کیا ہوا کیوں اتنا عالیشان بنگلہ چھوڑ کر سارا دن باہر تھڑے پر اداس گم صم بیٹھا رہتا ہے؟ جا سوئمنگ پول کا نیلا نیلا پانی تجھے تیراکی کی دعوت دے رہا ہے۔سبز لان اور وہاں کِھلے سرخ گلاب تیری بے توجہی پر افسردہ دکھائی دیتے ہیں۔اچھا چل ایل ای ڈی پر کوئی انگلش مووی ہی دیکھتے ہیں۔ یا پھر نکال کار،چلیں لانگ ڈرائیو پر۔اُس نے مجھے کھویا کھویا دیکھ کر کہا۔
میں خاموش رہا کچھ نہ بولا اُداس نظروں سے سڑک کی جانب دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ نہ جانے کیوں بیٹھے بیٹھے طبیعت اُداس ہو جاتی ہے۔ میں نے اپنی اُداسی کی وجہ پر غور کرنا شروع کیا۔
کیا مسلہ ہے؟کیوں دل بوجھل اور آنکھیں برسنے کو بے تاب رہتی ہیں۔زندگی کی ہر نعمت حاصل ہے۔ مگر نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا بھر کی محرومیاں میرے اندر سماگئی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی میں کوئی بہت اہم ساتھ چھوڑ گیا ہو کوئی محبوب،دوست یا کوئی رشتہ دار۔ کون ہو سکتا ہے؟ جس کی وجہ سے میں اُداس رہتا ہوں؟ کیوں بھری دنیا اور سڑک پر گاڑیوں کے اڏدھام میں دنیا جہان سے بیگانہ کھویا کھویا گم صم رہتا ہوں۔
سوچ کا دھارا الٹا بہنے لگا تو مجھے اپنے بچپن کا دوست سلیم یاد آ گیا جو ہر مشکل گھڑی میں میری ایک آواز پر ساتھ نبانے چلا آتا۔ اُس کے والد صاحب سرکاری آفیسر تھے۔زندگی کی ہر نعمت اُسے میسر تھی۔ہم دو وقت کی روٹی کو ترستے۔سارا سال چٹنی، ساگ اور دال نصیب ہوتی۔ سکول میں سلیم کے ٹفن سے اٹھتی پلاو، زردے، سوئیوں اور سینڈ وچ کی خوشبو ایسی سانسوں میں بسی کہ آج بھی جب زیادہ بھوک لگتی ہے تو چار سو سلیم کے ٹفن کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔
اُس کی سائیکل کو سارے گاوں کے لڑکے ترستی نگاہوں سے دیکھتے مگر مجھے سلیم منتیں کر کے ساہیکل چلانے کو کہتا۔ میں سائیکل کے ایک پیڈل پر پاؤں رکھ کر اُس پر چڑھنے کو دوڑتا تو سلیم کے چہرے پر ایسی خوشی پھیل جاتی جیسے اُسے دنیا جہان کی ہر نعمت مل گئی ہو۔۔ پھر ایک دن اُس کے والد کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگا۔۔
“اب میں سمجھا تیری زندگی کی سب سے بڑی محرومی سلیم سے بچھڑنا اور وہ وقت کھو جانا ہے۔واقعی یہی محرومی اس اُداسی کا سبب ہے۔” وہ فوراً بولا
نہیں ایسا نہیں ہے۔۔ تمہیں وہ چاند سے چہرے,چمکتے موتیوں جیسے دانتوں والی صدف یاد نہیں۔۔ جو میرے لیے اپنے گھر میں اُگے پھولوں سے روز گلدستہ بنا کر لاتی۔ میری آواز سنتے ہی دروازے پر آ کھڑی ہوتی پھر مجھے دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں محبت کے دیپ جلنے اٹھتے۔
میں اُن دونوں میڑک میں تھا لڑکیوں کا سکول بھی ہمارے سکول کے قریب واقع تھا تو صدف روز دروازے سے لگی میرا انتظار کرتی, میں اُسے اپنی آمد کا بتانے کے لیے دوستوں کو اونچی آواز میں پکارتا۔وہ میری آواز سنتے ہی دروازہ کھول کر باہر آ جاتی۔ پھر ہم آگے پیچھے چلتے ہوئے سکول تک جاتے۔ ہم دنیا کے ڈر سے گلی میں بات نہ کرتے۔ہماری زبانیں خاموش رہتیں مگر نظروں سے, مسکراہٹوں سے محبت کے عہد پیام ,جینے مرنے کے وعدے کیے جاتے۔ اُس کے بدن کی خوشبو، پیار کی دھن پر تھرکتا ہر عضو مجھ سے ساتھ جینےساتھ مرنے کے قول و اقرار کرتا۔
لیکن گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد پتا چلا کہ اُس کی شادی ہو گئی اور وہ اپنے پیا کے ساتھ کسی دوسرے شہر جا بسی۔
“ہاں یہی وجہ سے تیری اُداسی کی۔ مان میری بات تو زندگی بھر اُس کی کمی ہی محسوس کرتا رہا ہے پہلا پیار بھی کوئی بھلا پاتا ہے؟” اُس نے چٹکی بجا کر کہا۔
نہیں اب ایسا بھی نہیں۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اُس کی یاد میں کھویا رہتا ہوں۔۔ اُس کے چلے جانے سے میں چند دن اُداس ضرور رہا تھا مگر پھر زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا۔
تمہیں اپنی ماں یاد ہے؟اُس نے جذباتی انداز میں پوچھا۔
ہاں بالکل۔ ماں تو مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ وہ بچپن میں میرے ساتھ کھیلتی، کہانیاں سناتی۔ وہ سارا سارا سال ایک جوڑا کپڑوں میں گزارہ کرتی مگر میری ہر جماعت کے لیے نئی یونیفارم خریدتی۔ وہ ہر عید پر اپنی پلاسٹک کی چپلیں گرم پانی سے رگڑ رگڑ کر دھوتی اور مجھے عید پر نئے بوٹ دلواتی۔ عید پر جب وہ مجھے تیار کر کے باہر کھیلنے بھیجتی تو اُس کی آنکھوں میں چمکتی روشنیاں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ سکول کی آدھی چھٹی کے دوران جب سب بچے اپنے اپنے ٹفن کھولتے تو میں بے ساختہ اپنے بستے میں ہاتھ مارتا۔ اکثر میرے بستے سے گڑ کا ڈھیلا نکل آتا۔ میں حیرت سے دوستوں کو وہ گڑ دکھاتا۔ میری خوشی دیدنی ہوتی۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا جیسے کائنات کی ہر خوشی مجھے مل گئی ہو۔ میں چھٹی تک تھوڑا تھوڑا گڑ کھاتا رہتااور کبھی تھوڑا سا بچا کے گھر لاتا اور ماں کو دکھاتا۔ حیرت سے ماں کی انکھیں پھیل جاتیں۔ گڑ مجھ سے لے کر چکھتی اور بے ساختہ مجھے سینے سے لگا کر کہتی” میرے چاند اللہ پاک چاہتا ہے کہ تو اچھا اچھا پڑھے۔ اِس لیے فرشتے تیرے بستے میں گڑ رکھ جاتے ہیں ”
پھر اک روز سکول سے واپسی پر سارے گاؤں کو اپنے گھر کے صحن میں جمع پایا۔ میں بھیڑ میں راستہ بناتا کمرے تک پہنچا۔ ماں کو کفن میں لپٹے دیکھ کر دھاڑ مار کر ان سے لپٹ گیا۔ ماں کو سب لوگ اٹھا کر قبرستان لے گئے میں بھی ساتھ گیا۔ اُنھیں دفنا کر لوگ واپس آ گئےمگر میں کافی دیر اُن کی قبر کے سرہانے بیٹھا رہا۔ میں روز سکول سے واپسی پر قبرستان جاتا اور ماں سے فرشتوں کی شکایت لگاتا کہ جب سے تم گئی ہو اِنھیں نے میرے بستے میں گڑ رکھنا چھوڑ دیا ہے۔
ماں مر گئی فرشتے گڑرکھنا بھول گے۔ خالہ اور ماموں بھی اب مجھے پیار نہ کرتے۔ اُن کے گھر جاتا تو وہ اپنے بچوں کو اینے سینوں لگاتے اُن کی کنگھی کرتے اُنھیں پیسے دیتے اور کہتے کہ تھوڑے سے مرنڈے اس “مسکین” کو بھی کھلا دینا۔
“ہاں اب سمجھ آئی۔ سو فیصد سمجھ آگئی۔ بالکل،تو ماں کی کمی ہی محسوس کرتا ہے۔ یہی ایک ایسی کمی ہے جو تجھے اُداس رکھتی ہے۔ یہ تو جو بیٹھے بیٹھے کہیں کھو جاتا ہے یقینا تجھے ماں ہی یاد آتی ہے۔” وہ ایسے چیخا جیسے کوئی اہم گھتی سلجھا لی ہو
نہیں شاید یہ وجہ نہیں۔۔۔ ماں کو بھول پانا تو ناممکن ہے مگر میں ہر وقت کھویا کھویا سا اور اُداس اُن کی وجہ سے نہیں رہتا۔ میں اُن کے بعد بھی زندگی میں ہنسا کرتا تھا۔ میرے قہقہے محفلوں میں گونجتے تھے۔مجھے یاد ہے جب والد صاحب مجھے اپنے ساتھ شہر لائے اور کالج میں داخل کر وایا تھا تب میں کتنا خوش تھا۔
پولیس لائن کے سرکاری کوارٹر میں میرے کئی دوست بن گئے۔ یہاں مجھے سلیم کی سائیکل کے بجائےدوستوں کی موٹر ساہیکل چلانے کو ملی تو میں ہواؤں میں اڑنے لگا۔ روز کالج جاتے گرلز کالج کی کئی لڑکیاں کن انکھیوں سے میری اور دیکھا کریتیں۔ اُن کی آنکھوں میں محبت کے کُھلے پیام ہوتے۔ چلتے چلتے رقعے اُن کی کتابوں سے سرک کر خالی گلیوں میں میرے قدموں میں آ گرتے۔اِک روز پتا چلا کہ والد صاحب کو کوئی کار والا ٹکر مار گیا۔ دو چار دن ہسپتال داخل رہے۔ اسپتال والوں نے اِنھیں بچانے کی سوتوڑ کوششیں کی مگر وہ بھی مجھے چھوڑ کر اماں کے پاس چلے گئے۔
“ہاں اب سمجھ آئی تُو وہی بے فکری بھرے دن ,کالج کی حسینانیں اور والد صاحب کو یاد کر کے اداس رہتا ہے ۔بھلا والد کا ساتھ کھو دینا کوئی انسان بھول سکتا ہے؟اُس نے افسردگی سے پوچھا۔۔
نہیں، شاید یہ وجہ بھی نہیں۔کالج لائف اچھی تو تھی,والد کا سہارا دنیا کی بڑی نعمت تھا مگر شاید میں اِس وجہ سے اُداس نہیں رہتا۔۔ مانا کہ والدہ کے جانے کے بعد وہ میرا بے انتہا خیال رکھتے تھے۔میری ہر ضرورت پوری کرتے تھے۔ کالج کے دن بڑی بے فکری اور رومانس سے بھرپور ہوتے ہیں مگر اب ایسا بھی نہیں کہ انسان بیٹھے بیٹھے اُنھیں یاد کر کے سارا دن اُداس رہے۔ نہیں اُنکی کمی مجھے اداس کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتی۔۔
تو پھر کیا ہے؟ تو کیوں بیٹھے بیٹھائے کہیں کھو جاتا ہے۔ سارا سارا دن کیوں سڑک کنارے اُداس بیٹھا رہتا ہے؟کچھ تو وجہ ہو گی نا۔؟
ہاں کچھ تو ہے مگر مجھے خود معلوم نہیں کہ میرا یہ حال کیوں ہے؟لیکن مجھے یقین ہے کہ اِس اُداسی کی یہ وجہ والدکی فوتگی نہیں۔
چند ماہ بعد جب میرا انٹر پاس ہوا تو مجھے ایس پی آفس میں کلرک کی نوکری دے کر ابا والا سرکاری مکان بھی الاٹ کر دیا گیا تھا۔ اچھا خاندان، سرکاری نوکری اور سرکاری کوارٹر۔ اب تو کالونی کی خواتین میرے صدقے واری جاتیں۔ کوئی، روز جتا کر، اپنی بیٹی کے ہاتھ کے بنے کھانےبھیجتی تو کوئی اپنی بھانجیوں، بھتجیوں کے ہاتھ کے بنے سوئٹر دے جاتی۔ اب میرے دوست بھی کافی بن چکے تھے کیونکہ تنخواہ جوملتی تھی۔۔ کھانے کھائے جاتے، فلمیں دیکھی جاتیں۔ ان تمام عیاشیوں کے باوجود کچھ نہ کچھ بچ جاتا پھر میں نے ذاتی باہیک اور قسطوں پر ایک پلاٹ لے لیا۔ محلے کی خواتین کی حکمت عملی کامیاب رہی اور جلد ہی میری شادی ہو گئی۔۔۔
“اچھا تو وہ محلے والوں کی محبت۔ کنوارے پن کے مزے یاد آتے ہوں گے۔اُس نے میری بات کاٹ کر کہا۔
نہیں یہ کیا وجہ ہے اُداس رہنے کی؟اگر اِس وجہ سے اُداس ہوتا تو پھر شادی کے بعد ایک اچھی پرسکون اورخوشیوں بھری زندگی کیسے گزری ہوتی۔شادی کے چند سال بعد ہی اللہ پاک نے بیٹا دیا اُس کے نصیب سے میری ترقی ہوتی گئی۔بڑا آفیسر بن گیا۔کار، بنگلہ،بنک بیلنس سب مل گیا۔بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آفیسر لگ گیا۔ اُس کی شادی کر دی وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پوسٹگ پر رہتا۔میں ریٹائر ہو گیا اور لان میں بیگم کے ساتھ دھوپ میں بیٹھ کر کتابیں پڑھتا۔ پھر اک دن وہ اللہ کی بندی بھی میرا ساتھ چھوڑ گئی۔
ہاں! اب میں سمجھا۔ تُو اپنی بیگم کو یاد کرتا رہتا ہے سارا سار دن۔ ویسے بھی اتنے بڑے بنگلے میں اکیلا انسان کیا کرے؟ تو یقینا اُسے یاد کرتے ہوئے کھوجاتا ہے۔ بتا نا؟ میں نے تیری اُداسی کی وجہ معلوم کر لی نا؟ مجھے سمجھ آ گئی تُو اتنے عالیشان بنگلہ چھوڑ کر سارا دن تھڑے پر بیٹھا سڑک کی جانب کیوں تکتا رہتا ہے۔کبھی بیگم صاحبہ یہاں سے آتیں ہو گی۔۔ سچ بتا یہی وجہ ہے نا؟ اُس نے تالی کو میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
نہیں یار بیگم یاد تو آتی ہے اُس کی کمی محسوس تو ہوتی ہے مگر شاید میں اُسے یاد کرتے کرتے نہیں کھو جاتا۔ میں کچھ سوچتے ہوئے جواب دینے ہی لگا تھا کہ گلی میں ڈاکیا داخل ہوا ۔ میں فوراً تھڑے سے اٹھا اس کے قریب جا کر بے صبری سے پوچھا۔
“بابو میرے بیٹے کا خط آیا؟ ”
“نہیں انکل کوئی خط نہیں آیا” میں پھر تنہا تھڑے پر آ بیٹھا۔ وہ نہ جانے کیا سے کیا بکواس کر رہا تھا مگر میں ایک بار پھر دنیا جہان سے بے پرواہ نہ جانے کہاں کھو گیا تھا۔
***
تحریر۔ محمد وسیم شاہد
کوئٹہ ،پاکستان
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...