پھوٹری اپنی سہیلیوں کے ساتھ باہر نیم کے پیڑ کی چھاؤں میں گٹّے کھیل رہی تھی ۔
. ۔”پھوٹری اٹھینے آ ،،
بھنوری نے بیٹی کو آواز دی۔ ماں کی آواز دینے پر بڑی مشکل سے آئی
” ۔کائیں ہو گیو ماں ”
“۔دیکھ مہاری پتر تھانے سورت جانو پڑیگو مجوری کے لئے “۔ بھنوری نے بیٹی کو پاس بٹھا کر پیار سے کہا۔
” تو بھی چالے گی مہارے ساتھ تو جرور چلوں گی “پھوٹری خوشی سے بولی۔
“نہ چھوری نہ تھارا باپو روگی تھارا بھائ روگی ۔دو روگی منکھ کو اٹھینے چھوڑ کر کی کر جا سکوں ”
۔ماں کی بات سن کر پھوٹری روہانسی ہو گئ ۔ماں کے گلے میں بازو حمائل کرتے ہوئے بولی
“تھانے چھوڑ کر نہ جا سکوں”
“دیکھ مہاری لاڈو اب تیری مجوری سے ہی گھر چالے گا” بھوٹری کی آنکھوں کے آبگینے تر ہو گئے۔ ماں بھی آبدیدہ ہو گئی۔ غریب کیا کرے شکم کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لئے کلیجہ پر پتھر رکھنا پڑتا ہے۔ ابھی پھوٹر15 سال کی تو تھی کمسن نو خیز کلی ۔پچھلی آکھا تیج پر تو اسکا بیاہ ہوا تھا۔پاس کے گاؤں کے رمیشیا کے ساتھ۔ ایک سال بعد گونا ہونا تھا۔ اسکے لئے بھی پیسے چاہیئے تھے۔ مجبور و بے بسی ماں کو یہ قدم بہت مجبوری میں اٹھانا پڑ رہا تھا۔ ”
پھوٹری اور اسکے والدین جودھپور کے پاس اوسیان گاؤں میں سکوں گی زندگی گزار رہے تھے۔ وہاں ریت کے سنہری ٹیلے سیّآ حوں کے لئے کشش کا موجب تھے۔ جب پھوٹری کا باپ اپنے سجے سنورے اونٹ پر بٹھا کر ریت کے ٹیلوں پر سیر کراتا تو سیاحوں کو اس کیمل سفاری پر بہت لطف آتا۔ اور پھوٹری کا بھائی اودے اپنی تیز رفتار جیپ میں سیّآ حوں کو بٹھا کر سرعت سے ٹیلوں پر چڑھتا تو سیاح رومانچ سے چیخیں مارتے خوش ہوتے۔، اور دونوں باپ بیٹوں کی اچھی کمائی ہو جاتی۔ دال روٹی سکون سے میسر تھی۔
،لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پھوٹری کا باپ اتنی شراب پی گیا کہ شراب اسکو پی گئ اور وہ بستر پر پڑ گیا۔ بھائی جو چھوٹی سی عمر سے ہی جیپ چلانے میں بہت مہارت رکھتا تھا لیکن ایک دن اونچے ٹیلے پر چڑھتے ہوئے گاڑی کے بریک فیل ہو گئے اور گاڑی ۳۰ فٹ سے نیچے آکر گری، کئی سیاح زخمی ہو گئے اور اودے کے پیر میں فریکچر ہو گیا ۔اب وہ اس قابل نہیں تھا کہ گاڑی کے اسٹنٹ دکھا سکے۔ کبھی کبھی “نریگا ” میں مزدوروی مل جاتی تو گھر میں چولہا جلتا ۔آب فقط پھوٹری کی ذات تھی جو اس گھر کے چولہے کو روشن کر سکے۔ پھوٹری اکلوتی بیٹی تھی ماں نے اسکی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اسکا نام پھوٹری رکھا تھا ۔یعنی “خوبصورت “ماں کا دل بڑا ہی بیقرار تھا لیکن مجبورو بے بسی تھی ۔گاؤں کے کئی لوگ سورت کی کپڑا ملوں میں مزدوروی کرنے جاتے تھے ۔بھنوری کے بھائی بھاوج بھی جا رہے تھے ۔اسلئے بھنوری بیٹی کو بھیجنے پر راضی ہو گئ
۔بھنوری کا چھوٹا بیٹا جھنور جو ۵ سال کا تھا باہر سے آکر پھوٹری سے لپٹ گیا، بہن کے جانے کی خبر سن کر وہ بھی رونے لگا ۔ماں نے دونوں کو بڑی مشکل سے سمجھا یا ۔دوسرے دن ہی پھوٹری کا ٹین کا صندوق تیار ہو گیا ۔سب نے ٹوٹے دل سے وداع کیا ۔پھوٹری تو بہت دیر تک روتی رہی ۔ پھوٹری پہلی مرتبہ گاؤں سے باہر نکلی تھی، کتنا ارمان تھا اسے گھومنے کا لیکن غریب کی خواہش کب پوری ہوتی ہے ،آور پوری بھی ہوئی تو اس طرح ۔سروہی کے خوبصورت نظاروں نے ذرا دل بحال کیا، اسکے آنسو خشک ہونے لگے ۔سروہی کے بس اسٹینڈ پر ان لوگوں نے باجرے کی روٹی اور چھاچھ سے شکم کی آگ ٹھنڈی کی ۔اور آگے منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ پھوٹری سورت کی ملوں کی بڑی بڑی مشینوں کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی ۔پہلے تو بہت خوف آیا لیکن آہستہ آہستہ چاروں ناچار اس ماحول سے مانوس ہوتی گئی۔ لیکن جب رات کو تھک کر بستر پر لیٹتی تو اسے اپنے والدین عزیز رشتہ دار، گاؤں، سب یاد آتے۔ رمیشیا کی یاد آتے ہی اسکے عارض سرخ ہو جاتے۔ گھر والوں سے موبائیل پر بات ہوتی تو وہ بات کم کرتی روتی زیادہ۔ ادھر ماں کا بھی یہی حال ہوتا۔ دونوں مجبور و بے بس ۔زندگی کے شب و روز یوں ہی گزرتے رہے ۔مہینے کے آخر میں جب پہلی تنخواہ ہاتھ میں آئ تو کلفتیں کچھ کم ہوئیں ۔ماما نے ۱۰۰ روپیہ اسکو ہاتھ خرچ کے دیکر بہن بھنوری کو ساری رقم بھیج دی
۔پھوٹری شہر کی عورتوں کو رنگ برنگے ملبوسات وزیورات میں دیکھتی تو اسکا دل مچل مچل اٹھتا ۔جب دوسری تنخواہ آئی تو اس نے ماں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن وہی محرومیاں مجبوریاں سامنے آگئیں۔ وہ دل مسوس کر رہ گئی۔ ابھی وہ کمسن کلی تھی، قوس و قزح کے رنگ اسکی آنکھوں میں رقص کرتے، تتلی کی طرح أڑنے کا دل کرتا۔ تین مہینے میں اس نے ماما کے دئے ہوئے ۳۰۰ روپیہ جمع کر لئے ۔کھانے پینے کا خرچ ماما آٹھائے ۔اس نے مامی سے ضد کر کے سرخ رنگ کا بڑے بڑے ستاروں والا گھاگھرا اوڑھنی بڑے ہی ارمانوں سے لیا کہ وہ اپنے گونے پر پہنے گی، زیورات کی چمک بھی آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہی تھیں لیکن،”بقول غالب “ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے” روز رات کو تھک کر بستر پر لیٹتی تو حسین خوابوں کی وادیوں میں سیر کرتی۔ جب وہ یہ گھاگھرا اوڑھنی پہن کر کانوں میں جھمکے، ماتھے پر بورلا، ناک میں نتھنی، بازوؤں میں بازو بند، ہاتھوں میں کڑے اور کمر میں کنکتی، پاؤں میں پازیب پہن کر چھم چھم کرتی اٹھلاتی بل کھاتی اپنے بیند رمیشیا کے سامنے جاۓگی تو رمیشیا کتنا خوش ہوگا۔ اس نے رمیشیا کو پہلی مرتبہ پھیروں پر دیکھا تھا،دو دن برات رکی تھی۔ رمیشیا نے پھوٹری کو آم کے پیڑ سے ڈھیر ساری کھٹی میٹھی کیریاں توڑ کر دی تھیں۔ ۔اور اس نے جن شوخ نظروں سے دیکھا تھا وہ نظریں پھوٹری کے دل ودماغ کو روشن کر گئ تھیں۔ یہ میٹھی یادیں اس کے دل پر ٹھنڈی پھوار بن کر گرتیں ۔امنگیں جوان ہو جاتیں، گالوں کے گلاب کھل جاتے اور وہ خیالوں میں ہی شرما جاتی ۔ پھوٹری دل جمعی سے کام کرتی باقاعدگی سے پیسے گھر بھجواتی ۱۰۰ روپیہ کی بچت کرتی، گھر کے حالات سدھرنے لگے ۔باپو کا علاج ہونے لگا۔ اودے کا علاج بھی شروع ہوا۔ ڈاکٹر نے”جیپور فٹ لگانے “کا مشورہ دیا۔ لیکن اتنے پیسے نہیں تھے۔
پھوٹری حالات کو سمجھتی تھی، لیکن کم عمر تھی چیزوں کو دیکھکر للچا جاتی ۔ ہر مہینے جو 100 روپے ہاتھ خرچ کے ملتے اس میں سے ایک پیسہ بھی خرج نہیں کرتی۔
اس رقم سے اس نے اپنی حسرت پوری کی اور سارے زیور خرید لئے۔
اچانک قدرت نے قہر برسایا۔؟ خواب ریزہ ریزہ ہو گئے۔ ہر نفوس حیرت وخوف کی زد میں آگیا۔ پوری دنیا میں ہا ہا کار مچ گیا۔ ہر جگہ تالا منہ چڑھانے لگا ۔روزی روزگار ختم ہو گئے ۔ اوپر والے نے اپنے گھر کے دروازے بند کردیئے انسان کو اسکی اوقات بتا دی ،کتنی بھی آسمان پر کمند ڈال دے لیکن ہیے تو وہی لاچاروبے بس بندہ ۔ لاک ڈاؤن کا اعلان انسان قید اور چرند پرند،حیوان آزاد ۔ غریب مزدور جائیں تو جائیں کہاں؟ مجبور ہو کر اپنے آشیانوں کی طرف پیدل ہی روانہ ہو گئے ۔سامان اور بچوں کو دوش پر آٹھائے کوس در کوس منزل در منزل ، ۔چلنا چلنا مدام چلنا ۔بھوکے پیاسے، پیروں میں آبلے ہونٹوں پر خشکی، آنکھوں کے گرد حلقہ۔کئی۔ بھوک کی تاب نہ لاکر اس بے رحم دنیا سے کوچ کر گئے۔
۔پھوٹری کا حسن کمھلا گیا اسکے چہرے کی سرخی میں زردی گھل گئ ۔اپنے وجود کو لیکر چلنا ہی دشوار تھا لیکن پھوٹری اس ٹین کے صندوق کو کاندھوں پر آٹھائے چلی جا رہی تھی، اس صندوق میں اسکے ارمان تھے آرزوئیں تھیں ۔انھیں کے سہارے تو وہ یہ پر خار راستہ طے کر رہی تھی ۔کئ دلخراش منظر درپیش آئے ہمت جواب دے گئی لیکن اپنے گھر کی ٹھنڈی چھاؤں کی آس وامید نے آگے بڑھنے پر مجبور کر دیا ۔ایک دن اللہ کے کچھ بندوں کو رحم آگیا انھوں نے کھانے ۔پانی کے پیکٹ تقسیم کئے، یہ منظر خواب سے کم نہیں تھا، بھوکے پیاسے لوگ ایسے ٹوٹ پڑے ک سنبھالنا مشکل ہو گیا ۔کسی کسی نے اتنا کھا لیا کہ ہاضمہ خراب ہو گیا پہلے بھوک سے مر رہیے تھے اب کھانے سے مر گئے ۔
پھوٹری کی چپل بھی کب تک ساتھ دیتی اس نے بھی دم توڑ دیا ۔کئ لوگ پھوٹری کی طرح ننگے پیر راستہ عبور کر رہے تھے ۔ پتھریلی کولتار کی سڑک پر پیروں میں چھالے ۔آنکھوں میں جلن، سر پر دھوپ کی تمازت لئے چلے جا رہے تھے ۔ابھی آزمائشیں ختم کہاں ہوئ تھیں، صوبے کی سرحد پر روک دیا گیا منزل کے قریب پہنچ کر بھی منزل سے دور تھے ۔پھوٹری اپنی جان سے زیادہ پیارے صندوق پر چڑھکر بیٹھ گئ ۔راستے بھر اس نے اس صندوق کی حفاظت کی تھی ۔کچھ لوگ آکر پریشان حال لوگوں کے لئے کھانا چپلیں بانٹ رہے تھے لیکن اب پیر اتنے زخمی ہو چکے تھے کہ چپل پہننا دشوار تھا ۔۵ دن بعد ان بدنصیب پریشان حال لوگوں کو صوبہ سرحد میں گھسنے کی اجازت ملی ۔کارواں پھر رواں دواں ہوا۔ راستے میں ایک عورت کو زچگی ہوئ بچہ کا نام لاکڈاون رکھا گیا ۔مرجھائے ہوئے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔
آخر کار پھوٹری کا قافلہ بھی اپنے گاؤں کی سرحد پر پہنچا لیکن ابھی بھی امتحان باقی تھے یہاں سر پنچ نے حد بندی کر رکھی تھی یہاں پہلے سب کا کورونا ٹیسٹ ہوا اس کے بعد گاؤں میں داخلہ ہوا ۔آخر کار اس لٹے پٹے قافلے نے اپنے گھرکی دہلیز کو چوم کر اندر قدم رکھا، اپنا گھر اپنا سائبان کتنا سکون تھا ۔پھوٹری کے باپ بھائی نے اس گرم جوشی سے خیر مقدم نہیں کیا جس طرح ماں نے کیا ۔ پھوٹری نے سب کو خوشی خوشی اپنے کپڑے زیورات دکھائے ماں تو خوش ہو گئی کہ گونے میں کام آجائیں گے ۔ لیکن باپو اور بھائ خوش نہیں ہوئے ۔اپنی سہیلیوں کو بھی اسی نے شوق سے سارا سامان دکھایا انکی آنکھوں میں بھی ایسی اشیاء کی خواہش انگڑائیاں لینے لگیں۔۔ پھوٹری کو رمیشیا بہت یاد آتا لیکن مجبوری۔ ۔پھوٹری خیالوں میں ہی اپنی پسندیدہ پوشاک و زیورات پہن کر اس سے روز ملتی ۔روز وہ آپنے صندوق کو کھول کر دیکھتی اور حسین خوابوں کی وادیوں میں سیر کرتی۔ پھوٹری نیم کے نیچے بیٹھی اپنی سہیلیوں کو شہر کی باتیں سنا رہی تھی کہ اس نے دیکھا ماں آنچل میں کچھ چھپائے سرپنچ کے گھر کی طرف جا رہی ہے ۔شام کو دو دن بعد چولھا جلا، روٹی کی سوندھی مہک سے سب کے چہرے کھل گئے سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ رات کو جب پھوٹری نے اپنا صندوق کھولا تو اسکا قیمتی اساسہ غائب تھا۔ پھوٹری سارا ماجرا سمجھ گئ ۔اس کے رونے کی آواز سن کر ماں دوڑی آئی اس نے بیٹی کو گلے لگایا اور دونوں ماں بیٹی زاروقطار رونے لگیں۔ پھوٹری کے خواب، حسرتیں، آرزوئیں، تمنائیں ان آنسوؤں میں بہہ گئیں۔
****
افسانہ نگار .فرخندہ ضمیر(اجمیر،انڈیا)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...