"مثنوی مولانا روم”، مولانا جلال الدین رومی (1207-1273) کی تصنیف، اسلامی صوفی ادب کا ایک شاہکار ہے۔ یہ فارسی زبان میں لکھی گئی اور اپنی روحانی گہرائی، حکمت، اور درس و نصیحت کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔
—
تصنیف کا تعارف
1. مصنف:
مولانا رومی، صوفی بزرگ، فلسفی، اور شاعر، اسلامی تاریخ کی اہم ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی فکر کا مرکز و محور عشقِ حقیقی اور عرفانِ الٰہی ہے۔
2. تاریخ تصنیف:
مثنوی کی تصنیف کا آغاز 1262 عیسوی کے بعد ہوا اور اسے مولانا رومی کے ایک شاگرد اور دوست حسام الدین چلبی کی درخواست پر لکھا گیا۔
3. ساخت:
مثنوی چھ جلدوں پر مشتمل ہے، جن میں تقریباً 25,000 اشعار شامل ہیں۔
ہر جلد میں مختلف موضوعات، کہانیاں، اور تمثیلات کے ذریعے انسانی روحانی مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔
—
موضوعات
1. عشقِ حقیقی:
خدا کی محبت اور اس کی قربت حاصل کرنے کی جدوجہد۔
2. انسان کی حقیقت:
انسان کی اصل روحانی شناخت اور اس کا خدا سے تعلق۔
3. اخلاقیات:
انسان کے اخلاقی رویے اور ان کے نتائج۔
4. تمثیلات اور کہانیاں:
مثنوی میں سینکڑوں کہانیاں اور تمثیلات ہیں، جو عملی زندگی کے مسائل کو روحانی معنوں میں پیش کرتی ہیں، جیسے مشہور قصہ "چمڑے کا ہاتھی”۔
—
اہم خصوصیات
1. روحانی گہرائی:
مثنوی کو "قرآنِ فارسی” کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کی وضاحت ایک منفرد صوفیانہ انداز میں کرتی ہے۔
2. شاعرانہ جمالیات:
اشعار میں موسیقیت، روانی، اور خوبصورت تشبیہات کی کثرت۔
3. تعلیم و حکمت:
مثنوی ایک رہنما کی طرح انسان کو اپنے باطن کی معرفت اور خدا کی تلاش میں مدد فراہم کرتی ہے۔
—
مثنوی کا اثر
1. تصوف پر اثر:
مثنوی نے اسلامی تصوف کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا اور صوفیانہ ادب کا ایک سنگِ میل بنی۔
2. ادب پر اثر:
فارسی، اردو، اور دیگر زبانوں کے شعرا نے مثنوی سے بے پناہ اثر لیا۔
—
نتیجہ
"مثنوی مولانا روم” ایک بے مثال تصنیف ہے جو صرف شاعری نہیں بلکہ انسان کے روحانی سفر کا ایک عملی رہنما بھی ہے۔ یہ آج بھی قارئین کو معرفت اور عشقِ حقیقی کے اسرار سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کا مطالعہ ہر دور کے انسان کو خود شناسی اور خدا شناسی کے قریب لے جاتا ہے۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری
ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں "میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے کہنے لگے یہ طرزِ...