(Last Updated On: )
ایک زمانہ تھا کافی ہاؤس کشمیری سیاست کا بیرومیٹر ہوا کرتا تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے ہی سیاست دان، صحافی، دانشور، فن کار، گورنمنٹ ملازم اور طلبہ کافی ہاؤس میں جمع ہو جاتے اور حالات حاضرہ پر بحث و مباحث کرتے۔ ہر کوئی اپنی فراست کی نمائش میں غلطاں و پیچاں رہتا۔ خود نمائی کا ایک یہی تو ذریعہ میسر تھا ان تکیہ زیرکوں کے پاس ! مگر اب تو دنیا ہی بدل چکی ہے۔ نہ وہ کافی ہاؤس کا شور و غل رہا اور نہ ہی دانشوروں کے پاس وقت کی فراوانی۔ سب کچھ صارفی تہذیب کھا گئی۔
یہ بات ۱۹۷۵ء کی ہے۔ چار سال قبل پاکستان کے دو ٹکڑے ہو چکے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ کو یقین ہو چلا تھا کہ اب کشمیر کی علیٰحدگی کے لیے لڑنا فضول ہے۔ سو اس نے اندرا گاندھی سے سمجھوتا کرنا اور از سرِ نو ریاست کی عنان حکومت سنبھالنا غنیمت سمجھ لیا۔ البتہ ان لوگوں کو، جنھیں وہ بائیس سال سے آزادی کے سپنے دکھا رہا تھا، قائل کرنا مشکل تھا۔ اس لیے اس نے تطہیر معاشرہ اور یوم حساب کا راگ الاپنا شروع کر دیا کیونکہ کشمیری قوم رشوت ستانی، کنبہ پروری، غنڈہ گردی اور اخلاقی تنزل سے تنگ آ چکی تھی۔ حالات کی اس کروٹ پر آئے دن بحثیں ہونے لگیں۔ ہر کوئی مستقبل کے حوالے سے فکر مند نظر آ رہا تھا۔
وادی میں بیگ پار تھاسار تھی سمجھوتے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ کافی ہاؤس کے ہر کونے میں اس موضوع پر بحث ہو رہی تھی۔ ایک میز کے ارد گرد کئی افراد سنجیدگی سے اس سیاسی بدلاؤ پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک تجربہ کار جرنلسٹ گویا ہوا۔ ’’بھئی شیخ صاحب کو یوں ہی شیر کشمیر نہیں کہا جاتا ہے۔ اس نے جو چاہا وہ کر دکھایا۔ خبر ملی ہے کہ ۱۹۵۳ء کی پوزیشن بحال ہو جائے گی۔ ریاست میں وزیر اعلیٰ اور گورنر کی جگہ پھر سے وزیر اعظم اور صدر ریاست کے عہدے بحال ہو جائیں گے۔ سن ۵۳ء کے بعد لاگو کیے گئے سبھی قوانین پر نظر ثانی ہو گی۔ ان میں سے جو کشمیری عوام کے مفاد میں نہیں ہوں گے انھیں مسترد کر دیا جائے گا۔ ‘‘
’’یہ تو بہت بڑی حصولیابی ہے۔ آخر بائیس سال سے وہ لڑ رہے ہیں۔ ہندستانی جیلوں میں قید و بند جھیل رہے ہیں۔ کچھ لے کر ہی اپنی سر زمین پر واپس قدم رکھیں گے۔ ‘‘ امر سنگھ کالج کے سیاسیات کے لیکچرر نے اظہار خیال کیا۔
’’شیخ صاحب نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پیکیج میں اور بھی بہت کچھ ہو گا۔ ہمیں سرکاری اعلان کا انتظار کرنا چاہیے۔ ‘‘ نیشنل کانفرنس سے جڑے ایک سیاست دان نے لقمہ دیا۔
گفتگو میں مصروف بیشتر لوگوں نے اس معاہدے کی نہ صرف تعریف کی بلکہ اس کی تائید بھی کی۔ البتہ کونے میں بیٹھا ایک بظاہر معمولی سا عام آدمی، جس کی عمر پچاس پچپن کے قریب تھی اور جس کے چہرے پر دور دور تک کسی عبقریت کا شائبہ بھی نہ تھا، کہنے لگا۔ ’’ بھئی یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ وزیر اعظم ہند نے شیخ صاحب سے وعدے کیے ہیں مگر کیا کل یہ وعدے توڑے نہیں جا سکتے ہیں یا پھر یہ وعدے وقت کی دھول اوڑھ کر بے اثر نہیں ہو سکتے ہیں ؟ سوال یہ ہے کہ یہ وعدے دستور ہند کے دائرے کے باہر کیے جا چکے ہیں یا پھر انھیں دستور ہند کی حفاظت حاصل ہو گی ؟یہ تو محض فریقین کے درمیان ایگریمنٹ لگ رہا ہے جس کی کوئی آئینی گارنٹی نہیں ہے۔ کل جب ریاست میں شیخ محمد عبداللہ جیسا کوئی رہنما نہیں ہو گا، سِکم کی طرح اس ریاست کو بھی یونین میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
بات میں بہت وزن تھا یہاں تک کہ سبھی بحث کرنے والے فکر و تردّد میں پڑ گئے۔ ان تاثرات نے ان کے ذہنوں میں جو کھلبلی مچائی وہ اس کے سحر سے باہر نہیں نکل پا رہے تھے۔ انھی فسوں ساز فقروں کو ذہن میں بسائے وہ سب اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔
دوسرے روز میں اپنے باس نور محمد کے ساتھ کافی پینے کے لیے کافی ہاؤس چلا گیا۔ ساتھ میں دو اور آدمی تھے۔ ایک جو ہمارے گورنمنٹ ایمپوریم کو شال اور پشمینہ سپلائی کرتا تھا اور دوسرا وہاں کا سٹور کیپر۔ وقت گزاری کے لیے کوئی نہ کوئی موضوع تو چاہیے تھا۔ بھلا اس موضوع سے بڑھ کر اور کون ساوقتی موضوع مل سکتا تھا۔ بر سر اقتدار آنے کے بعد شیخ صاحب سے کیا امیدیں لگائی جا سکتی تھیں اس پر ہم سب روشنی ڈالنے لگے۔ اسٹور کیپر مایوسی اور اتاولے پن میں باس سے پوچھ بیٹھا۔ ’’ سر، سنا ہے اب دفتروں میں انقلاب آئے گا۔ شیخ صاحب نے دہلی ہی میں اعلان کر دیا ہے کہ وہ راشی افسروں کو کیفر کردار تک پہنچا دے گا۔ ہر ملازم کو وقت پر دفتر آنا پڑے گا اور وقت پر ہی جانا پڑے گا۔ ہر ملازم کی کار کردگی پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ ‘‘ سوال پوچھنے کے بعد اس کو اپنی حماقت کا اندازہ ہوا لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
نور محمد کے چہرے کی ہوائیاں اڑ نے لگیں مگر وہ اس کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جلدی سے کانٹے پر کباب کا ٹکڑا اٹھا لیا اور منہ میں ٹھوس لیا۔ اس کے بعد آرام سے چائے کی چسکیاں لیتا رہا۔
باس کی دگر گوں حالت دیکھ کر میں نے مداخلت کرنا مناسب سمجھا۔ ’’ بھئی کیوں پریشان ہو رہے ہو۔ کئی وزیر اعلیٰ آئے اور کئی چلے گئے۔ کرسی سنبھالتے وقت سبھی لوگ ایسی گیدڑ بھبھکیاں دیتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے ان کی کشتیوں کا رخ ہوا کے بہاؤ کی جانب مڑ جاتا ہے۔ جھوٹ، مکاری، رشوت خوری اور کنبہ پروری ہمارے معاشرے کا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے۔ ادنیٰ سے اعلیٰ تک ایسا کون ہے جو ان بدعتوں سے بچا ہوا ہے ؟اب اٹھائیس سال کے بعد ان بدعتوں کا قلع قمع کرنا نا ممکن ہے۔ ‘‘
نور محمد کی جان میں جان آئی۔ اس لیے وہ بھی گویا ہوا۔ ’’ ہاں صحیح کہہ رہا ہے مشتاق احمد۔ ہمارا معاشرہ اب اسی رنگ میں رنگ چکا ہے۔ شیخ صاحب تو کیا کوئی فرشتہ بھی اگر آسماں سے اتر آئے وہ بھی ان بدعتوں سے نجات نہیں دلوا سکتا۔ ‘‘
گفتگو دلچسپ ہوتی جا رہی تھی مگر سپلائرشعبان ڈار جل بنِ مچھلی کی طرح بے چین ہو رہا تھا۔ ظاہر تھا کہ وہ کمیشن کے بارے میں بات کرنے کے لیے باس کو یہاں لے آیا تھا اس لیے اس موضوع پر بحث کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ چند ہی روز پہلے اس نے بیس لاکھ کے شال ایمپوریم کو سپلائی کیے تھے اور ان کے پاس ہونے اور رقم کی ادائیگی کا انتظار کر رہا تھا۔ شعبان ڈار تعلیم یافتہ نہ تھا مگر سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ اس نے وقت کی نزاکت کو دیکھ کر عمداً خاموشی اختیار کر لی۔
اِدھر نور محمد کے اندر لڑکپن کی ترقی پسند انقلابی شخصیت نے دوبارہ سر ابھارا۔ کہنے لگا۔ ’’دیکھا جائے تو بات بہت معقول ہے۔ ہمارا معاشرہ کرم خوردہ ہے۔ اگر معاشرے کے ہر شعبے کی تطہیر ہو تو ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ ‘‘ اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ چاہتا تھا کہ سب لوگ اس کے خیالات کی داد دیں۔ وہ باری باری سبھی کی جانب امید وارانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’ ارے صاحب چھوڑیے ان باتوں کو۔ یہ تو باسی کڑھی میں ابال آیا ہے۔ جناب آپ نے بتایا نہیں کہ آرڈر پاس ہو گا یا نہیں ؟‘‘ شعبان ڈار نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
’’ کیوں نہیں ہو گا؟‘‘نور محمد نے پھر اپنی جون بدل لی۔ ’’ لیکن اب کی بار پندرہ فیصد سے کام نہیں چلے گا۔ دوسرے سپلائر اٹھارہ فیصد کمیشن دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ بیس پر راضی ہوں تو میں کل ہی خریداری کمیٹی کی میٹنگ بلا کر آرڈر کی منظوری دلوا دوں گا۔ ‘‘
’’جناب آپ تو ہمارے مائی باپ ہیں۔ اتنا ظلم نہ کیجیے۔ اتنی تو کمائی بھی نہیں ہوتی۔ بیس فیصدی تو بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ‘‘
’’بھئی سوچ لو۔ بانٹتے بانٹتے کسی کو کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ بیس سے کچھ کم نہیں ہو سکتا۔ میں مجبور ہوں۔ ‘‘ باس نے ٹکا سا جواب دیا۔
’’ ٹھیک ہے جناب۔ جیسے آپ کی مرضی۔ مگر تھوڑی بہت جلدی کر لیجیے۔ ‘‘شعبان ڈار نے اپنی رضامندی ظاہر کی۔
’’بس تمھاری سبز بتی کی دیر تھی۔ میں کل ہی کیس نپٹا لوں گا۔ تم بے فکر رہو۔ ‘‘باس نے یقین دلایا۔
بیرا خالی پلیٹ اور کافی کے کپ اٹھا کر چل دیا۔ پھر بِل لے کر لوٹ آیا اور شعبان ڈار کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے بِل کی رقم ادا کی اور ساتھ ہی دس روپے بطور ٹِپ بیرے کو دے دیے۔ بیرا بخشش پا کر خوش ہوا مگر اس کے ماتھے پر شکنوں کا جال سا ابھر آیا تھا۔ اس نے تطہیر کے بارے میں ان لوگوں کی گفتگو سن لی تھی۔ وہ تب سے فکر مند تھا کہ اگر خدا نخواستہ معاشرے کی تطہیر شروع ہو گئی اور راشی لوگوں کایوم حساب آ گیا تو خود اس کا کیا ہو گا؟ یہ انٹلکچول لوگ تو چند پیسے ٹِپ دے کر ٹرخاتے ہیں جبکہ بیروں کی خوشحالی کا دارومدار ان کنٹریکٹروں پر ہوتا ہے جو آئے دن بھاری بخشش دے جاتے ہیں۔ اگر ان کی آمدنی بند ہو گئی تو پھر بیروں کو بھی فاقہ کرنا پڑے گا۔ ہمت کر کے وہ باس کی طرف مخاطب ہوا۔ ’’ صاحب، ایک سوال پوچھوں، آپ بُرا تو نہ مانیں گے۔ ‘‘
’’ پوچھو بھائی جو کچھ پوچھنا ہے۔ ‘‘
’’ صاحب، آپ لوگ جو ابھی کہہ رہے تھے، اگر یہ تطہیر کا کام شروع ہوا تو کیا سارا نظام صاف ہو جائے گا۔ کہیں کوئی بے ایمانی اور بد دیانتی نہیں ہو گی؟ پھر کوئی رشوت دے گا نہ رشوت لے گا؟ ‘‘
’’ ہاں کیوں نہیں۔ ایسا ممکن ہے اگر ہمارے رہنما مخلص ہوں۔ وہ چاہیں تو کیا نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
بیرے کو یاد آیا کہ اس کی آمدنی تو انھی راشی افسروں اور کنٹریکٹروں پر منحصر ہے اور اگر نظام صاف و پاک ہو گیا تو اس کی آمدنی بھی ختم ہو جائے گی۔ اسی تذبذب میں وہ چلتے چلتے ایک میز کے ساتھ ٹکرایا اور اوندھے منہ گر پڑا۔ ساری کراکری چکنا چور ہو گئی۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام ہوا۔
تھوڑی ہی دیر میں اس کے سامنے کافی ہاؤس کا منیجر کھڑا اس کو گھور رہا تھا۔ منیجر نے خوب برا بھلا کہا اور حکم دیا کہ ٹوٹی ہوئی کراکری کا ہرجانہ اس کی تنخواہ سے وصول کیا جائے گا۔
بیرے کو یوں محسوس ہوا کہ قسمت نے تطہیر کا ٹھیکرا سب سے پہلے اسی کے سر پر پھوڑ دیا۔
****
دیپک بدکی
****
دیپک بدکی