طلوع آفتاب کے ساتھ ہی اٹھارہ فوجیوں کا ایک دستہ ، گندگی سے بھرے میدان میں ، ایک دوسرے کے ساتھ بھاری قدموں سے چل رہے تھے۔بارش کی وجہ سے وہ آہستہ چل رہے تھے۔وہ آگے کی طرف جھکے ، سروں کو جھکاۓ اپنی بندوقوں کے کندوں سے کچھ ڈھونڈھتے ہوے بڑی دشواری سے میدان سے دریا تک اور پھر واپس میدان کی طرف چل رہے تھے۔تھکے ہوے ، خستہ حال ؛ بس اتنا چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ سب ختم ہو جاے۔ کیووا (Kiowa) جا چکا تھا۔وہ ، جنگ کے سایہ تلے مٹی اور پانی کے نیچے تھا، اور وہ سوچ رہے تھے کہ اسے کسی طرح سے ڈھونڈھ نکالیں اور کسی خشک اور گرم مقام پر چلے جائیں۔بڑی اذیت ناک رات تھی۔شائد بدترین رات تھی۔موسلا دھار اور مسلسل بارش کی وجہ سے سانگ ٹرا بانگ(Song Tra Bong) ندی میں سیلاب آچکا تھا اور پانی کناروں سے باہر بہنے لگا تھا۔میدان کا کیچڑ ندی کے ساتھ ساتھ گھٹنوں تک گہرا ہوچکا تھا۔سارا علاقہ سرمئی دھند سے ڈھکا ہوا تھا ۔ مغرب کی طرف بادل گرج رہے تھے ، ہلکی سی ماتم کی آوازیں ، اور برسات کا موسم تو جیسے جنگ کا مستقل حصہ بن چکے تھے۔وہ اٹھارہ فوجی خاموشی سے چلے جارہے تھے۔لفٹنٹ اول جمی کراس(First Lieutenant Jimmy Cross) کبھی کبھی صف کو سیدھا کرتے ہوے اور درمیانی فاصلہ کو ختم کرنے کے لیے سب سے آگے چل رہے تھے۔اس کا یونیفارم مٹی سے اٹا ہوا تھا، چہرہ اور ہاتھ گندے ہو چکے تھے۔ علی الصبح اس نے ریڈیو پر ایم۔آئی۔اے رپورٹ ( MIA. Missing in Action) میں نام اور حالات کی تفصیلات کا اعلان کر چکا تھا ، لیکن وہ پکا ارادہ کر چکا تھا کہ چاہے کچھ ہو جاے وہ اپنے فوجی کو ڈھونڈھ کر رہیگا ، یہاں تک کہ اگر اسے پتھروں کے اوپر اُڑنا پڑے یا ندی کے بہاؤ کو روکنا پڑے یا سارے میدان کا پانی خارج کرنا پڑے۔وہ اپنے گروپ کے کسی رکن کو اس طرح سے کھونا نہیں چاہتا تھا۔یہ صحیح نہیں تھا۔کیووا ایک بہترین فوجی ، ایک بہترین انسان اور ایک متقی بیپٹسٹ(Baptist) تھا ، اور لفٹنٹ کراس اتنے اچھے انسان کو اس میدان کے گندے کیچڑ میں کھودینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
وہ کچھ دیر کے لیے رکا اور بادلوں کو دیکھنے لگا۔ سواے کبھی کبھار گرج کے ، ساری صبح بالکل خاموش تھی ، صرف بارش کے علاوہ اٹھارہ فوجیوں کے مستحکم قدموں سے پتلے کیچڑ میں چلنے سے پیدا ہونے والی چھپ چھپ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔لفٹنٹ کراس چاہتا تھا کہ اگر بارش کم از کم ایک گھنٹہ کے لیے بھی رک جاے تو کام آسان ہو جائیگا۔
لیکن اس نے پریشانی سے کندھے اچکاے۔ یہ بارش تو ایک جنگ تھی جس سے لڑنا ہی تھا۔
وہ پیچھے مڑا اور اپنے گروپ کے ایک رکن کو اکیلا دیکھ کر چیخا کہ سب متحد ہوجائیں۔وہ دراصل آدمی نہیں __ ایک لڑکا تھا۔وہ ایک نوجوان فوجی ،میدان کے بیچوں بیچ گھٹنوں تک پانے میں کھڑا ، جھک کر دونوں ہاتھوں سے سطح کے نیچے کچھ ڈھونڈھ رہا تھا۔اس کے کندھے کانپ رہے تھے۔جمی کراس پھر چیخا لیکن نوجوان فوجی نہ ہی پلٹا اور نہ ہی اس نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا۔اس کے ٹوپی دار لباس کی وجہ سے جو مٹی سے پوری طرح سنا ہوا تھا ، لڑکے کا چہرہ دکھائی دینا ناممکن تھا۔گندگی اور نجاست نے لگتا تھا ہر قسم کی پہچان مٹا دی ہو ، سارے انسان ایک فوجی کی ایک جیسی نقل ہوں کیونکہ جمی کراس کا برتاؤ اپنے فوجیوں کے ساتھ بالکل ایسا ہی تھا ، جیسے وہ سب اس کے احکامات کی متبادل اکائیاں ہوں۔ ویسے کئی بار مشکل لگتا تھا ، لیکن وہ اس انداز فکر سے پرہیز کرنے کی کوشش کرتا تھا۔وہ کبھی فوجی اقتدار کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔وہ اپنے فوجیوں کو انسانوں کی طرح دیکھنا چاہتا تھا نہ کہ اکائیوں کی طرح۔ اور کیووا تو نہ صرف ایک عمدہ ، بہترین ، عقلمند ، شریف ، کم گو اور عظیم انسان تھا ، بلکہ مہذب اور بہت بہادر بھی تھا۔اس کا باپ اوکلاہوما شہر(Oklahoma City) میں اتوارکے اسکول (Sunday school) میں استاد تھا اور کیووا وہیں پر اس یقین کے ساتھ پروان چڑھا کہ یسوع مسیح نے نجات کا وعدہ کیا ہوا ہے اور اس عقیدہ کا ثبوت اس کے ہر برتاؤ میں ظاہر ہوتا تھا __ اس کی مسکراہٹ میں ، دنیا کی طرف اس کے رویہ میں ،اور اس کے باپ کی جنوری میں اس کی سالگرہ پر بھیجی ہوئی نیو ٹیسٹمنٹ(New Testament) کو ہمیشہ ساتھ رکھنے میں۔
جمی کراس کی نظر میں یہ ایک جرم تھا۔
دریا کی طرف دیکھتے ہوے اسے اس حقیقت کا احساس ہوا کہ اس نے اپنے فوجی دستہ کو اس جگہ ٹھہرا کر بڑی غلطی کی تھی۔ویسے حکم تو اعلیٰ عہدداروں سے آیا تھا لیکن پھر بھی زمینی سطح پر اسے اپنا فیصلہ لینے کے اختیار کو استعمال کرنا چاہیے تھا۔رات گذارنے کے لیے اسے اس اونچے مقام پر آنا چاہیے تھا ، اور ریڈیو پر وہ خبر دینی چاہیے تھی۔اگر چہ کہ اب کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا ، پھر بھی غلطی تو تھی ، اور بڑی خوفناک غلطی۔ وہ عاجز آچکا تھا۔ میدان کے گہرے پانی میں کھڑے لفٹنٹ اول جمی کراس اپنے ذہن میں اس کھوے ہوے فوجی کے والد کے نام ایک خط تیار کرنے لگا ، میدان کی گندگی کا ذکر کیے بغیر ،یہ بتاتے ہوے کہ کیووا کتنا بہترین فوجی تھا ، کیا ہی نفیس انسان اور ایک ایسا بیٹا جس پر اس کا باپ ہمیشہ فخر کرتا رہیگا۔
تلاش کافی سست چل رہی تھی۔کچھ دیر کے لیے صبح روشن دکھائی دی اور آسمان پر ہلکے سرمئی رنگ کا اجالا ، لیکن پھر دوبارہ تیز اور یکساں بارش شروع ہو گئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دھندلکا دائمی صورت اختیار کر چکا تھا۔
وہاں دور بائیں طرف ، اذار (Azar) ، نارمن باؤکر(Norman Bowker ) اور میٹل سینڈرس(Mitchell Sanders) میدان کے کنارے کنارے ندی سے قریب بمشکل چل پا رہے تھے۔وہ سب دراز قد مرد تھے لیکن میدان کا نجس کیچڑ ان کی رانوں تک آچکا تھا اور کبھی تو وہ کمر تک اس کیچڑ میں دھنسے ہوتے۔
اذار سر ہلا رہا تھا۔ اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہنے لگا ،” چلیں ، ستم ظریفی (irony) پر بات کرتے ہیں۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کیووا یہاں ہوتا تو بہت ہنستا ۔ نجاست کھاتے ہوے ___ یہ اعلیٰ درجہ کا طنز ہے۔”
“ ٹھیک ہے” ، نارمن باؤکر نے کہا۔ “ اب خاموش رہو۔”
اذار نے گہری سانس لی اور کہا ، “ سب بیکار ہی ضائع ہوگیا۔” “ نجاست کا میدان ۔ آپ کو قبول کرنا پڑیگا کہ یہ بہت اعلیٰ درجہ کا طنز ہے۔”
تینوں فوجی آہستہ آہستہ بھاری قدموں سے خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوے آگے بڑھ رہے تھے۔ان کے جوتے گیلی مٹی کے اندر دھنسے ہوے تھے اور اندر ہی جذب ہوتے چلے جا رہے تھے ، کہ ہر قدم کے لیے انھیں بڑی مشکل سے اپنے پیروں کو کھینچ کر نکالنا پڑتا تھا۔ بارش کی وجہ سے جگہ جگہ کھلے منہ کی طرح گڑھوں میں پانی بھر چکا تھا اور چاروں طرف بدبو پھیل چکی تھی۔
ندی تک پہنچ کر تینوں فوجی شمال کی جانب مڑے اور پھر واپس میدان سے دشواری کے ساتھ چلنے لگے۔کبھی کبھی وہ اپنے ہتھیار سے زمین کی گہرائی کا اندازہ کرتے ، لیکن زیادہ تر تو وہ اپنے پیروں سے ہی اندازہ لگا لیتے تھے۔
“ نہایت اعلیٰ درجہ کا کیس ہے ،” اذار کہہ رہا تھا۔” غلاظت کا کھانا ، اگر کہیں تو ، ساری کہانی کہہ دیتا ہے ۔”
“ بس ،” باؤکر نے کہا۔
“ ان گوالوں کی فلموں کی طرح ، ایک اور سرخ فام خاک چاٹےگا۔”
“ میں سنجیدہ ہوں ، بھائی۔ خاموش رہو۔ “
“ نہایت اعلی،” اذار نے مسکراتے ہوے کہا۔
بھیگی بھیگی صبح بڑی سرد تھی۔ساری رات وہ کچھ لمحوں کے لیے بھی نہیں سو سکے تھے۔وہ تینوں کافی ذہنی تناؤ میں مبتلا میدان سے گذرتے ہوے ندی کی طرف جارہے تھے۔ ایسا کچھ نہیں جو وہ کیووا کے لیے کر سکتے تھے ، سواے اس کے کہ کسی طرح اسے ڈھونڈ ھ کر ہیلی کاپٹر میں بٹھا دیں۔جب کبھی کوئی مرجاتا تھا ،یہی سب کیا جاتا تھا ، یہ خواہش کہ جلد سے جلد اس سے نپٹا لیا جاے ، نا کوئی سجاوٹ اور نا ہی کوئی تقریب ۔ اور اس وقت وہ صرف اتنا چاہتے تھے کسی قصبہ کی طرف چلے جائیں اور چھت کے نیچے آرام کریں اور کل رات جو کچھ ہوا اسے پوری طرح سے فراموش کردیں۔
میدان میں چلتے ہوے میٹیل سینڈرس درمیان میں ہی رک گیا۔وہ ایک لمحہ کے لیے آنکھیں بند کیے کھڑا ہو کر ایک پیر سے زمین کی گہرائی کا اندازہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر اپنا ہتھیار نارمن باؤکر کو تھما کر خود گندے کیچڑ میں نیچے چلا گیا۔اگلے ہی لمحہ اس نے ایک سبز رنگ کا جھاگ دار ، پھپوند سے بھرا سفری تھیلا اوپر اٹھایا۔
تینوں فوجی کچھ دیر کے لیے خاموش کھڑے رہے۔تھیلا مٹی ، پانی اور کسی مردہ جیسی چیز کی وجہ سے کافی وزنی لگ رہا تھا۔اندر چمڑے کے نرم جوتوں کی جوڑی اور ایک تشریح کےساتھ بائیبل( New Testament) رکھے تھے۔
“ اچھا،” میٹیل سینڈرس نے آخر کہا ، “ فوجی شائد یہیں کہیں ہے۔”
“ بہتر یہ کہ لفٹنٹ کو اطلاع کر دی جاے۔”
“ پریشان کریں انھیں۔”
“ ہاں ، لیکن __ “
“ کچھ لفٹننٹ ، “ سینڈرس نے کہا۔ “ کسی ٹائیلٹ کو ہمارا پناہ گزین کیمپ بنا دیں۔ تم نہیں جانتے اس بکواس کو۔”
“ کوئی نہیں جانتا تھا،” باؤکر نے کہا۔
“ ہوسکتا ہے ، یا نہیں بھی ہوسکتا۔ ایک رات میں کوئی دس ارب جگھوں کا انتظام تھوڑی نہ کیا جا سکتا تھا۔اس لیے اس نے ٹائیلیٹ کا انتخاب کر لیا ہو۔”
نارمن باؤکر نے غور سے اس سفری تھیلے کو دیکھا ، جو الیومینم کی فریم کے ساتھ گہرے سبز رنگ کے نائلون سے بنا تھا لیکن اب وہ عجیب قسم کے گوشت کے لوتھڑے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔
“ ویسے اس میں لفٹننٹ کا کوئی قصور نہیں تھا ،” باؤکر نے آہستہ سے کہا۔
“ پھر کس کا قصور ہے؟”
“ کسی کا بھی نہیں۔سب کو بعد میں ہی پتہ چلتا ہے۔”
میٹیل سینڈرس نے کھنکار کر گلا صاف کیا۔ اس نے سفری تھیلا بلند کیا ، اپنے حفاظتی پٹیوں کو کھینچ کر تنگ کیا ۔ “ ٹھیک ہے۔ لیکن ایک بات تو یقینی ہے کہ وہ جانتا تھا کہ بارش ہو رہی تھی۔ وہ ندی کے بارے میں بھی جانتا تھا۔ ساری باتوں کو جمع کریں اور تمھاری سمجھ میں آجائیگا کہ دراصل ہوا کیا تھا۔” سینڈرس نے چونک کر ندی کی طرف دیکھا اور کہا ،“ آگے بڑھو۔” “ کیووا ہمارا انتظار کر رہا ہے ۔” آہستہ ، آہستہ جھک کر بارش سے بچتے ہوے اذار ، نارمن باؤکر اور میٹیل سینڈرس گہرے پانی میں چلتے ہوے اس جگہ کے اطراف گھومنے لگے جہاں سے وہ سفری تھیلا ملا تھا۔
لفٹننٹ اول جمی کراس وہاں سے کوئی پچاس گز کی دوری پر کھڑا تھا۔ اس نے وہ خط لکھنا ختم کیا جو وہ اپنے دماغ میں کیووا کے باپ کو لکھ رہا تھا ، اور اب ہاتھ باندھے اپنے فوجی دستہ کو میدان میں ایک دوسرے کو کاٹتی آڑی ترچھی لکیروں پر چلتے ہوے دیکھ رہا تھا۔ایک مضحکہ خیز انداز میں اسے اپنے وطن نیو جرسی(New Jersey) کا گولف کا میدان (Golf course) یاد آ گیا۔ایک ہارا ہوا کھیل ، وہ سوچنے لگا۔کیسے تھکے ہوے کھلاڑی ، ایک خاص انداز میں ناہموار میدان پر آگے پیچھے گیند کا پیچھا کررہے ہوتے ہیں۔اسے بڑی خواہش ہونے لگی کہ کاش وہ اسی وقت وہاں ہوتا ، گولف کے چھٹے سوراخ کے پاس۔ چھوٹے ، سبز ، مسطح میدان کے سامنے پانی کے خطرہ کو دیکھتے ہوے گولف کی لکڑی( A golf club that has a relatively narrow metal head =Seven iron) ہاتھ میں لیے ہوا اور فاصلے کا اندازہ لگاتے ہوے ، اور سوچتے ہوے کہ کیوں نہ آٹھویں سوراخ پر نشانہ لگایا جاے۔فیصلہ کرنا بڑا مشکل تھا، لیکن زیادہ سے زیادہ ایک گیند ہی کھوتی۔کھلاڑی نہیں کھوتا۔ اور کبھی اس طرح سے خطرہ میں داخل ہو کر سارا دن کیچڑ میں ڈھونڈھنا نہیں پڑتا۔
جمی کراس کبھی بھی فوجیوں کی قیادت کی ذمہ داری لینا نہیں چاہتا تھا۔ بغیر کچھ زیادہ سوچے سمجھے ، جب وہ ماؤنٹ سیباشین کالج میں دوسرے سال کا طالب علم تھا ، اس نے ریزرو آفیسر ٹرینیگ کارپس (Reserve Officer Training Corps) میں شامل ہونے کے لیےمعاہدے پر دستخط کردیے تھے ، کیونکہ اس کے دوست شامل ہو چکے تھے اور اس طرح یہ سب بس خودبخود ہو گیا تھا۔ ویسے اس ٹرینیگ سے انھیں پڑھائی کی زائد سندیں مل سکتی تھیں ، اور اس لیے بھی کہ یہ زندگی کے بوجھ کو کھینچنے سے بہتر اور قابل ترجیح تھا۔ ویسے وہ پوری طرح سے تیار نہیں تھا۔ایک چوبیس سالہ نوجوان کا دل فوجی معاملات میں الجھنا نہیں چاہتا تھا۔اس نے کبھی جنگ کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا ، اسے قیادت کرنے کی یا احکامات صادر کرنے کی کبھی کوئی خواہش نہیں تھی ، اور اب اتنا عرصہ ، اتنے سارے دن اور راتیں ، ان جھاڑیوں میں گذارنے کے بعد ، وہ اتنا بھی نہیں جانتا کیسے ان فوجیوں کو اس گندے میدان سے باہر نکالے ۔
اسے چاہیے تھا کہ ، اس نے خود سے کہا ، اپنی عصبی قوت تحریک کا اتباع کرنا چاہیے تھا۔گذشتہ روز شام میں ، جب وہ رات کی ترتیب کے لیے پہنچے ، اس کو چاہیے تھا کہ وہ ایک نظر دوڑاتا اور کسی اونچی جگہ کی طرف جاتا۔اب سارے بہانے لاحاصل تھے۔اس میدانی علاقہ کے ایک طرف ایک چھوٹا سا قصبہ تھا ، اور وہاں سے دو بوڑھی خادمائیں مجھے خبردار کرنے کے لیے دوڑی چلی آرہی تھیں۔ ‘نمبر ۱۰’، انھوں نے کہا۔خطرناک میدان ہے ۔ لیکن یہ تو جنگ تھی اور اسے اپنے احکامات صادر کرنے تھے ، لہذا سب نے اپنا احاطہ چن لیا اور اپنے لبادوں میں رینگتے ہوے وہاں رات گذارنے کے لیے خود کو تیار کرنے لگے۔اسے یاد آیا کیسے پانی اوپر بڑھتا جارہا تھا اور کیسے زمین سے نکلنے والی بدبو بھی بڑھتی جارہی تھی۔کچھ تو وہ مری ہوئی مچھلیوں کی بدبو تھی اور اس کے علاوہ بھی کچھ تھا ، اور تب ہی دیر رات میٹیل سینڈرس بارش میں رینگتے ہوے اس کے پاس پہنچا اور اس کا ہاتھ پکڑ کرپوچھنے لگا کہ رات گذارنے کے لیے اس نے اس گندے میدان کا انتخاب کیوں کیا۔ اس قصبہ کا بیت الخلا ، سینڈرس نے بتایا۔ اس وقت سینڈرس کے چہرے پر ظاہر ہونے والے تاثرات وہ کبھی نہیں بھول پایا۔وہ کچھ دیر اسے گھورتا رہا ، پھر اپنے چہرے کو صاف کیا ، بڑبڑایا “ نجاست” ، اور پھر اندھیرے میں رینگتا ہوا چلا گیا۔
ایک بیوقوفی ۔ ایک غلطی تھی، لیکن اس غلطی نے کیووا کی جان لےلی۔
لفٹننٹ جمی کراس کو اپنے اندر کچھ گُھٹتا ہوا سا محسوس ہونے لگا۔ کیووا کے والد کو لکھے خط میں وہ اپنی حماقتوں کا اعتراف کرتے ہوے ،صاف صاف ان سے معافی مانگ لیگا ۔
لفٹننٹ نے سوچا کہ وہ سارا الزام اس کی صحیح جگہ پر لگا دیگا۔ وہ بہت ہوشیاری سے یہ ثابت کر دیگا کہ شروع سے ہی وہ میدان ناقابل مدافعت تھا۔نشیبی اورمسطح علاقہ ،بغیر کسی قدرتی پناہ کے۔اور جب رات دیر گیے انھوں نے ندی کے اس پار گن فائر دیکھی تو فوری ڈھلان پر نیچے لیٹ گیے اور انتظار کرنے لگے۔اور تبھی لگا کہ جیسے سارا میدان اچانک تباہ ہو گیا ہو۔بارش ، ڈھلان ، اور بارود اور دھات کے ٹکڑوں سے بھرے بم سارے ایک ہوگیے اور لگتا تھا میدان ابلنے لگا تھا۔وہ کیووا کے والد کو ساری صورت حال کی وضاحت دے دیگا۔ خود کے گناہ کو نہ چھپاتے ہوے ، وہ بتا دیگا کیسے بم کے پھینکے گیے گولوں نے دلدل میں گڑھے بنا دیے جس کی وجہ سے ساری گندگی اچھل کر اوپر پھیل گئی اور بم کے گولوں سے بنے گڑھے کیسے مٹی ، پانی اپنے اندر سماے ، سارا اسلح ، سارے حفاظتی اوزار ، گولہ بارود اور دیگر اشیاء کو نگلتے ہوے منہدم ہو چکے تھے۔ اور کیسے اسی طرح ان کا بیٹا ،کیووا ، بھی اس کچرے اورجنگ کی نذر ہوگیا۔
میرا اپنا قصور ، وہ کہے گا۔
لفٹننٹ اول جمی کراس نے خود کو سیدھا کیا ، آنکھیں ملیں اور اپنے خیالات کو یکجا کیا۔ بارش سرد اور اداس بونداباندی میں تبدیل ہوچکی تھی۔
دور ندی کی طرف ، لفٹننٹ نے دیکھا کہ وہی نوجوان فوجی میدان کے بیچ تنہا کھڑا تھا۔اس کے کندھے کپکپا رہے تھے۔ہو سکتا کہ نوجوان کے کھڑے رہنے کا انداز ہو ، یا اس نے سطح سے نیچے کوئی غیر مرئی شۓ دیکھ لی ہو ، کچھ لمحوں تک جمی کراس ، آگے بڑھنے کے لیے خوفزدہ ، بالکل خاموش کھڑا رہا ، لیکن جانتا تھا کہ اسے جانا ہوگا ، اور پھر وہ بڑبڑایا ،” یہ سب میرا قصور ہے۔” ، اور اس نے سر ہلایا اور پانی سے بھرے میدان سے گذرتے ہوے نوجوان کی طرف چل پڑا۔
نوجوان فوجی اپنی چیخ کو بمشکل روکنے کی کوشش کررہا تھا۔
وہ بھی خود کو الزام دے رہا تھا۔ وہ کمر سے جھکے ، دونوں ہاتھوں سے کچھ ٹٹول رہاتھا ۔ لگتا تھا کسی چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھاجو اس کی پہنچ سے دور تھی ، اس کے ہاتھ نہیں آرہی تھی ، شائد مچھلی یا مینڈک۔ اس کے جسم کا پچھلا حصہ حرکت کر رہا تھا۔جمی کراس کی طرح وہ نوجوان بھی کسی غیرموجود جج کے سامنے وضاحتیں دے رہا تھا جو ہر گز بھی اس کے بچاؤ کے لیے نہیں تھیں۔نوجوان نے خود کی غلطی کو پہچان لیا تھا اور اب اس کی وجوہات کو ترتیب دینا چاہتا تھا۔
پانی میں کچھ اور قدم آگے بڑھا ، اور جھک کر میدان کی تہہ کو ہاتھ سے محسوس کرنے لگا۔
اس نے کیووا کی تصویر بنائی۔دونوں بہت قریبی دوست تھے ، پکی دوستی تھی ، اور اسے یاد آیا کیسے گذشتہ رات دونوں ایک دوسرے کے قریب اپنے لبادوں میں ٹھنسے ہوے تھے۔بارش مسلسل چل رہی تھی ، پانی گھٹنوں تک پہنچ چکا تھا ، لیکن کیووا نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ انھیں بہتر چیزوں پر دھیان دینا چاہیے۔اور پھر کافی دیر تک اپنے خاندانوں اور وطن کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔اسی دوران ، نوجوان فوجی نے اپنی گرل فرینڈ کی تصویر بھی دکھائی تھی۔پھر اسے یاد آیا کیسے اس نے انجانے میں فلیش لائیٹ چالو کردی۔ ایک بیوقوفی والی حرکت تھی ، لیکن بس ہو گئی۔اسے یاد آیا ، کیووا جھک کر تصویر دیکھ رہا تھا اور کہا ،____ “ اوہو ، یہ تو بڑی پیاری ہے۔” اور پھر ان کے اطراف سارا میدان پھٹ پڑا۔
قتل کی طرح ، نوجوان فوجی سوچنے لگا۔ کیونکہ یہ سب اس فلیش لائیٹ کی وجہ سے ہوا۔خوفناک اور پرخطر، اور نتیجتاً کیووا مرگیا۔
سیدھی سی بات ، اس نے سوچا۔
اس نے تمنا کی کہ کاش اس واقعہ کو کسی اور نظریہ کے تحت بھی دیکھا جاسکتا تھا۔لیکن ایسا کچھ ممکن نہیں تھا۔بس یہی ہونا تھا۔ اسے یاد آیا توپ کے دو گولے ان کےبالکل قریب گرے تھے۔اور تیسرا تو بہت قریب اور اس نے اپنی بائیں جانب ایک اذیت ناک چیخ سنی ، اور پھر بےحرکت (clotted) ، اور وہ فوراً ہی جان گیا کہ وہ کیووا تھا۔
اسے یاد تھا کہ وہ رینگتے ہوے اس چیخ کی طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سمت کا کوئی اندازہ نہیں تھا اور اس اندھیرے اور گیلےپن میں میدان جیسے اسے اپنے اندر کھینچتا جا رہا تھا۔وہ آگے بڑھ نہیں پا رہا تھا ،اور اسی وقت ایک اور توپ کا گولہ اس کے قریب گرا ،اور اگلے چند لمحوں میں اگر وہ کچھ کر سکتا تھا وہ یہ کہ اس نے اپنی سانس روک لی اور پوری طرح سے خود کو پانی کے اندر کر لیا۔
کچھ دیر بعد جب وہ پانی سے باہر آیا ، وہاں کوئی آواز نہیں تھی۔البتہ وہاں ایک ہاتھ جس کی کلائی پر ابھی بھی گھڑی بندھی تھی اور جوتے کا ٹوٹا ٹکڑا پڑے تھے۔اور وہاں سے بلبلے اُٹھ رہے تھے جہاں کیووا کا سر ہونا چاہیے تھا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا کہ کیسے اس نے جوتے کو پکڑ کر بہت مشکل سے اسے کھینچنے کی کوشش کی تھی لیکن لگتا تھا میدان کا دلدل اسے واپس اپنی طرف کھینچ رہا تھا ، جیسے رسہ کشی کا کھیل چل رہا ہو ، جہاں اس کی ہار یقینی تھی ، اور آخر نوجوان فوجی نے آہستہ سے اپنے دوست کا نام لیا اور اسے چھوڑ دیا اور جوتے کو کھسکتے ہوے دیکھتا رہا۔اور اس کے بعد وہ کافی عرصہ تک سب کچھ بھول چکا تھا۔کئی طرح کی آوازیں سنائی دیتیں اور عجیب قسم کی بُو آنے لگی تھی ۔ اور پھر اس نے خود کو اونچائی پر چہرہ اوپر کیے پڑا پایا ، میدان کی مٹی منہ میں لیتے ہوے ،بارش ، بم دھماکوں اور بلبلوں کی آوازیں سنتے ہوے ۔ سب کچھ کھو کر وہ تنہا تھا ۔ وہ کیووا کو ، اس کے ہتھیار ، اس کی فلیش لائیٹ اور اس کی گرل فرینڈ کی تصویر ،ساری چیزیں کھو چکا تھا۔اسے یہ سب یاد تھا۔اسے ڈر تھا کہ کہیں خود کو بھی نہ کھودے۔
اور اس وقت صبح کی سست بارش میں ، نوجوان فوجی شوریدہ سر دکھائی دے رہا تھا۔وہ پانی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جلدی جلدی جارہاتھا ، بار بار جھک کر پانی میں کچھ تلاش کرتا۔اس نے سر اٹھا کر دیکھا ہی نہیں کب لفٹننٹ جمی کراس اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔
“ بالکل یہیں پر ،” نوجوان کہہ رہا تھا۔” یہیں ہونا چاہیے۔ “
جمی کراس اس نوجوان فوجی کو جانتا تھا لیکن اس کا نام ذہن میں نہیں تھا۔ ہوتا ہے ایسا کبھی کبھی۔لفٹننٹ اپنے سارے فوجیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا کرتا تھا ، انھیں انفرادی طور پر جانتا تھا، لیکن کبھی کوئی نام یادداشت سے غائب بھی ہوجایا کرتا۔
جمی کراس مسلسل نوجوان فوجی کو ہاتھوں سے پانی میں ڈھونڈھتے ہوے دیکھ رہا تھا۔ “ یہیں پر” وہ بار بار کہتاجاتا۔ اس کی حرکتیں بےترتیب اور بے قائدہ دکھائی دے رہی تھیں۔
لفٹننٹ کچھ لمحے اسے یونہی دیکھتا رہا ، پھر اس کے قریب جا کر آہستہ سے کہا۔ “ سنو۔” “ وہ کہیں بھی ہوسکتا ہے۔”
نوجوان نے سر اٹھاکر دیکھا۔” کون ہوسکتا ہے؟”
“ کیووا ۔ تم توقع نہیں کرسکتے __ “
“ کیووا مرچکا ہے۔”
“ ہاں ، ٹھیک ہے۔”
نوجوان نے سرہلایا۔” لیکن بلی(Billie) کا کیا ؟”
“ کون؟”
“ میری دوست۔ اس کا کیا ؟ اس کی ایک ہی تصویر تھی میرے پاس۔ اور یہیں پر وہ کھو گئی۔”
جمی کراس نے سر ہلایا۔ وہ پریشان تھا کہ اسے اس نوجوان کا نام کیوں یاد نہیں آرہا تھا۔
“ آہستہ سے،” اس نے کہا، “ میں نہیں __ “
“ بلی کی تصویر۔ میں نے اسے اچھی طرح پلاسٹک میں لپیٹ کر رکھا تھا ، اس لیے وہ محفوظ ہی ہوگی، اگر میں …… ۔ گذشتہ رات میں اور کیووا یہیں پر دیکھ رہے تھے۔ مجھے یقین ہے وہ یہیں کہیں ہوگی۔
جمی کراس مسکرایا۔ “ تم اس سے دوسری تصویر منگوا لینا، اس سے بہتر۔”
“ وہ دوسری تصویر نہیں بھیجے گی۔ وہ اب میری دوست بھی نہیں ہے ، وہ نہیں بھیجے گی …… جناب، مجھے ڈھونڈھنا ہوگا۔”
نوجوان نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ کھینچا۔ پیروں سے زمین کے کیچڑ کو اِدھر اُدھر کیا ، نیچے جھکا اور دونوں ہاتھوں سے ڈھونڈھنے لگا۔اس کے کندھے کانپ رہے تھے۔مختصر یہ کہ ، لفٹننٹ کراس پریشان تھا کہ آخر اس کے ہتھیار اور ہیلمیٹ کہاں تھے ، لیکن اُس وقت اس سے کچھ پوچھنے کی بجاے خاموش رہنا مناسب تھا۔
لفٹننٹ کو نوجوان سے ہمدردی ہونے لگی تھی۔ دن کی شدت میں کمی ہوتی محسوس ہونے لگی تھی۔نوجوان بڑی تکلیف میں تھا۔ وہ پانی میں مشکل سے چل پا رہا تھا ، کبھی جھکتا پھر کھڑا ہوجاتا ، پھر دوبارہ جھکتا اور پھر کھڑا ہوجاتا ، جیسے کہ بالآخر وہ اس گندگی سے کچھ نہ کچھ ضرور ڈھونڈھ نکالنے میں کامیاب ہو جائیگا۔
جمی کراس نے خاموشی سے نوجوان کی کامیابی کے لیے دعا کی۔
پھر اس نے آنکھیں بند کیں اور واپس چلا گیا تا کہ کیووا کے والد کو لکھے ادھورے خط کو مکمل کر سکے۔
****
اذار ، نارمن باؤکر اور میٹیل سینڈرس تنگ پشتہ (dam)سے لگے میدان کے کنارے کنارے چل رہے تھے۔ دوپہر ہوچکی تھی۔
نارمن باؤکر نے کیووا کو پالیا تھا۔وہ پانی میں دو فٹ نیچے تھا۔اور سواے اس کے جوتے کی ایڑی کے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
“ کیا وہ وہی ہے ؟” اذار نے پوچھا۔
“ اور کون ہوسکتا ہے؟”
“ میں نہیں جانتا۔” اذار نے سر ہلا کر کہا۔” میں نہیں جانتا۔”
نارمن باؤکر نے جوتے کو چھوا ، ایک لمحہ کے لیے آنکھیں بند کیں پھر کھڑا ہو کر اذار کو دیکھتے ہوے کہنے لگا ،
“ اچھا تو تمھارا لطیفہ کہاں ہے ؟”
“ کوئی لطیفہ نہیں ہے۔”
“ نجاست کھانا۔ چلیں ایک بار پھر سنتے ہیں ۔”
“ بھول جائیں اسے۔”
میٹیل سینڈرس نے ان سے بات کو ختم کرنے کے لیے کہا۔ تینوں فوجی پشتہ کی طرف چلے گئے ، اپنے تھیلے اور ہتھیار نیچے رکھا اور پھر واپس پانی میں اس طرف چلے گئے جہاں وہ جوتا دکھائی دے رہا تھا۔جسم کا کچھ حصہ پانی کے نیچے پھنسا ہوا تھا۔ اس کو سطح پر کھینچنا بے حد مشکل تھا۔جب بھی وہ اسے کھینچتے ، انکے پیروں کو پانی کے نیچے کا دلدل مضبوطی سے جکڑ لیتا۔ بارش نے دوبارہ زور پکڑ لیاتھا۔میٹیل سینڈرس نے مزید نیچے جاکر کیووا کا دوسرا جوتا بھی حاصل کرلیا ، کچھ لمحے انتظار کیا پھر ایک گہری سانس لیکر کہا ،” ٹھیک ہے “، پھر انھوں نے ملکر دونوں جوتوں کو پکڑ کر اوپر کھینچنا شروع کیا۔ تھوڑی سی اور محنت کرنی تھی۔انھوں نے پھر سے کوشش کی ، لیکن اس بار جسم اپنی جگہ سے بالکل نہیں ہلا۔ تیسری کوشش کے بعد وہ کچھ دیر رکے ، نیچے دیکھا اور نارمن باؤکر نے کہا ،” ایک بار پھر۔” اس نے تین تک گنا اور سب ایکبار پھر جھکے اور اسے کھینچنے لگے۔
“ پھنس گیا “ ، میٹیل سینڈرس نے بتایا۔
“ اوہ ، اچھا ۔کرائسٹ !”
انھوں نے دوبارہ کوشش کی ، پھر ہینری ڈابنس(Henry Dobbins) اور ریٹ کیلے(Rat Kiley) کو بلایا ، اور پانچوں نے مل کر پوری طاقت لگا دی لیکن جسم بہت بری طرح سے مٹی میں پھنسا تھا۔
اذار جا کر پشتہ کے پاس اپنا پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ پھیکا پڑ چکا تھا۔
باقی سب لوگ دائرہ بناے پانی کے بہاؤ کو دیکھ رہے تھے ، اور پھر کچھ دیر بعد کسی نے کہا ،” ہم اس طرح سے اسے یہاں نہیں چھوڑ سکتے “، سب ہی اس بات سے راضی تھے۔ انھوں نے سر ہلایا اور بیلچہ ،کدال لیکر کھودنا شروع کردیا۔ بہت مشکل اور گندہ کام تھا۔ وہ جس رفتار سے کھدائی کرتے اس سے کہیں زیادہ رفتار سے مٹی واپس گرنے لگتی ، لیکن کیووا تو ان کا دوست تھا اور انھیں یہ سب کرنا ہی تھا۔
آہستہ آہستہ ،فوجی دستہ کے سارے فوجی ، چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں گھومتے ہوے وہاں پہنچ گیے۔صرف لفٹننٹ جمی کراس اور نوجوان فوجی ابھی بھی میدان میں اپنی تلاش جاری رکھے ہوے تھے۔
“ میرے خیال سے ، ہمیں لفٹننٹ کو بتا دینا چاہیے “ ، نارمن باؤکر نے کہا۔
میٹیل سینڈرس نے سر ہلایا۔ “ ساری چیزیں کافی الجھ چکی ہیں ، جبکہ وہ کافی خوش اور مطمئین نظر آرہا ہے۔ اسے بھی تو اس الجھن کا حصہ بنانا چاہیے۔”
تقریباً دس منٹ بعد وہ کیووا کے جسم کا نچلا حصہ مٹی سے الگ کرچکے تھے۔لاش کچھ اس زاویہ سے سر کے بل نشیب میں پہنسی ہوئی تھی جیسے کوئی غوطہ خور بہت اونچی جگہ سے سر کے بل غوطہ لگاے۔ سب لوگ کچھ دیر خاموش ، متعجب کھڑے رہے ۔ میٹیل سینڈرس نے سر ہلا کر کہا،” چلو ،اس کام کو ختم کر دیں” ، اور پھر انھوں نے اس کے دونوں پیر پکڑ کر پوری قوت سے اوپر کھینچا ، پھر دوبارہ کھینچا ، اور کچھ لمحے بعد وہ کیووا کو کھینچ کر سطح پر لانے میں کامیاب ہو گیے۔اس کے کندھے کا کچھ حصہ غائب تھا۔اس کا ہاتھ ، سینہ اور چہرہ بم کے دھماکہ سے زخمی ہو چکے تھے۔وہ پوری طرح سے نیلے اور سبز کیچڑ میں لپٹا ہوا تھا۔ “ ٹھیک ہے”، ہینری ڈابنس نے کہا ، “ اس سے بہت برا بھی ہوسکتا تھا” ، جس پر ڈاوے جینسن(Dave Jensen) نے کہا ،” کیسے ، بھائی ؟ بتاؤ مجھے کیسے۔” بہت احتیاط کے ساتھ ، لاش کی طرف بغیر دیکھے ، انھوں نے کیووا کے جسم کو پشتہ کے پاس نیچے لٹا دیا۔اور تولیوں سے ساری گندگی صاف کی۔ریٹ کیلے نے اس کے جیبوں میں تلاش کیا اور اس کی ذاتی اشیاء کو ایک پلاسٹک بیگ میں محفوظ کر کے اسے کیووا کی کلائی پر ٹیپ سے چسپاں کردیاـ ، اور پھر اس کو وہاں سے ہٹانے کے لیے ریڈیو کے ذریعہ اعلان کر دیا۔
وہاں سے واپس جاتے ہوے فوجیوں نے خود کو کچھ سکون فراہم کرنا چاہا۔ کسی نے سگریٹ سلگالی ، کوئی سی راشن کے ڈبے کھولنے لگے۔( Canned ration issued by the United States Army)۔اور کچھ بارش میں یونہی کھڑے رہے۔
ان سب کو اس کام کے ختم ہونے پر راحت محسوس ہوئی۔اب انھیں کوئی مئے خانہ تلاش کرنا تھا جہاں سستی شراب ملتی ہو ، یا پھر کوئی بدھ مندر( pagoda) جہاں وہ سب اتار کر ، کچھ دیر سستا کر تھکن دور کر لیں ، اور ممکن ہو تو آگ بھی جلا لیں۔کیووا کے بارے میں سوچ کر وہ سب ہی دکھی تھے۔لیکن ان کے احساسات میں کم ظرفی کا عنصر شامل تھا ، اندرونی خوشی کہ وہ زندہ تھے ، اور اس وقت بارش کا ہونا بھی بہتر تھا ورنہ وہ میدان کی گندگی میں پھنس جاتے ، اور ویسے بھی یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا۔
اذار پشتہ پر نارمن باؤکر کے ساتھ بیٹھ گیا۔
“ سنو ،” اس نے کہا۔ “ وہ احمقانہ لطیفے ___ میرا مطلب کسی کی دل آذاری نہیں تھا۔”
“ ہم سب کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں۔”
“ ہاں ، لیکن جب میں نے اسے دیکھا تو محسوس ہوا کہ __ پوری طرح نہیں جانتا __ لگ رہا تھا کہ وہ سن رہا تھا۔”
“ اس نے نہیں سنا۔”
“ میرے اندازے سے نہیں۔ لیکن ایک احساس جرم ہے ، جیسے کہ اگر میں نے خاموشی اختیار کی ہوتی تو یہ سب نہ ہوا ہوتا۔جیسے سارا قصور میرا ہی تھا۔”
نارمن باؤکر نے میدان پر ایک نظر دوڑائی۔
“ کسی ایک کا قصور نہیں ہے “ ، اس نے کہا۔” بلکہ ہر ایک کا قصور ہے۔”
لفٹننٹ اول جمی کراس میدان کے بیچ بیٹھ گیا ، تقریباً زیر آب۔اور اپنے ذہن میں کیووا کے والد کو لکھے خط پر نظرثانی کرنے لگا۔اس بار کچھ لاتعلقی سے۔ایک آفیسر کا آفیسر کی طرح تعزیتی پیغام۔ معافیاں مانگنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ درحقیقت یہ اس پاگل پن کا حصہ تھا کیونکہ جنگ اس قسم کے پاگل پن سے بھری ہوتی تھی ،اور جنگ کی اس خصوصیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہی سچائی تھی ۔ عین سچائی۔
لفٹننٹ کراس مزید گہرائی میں چلا گیا اور گندہ پانی اس کی گردن تک پہنچ چکاتھا ، اور کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ یہی سچ تھا۔
اس کے قریب ہی ، اس کے بائیں طرف کچھ فاصلہ پر نوجوان فوجی ابھی تک اپنی گرل فرینڈ کی تصویر کو ڈھونڈھ رہا تھا ، اس بات کو یاد کرتے ہوے کہ اس نے کیسے کیووا کو مارڈالا۔
نوجوان فوجی اقبال جرم کرنا چاہتا تھا۔وہ لفٹننٹ سے کہنا چاہتا تھاکہ کیسے دیر رات اس نے بلی(Billie) کی تصویر کیووا کو دیا اور پھر فلیش لائیٹ کو کھول دیا ، اور کیسے کیووا نے سرگوشی کی “ ارے ،یہ تو بہت پیاری ہے “، اور کیسے ایک سکنڈ کے لیے بلی کی تصویر چمک اٹھی ، اور کیسے اسی وقت سارا میدان بم دھماکوں سے بھر گیا۔ اور یہ سب اس فلیش لائیٹ کی وجہ سے ہوا تھا۔نشانہ ہدف اندھیرے میں چمک اٹھا تھا۔
نوجوان فوجی نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر جمی کراس کو۔
“ سر ؟” اس نے کہا۔
“بادلوں کی گرج کے ساتھ بارش اور دھند نے سارے میدان پر جیسے سرمئی رنگ کی چادر پھیلا دی تھی۔
“ سر ،” نوجوان نے کہنا شروع کیا ، “ مجھے آپ کو کچھ وضاحت دینی ہے۔”
لیکن لفٹننٹ جمی کراس سن نہیں رہا تھا۔آنکھیں بند کیے وہ اس گندگی میں نیچے چلا جارہا تھا ، خود کو پوری طرح میدان کے حوالے کیے ہوے ، پیٹھ کے بل لیٹے وہ بہتا چلا جا رہا تھا۔
جب کسی انسان کی موت واقع ہو جاے تو الزام تو کسی کو دینا ہی ہوتا تھا ۔ جمی کراس یہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔موجودہ صورت حال میں یہ الزام جنگ کو دیا جانا تھا۔ویسے تو یہ الزام ان بیوقوفوں کو دیا جانا چاہیے تھا جنھوں نے جنگ بنائی۔ یہ الزام کیووا کو دینا چاہیے جس نے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ یا پھر بارش کو مورد الزام ٹہرایا جاسکتا تھا۔ ندی کو الزام دیا جاسکتا تھا۔یا پھر اس میدان کو ، اس کیچڑ کو ، اس موسم کو الزام دیا جاسکتا تھا۔دشمن کو الزام دیا جا سکتا تھا۔یا پھر ان بم کے دھماکوں کو الزام دیا جا سکتا تھا۔یا پھر ان لوگوں کو الزام دیا جا نا تھا جو اخبار پڑھنے میں سستی کا مظاہرہ کرتے تھے ، جو روزآنہ جنگ میں مرنے والوں کی تعداد جاننے سے بیزار ہو چکے تھے ، اور سیا ست کے ذکر پر ہی چینل بدل دیتے تھے۔ یا پھر پوری قوم کو ہی الزام دیا سکتا تھا۔خدا کو بھی الزام دیا جاسکتا تھا۔سامان جنگ بنانے والوں کو الزام دیا جا سکتا تھا ، یا کارل مارکس کو ، یا تقدیر کی چال کو ، یا پھر اوما ہا (Omaha) کے اس بوڑھے انسان کو جو ووٹ دینا بھول گیا تھا۔
میدان میں اگرچہ کہ فوری طور پر ساری وجوہات موجود تھیں۔ایک لمحہ کی لاپرواہی یا غلط فیصلہ یا سادہ سی بیوقوفی جنھوں نے ایسے حالات پیدا کردیے تھے جو ہمیشہ کے لیے یادگار بن کر رہ گیے۔
کافی دیر تک جمی کراس بہتا رہا۔مشرق میں بادلوں کے اندر ہیلی کاپٹر کی آواز آنے لگی تھی ، لیکن اس نے دھیان نہیں دیا۔آنکھیں بند کیے ، میدان میں اِدھر اُدھر لڑھکتے ہوے پھسلتا چلا گیا۔
وہ واپس اپنے گھر نیو جرسی ( New Jersey) چلا گیا۔ایک سنہری دوپہر ، گولف کے میدان میں وہ گیند کو پہلے سوراخ پر رکھنے پر دھیان دے رہا تھا۔یہ دنیا غیر ذمہ داریوں کی جگہ تھی۔جب جنگ ختم ہو گئی ، تب اس نے سوچا کہ شائد کیووا کے والد کو خط لکھ ہی دے۔یا شائد نہ لکھے۔یا اس نے سوچا ،شائد ایک دو بار گولف اسٹک کو گھما کر گیند کو ضرب لگا کر بیچ کے سوراخ میں ڈال دوں ، اور اپنی لکڑیوں کو اٹھاے اس دوپہر میں یہاں سے چلا جاؤں۔
Original Title: In the Field
Written by:
**William Timothy O’Brien **(born October 1, 1946) is an American novelist. He is best known for his book The Things They Carried (1990), a collection of linked semi-autobiographical stories inspired by O’Brien’s experiences in the Vietnam War. In 2010, The New York Times described O’Brien’s book as a Vietnam classic. In addition, he is known for his war novel, Going After Cacciato (1978), also about wartime Vietnam, and later novels about postwar lives of veterans. (Wikipedia)
****
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
**افسانہ نمبر 374 : رزم گاہ **
تحریر : ٹِم اوبرین (امریکا)
ترجمہ : صہبا جمال شاذلی ( نیوزی لینڈ)
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...