(Last Updated On: )
جب سے خیرو چچا نے ہمارے گھر دودھ پہنچانا شروع کیا تھا گھر کے لوگ بہت خوش تھے، دسیوں سال سے ایک بڑا مسئلہ تھا اور وہ تھا ملاوٹی دودھ، اس معاملے میں ہندو، مسلم اور بودھ گوالوں اور دودھاروں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ دودھ بیچنے والے شائد یہ طے کرکے بیٹھے تھے کہ بغیر پانی ملاے دودھ بیچنا نہیں ہے، یا بغیر پانی ملاے دودھ بیچنے کا کیا فائدہ ہے، اصل نفع تو پانی سے ملتا ہے۔دودھارے گھر سے بالٹوں میں آدھا دودھ آدھا پانی ملاے نکلتے اور راستے میں بھی حسب ضرورت پانی ملاتے رہتے۔
محلے کے چھمن چچا ایک دن ہمارے گھر آے، اماں سے کہنے لگے:
“اے بحال کی اماں، بڑی دودھاری بھینس خریدی ہے، دونوں وقت پانچ پانچ کیلو دودھ دیتی ہے، اگر اصلی دودھ چاہیے تو بتاو، صبح شام کسی بھی وقت ایک کیلو دودھ پہنچا دوں گا۔ اتنا اصلی دودھ کہیں نہ پاو گی۔،،
اماں کو کیا چاہیے تھا، اندھے کو دو آنکھیں کہنے لگیں:
” ارے بھیا اس سے اچھی بات کیا ہوگی، کہیں تو اچھا دودھ ملتا ہی نہیں، تین سال سے برکھو دودھ دے رہا تھا، ایک ہفتہ پہلے اس کے گھر چھاپہ پڑا معلوم ہوا کہ اس کے پاس جو بھینسیں تھیں وہ مشکل سے دس لیٹر دودھ بھی نہیں دیتیں تھیں مگر صرف طوی گاوں میں ہی وہ پچاس لیٹر دودھ دیتا تھا، لاہی ڈیہہ بازار اور سراے میر اس کے علاوہ تھا۔نا جانے وہ سو ڈیرھ سو لیٹر کہاں سے لاتا تھا، آپ دودھ دیجیے۔اچھا دودھ ملا تو میں پانچ روپیہ زیادہ دینے کے لیے تیار ہوں،،
چھمن چچا نے دودھ دینا شروع کیا مگر ہفتہ بھر جاتے جاتے دودھ پتلا ہونے لگا،کچھ دن اور گزرا تو دودھ کم اور پانی زیادہ نظر آنے لگا۔ ایک دن چھمن چچا کی پڑوسن جھنکا چچی کہنے لگیں؛
“ارے چھمن بھیا نے جس دن 75000 کی بھینس خریدی اسی دن دروازے پر پانی کا ہینڈ پمپ بھی لگوایا ہے، ان کا بیٹا نرھوا کہہ رہا تھا، ابا بھینس اور نل کا سارا خرچہ دودھ سے ہی نکال رہے ہیں۔،،
پندرہ دن بعد ہی اماں نے ایک مناسب بہانہ کرکے چھمن چچا سے دودھ منع کردیا تھا۔
مگر دو ڈھائی سال سے جب سے خیرو چچا نے دودھ دینا شروع کیا تھا، کسی کو کسی طرح کی شکایت نہ تھی، دودھ اچھا تھا، ایسی موٹی بالائی اس سے پہلے دودھ میں نہ دیکھی گئی تھی، ایک دوبار ایسا بھی ہوا کہ ان سے وقت ضرورت دودھ زیادہ مانگا گیا تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس سے زیادہ دودھ میری بھینسیں نہیں دیتیں۔
چچا کو ایک بار دودھ کی موٹی بالائی دیکھ کر شبہ ہوا کہ کہیں دودھ میں کوئی ملاوٹ تو نہیں ہے، وہ تھوڑا سا دودھ لے کر شہر کی ایک لیب میں گئے، ماشاء اللہ رپورٹ بہت اچھی تھی، دودھ میں کسی طرح کی بھی کوئی ملاوٹ نہیں تھی۔
ایک دن خیرو بھائی آے تو اماں سے کہنے لگے:
“چچی میں جمعہ سے دودھ نہیں دے پاوں گا، اب میں گاوں چھوڑ کر شہر جا رہا ہوں، تینوں بھینسیں بھی میں بیچ رہا ہوں۔،،
خیرو بھائی کی بات سن کر دادی بہت پریشان ہوئیں، اب ان کے سامنے پھر اصلی دودھ کا بڑا مسئلہ تھا، دادی کہنے لگیں:
” ارے بھیا تمہاری بدولت ڈھائی، تین سال سے اصلی دودھ مل رہا تھا، اللہ تم کو سلامت رکھے، کیا پریشانی آگئی؟ اگر کچھ مسئلہ ہوتو بتاو، ہم لوگ ان شاء اللہ ہر طرح تمہاری مدد کریں گے، بھیا کچھ بھی کرو مگر شہر چھوڑ کر نہ جاو۔،
دادی کی بات ختم ہوئی تو خیرو بھائی بولے:
” چچی میرا دل بھی آپ لوگوں کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہے، خاص طور سے تو آپ سے تو مجھے بہت لگاو ہوگیا تھا، ماشاء اللہ آپ نے ہمیشہ میرے اوپر احسان کیا، وقت پر دودھ کے پیسے دیتی رہیں، کیا مجال ایک دن آگے پیچھے ہوجائے، ہر خوشی اور غمی کے موقع پر بھی آپ لوگوں نے مجھے یاد رکھا، ہر طرح سے تعاون کیا، میں تو آپ کے گھر کے ایک آدمی جیسا ہوگیا تھا مگر چچی کیا بتاوں، اب بدن میں طاقت باقی نہیں رہی، میرا ایک ہی بیٹا ہے سمیر، ماشاء اللہ اب سمیر کو شہر کے کالج میں نوکری مل گئی ہے، وہ ایک سال سے ضد کر رہا تھا کہ ابا، اماں آپ لوگ میرے ساتھ شہر چلیے، مگر ہم لوگ گاوں چھوڑنے کو تیار نہ تھے، مگر اب طاقت گھٹ گئی ہے،بھینس پالنے اور دودھ بیچنے کا کام محنت کا کام ہے جو اب مجھ سے نہیں ہو پارہا ہے، آپ لوگ میرے بیٹے کے لیے دعا کریں، میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ لوگوں کے لیے کہیں سے اصلی دودھ کا انتظام کرے، شام میں سمیر بھی آپ سے ملاقات کے لیے آے گا۔ وہ آپ کے بیٹے زاہد کا کلاس فیلو رہ چکا ہے۔،،
شام میں خیرو بھائی کا بیٹا سمیر ہمارے گھر آیا، سمیر نے انگلش لٹریچر میں پی ایچ ڈی کیا تھا، الحمدللہ اب اسے آلہ آباد یونیورسٹی میں لیکچرر شپ مل گئی تھی، وہ دیر تک ہمارے گھر بیٹھا رہا، زاہد اور سمیر تین سال تک ہائی اسکول میں ایک ساتھ پڑھ چکے تھے۔دادی نے سمیر کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے کامیابی کی دعائیں دیں، خاص طور سے والدین کی خدمت کی تاکید کی۔جب دادی نے سمیر کو نصیحت کرتے ہوے کہا کہ بیٹا اپنے ابا خیرو بھائی کی طرح ہمیشہ محنت اور ایمانداری کے ساتھ زندگی گزارنا تو سمیر آبدیدہ ہوگیا،وہ دادی سے کہنے لگا؛
“دادی آپ خاص طور سے میرے لیے دعا کیجیے، ویسے مجھے یقین ہے کہ ابا اماں کی تربیت اور دعائیں ہمیشہ میرے کام آئیں گی، میں نے گھر پر ابا کی امانت داری دیکھی ہے، انھوں نے کبھی بالٹی دھو کر بھی دودھ میں پانی نہیں ڈالا، حالانکہ کئی دفعہ چچا نے کہا کہ اتنی ایمانداری برتو گے تو ہمیشہ کنگال رہو گے، مگر ابا ہمیشہ مسکرا کر رہتے، کنگال رہنا مجھے پسند ہے مگر بے ایمان بن کر نہیں، مجھے اپنے اللہ میاں کو منہ دکھانا ہے، زندگی تو اچھی بری گزر جاے گی مگر وہاں کیا ہوگا، میں چاہتا ہوں کہ فرشتوں کے رجسٹر میں میرا نام ایمان داروں میں لکھا جاے، دادی اسکول میں بہت سے بچے مجھے گوالے کا بیٹا یا گوالا کہہ کر چھیڑتے تھے مگر مجھے اپنے گوالے باپ پر فخر تھا، ایسا گوالا جس کے سینے میں ایمان کی قیمتی شمع روشن تھی، آج یہ میرے باپ کی ایمانداری کی برکت ہے کہ میرے پاس اب دنیا کی بے شمار نعمتیں ہیں، اللہ نے خوب نوازا ہے۔ مجھے اپنے باپ پر فخر ہے مجھے آج ایک ایمان دار گوالے کا بیٹا ہونے پر فخر ہے۔ابا نے مجھے بھی محنت اور ایمانداری کی تاکید کی، اللہ کے فضل سے کالج میں آج میں ایک محنتی اور ایماندار استاذ کی حیثیت سے مشہور ہوں، یقیناً یہ سبق میں نے ابا سے ہی سیکھا ہے،،
سمیر تو تھوڑی دیر کے بعد چلا گیا مگر آج پورے دن گھر میں خیرو چچا اور ان کے بیٹے سمیر کی باتیں ہی ہوتی رہیں۔ایک گوالے اور اس کے بیٹے نے اپنے اعلی اخلاق سے پورے گھر کے دل پر سکہ جما لیا تھا۔
*****
اختر سلطان اصلاحی
*****
اختر سلطان اصلاحی