(Last Updated On: )
وہ رو رہی تھی اور روتی چلی جا رہی تھی۔جیسے ایک معصوم بچی خواب میں رونے لگے یا وہ جوان عورت جس کا خواب ٹوٹ گیا ہو۔ میرے پاس تسلی کے الفاظ نہیں تھے مگر میں اسے تسلی دینا چاہتا تھا۔
میں نے اسے چپ کرانے کی غرض سےکہا ” سنیں میرے پاس آپ کو سنانے کے لئے ایک بہت اچھی نظم ہے۔”
کسی نوجوان عورت کو جو دوست بھی ہو اور غمزدہ بھی چپ کرانے کا میراپہلا تجربہ تھا-
وہ روتے روتے مسکرانے لگی “جی آپ کو معلوم ہے مجھے نظمیں اور کہانیاں سننی اور پڑھنی پسند ہیں۔
“کیا آپ مارک ٹوئین کی نظم کا ترجمہ سننا چاہیں گی۔”
“آپ مارک ٹوئین کی نظم کا ترجمہ سننے کے لیے تیار ہیں- میں نے بہت دھیمے لہجے میں پوچھا تاکہ وہ اس کیفیت سے باہر آئے..
“جی جی”
اس نے اپنی ہتھیلی کی پشت سے اپنے گال صاف کیے اور سیدھی ہوکے بیٹھ گئ
میں ہمہ تن گوش ہوں۔
تو سنیں
“ایک عورت کو نہ جگاؤ جب وہ محبت میں ہو اسے خواب دیکھنے دو
تاکہ وہ نہ روئے
جب وہ اپنی تلخ حقیقت کے قریب آۓ،!
واہ!” وہ جھوم اٹھی
“یہ خوب ہے”
وہ روتے روتے خوش ہو گئ
لفظوں میں کیسا جادو ہے, جو روتے ہوئے کو چپ کرا دے اور ہنستے ہوئے کو رلا دے۔
وہ میری ہم جماعت بھی تھی, دوست بھی اورمیرے مرحوم دوست کی محبوبہ بھی۔ ہم اپنے مشترکہ دوست کی ابدی جدائی پر حالت غم میں تھے۔ مجھ پہ دوہری زمےداری تھی. مجھے اپنے ساتھ ساتھ اسے بھی سنبھالنا تھا۔ ہم تینوں گزشتہ چارسال سے ایک بڑے شہر کے تعلیمی ادارے میں حصول علم کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
اسے ایک ایسی بے وفائی کا سامنا تھا جس پر بےوفائی کرنے والے کو بے وفا بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ یہ عجب حادثہ تھا ۔ میرا دوست بھری جوانی میں موت کو گلے لگا کر اس کو سوزوالم کے حوالے کر گیا۔
اس نے پوچھا..
“کیا مجھےغم کے زندان سے رہائئ ملے گی۔۔؟”
چاہے اس کا جواب انکار میں ہی ہو تو تب بھی مجھے اثبات میں ہی جواب دینا تھا۔
“ہاں ممکن ہے”۔میں نے یقین سے کہا زندگی امکانات سےبھری ہے۔ زندگی یہی سکھاتی ہے کہ موت کے آخری لمحے تک روشنی کی امید رکھی جائے خود اپنا اور اپنے ساتھ وابستہ انسانوں کا ساتھ دیا جائے.
“کیا یہ جھوٹ نہیں کہ موت سے پہلے کوئئ آسانی ہے “
وہ بےچینی سے میری طرف دیکھنے لگی۔
اس لمحے اسے ایک ایسے سچ کی طرف لانا جو سوائے خوش گمانی کے اور کچھ نہ تھا جان جو کھوں کا کام تھا۔ بازغہ بنگلہ دیش سے تھی ، اس کا اپنا یہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اجزال پنجاب سے تھا اورمیرا گھر بلوچستان کے ساحلی علاقے کے ایک دیہات میں تھا۔ ہم کراچی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ ادب کے شعبے کے طالبعلم تھے۔ ڈپارٹمنٹ میں اس تکون کی دوستی مشہور ہو چکی تھی۔
ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، مسئلے سے دھیان کا ہٹا لینا اور دکھ کو بانٹ لینا ہی سب کچھ ہے۔ میں اسے تسلی دیتا.
میں بھی اپنے دوست کی اس اچانک موت کے غم سے نڈھال تھا مگر اس کے غم کی شدت مجھ سے سوا تھی۔
میرا تھیسس مکمل ہو چکا تھا مگر بازغہ کا ایک سمیسٹر باقی تھا۔اس حادثے کی وجہ سےوہ پچھلے سمیسٹرکے امتحان نہ دے سکی تھی.سرما کی چھٹیوں کے لیے تمام طالبعلم اپنے گھر جانے کے لیے تیار تھے ۔ مگر اسے چھٹیوں میں بھی ہاسٹل میں ہی رہنا تھا۔ میں چاہتا تھا اسے اپنے گھر لے جاؤں مگر میں اپنی معاشرتی روائتی مجبوریوں کی وجہ سے اسے یہ دعوت کیسے دیتا
۔ اس صورتحال کو پیدا کرنے کے نتیجے میں ایک عجیب طوفان کھڑا ہو سکتا تھا جس کامتحمل نہ میں ہو سکتا تھا نہ وہ۔
میں اپنے گھر والوں کو یہ سمجھانے سے قاصر تھا کہ میں ایک ایسی لڑکی کو گھر لے آیا ہوں جس کے ساتھ میرا رومانی نہیں انسانی تعلق ہے۔وہاں کوئی ایک شخص بھی اس بات کو نہ سمجھ پاتا ۔
میں اپنا سامان باندھ چکا تھا بس اسے دلاسہ دینے آیا تھا کہ وہ اپنا خیال رکھے اور میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔
مجھے اپنی دوست بہت عزیز تھی اور اس غم میں اسے اکیلا چھوڑ کے جانا بزدلی بھی تھی اور مجبوری بھی مگر گھر والے میرے انتظار میں تھے۔
انہوں نے میری رائے لیے بغیر میری شادی کی تاریخ مقرر کر دی تھی جبکہ میں حالت سوگ میں تھا۔ میرا ذہن کچھ بھی نیا قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ مگر میرے جیسوں کی اہمیت ہی کیا تھی۔ یہ کم نہ تھا کہ مجھے پڑھنے کے لیے دور شہر میں رہنے کی اجازت دے دی گئ تھی مگر ہمارا گھرانہ روائت پسند بلوچ گھرانہ تھا۔
میں نے اسے آخری مشورہ دیا
“اپنےغم کو الفاظ میں ڈھالو، تمام تر جزئیات کے ساتھ سب کچھ لکھ ڈالو اور کائنات کے سپرد کر دو اور اسے اجازت دو کہ اس کا فیصلہ کرے چاہے فیصلہ حق میں آۓ یا خلاف پوری ایمانداری سے اسے قبول کرو اور ایک نیا خواب بنو
وہ یک ٹک مجھے دیکھ رہی تھی پلکیں جھپکائے بغیر جیسے ایک معمول ہو ، اس نے اپنی آنکھیں موند لیں
ہاں آنکھیں موند لو اور پھر سے ایک خواب بنو جیسے جال بنتے ہیں یا کھڈی پہ بیٹھنے والی عورتیں یا قالین بنانے والے جھک کر قالین بنتے ہیں۔ ویسے قالین بافی ایک مشکل صنعت ہے نا خاص طور پہ (ہینڈ میڈ )وہ سب بھول کر قالین بافی کے بارے سوچنے لگی اب وہ مسکرانے لگی، مجھے لگا جیسے غم کی تاریکی چھٹ رہی ہو اور پو پھٹنے لگی ۔
میں آپ کو الوداع کہنے آپ کے ساتھ سٹیشن تک چلتی ہوں اس نے فیصلہ سنایا”
ٹھیک ہے ایسے آپ کا دل بھی بہل جائے گا۔ ہم نے ٹیکسی پکڑی ۔ مجھے قلق تھا واپسی پر وہ اکیلے کیسے جائے گی رات بھی گہری ہو رہی تھی مگر اس کی ضد نے مجھے کچھ بھی کہنے کی ہمت چھین لی تھی۔ لڑکی حسین بھی ہو اور غمزدہ بھی تو اس کی بات مان لینے میں کیاحرج ہے۔
اور اب ہم پچھلے ایک گھنٹے سے گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔
کیا ادب شاعری اور محبت ہر درد کی دوا ہے؟”
“ہاں ان کے لئے جن کا جوہر لطیف ان پر کھل چکا ہو۔ “
“لیکن یہ بھی حقیقت تو نہیں اگر ایسا ہوتا تو بڑے بڑے شعرا نشے میں کیوں ڈوبتے اور غم کے احساس سے فرار کے لئے خودکشیاں کیوں کرتے ۔ “
“یہ بھی درست ہے ہاں کچھ کہا نہیں جا سکتا غم کی بانسری کوکوئی کیسے بجائے اور کوئئ کیسے”
وہ میرے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئ تھی ۔ سٹیشن کے ماحول کو محسوس کرتے کچھ دیر ہم چپ بیٹھے رہے۔ ٹرین کچھ لیٹ تھی۔
ہم دونوں دنیا و مافیہا سے بےخبر اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے۔
مجھے ایک اور نظم سنائیں
میں نے کہا یہ ڈائری لو اور جو آپ کو اچھا لگے مجھے بھی سناؤ۔
میری ڈائری ہم تینوں کی چوتھی دوست تھی۔
اس نے جرمن شاعر ہائنرش ہائنےکی ایک نظم منتخب کی اور اونچی آواز میں پڑھنے لگی شور خاصا تھا۔ یہ نظم اس نے اٹھارہ سو تئیس میں لکھی تھی یہ اس کا ترجمہ ہے۔
وہ صفحے پہ درج تحریرپڑھ رہی تھی اور مجھے اس کی آواز میں نظم اور بھی اچھی لگی ،
اے دل میرے دل کہیں اٹکے نہ رہنا
سیکھ لو کچھ تقدیر کا سہنا
لوٹا دے گی نئ بہار وہ سب کچھ
جو چھین لیا تھا تم سے موسم سرما نے
کتنا کچھ ہے تمہارے پاس اب بھی
دیکھو تو دنیا اب بھی کتنی خوبصورت ہے
اے میرے دل تمہیں جو کوئی جو کوئی بھی لبھاۓ
تمہیں سب سے سب سے پیار کی اجازت ہے
بےشک وہ میری محبوبہ نہیں تھی مگر زندگی جیسی تھی جس پر ہر خوشی واری جا سکتی تھی۔ اس نے مجھے جانے کی اجازت دی. اس کے چہرے پہ مونا لیزا جیسی مسکراہٹ تھی ۔
“کیا میں یہ ڈائری اپنے پاس رکھ لوں ؟”
“ہاں ہاں یہ میری خوش بختی ہو گی۔ میں نے خوشی سے اپنی ڈائری پر الو داعی نظر ڈالی۔
کہنے لگی ,ڈائری میں بہت پیاری نظمیں ہیں۔ امید ہے تسلی آنے تک میں ان کے سہارے جی لوں گی۔ میں نے دل میں کہا تم خود بھی کسی شاعر کی حسین رباعی ہو خیام کی رباعی یا نصیر احمد ناصر کی نظم ۔ اکتوبر اور اپریل میں لکھی جانے والی نظموں میں سے کوئی ایک۔۔۔
کیا ہم سب محبت کے بدلے نظموں اور تصویروں کو اپنے اپنے بوجھ اٹھانے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں؟
“یہ ممکن تو ہے”
لیکن انسان کی دوستی سب سے برتر ہے۔مجھے اس بات سے اتفاق ہے.
گاڑی سٹیشن پہ آ چکی تھی۔ مجھے محسوس ہوا میرے پاؤں میں بیڑیاں ہیں ۔ کاش میں رک سکتا۔
ہم آزاد نہیں ہیں۔ ایک آزاد روح سب کا ساتھ دے سکتی ہے مگر حالات کے قیدیوں سے کیسی توقع۔؟۔ ہماری باگ ہمارے ہاتھ میں کہاں ہے ۔ ٹرین سٹیشن پہ پہنچ چکی تھی۔ اور مسافر اپنا اپنا سامان اٹھاۓ اپنے اپنے ڈبوں کی طرف لپک رہے تھے۔مجھے واپس گاؤں جانا تھا ۔ وہ اٹھی اور میرے گلے لگ کے پھر سے رونے لگی اس بار اسے خود سے جدا کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔ ٹرین سٹیشن چھوڑ کے اپنی منزل کی جانب جا چکی تھی اورکچھ خبر نہیں تھی کہ ہم رات کے کس پہر تک وہیں کھڑے رہے۔
رات گئے ہم اپنے اپنے ہاسٹل واپس آئے وہ اپنے کمرے میں چلی گئ اور میں نے ہاسٹل کی انتظامیہ سے دوبارہ کمرے کی چابی لینے کی درخواست کی۔ جو انہوں نے قبول نہیں کی ۔ وہ رات میں نے بینچ پر بسر کی۔ اگلے روز گھر سے فون آیا ۔
خبر یہ تھی کہ حکم عدولی پر
میرے والد نے جلال میں آکر مجھے عاق کر دیا تھا۔ اس کے سمیسٹر مکمل ہونے اور واپس اپنے ملک بنگلہ دیش جانے تک میں شہر میں رہا ۔ اس کے بعد میں گھر نہیں جا سکا ۔
ایک نہتی اور کمزور لڑکی جو میری دوست تھی ۔ اسے غم کے حوالے کر کے اپنے گھر جا کر شادی رچانا میری نظر میں بزدلی کا قدم تھا ۔ بےشک وہ میرے جذبات تھے۔ جن پہ مجھے ملال نہیں تھا۔وہ پہر تمام عمر مجھ میں بسا رہا. آخر میں نے اس کی قیمت چکائی تھی ۔ آج میں ایک شاعر بن چکا ہوں۔ مشہور شاعر جس کے اشعار لوگوں کی زبان پر ہیں۔ میرا نام جاوید دکھی ہے میرا تخلص دُکھی ہے مگر میرے لفظوں میں سکھ کی روشنیاں ہیں جو غمزدہ روحوں کے لئے موسیقی کی طرح ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ اس سے اگلی رات کے ایک پہر اس لڑکی نے زہر کھا لیا تھا جس کا دولہا وقت پہ نہیں پہنچا۔
دعا عظیمی