتی ہے ؟‘‘
اینی وے ۔۔۔۔۔۔ ٹیم کے سبھی اراکین کو پیغام بھیجو کہ رات کا اندھیرا ختم ہونے سے پہلے مشن مکمل کرکے واپس آجائیں ‘‘۔
’’اوکے سر‘‘۔
اس نے سیکریٹری کو ہدایات دیں اور خود پھر سے موصول ہوئی تصاویر اور رپورٹوں کا بڑی گہرائی سے جائیزہ لینے میں منہمک ہوگیا جس دوران وہ نہ جانے کب نیند کی میٹھی آغوش میں چلا گیا ۔جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج سر پر آچکا تھا اور ٹیم کے سارے اراکین بھی واپس آکر گہری نیند سوئے ہوئے تھے ۔اس نے ان کی تھکاوٹ کے مد نظر انہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا اور جہاز سے باہر نکل کر ٹہلتے ہوئے محافظ عملے سے ان کے حال و احوال پوچھتا رہا، جس دوران عملے کے سربراہ نے کسی جنگلی مخلوق کے حوالے سے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ آدم زاد کے تعمیر و ترقی کے سارے دعوے کھوکھلے ہیں، جن کی ہوا ایک معمولی وائیرس نے پھس سے نکال دی۔
’’وائرس ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’یس سر ۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
’’وہ آپس میں باتیں کرتے ہوئے کچھ ایسا ہی کہہ رہے تھے‘‘ ۔
’’ اور کوئی تفصیل ؟‘‘
’’نہیں سر ۔۔۔۔۔۔ میں نے بس اتنا ہی سنا‘‘ ۔
وائیرس اس کے لئے نیا انکشاف تھا ۔سوچوں کی بھول بھلیوں میں گُم کچھ دیر تک ٹہلنے کے بعد جب وہ واپس جہاز کے اندر آیاتو سارا عملہ بھی جاگ چکا تھا اور کھان پان میں مصروف تھا، سو یہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر لذت کام دہن میں لگ کر مشن کے بارے میں ان سے سنجیدہ گفتگو کرنے لگا، جس دوران ٹیم کے اراکین نے ثبوتوں کے ساتھ اپنی اپنی رپورٹیں سامنے رکھیں جن، کے مطابق کسی خطرناک وائیرل وبائی بیماری نے آدم زاد کو بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے سبب لاکھوں انسان تڑپ تڑپ کر لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور زمین کے حکمرانوں اور سائینس دانوں کی تمام تدابیر نا کام نظر آرہی ہیں ۔
’’اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی ترقی کے با وجود یہ مخلوق اس معمولی وائیرس سے لڑنے میں نا کام کیوں ہو رہی ہے ؟‘‘
باس نے سنجیدہ انداز میں پوچھا‘‘ ۔
’’سر ۔۔۔۔۔۔ رپورٹوں کے مطابق اس شعبے کے ماہرین اس بیماری کامکمل علاج ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن فلوقت جو علاج ان کے پاس میسر ہے اُس سے بھی سارے متاثرہ مریض مستفید نہیں ہو پا رہے ہیں ‘‘
سیکریٹری نے جواب دیا ۔
’’مگر کیوں ؟‘‘
’’کمزور ہیلتھ کئیر سسٹم ۔۔۔۔۔۔جیسے اسپتالوں میں جگہ کی کمی ،طبعی عملے اور ضروری ساز و سامان کی عدم دستیابی کے سبب آدم زاد موت کا تر نوالہ بن رہے ہیں‘‘۔
’’تعمیرو ترقی کے اتنے بڑے بڑے دعوے اور کمزور ہیلتھ کئیر سسٹم ؟‘‘
باس سن کر حیرت زدہ ہو گیا ۔
’’یس سر ۔۔۔۔۔ ۔ مصدقہ رپورٹوں کے مطابق ان کی ترقی کا سارا زور اپنی انا کو بر قرار رکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے والے مہلک جنگی ہتھیاروں کے حصول کی طرف رہا ہے جس کے سبب دوسرے اہم اوربنیادی شعبے یکسر نظر انداز ہوئے ہیں‘‘ ۔
’’ اور اس مہلک بیماری کو شکست دینے کے لئے اب حکمران کون سی تدابیر عملا رہے ہیں؟‘‘
’’ لاک ڈاون‘‘ ۔
’’وہٹ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’سر۔۔۔۔۔۔ اس سیارے کے حکمرانوں نے اس سارے جھنجٹ سے نمٹنے کے لئے ایک نیا نسخہ ،انسانوں کالاک ڈاون، ایجاد کیا ہے۔ جس سے ابھی تک اگر چہ کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آرہا ہے اور الٹا اس کی وجہ سے آدم زاد نئے نئے کٹھن مسائل میں گرفتار ہو رہے ہیں لیکن یہ نسخہ انسانوں کے بغیر اس سیارے پر موجود دیگر تمام مخلوقات،جمادات اور نباتات کے لئے نسخہ کیمیا ثابت ہو رہا ہے ‘‘ ۔
سیکریٹری نے فائیل کی ہوئی رپورٹ باس کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہاجس پر سرسری نظریں دوڑ انے کے بعد باس نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے کوچ کا حکم صادر فرمایا ۔
٭٭٭
طارق شبنم ۔۔۔۔ کشمیر