(Last Updated On: )
وارثت کی تقسیم سے قبل تین اصول کیا ہیں،کیا قاتل بیٹے کو مقتول باپ کی وراثت مل سکتی ہے؟
حق دار کو جائیداد سے عاق کی قانونی حیثیت کیا ہے،ترکے کی ورثا میں تقسیم وراثت کس طرح ہوتی ہے؟
عاق کی قانونی حیثیت کیا پنشن میں بھی وراثت ہے؟
ہمارے معاشرے میں جتنا انتشار جائیداد اور خصوصاً وراثتی جائیداد کے حوالے سے ہے،شاید ہی کسی اور معاشرے میں ہو۔وراثت میں حصے کی تک و دو میں ہم رشتوں کو ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھتے ہیں۔بسا وقت تو بات قتل مقاتلہ تک پہنچ جاتی ہے۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس مال پر ہم لڑ رہے ہیں وہ ہم سے قبل کسی اور کا تھا اور یہ مال اب اس کے کسی کام کا نہیں رہا۔اس طرح ہم نے بھی چلے جانا ہے۔لیکن حرص انسان کی فطرت کا جزو ہے اور ہماری پستی کا ایک ذریعہ ہے۔شاید مال کی انسانی زندگی میں اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اسلام نے وراثت کے باقاعدہ قوانین وضع کر دیئے۔یہ قوانین لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال سے لاگو اور وراثت کی تقسیم کا بہترین نمونہ ہیں۔ایک حدیث مبارک کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” نے فرمایا کہ”وراثت کا علم آدھا علم ہے۔اس علم کی اہمیت اتنی ہے کہ اگر آپ وراثت کے علم کو جان لیں تو گویا آپ نے دنیا کے آدھے علوم جان لیے۔مثلا اسلام میں عورت کیلیے وراثت میں ایک حصہ مقرر ہے اور مرد کیلئے دو حصے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد پر اقتصاد کا بوجھ زیادہ ڈالا جاتا ہے۔
حق مہر سے لے نان نفقہ تک کا بوجھ مرد پر ڈالا گیا ہے۔اسی طرح عورت جب شادی کرکے دوسرے گھر میں آتی ہے تو اسے ایک حصہ باپ کی طرف سے جبکہ باقی اسے شوہر کی طرف سے بھی ملتا ہے۔جو آج کل عموماً نکاح کے وقت ہی لکھوا دیا جاتا ہے۔ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کی تلاوت تو کرتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جو قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
"قرآن کی سورۃ نساء کی آیت نمبر گیارہ اور بارہ میں عورت کی وراثت کے حوالے سے ذکر موجود ہے”۔
••••••••••اصول:•••••••
اسلام میں وراثت کیلیے تین بنیادی اصول ہیں۔
1::ایک یہ کہ وراثت کا حامل شخص مر چکا ہو۔یعنی وہ مرے گا تو اس کی وراثت کی تقسیم ہوگی۔
2::دوسرا اصول یہ ہے کہ وراثت مال و جائیداد حقیقتاً موجود ہو۔یعنی وہ چیز وراثت تسلیم نہیں کی جائے گی جس کا وجود نہ ہو۔
3::تیسرا اصول یہ ہے کہ ورثاء زندہ ہوں۔یعنی جو ورثاء مر چکے ہوں ان کے نام کا حصہ لینے کا کوئی تصور نہیں ہے۔یہ تو رہی بنیادی باتیں جو وراثت کا تعین کرتی ہیں کہ وراثت کیا ہے اور ورثاء کون ہیں؟
•••••وراثت کی تقسیم سے قبل تین اصول•••••::۔
وراثت کی تقسیم کے تین بنیادی اصول ہے۔
1::ایک تو سب سے پہلے مرنے والے کی تجہیز و تدفین اس کے مال سے ہی کہ جاۓ۔مطلب یہ ہے کہ قبر میں اتارے جانے تک جتنا بھی خرچہ ہوگا،مرنے والے کے مال سے کیا جائے گا۔اگر مال یا وراثت نہیں ہے تو پھر چونکہ وراثت کا وجود ہی نہیں،اس لیے ان چیزوں کو دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔لیکن اگر وراثت موجود ہے تو پھر یہ دھیان میں رکھنے والی بات ہے۔
2::دوسرا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے ذمہ کسی کا قرض وغیرہ تو نہیں ہے۔اگر کوئی بھی قرض ہو تو مرنے والے کے مال و جائیداد سے بہر صورت ادا کر دیا جائے۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بھائی قرضہ تو متوفی نے لیا تھا اس کے ساتھ ہمارا کوئ لینا دینا نہیں ہے۔البتہ اس کی جائیداد میں ہمارا خق بنتا ہے وہ ہم لے کر رہیں گے۔
3:: شریعت میں وراثت کی تقسیم کیلیے تیسرا اصول وصیت کی پابندی ہے۔یعنی اگر متوفی نے کوئی وصیت چھوڑی ہو کہ وہ مسجد یا مدرسہ یا کسی اور کارخیر کیلئے اپنی جائیداد و نقد کا کوئ حصہ چھوڑنا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ اس کی وصیت پر سب سے پہلے عمل کیا جائے۔البتہ اس کیلیے بھی ایک حد مقرر کر دی گئی ہے۔یعنی وہ اپنی وراثت کا ایک تہائی حصہ وصیت میں وقف کر سکتا ہے۔یہ حصہ بڑھ بھی سکتا ہے لیکن اس کیلیے ورثاء کی رضا مندی ضروری ہے۔یہ وہ تین بنیادی اصول ہیں کہ جن کی پابندی ضروری ہے۔اب مزکورہ بالا تمام فرائض پورے کرنے کے بعد یعنی تجہیز و تدفین کا خرچہ، کسی کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پوری کیۓ جانے کے بعد متوفی کی جو جائیداد،دولت وغیرہ بچتی ہے تو اسے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
اب تقسیم کیلیے شریعت کے اپنے پیمانے مقرر ہیں۔اس میں سب سے پہلے اگر متوفی کا والد اور والدہ زندہ ہیں۔وہ اپنی اولاد کے وارث ہیں۔
دونوں کو وراثت میں 1/6 1/6 کے حساب سے حصہ ملے گا۔اس کے بعد بیوی کا نمبر آتا ہے اگر زندہ ہے تو 1/8 کے حساب سے حصہ ملے گا۔اگر بیویاں ایک سے زیادہ ہوں تو یہی 1/8 حصہ ہی تمام بیویوں میں یکساں تقسیم کیا جائے گا۔
اولاد میں تقسیم اس طرح ہوگی جس طرح شروع میں ذکر کیا گیا ہے۔یعنی تین کرکے دو بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو دیا جاۓ گا۔مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یعنی اگر والد نے 75 ہزار روپے وراثت میں چھوڑے ہوں تو 25 25 ہزار کے تین حصے بنیں گے۔ان میں دو 25 25 گویا 50 ہزار روپے کا حصہ بیٹے کا بنے گا اور ایک حصہ یعنی 25 ہزار روپے بیٹی کو ملیں گے۔اگر بیٹیاں زیادہ ہیں اور بیٹا نہیں ہے تو تمام مال کا 2/3 ان سب میں تقسیم ہوگا۔یعنی دو حصے تمام بیٹیوں میں تقسیم ہوں گے اور ایک رہ جانے والا حصہ متوفی کے باپ کے پاس جاۓ گا۔اگر بیٹی صرف ایک ہے اور اولاد نرینہ نہیں ہے تو پھر آدھا حصہ بیٹی کو ملے گا باقی آدھا متوفی کے والدین کے پاس جاۓ گا۔
••”شوہر کو بیوی کی وراثت میں 1/4 ملے گا۔اگر بچے نہیں ہیں تو پھر 1/2 یعنی آدھا حصہ ملے گا۔
جبکہ بیوی کو شوہر کی وراثت میں 1/8 ملے گا۔لیکن اگر بچے نہ ہوں تو پھر بیوی کو بھی شوہر کی وراثت میں 1/4 کے برابر حصہ ملے گا”۔
••••••••••••
••”اسلام نے عورت کا اتنا خیال رکھا ہے کہ اگر عورت طلاق کے بعد عدت میں بیٹھی ہو اور اس دوران سابق شوہر مر جائے تو بھی اس کو طلاق کے باوجود شوہر کی وراثت میں 1/8 کا حصہ ملے گا اور اگر اولاد نہ ہو تو وہی 1/4 کا حصہ ملے گا”۔
••••••••
ہمارے ہاں مسلہ یہی ہے کہ ہم بہن،بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے کتراتے ہیں۔اکثر خاندان میں لڑکیاں بوڑھی ہو جاتی ہیں اور اس وجہ سے ان کی شادیاں نہیں کرائی جاتیں کہ ان کو جائیداد میں حصہ دینا پڑے گا۔یہ ایک قبیح فعل ہے۔ہم بڑے بڑے خاندانوں میں ایسے ہوتا دیکھتے ہیں۔اکثر تو کہتے ہیں کہ بہنوں نے ہمارا حصہ معاف کر دیا ہے۔حالانکہ شریعت نے ان کی وراثت تسلیم کی ہے۔اسلام سے قبل ایسا نہیں تھا۔بلکہ وہ تو بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے،وراثت تو دور کی بات لیکن اسی معاشرے میں اسلام کی آمد کے بعد عورت کو اس کا مقام ملا۔
یہ الگ بات ہے کہ اب ہم اکیسویں صدی میں اس جہالت کی طرف واپس جارہے ہیں۔ذرا سوچیں وہ جائیداد جس کی تھی وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا۔اب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ ہمیشہ ہمارے پاس رہے گی۔ظاہری بات ہے کہ ہمیں بھی اسے چھوڑ کے جانا ہے تو پھر یہ حرص کیوں؟لیکن جیسا کہ شروع میں ذکر کیا کہ انسان حرص کا پتلا ہے اور اسی حرص نے اسے نیچے لے کر جانا ہے قبر میں اس کا منہ مٹی سے بند کر دیا جاتا ہے یہی انجام ہوتا ہے۔
•••
عاق کی قانونی حیثیت کیا پنشن میں بھی وراثت ہے؟
••
ہمارے ہاں یہ جو عاق کرنے کا رواج ہے اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔خصوصا وراثت میں اس نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔اگر کوئ شخص زندہ ہے اور آپ کو کچھ نہیں دے رہا تو وہ علیحدہ بات ہے لیکن اگر وہ فوت ہو جائے اور آپ اس کے قریبی وارث ہیں تو چاہے وہ آپ کو عاق کرنے کا اعلان ہی کیوں نہ کر چکا ہو، آپ کو وراثت میں مقررہ حصہ ملے گا۔
•••
"ہاں البتہ اگر کسی بدبخت بیٹے نے اپنے باپ کو قتل کیا تو وہ باپ کی وراثت کا حقدار نہیں ہوگا”
••••
ایک اور اہم بات یہ کہ شریعت میں متوفی سے رشتوں کی قربت اہم ہے۔یعنی پہلا حق متوفی کے بیٹے کا ہوگا نہ کہ پوتے کا ہوگا۔گو کہ سول قوانین میں خصوصاً مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کی سیکشن فور میں اس کا بھی ایک طریقہ ہے کہ جس کے ذریعہ متوفی کا پوتا جائیداد میں حصہ لے سکتا ہے۔ویسے اسلام میں جیسا کہ ذکر کیا گیا اور کئی راستے ہیں مثلآ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اس کے خاندان کا کوئی قریبی رشتہ دار دولت کا حقدار ہے تو اس کیلیے وصیت میں بھی رقم لکھ سکتا ہے یا گفٹ کر سکتا ہے۔بہرحال رشتوں کی قربت کا تعین بھی وراثت کیلیے ضروری ہے اور اس حساب سے شریعت میں وراثت کی تقسیم ہوتی ہے۔
•••••••••••••••••••••••••••••!
آج کے معاشرے میں ہم جو مسائل دیکھ رہے ہیں وہ متوفی کی پنشن سے بھی متعلقہ ہوتے ہیں۔جگہ جگہ عوامی سطح پر آپ کو اس حوالے سے نا ہمواریاں سامنے ملیں گی۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پنشن بھی وراثت ہے اور پنشن کی تقسیم بھی ویسی ہی ہونی ہے کی جیسی جائیداد کی۔گو کہ اکثر خاندان میںں ایک فرد پنشن ہڑپ کر جاتا ہے۔مثلا متوفی کا کوئ بیٹا باپ کی پوری پینشن ہڑپ کر دیتا ہے اور بیوہ ماں کو اس میں سے کچھ رقم دے کر ٹرحاتا ہے یا اگر بیوہ زندہ نہیں ہیں تو پوری کی پوری پنشن ہڑپ کر جاتا ہے جو کہ نہ صرف غیر قانونی و غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر شرعی بھی ہے۔
****
****
مصنف و مضمون: سید فخر کاکا خیل
ترتیب : اللہ یار