اصنافِ ادب میں ناول کوایک ایسی صنف کہاجاتا ہے جس میں حقیقی زندگی اوراس سے منسلک مسائل وپریشانیوں کو ضبطِ تحریرمیں لایاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ناول نگار پریہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ حقائق سے نظریں چرانے کے بجائے انھیں بیان کرنے کی جرات رکھے اور معاشرے میں بسنے والے مکروہ لوگوں کے اصل چہرے دنیا کے سامنے لائے۔ پاکستان بننے کے بعدلاتعداد معاشرتی مسائل کے ہمراہ جاگیردارانہ نظام بھی ایک ایسامسئلہ ہے جس نے بہت سے منفی رویوں کوجنم دیا۔ یہ نظام آج بھی ہمارے ملک کے بیشترعلاقوں میں قائم ودائم ہے اور غریبوں کااستحصال کرتانظر آتا ہے۔ اس موضوع پر پاکستان میں بے شمارناول لکھے گئے۔ عزیزاحمدکاناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘بھی اس حوالے سے بڑا اہم ہے۔
آج اردو ادب میں عزیزاحمد ایک ناول نویس ،افسانہ نگار اورمحقق کے طور پر مشہور ہیں۔ تنقیدی کتب میں ان کی کتاب ترقی پسند ادب کو بڑی شہرت حاصل ہوئی کیوں کہ یہ اس موضوع پر پہلی کتاب تھی۔ اسی طرح ارسطو کی تصنیف بوطیقا کا ترجمہ بعنوان فن شاعری کیا اسے بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔تحقیقات اقبال کےضمن میں عزیز احمد کو اولین اقبال شناسوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتاب اقبال نئی تشکیل اقبالیات میں کلاسک کا درجہ، رکھتی ہے ۔ گو کہ شاعری میں عزیزاحمد بہت مقبول نہ ہو سکے لیکن اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں اپنے دوستوں کے کہنے پر دوبارہ سے شاعری شروع کی اس دور کی غزلیں بہت زیادہ پر تاثیر تھیں۔
عزیزاحمد نے جو ناول تحریر کیے ان کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے ،ناول “ہوس 1932ء”، ناول”مرمر اورخون1944ء”، ناول “گریز1942ء”،ناول “آگ 1945ء”، ناول”ایسی بلندی ایسی پستی 1947ء “اورناول” شبنم 1950ء “۔عزیز احمد وہ پہلے پاکستانی ہیں جن کو لندن یونی ورسٹی نے 1972ء میں D.LIT کی اعزازی ڈگری سے نوازا اوریہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ میں عزیزاحمد کو پاکستان کا سب سے بڑا سکالر تسلیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ عزیز احمد کو اٹلی کی شہریت ،ایوارڈ اورگولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا ۔ ایک تخلیق کا ر کی حیثیت سے ان کا اثاثہ چھ ناولوں دو افسانوی مجموعوں، شاعری کی ایک کتاب ،بطور محقق سات تحقیقی کتابوں پر مشتمل ہے ۔
عزیز احمد کے زیرتحقیق ناول ایسی بلندی ایسی پستی کو ان کے دیگر ناولوں میں سے ایک انمول ناول کہا جاسکتا ہے کیوں کہ اس ناول کو پڑھنے کے بعد یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اپنی اس تخلیق میں عزیز احمد نے فرد کے مطالعے سے آگے بڑھتے ہوئے معاشرے کی ہیت اجتماعی پر توجہ مبذول کی ہے۔ گو کہ اس ناول میں بھی ان کی توجہ کا مرکز افراد ہی ہیں لیکن افراد کے پس پردہ ایک پورے طبقے کی کہانی کو بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
اس ناول کو اردو ادب میں پہلا اجتماعی ناول اورایک نیا تجربہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ناول ایسی بلندی ایسی پستی کردار ی ناول نہیں بلکہ اس میں عزیز احمد نے ایک معاشرے کو پیش کرتے ہوئے مجموعی طور پر حیدر آباد کے امیر مگر زوال پذیر اونچے طبقے کی زندگی کو پیش کیا ہے اورساتھ ہی ساتھ اس اعلیٰ سوسائٹی کی عیش پر ستی، آپس کی ریشہ دانیوں اورتہذیبی و معاشرتی روایات کو اجاگر کیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حیدر آباد دکن کے امیر طبقے اوراس کے مشاغل کی جو تصویر اس ناول کے ذریعے بیان کی گئی وہ اس سے پہلے کسی بھی ناول میں اتنی خوبصورتی اورکامیابی سے پیش نہیں کی گئی ہے۔
عزیزاحمد نے حیدر آباد دکن کے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ بنیادی طور پر ایک جاگیردارانہ ماحول تھا لیکن اب اس کی جڑیں کھوکھلی ہورہی تھیں۔ کالج کے نظام اوربعد ازاں جامعہ عثمانیہ کے قیام اورپھر مغربی تعلیم کے توسط سے جہاں جمہوری خیالات کو فروغ حاصل ہوا وہیں جاگیرداروں کے مقابلے میں ایک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ وجود میں آیا جو آہستہ آہستہ انتظامی امور کے عہدوں پر قبضہ کرکے اپنے وجود کو معاشرتی عمل میں کارآمد ثابت کرنے لگا۔ مغربی تعلیم کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کی یورش نے بھی اپنا اثر ایک سطحی نقالی کی شکل میں دکھانا شروع کردیا تھا۔ متمول طبقے کی اخلاقی گراوٹ، سازشیں اورتعیش پسندی عام تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ناول ایسی بلندی ایسی پستی کی تخلیق کے فنی پس منظر میں عزیز احمد نے حیدر آباد کے اسی دور کا متمول طبقہ، اس کے جرمن سٹائل کے مکانات ،گھر کی خادماؤں کے ساتھ چلنے والے معاشقے ، حیدر آبادی نوجوان نسل کا یورپ جا کر تعلیم حاصل کرنا ، وہاں کی عورتوں سے فلرٹ کرنا اورہندوستانی رجواڑوں کی عیاشیاں وغیرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘کا آغاز کرتے ہوئے عزیز احمد نے کشن پلی کی پہاڑیوں کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا کہ:
” نہ فراق کے بغیر عشق کی تکمیل ہوسکتی ہے اورنہ پستی اوربلندی کے بغیر منظر کی ۔ اسی لیے ہربڑے شہر کے قریب ایک پہاڑی ہوتی ہے ۔ اگر شہروالے خداداد ذوق رکھتے ہیں تو پہاڑی پر بھی آباد ہوجاتے ہیں۔ اگربدذوق ہوتے ہیں تو پہاڑی پر ایک آدھ مندر بنا لیتے ہیں یا پہاڑی پر کسی کی قبر دریافت کرلیتے ہیں اورپہاڑی کی زیارت کو جایا کرتے ہیں۔۔۔ اگر کبھی ہوائی جہاز اڑا کر دیکھئے توکشن پلی کی پہاڑیاں ایک بہت بڑی مکڑی معلوم ہوں گی۔ ایسی مکڑی جس کے تین دھڑہیں۔۔۔ پہلے کشن پلی کی ان پہاڑیوں میں محض پگڈنڈیاں تھیں جو ہزاروں قسم کے پتھروں اورچٹانوں اورببول کے اورنیم کے درختوں کے درمیان سے گزرتی تھیں۔” ۱؎
عزیز احمد نے جس دور میں لکھنا شروع کیا وہ مذہبی ،اخلاقی اورمعاشرتی قدروں کے تنزل کا دور تھا۔ انسانی دماغ نئے نئے رجحانات ،تبدیلوں اورعلوم وفنون کی وجہ سے حقیقت پسندی کی طرف متوجہ ہورہا تھا۔ علم سائنس ونفسیات نے جنسی مسائل کی وضاحت کے ساتھ ساتھ جنس کی مختلف حیثیتوں پر تحقیقات کی ابتدا بھی کردی تھی۔ اس عہد میں حقیقت نگاری ناول نگاروں کی نمایاں خصوصیت کےطور پر سامنے آئی یہی وجہ ہے کہ عزیز احمد نے بھی اپنے عہد اور معاشرے کی بھر پور انداز میں عکاسی کی۔عہد جدید میں سائنسی ایجادات کے فوائد کے ساتھ ساتھ ان کے منفی اثرات نے ہماری معاشیات ہی کو نہیں بلکہ ہماری معاشرت کو بھی متاثر کیا جس کی زد میں ہمارے رشتے ناطے ، جذبا ت اور احساسات بھی آئے جن کی عکاسی ناول کے ہیرو سلطان حسین کے ذریعے برملاہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
عزیز احمد معاشرے کے جنسی مسائل کو مجرد انداز میں پیش نہیں کرتے بلکہ اس میں محبت کا جذبہ بھی شامل کر دیتے ہیں البتہ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاں جو تصور محبت میں پایا جاتا ہے وہ قطعی طور پر مشرقی اورروایتی نہیں ہے۔سلطان حسین شراب وشباب کا شوقین ایک آزاد خیال مرد ہے جس کا محبوب مشغلہ لڑکیوں سے جلوت وخلوت میں ملنا ہے۔ اس ناول میں جابجا اسے لڑکیوں کے پیچھے بھاگتا دکھایا گیا ہے۔ اس کی زندگی کی نمایاں خصوصیت ہی اس کا جذبہ جنسی ہے۔ اس ناول میں فحاشی وعریانی اپنی جگہ لیکن عزیز احمد نے اس کے ساتھ ساتھ حیدر آباد کے معاشرے کی سچی عکاسی، مضبوط کرداروں اورماجرے کے ذریعے کی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ناول نگار نے حیدرآباد کے مخصوص طبقے کو اپنی مکمل معاشرتی قدروں کے ساتھ حیات جاوید بخش دی۔اس ناول کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں وہی فن کاری پائی جاتی ہے جو لکھنوی معاشرت کے سلسلہ میں ناول “امراؤجان ادا” میں ملتی ہے ۔ اس ناول میں زندگی اورکردار آپس میں ہم آہنگ ہوگئے ہیں بلکہ کردار زندگی سے ابھرے ہوئے نظرآتے ہیں۔
اس ناول میں اصل کہانی کی شروعات ناول کی ہیروئن نور جہاں کے نانا “قابل جنگ” کے حالات زندگی سے ہوتی ہے ۔ناول میں ان کو اس زمانے کا آدمی بتایا گیا ہے جب سرسید اپنےدور عروج پر تھے اورحالی اپنی تخلیقات میں برملا انگریزی الفاظ کا استعمال کرتے تھے ۔اس کے علاوہ نذیر احمد کے ناولوں کا بھی دور دورہ تھا۔ ناول میں انسانی ارتقا کے عمل کو معاشی،سماجی اورتہذیبی لحاظ سے مختلف حوالوں سے پیش کیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ انسانی ترقی کا سفر پتھر کے زمانے سے شروع ہوکر منزل بہ منزل آگے بڑھتا گیا۔ اس صورت حال کو پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قارئین مخصوص عہد میں رائج خیالات، رجحانات،عقائد،طرز زندگی اوررویوں کو اس مخصوص عہد کی ترقی اوررجحانات کی روشنی میں بہتر انداز میں جان سکیں۔
عزیز احمد نے اپنے اس فن پارے میں بڑی خوبصورتی سے انسانی ارتقا کی مختلف منازل کو بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ پتھر کے دور سے شروع ہونے والی انسانی زندگی کا اگلاپڑاؤ دریاؤں کے کناروں اورپہاڑوں کے درمیان بنی وادیوں میں تھا جہاں انسان نے پہلی مرتبہ کاشتکاری کی ابتدا کرتے ہوئے کاشتکار معاشرے کی بنیاد ڈالی اوریوں زمین کی ملکیت کا تصور وجود میں آیا اورہر قبیلہ ایک مخصوص قطہ اراضی کا مالک بنا پھر قبیلوں کی یہی ملکیت بعد میں قبیلہ وار جنگوں کی بنیاد بنی کیوں کہ ہر قبیلہ زیادہ سے زیادہ زرخیز زمین پر قابض ہونا چاہتا تھا اور پھر اس مسئلے کا حل سرداری نظام کے ذریعے نکالا گیا جو بعد میں جاگیر داری نظام میں ڈھل گیا۔ جاگیردارانہ نظام کا آغاز بادشاہ کے جانب سے مختلف افراد کو ریاست کے لیے ان کی خدمات کے صلے میں زمینوں کے وسیع رقبے میں جاگیر عطا کرنے سے ہواتھا۔ ناول نگار نے اس ناول کے ابتدائی ساٹھ صفحات میں بادشاہوں کی طرف سے کی گئی عنایات کی سچائی کو بیان کیا ہے کہ جس کے اثرات فرخندہ نگر کی بستی میں رہنے والی مختلف شخصیات میں بخوبی نظر آتے ہیں ۔اس قسم کے معاشرے کی عکاسی ناول میں چالاک جنگ سے شروع ہوتی ہوئی سلسلہ بہ سلسلہ عبدالکریم خان حسن کار جنگ ،عہدی حسن کار جنگ ،خاقان جنگ، ذیجاہ جنگ اورقابل جنگ تک نظرآتی ہے۔ اس حوالے کہ تحت ناول’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘سے لیا گیا یہ ٹکڑا پیش نظرہے:
“دوسرے دن نواب عہدی حسن کار جنگ دیوان اورنائب السلطنت راجہ،راجایاں راجہ شجاعت سنگ بہادر کے ملاحظے میں کاغذات پیش کررہے تھے اورراجہ راجایاں دستخط کرتے چلے جاتے تھے۔ جب نواب عہدی حسن کار جنگ کی تمام تجویزوں پردستخط فرما چکے جن میں سبھی طرح کی کاروائیاں تھیں۔ روزمرہ کے احکامات کی ترقی ،تنزل،تبادلے،اسکیمیں جو یار لوگوں نے محض اپنے عزیزوں اوردوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائی تھیں تو انہوں نے وہ فونٹیں پن جو صاحب عالیشان بہادر نے انہیں تحفتاً دیا تھا تپائی پر رکھ دیا۔” ۲؎
ناول “ایسی بلندی ایسی پستی” میں عزیز احمد نے قاری کو یہ بتانے کی کوشش بھی کی ہے کہ اصل میں جاگیرداری نظام مغربی یورپ کے سیاسی،معاشی اورمعاشرتی حالات کا پیدا کردہ ہے اورانہی حالات وواقعات اوراقدار وروایات نے اس نظام کو پھلنے پھولنے میں مدد دی ہے۔جیسے جیسےوقت گزرتا گیا جاگیرداری نے ایک معاشرتی ڈھانچے کا روپ اختیار کرلیا جس کے اپنے ہی اصول وضوابط تھے۔ جس کے تحت افراد کو کسی خطہ اراضی میں لا محدود اختیارات عطا کردیئے گئے ۔یہی وجہ ہے کہ جاگیروں کے مالکوں کے زیر اثر یا ماتحت کام کرنے والے لوگ ان کی ملکیت خیال کیے جاتے تھے اورجو خود کسی قسم کے کوئی حقوق نہیں رکھتے تھے ، ایسے افراد کو مزارعین کا نام دیا گیا جو جاگیرداروں کے لیے انتھک محنت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے معاشرتی واخلاقی مظالم بھی برداشت کرتے اور بدلے میں انھیں پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہ ہوتا تھا۔ اس ناول میں ناول نگار نے مغلیہ سلطنت ،اس کے جاہ وجلال اورپھر اس سلطنت کے زوال کو بھی بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔
712ء میں محمد بن قاسم کے ہندوستان کو فتح کرنے کے بعد سے اٹھارویں صدی تک برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت بہت مضبوط تھی۔شاہی نظام کی عمل داری میں اسلامی روایات،اقدار،اخلاقیات،فنون لطیفہ اورتہذیب تمدن نے خوب ترقی کی اورجیسا کہ پہلے بھی بتایا جاچکا ہے کہ اسی شاہی نظام کے دوران بادشاہوں کی جانب سےامرا و وزرا کو بطور انعام جاگیریں دینے کی روایت کا آغازہوا ۔مغلیہ سلطنت کے نظم ونسق کی بنیاد بڑی حد تک منصب داری نظام پر تھی اور یہ منصب دار وہ امرا ہوتے تھےجنھیں خاندانی مراتب اور اعلیٰ کار گزاریوں کے عوض صوبوں اورضلعوں کا نظام سونپا جاتا تھا۔
ناول میں مغلیہ حکومت کے زوال کو اکبر آلہ آبادی کے خوبصورت اشعارکے ذریعے دکھانے کی مصنف کی کوشش بہت اعلیٰ ہے۔ یعنی انھیں اپنے حالات بدلنے کی نصیحت کی گئی۔ احمد شاہ ابدالی کی فتح پانی پت،ڈوگروں کی فتح لداخ اوررنجیت سنگھ کی سکہ شاہی کے باوجود بھی بنجاروں کی تجارت کے انداز میں کو تبدیلی نہ آئی۔حالات بدلتے گئے لیکن ان کی کچی جھونپڑیوں سے چاول ،مٹر،گہوں اورآگ کا دھواں معمول کے مطابق اٹھتا رہالیکن جب اٹھارویں صدی میں ہندوستان اورانگلستان کے آپسی روابط اورتعلقات کا آغاز ہوا تو مغلیہ سلطنت کے نو آبادیاتی نظام نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردیں اوریوں سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی پوری جزئیات کے ساتھ متعارف کروایا جس نے نہ صرف ہندوستانی سیاست اورحکومت بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کے ساتھ اخلاقی اقدار کو بھی متاثر کیا اوریوں نظیر اکبر آبادی کی بنجاروں سے متعلق یہ پیشن گوئی پوری ہوئی جس میں انھوں نے بنجاروں کے عرش سے فرش پر آنے کی بات کی تھی۔
بنجاروں کے حرف غلط کی طرح مٹ جانے سے یوں لگتا تھا کہ جیسے کش پلی کی پہاڑیوں کی پگدنڈیاں خاموش سی ہوگئیں ہیں اوربنجارے ساری رونق اپنے ساتھ سمیٹ کرلے گئے ہوں جیسے کہ بنجارہ تو اپنی موت آپ ہی مرگیا ہو کیوں کہ اب بنجارنیں نوابوں اورراجاؤں کے محلوں کی خوامین بن گئیں اوران کے بچے اپنا آباد کاروبار چھوڑنے کے بعد انگریزوں کی دکانوں سے شیشے کا سامان خریدنے لگے۔ انگریز صرف معاشی انقلاب کا باعث ہی نہ بنے تھے بلکہ وہ ایک پورا معاشرتی ڈھانچہ اپنے ساتھ لائے تھے جس کے تحت معاشرتی، سیاسی،جمہوری اوراخلاقی اداروں کے قیام،ذرائع نقل وحمل کی ترقی، سڑکوں کی تعمیر، ڈاک وتار کے جدید نظام اورتعلیمی اداروں کے قیام کے باعث ہندوستا ن میں پرانی قدروں کو زوال آنے لگا اوراس کی جگہ نئے نظام نے لے لی جسے ناول’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے:
” عہدی حسن کا رجنگ نے آنکھیں بند کیں پھر کھولیں۔ آنکھیں بند کر کے وہ بمبئی پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے مالا باربل کو دیکھا تھا۔ وہ تارکول کی پھسلتی ہوئی سڑکیں اوران کے اطراف رجواڑوں کے محل بڑودہ پیلس نے پین ہاؤس،گرین ہاؤس، ماونٹ پلیزنٹ،روڈ بیکنک گارڈن، چوٹی کا منظر اور تین طرف حد نظرتک سمندر ہی سمندر ۔۔۔ اورمکان بن رہے ہیں ۔بیسیوں مکان، سینکڑوں مکان۔جرمن ڈئزائن کے مکعب نما مکان ،عرب محرابوں اورجالیوں کے مکان، جاپانی فینسی نمونوں کے مکانات اورمکانوں میں ہزارہا بوگین ویلیا کی بیلیں۔۔۔” ۳؎
کسی بھی معاشرے کا اہم ترین عنصر اس کی مذہبی اقدار، روایات اورعقائد ہوتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ یک رخی تہذیب نہیں رکھتا بلکہ مذہبی،اخلاقی،سیاسی،روایتی،معاشرتی اورجغرافیائی اقدار مل کر ایک تہذیبی تشخص کی تشکیل کرتی ہیں اوریوں رسوم ورواج،تصورات،دیو مالا،فنون لطیفہ،فلسفہ اورتہذیب معاشرے کے لیے اہم کردار کے حامل ہیں۔ چوں کہ اس ناول میں مصنف نے مغربی اورمشرقی معاشرہ،ان دونوں کی تہذیبوں اور معاشرتی مسائل کو روشناس کروایا ہے اسی لئے یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ان دونوں معاشروں اور تہذیبوں میں بنیادی فرق مذہب کے ساتھ ساتھ مادہ پرستی کا بھی ہے۔ جس طرح سرشار نے اپنے ناولوں میں لکھنوی تہذیب وثقافت اورمعاشرت کو پیش کیا ہے بالکل اسی طرح عزیز احمد نے اس ناول میں برصغیر کی ثقافت اورمعاشرت کی عکاسی کی ہے۔
عزیز احمد خارجی حقیقت نگاری سے کام لیتے ہوئے زندگی پرتنقید زندگی کی عکاسی کے ذریعے کرتے ہیں کیوں کہ وہ اصلی اورحقیقی کے درمیان فرق کو بیان کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ جب مغربیت نے ہندوستانی معاشرے میں اپنے پنجے گاڑھنے شروع کیے تو معاشرتی انقلاب کے ساتھ ساتھ آہستگی سے انگریزی زبان نے بھی اپنے کرشمے دکھانے شروع کیے جس کی وجہ سے ہندوستان کے معاشرتی خدوخال میں بڑی تیزی سے تبدیلی آنی شروع ہوگئی۔ زبان پرانگریزی کے اثرات کے ساتھ انگریزوں کےطور واطوار ،رہن سہن اوربودوباش کی اہمیت بھی بڑھ گئی اوریوں کچھ لوگوں نے شوقیہ،کچھ نے مغربیت سے متاثر ہوکر اورکچھ نے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے انہیں اپنایا۔ عزیز احمد نے اس ناول میں اس معاشرتی مسئلے کی نشاندہی کی ہے کہ اس وقت کے امیر گھرانوں پر مغربی تہذیب وتمدن کی یہ لہر تین مرتبہ اُمڈ کر آئی۔اس ضمن میں ناول’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘سے لیا گیا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
“پہلے توغدر کے بعد سرسید کے زمانے میں قابل جنگ اورمشہور الملک نے اسی زمانے میں اپنی معاشرت بدلی۔یہ اس قسم کی مغربیت تھی جیسے ترکی اورمصر کی مغربیت،آج یعنی انگریزی رہائش،انگریزی کپڑے،رائیڈنگ، لڑکیوں کے لئے فراکیں، گھر میں ایک ڈارلنگ، کتے،انگریزی کھانا، شراب، بٹلر، کرسچن آیائیں، غرض صاحب لوگ بننے کی تحریک، دوسری مرتبہ مغربیت کی جو یورش ہوئی اس نے اندر سے بدلنا چاہا، اس کے ساتھ قوم پرستی،خود داری،وقار اورمغرب کے ادب،علوم وفنون،اورسائنس وغیرہ کی رغبت۔۔۔” ۴؎
مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حیدر آباد دکن میں مغربیت کس طرح درجہ بدرجہ آئی ہے اورسلطان حسین اورنورجہاں جس طبقے سے تعلق رکھتے تھے وہ طبقہ بھی مغربیت اورمشرقیت کا عجیب وغریب امتزاج بن چکا تھا۔ اس کے علاوہ ناول نگار نے وزیراعظم کا قرب وتوجہ حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی ریشہ دوانیوں کا ذکر بھی بھر پور انداز میں کیا۔اس سلسلے میں پائے جانے والی آپس کی رقابتوں اوران کے خاندانوں پر پڑنے والے اثرات کو اعلیٰ کوثر نوازجنگ اورذی جاہ جنگ کی صورت میں بیان کیا گیا ہے ۔ذی جاہ جنگ کے پاس دہری جاگیریں تھیں جب کہ اعلیٰ کوثر نواز جنگ اپنی محنت سے آگے بڑھے تھے۔ حالانکہ ذی جاہ جنگ چھ فٹ کے لمبے ،چوڑے اوربارعب خاندانی جاگیردار تھے لیکن اعلیٰ کوثر سے رقابت کی آگ میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ اپنی اولاد کی تربیت تک پرتوجہ نہ دے سکے اوریوں ان کی بدنامی کا سب سے زیادہ سبب ان کی بیٹی سروری بنی جو نورجہاں کے بھائی خاقان سے بیاہی ہوئی تھی۔
سروری اپنے خاوند کے ہر دوست کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے مشہور تھی۔ چوں کہ ہمارے معاشرے میں عورت سے تعلقات رکھنا اورپھر ان کی کھلے عام نمائش کرنا مرد کی مردانگی سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ سروری اتنی بدنام ہوئی کہ لوگوں نے اس کے بارے میں یہاں تک مشہور کردیا کہ وہ آرڈرلیوں کے ساتھ بھی پھنسی ہوئی ہے اوریہی بات دونوں میاں،بیوی کے درمیان اختلافات اورمار پیٹ کا باعث بنی۔عزیز احمد نے اس ناول میں اپنے عہد کی معاشرت کی جیتی جاگتی تصویروں کو پیش کیا ہے۔ لوگوں کا رہن سہن ،لباس،رواجات،عقائد،شادی بیاہ اورعلمی وادبی محفلوں کی نشست وبرخاست الغرض کے ان سبھی باتوں کے اعلیٰ نمونے ناول “ایسی بلندی ایسی پستی” کے صفحات میں جابجا بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔اس ناول میں حیدر آبادی معاشرے کی تصویر کشی بڑے فنکارانہ انداز میں کی گئی ہے دراصل عزیز احمد جامعہ عثمانیہ میں زمانہ طالب علمی سے پروفیسر بننے تک ایک لمبا عرصہ حیدرآباد میں قیام پذیر رہے۔
اسی دوران کچھ عرصہ کے لیے وہ نواب حیدرآباد کی پوتی دُرشہوار کے سیکرٹری بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں حیدر آباد کے متوسط اوراعلیٰ دونوں ہی طبقوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا چنانچہ ان طبقوں کی معاشرتی تصاویر کو پیش کرنے میں انہوں نے کافی حد تک حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناول نگار نے محض ایک ناول نہیں لکھا بلکہ اس عہد کی معاشرت اورتہذیب دونوں ہی کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔ عزیزاحمد نے حیدر آباد کی طرزمعاشرت چاہے وہ شادی بیاہ کی تقاریب ہوں یا احباب کی عام محفلیں، جاگیردارانہ ماحول ہو یا متوسط طبقہ کے حالات زندگی، مزدوروں کی گزربسر ہو یا پھر امراکا غریبوں کے حقوق تلف کرنا الغرض یہ کہ ہر پہلو کو بڑی گہرائی اورتفصیل سے پیش کیا ہے۔معاشرتی انصاف کے حوالے سے اگر ہندوستانی معاشرے کاجائزہ لیا جائے تو یہ آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ زمانہ قدیم ہی سے ہندوستانی معاشرے میں اعلیٰ وادنیٰ ذات پات کی تقسیم موجود ہے۔
یہ تفریق معاشی حیثیت اورپیشہ کے حوالے سے کی جاتی تھی یعنی معاشرہ میں جو جیتا دولت مند ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ طاقت ور اورعزت والا اوراعلیٰ طبقے کافرد مانا جائے گا۔ جب کہ نچلے طبقے میں مزدور،کسان اورایسے لوگ شامل تھے جو محنت مزدوری کرکے بہ مشکل اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے تھے۔ ناول میں کم ذات اورمظلوم غریب عورتوں کی بےبسی کی داستان بھی رقم کی گئی ہے بالخصوص کھیتوں میں کام کرنے والی وہ عورتیں جو جاگیرداروں کی ملکیت تصور کی جاتی تھیں پھر وہ انھیں جب اورجیسے چاہیں استعمال کریں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نواب آرائش جنگ کو ابھی خطاب نہیں ملا تھا اورنہ ہی ابھی انہیں وہ اثر ورسوخ حاصل تھا جو اعلیٰ کوثر جنگ کے زمانے میں حاصل ہوا تھا کہ جب وہ ایک انجنیئر تھے اورافسران بالا سے ان کے تعلقات بہت اچھے ہونے کی وجہ سے انہیں دورکی بجائے قریبی علاقوں میں ہی فرائض کی انجام دہی کے لیے مامور کیا جاتا تھا۔ نواب آرائش جنگ کے بیٹے کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کوجب چاہے رستے میں سے اٹھا کر لے جاتے تھے اوربیچارے غریب لوگ ان کی شکایتی فریاد بھی کسی کےپاس نہ لے جاسکتے تھے کیوں کہ ان کا باپ اعلیٰ افسر تھا۔ چوں کہ نیاز اورشوکت کا باپ اس زمانے میں آبپاشی سے متعلقہ امور سرانجام دیتا تھا اسی وجہ سے ان دونوں کو انسپکٹر بس تھوڑی سی نصیحت کے بعد ان کی سعادت مندی کے مظاہرے پر چھوڑ دیتے لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آتے اس حوالے سے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘کایہ اقتباس پیش نظر ہے:
“نیازی اورمحمود شوکت بہت چھٹے ہوئے تھے اورخصوصاً نیازی کے نام سے تو سب واقف تھے۔ فرخندہ نگر کے باہر اپنے گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے یہ دونوں بھائی جوان وڈر اورکسان عورتوں کو اٹھا لے جاتے اوروڈر اورمزدور ان کے پیچھے دوڑتے، پتھر مارتے اورتھک ہار کر خاموش ہوجاتے۔یہاں تک کہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد وہی عورتیں روتی اوراپنے کپڑے ٹھیک کرتی ہوئیں اپنے شوہروں اوربھائیوں کے پاس واپس آجاتیں۔” ۵؎
عزیزاحمد کا زمانہ اردو ادب میں ماضی سے بغاوت کا ہے۔اس دور میں جدید ادب میں جنسی موضوعات نئی تبدیلیوں کا مظہر بن کرآرہے تھے۔ عزیز احمد کے ناولوں کا بنیادی خیال عورت اوراس کی جنسی کشش ہے اورجہاں یہ دو عناصر موجود ہوں گے لذت کا پہلو بھی یقیناً نمایا ں ہوگا۔ عورت اپنے مخصوص دائرے میں رہتے ہوئےمرد کے شباب کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔ مردعورت سے نہیں بلکہ اس کی جنسیت سے متاثر ہوتا ہے اوراپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد وہ واپس پلٹ کردیکھنا گوارہ نہیں کرتا بلکہ نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ عزیز احمد کے ہاں عورت مرد کے جذبات کے شعلے کو مشتعل کرنے کے کام آتی ہے ۔مرد کو صرف اپنی عیاشی کے لیے عورت کی ضرورت ہے اسے یہ فرق نہیں پڑتا کہ وہ عورت کو ن ہے، کس نسل سے تعلق رکھتی ہے، کالی ہے یا گوری ہے وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح کا ایک مرداس ناول میں سلطان حسین ہے جو دس سے بارہ سال امریکہ جیسے ملک میں گزار کر آیا ہے اورجہاں اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اس تمام عرصہ میں اسے سوائے مشینوں،تعمیر کے سامان اورجنس کے کسی اورچیز کا تجربہ حاصل نہ ہوا۔ امریکی معاشرے نے سلطان حسین کو فلرٹ کرنا خوب سکھایا ہے ۔وہ ہر سال چھٹی لے کر مسوری آتا ہے لیکن اس کا مسوری آنا سیروتفریح کے لیے نہیں بلکہ محض رنڈی بازی کے لیے ہے۔ سلطان حسین بہت عرصہ تک شادی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اورنہ ہی اسے اہم جانتا ہے لیکن عمر ڈھلنے پر جب نوجوان لڑکیاں اس کی جانب توجہ نہیں دیتیں تو وہ گھبرا جاتا ہے اس حوالے سےناول’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘کا یہ اقتباس دیکھیے:
“سلطان حسین پرانہ مسودین تھا اسے اس قدر عورتیں مل جاتی تھیں کہ وہ شادی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا تھا۔ مگر جب اس کی جوانی ڈھلنے لگی تو جوان لڑکیوں نے اس کی طرف ملتفت ہونا بند کردیا۔ مسوری میں صرف کملا پردیش برابر حق رفاقت اداکیےجارہی تھی۔ایک دن سلطان حسین بمبئی سے آئی ہوئی ایک پارس لڑکی کی طرف ملتفت ہوا۔ اس نے بڑے طنزیہ انداز میں اس کی باتوں کا جواب دیا۔ اس نے بتایا کہ یہ سب ڈبلیو۔ٹی ہے۔ سلطان حسین سمجھ جاتا ہے کہ اس کے معنی ویسٹ آف ٹائم ہے۔” ۶؎
پارسی لڑکی سے جواب ملنے کے بعد سلطان حسین کو احساس ہوجاتا ہے کہ اس کی عمر ڈھل رہی ہے اوراب اسے شادی کرکے اس کی آڑ میں ایسی رنگ رلیاں جاری رکھنی چاہیں تاکہ اس کی گرتی ساکھ کو سہارا مل جائے چنانچہ وہ ذی جاہ جنگ کی بیٹی نورجہاں جسے ہم اس ناول کی ہیروئن بھی کہہ سکتے ہیں سے شادی کرلیتا ہے۔ نورجہاں اورسلطان حسین کی کہانی حیدرآباد دکن کے اس طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو یہاں کے جاگیردارانہ روایت کا امین و وارث ہے۔ اس اعلیٰ طبقے کی بہت سی روایات نسل درنسل چلتی آرہی ہیں۔ عزیز احمد نے اس خاندان کی کہانی کو ادبی شاہکار بنا دیا ہے۔ یہ کہانی ایک بڑے اساسی دائرے سے شروع ہو کر غیر محسوس انداز میں سمٹتے سمٹتے دوافراد کی زندگیوں تک آجاتی ہے۔
چوں کہ ناول میں سلطان حسین کو جنسیت پرست دکھایا ہے یہی وجہ ہے کہ نورجہاں سے بھی اس کا تعلق بس اتنا ہی ہے کہ ضرورت پڑنے پر اس کے جسم سے لطف اندوز ہوسکے لیکن فطری طور پر وہ بھی ایک قدامت پسند مرد ہے جو اپنی بیوی کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح کا مالک بھی بننا چاہتا ہے۔وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی پر اس کا حق ملکیت مسلم ہے لیکن اس کے باوجود وہ یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ ازدواجی تعلق کے باوجود نورجہاں اس طرح اس کی ملکیت نہیں جیسے کہ اس کا مقام اوراس کی زمینیں وغیرہ ۔دراصل سلطان حسین کے روپ میں عزیز احمد نے ایسے تمام مردوں کی عکاسی کی ہےجن کی ایسی سوچ کو اخلاقی پستی کی انتہا ہی کہا جاسکتا ہے۔
ناول نگار نے گرتی ہوئی جنسیت کے پس پردہ ایسا معاشرہ دکھایا ہے جس نے منافقت کا لباس پہن رکھا ہے۔ ظاہری دنیا میں سبھی لوگ عزت دار ہیں اوربہ ظاہر مہذبانہ طور طریقے بھی اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن داخلی سطح پر یہ اپنے گندے جذبات کو گندے الفاظ کا سہارا دیتے ہوئے عیاں کرتے ہیں۔ کسی کی بہو،بیٹی کو تو آرام سے اپنی غلیظ نظروں اورہوس کا نشانہ بنالیتے ہیں مگر کوئی ان کی عورت کی طرف دیکھے یہ وہ قطعی طور پر برداشت نہیں کرتے بالکل ایسے ہی جیسے کہ سلطان حسین ظاہری طور پر بہت ماڈرن اوراعلیٰ سوسائٹی سے تعلق رکھتا اورانھیں پسند کرتا ہے لیکن اندر سے وہی عام گھٹیا ہندوستانی مرد ہے۔ اس ضمن میں ناول’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘سلطان حسین اورنورجہاں کے مابین ہونے والی بات چیت پیش نظر ہے:
“کس کو گھور رہی ہو؟”۔۔۔”کسی کونہیں”،نورجہاں نے غصے سےاس کی طرف دیکھ کر آہستہ سے کہا۔تم برابر گھور رہیں تھیں۔اس نے آہستہ سے کہا۔میری جان مت کھاؤ،نورجہاں نے آہستہ سے اسے غصے کے انداز میں کہا۔حرافہ،رنڈی،سلطان حسین نے بہت ہی آہستہ سے کہا۔” ۷؎
سلطان حسین بھی ایسے ہی مردوں کی ایک مثال تھا جو اپنی بیویوں سے جنسی آسودگی تو حاصل کرتے ہیں لیکن انھیں اپنی بیویوں کے جذبات واحساسات کی کوئی پروا نہیں ہوتی یہی وجہ نورجہاں اورسلطان کے آپس میں اختلافات کا باعث بنی۔ دنیا کے لیے تو ان کی جوڑی قابل رشک اورمحبت ووفا کا پیکر ہے لیکن پس پردہ ان کے تعلقات ایک دوسرے کے لیے ناقابل برداشت ہیں اوریہ دونوں لڑائی جھگڑا کرتے وقت جو زبان استعمال کرتے وہ انھیں ایلیٹ کلاس کافرد نہیں بلکہ اجڈ اورجاہل لوگوں سے بھی بدتر بناتی ہے حالانکہ نورجہاں ایسی طبیعت کی مالک نہیں ہوتی لیکن سلطان حسین کا ناروا سلوک اوررویہ اس کی شخصیت وزبان میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔
مصنف نے نورجہاں کے ذریعے یہ باور کروایا ہے کہ جب مغربی تہذیب ومعاشرت حیدر آباد دکن میں داخل ہوئی تودیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ عورت کے کردار کو بھی اس نے بہت متاثر کیا۔پہلے پہل حیدرآباد میں اس دور کے جاگیرداروں اوروڈیروں کے گھروں میں کئی لڑکیاں پائی جاتیں تھیں جو حرم کی بدلی ہوئی صورت تھیں۔ اب ہوتا یہ تھا کہ ان لڑکیوں میں سے جو امیرزادوں یا ان کے صاحبزادوں کو پسند آجاتیں وہ ان کی خوامین بن جاتیں اوران کے بستر گرم کرتے ہوئے ان کی خلوتوں کو رنگین بناتیں اورجب رئیس لوگوں کے دل بھر جاتے تو ان کی شادیاں گھر کے ہی کسی ملازم سے کرادی جاتی تھیں۔ مثلاً جیسا کہ اس ناول میں زمانی بیگم کو دکھایاگیا جو ہر معاملے میں جاگیر داروں کی نقل کرنا چاہتی تھی اس بنا پر وہ دولڑکیاں اپنے بیٹوں کے لیے لائی۔دراصل اس وقت کی معاشرت یا معاشرے میں ہر لحاظ سے مرد عورت سےبرتر تھا اوروہ چاہتا تھا کہ جب وہ گھر میں داخل ہوتو بیوی ہنس کر اس کا استقبال کرے۔
اس کے موڈ کے مطابق اس کی خدمت کرے اورہر لحاظ سے اس کا خیال رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت بہت کچھ چپ چاپ برداشت کرتی تھی۔ بے شک کہ میاں بیوی کا رشتہ ہونے کے باوجود اسے بہت سے معاملات میں شریک نہ کیا جاتا تھا اوربیشتر حقوق سے محروم رکھاجاتاتھا اور یوں مغربیت کے زیراثر ہندوستانی عورت کا بدلتا ہوا روپ مردوں کے لیے ایک آزمائش سے کم نہ تھا۔ قدیم معاشرہ پرانی روایات واقدار کے تحت ایک تغیر پذیر معاشرتی کردار اپنانے والی عورت کو صدیوں سے رائج پیمانوں سے ناپتا تھا لیکن اب ان شرائط پر پورا اترنا آسان نہ تھا۔ اس ناول میں نورجہاں بھی اپنی شادی کے شروع کے ایام میں ایک خالصتاً مشرقی بیوی کے روپ میں دکھائی دیتی ہے جو اپنے خاوند کی ہر بات پر لبیک کہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ حق ملکیت اوراپنی بہت سی خواہشات کو دباتے ہوئے نورجہاں بہت سعادت مندی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
دراصل سلطان حسین تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایک بد فطرت ،دقیانوسی اورشکی مرد ہےجو بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے۔پرائی عورتوں سے ملتے ہوئے جس کی زبان شہد اگلتی ہے لیکن اپنی بیوی کے لیے رنڈی،حرافہ اورحرام زادی جیسے الفاظ بہ کثرت استعمال کرتا ہے۔ وہ خود تو ایک آزاد زندگی گزارتا ہے لیکن بیوی کو کھڑکی کے پاس کھڑے ہونے کی بھی ممانعت ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ نورجہاں خادماؤں کی طرح ہر وقت بس اسی کی خدمت کرتی رہے اوراس کی مرضی کے بغیر گھر سے قدم بھی باہر نہ نکالے۔ایک دفعہ جب سلطان حسین کسی دورے پرملک سے باہر گیاہوتا ہے تو نورجہاں کی بہن اس کے اکیلے پن کا احساس کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ زبردستی کسی پارٹی میں لے جاتی ہے تاکہ نورجہاں کادل بہل جائے لیکن جب سلطان حسین کے واپس آنے پر نورجہاں اسے پارٹی میں جانے کے بارے میں بتاتی ہے تو اس حوالے سے سلطان حسین کے جذبات ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘کےاس منظر میں ملاحظہ کیجئے:
“تم بھی گئی تھیں” “کیوں نہیں جانا چاہیے تھا؟”نورجہاں نے اس کی طرف سرد نگاہوں سے دیکھ کر پوچھا۔ کیوں نہیں،ضرور جانا چاہیے تھا اورمیاں جب دورے پر گیا ہوا ہو تو اوربھی ضرورجانا چاہیے تھا۔ میں نے تو جانے سے انکار کردیا جاتا۔یہی کہا تھا کہ سلطان یہاں نہیں ہیں،میں نہیں آؤں گی مگر کلثوم نے کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑا، آکے مجھے خود ساتھ لے گئی۔ کتنی خوشی کی بات ہے میری بیوی سوسائٹی میں اتنی ہر دل عزیز ہوتی جارہی ہے۔میرے ہونے نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے؟۔” ۸؎
اس کے بعد دونوں میاں بیوی میں آئے دن لڑائیاں رہنے لگیں۔سلطان حسین کی گندی زبان اورماردھاڑ نے بالآخر نورجہاں کی فطرت کوبھی بدل دیا۔ مشرقی عورت کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ستی ساوتری کا کردار تو بخوبی نبھاسکتی ہے لیکن ذہنی رفاقت اوراورگھر سے باہر اپنے مرد کا ساتھ نبھانے سے قاصر ہے لیکن نئی تہذیب اوربدلتے ہوئے معاشرے کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم ہی کانتیجہ تھا کہ پہلے مردوں کے اذہان میں تبدیلی آئی اورپھر بدلتی ضروریات اورزمانے کے تقاضوں کی وجہ سے عورتوں کی معاشرتی حیثیت اورذہنی معیار میں بھی بتدریج تبدیلی وترفع پیدا ہوا۔
انگریزی تعلیم و تہذیب نے عورت کی سوچ کو بھی بدل دیا اوریوں جدید تہذیب کے زیر اثر ایک نئی مشرقی عورت نے جنم لیا یعنی ابتداً جس عورت کے جسم و جان پر اس کے خاوند کی حکومت تھی اوروہ محض ایک مرد کا تصرف سمجھی جاتی تھی ایسی تمام باتیں ختم ہونے لگیں۔ناول “ایسی بلندی ایسی پستی” میں بھی جب ایک ہندوستانی عورت یہ دیکھتی ہے کہ اس کا شوہر اس کی نسوانیت کو اپنے پیروں تلے روند رہا ہے اوراس کے وقار کی دھجیاں اڑا رہا ہے تو وہ بھی دوبدومقابلے کی ٹھان لیتی ہے۔ اس کا ایک نقشہ ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘میں یوں بیاں کیا گیا جو نورجہاں اورسلطان حسین کی لڑائی پرمبنی ہے:
“چُپ حرامزادی ،سلطان حسین نے میز پر اس زور سے بھینچی ہوئی مٹھی ماری کہ پیالی سے چھلک کرچائے میز پر گری۔توہوگا حرامزادہ،زبان سنبھال کے بات کر،”مجھ کو اپنی لونڈی سمجھ لیا ہے؟” خود تو اول درجے کا چھٹا ہوا آوارہ بدمعاش ہے اورالٹا ہر وقت میری جان کے پیچھے پڑارہتا ہے۔چپ حرامزادی نہیں تو اتنےجوتے لگاؤں گا۔نورجہاں کا غصہ آنسوؤں کے ہجوم میں انتہا کے قریب قریب پہنچ چکا تھا۔جوتے لگائے گا حرامزادے،دھیڑ ، چمار ہمت توذرا مجھے ہاتھ تولگا کر دیکھ۔” ۹؎
مذکورہ بالا بحث ومباحثہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطان حسین کا وحشی روپ سامنے آیا اوراس نے ایک زوردار تھپڑ نورجہاں کو ماردیا اوریوں نورجہاں کے اندر احساس زیاں جاگا اوراسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس کے اندر کوئی آگ سلگ کے بجھ گئی ہو۔ اسے غصے کی بجائےذلت ،بے عزتی،رنج اوربے بسی کا ایسا احساس ہوا جو اس سے پہلے کبھی محسوس نہ ہوا تھا۔ اس نے زخمی نگاہوں سے ایک ذبح کی ہوئی چڑیا کی طرح اپنے خاوند کی جانب دیکھا مگرکچھ کھو دیکھنے کا احساس اس قدر تھا کہ وہ بولی کچھ بھی نہیں کیوں کہ اس وقت نورجہاں پر یہ تلخ حقیقت واضح ہوئی کہ کوئی اسے بھی مارسکتا ہے،رسوا کرسکتا ہے اوریہی حقیقت اسے پاتال کی گہرائیوں میں بہالے گئی۔ نورجہاں کے لیے مار کھانا ایک ایسا نیا اورانوکھا تجربہ تھا کہ جس نے اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے کردیئے۔معاشرے میں رہتی اس عورت کی سوچ ایک لمحے کے لیے مفلوج ہوگئی۔چند منٹ کے لیے تو وہ ایسی ہوگئی جیسے خلا میں معلق ہوگئی۔اس کی نگاہوں کے سامنے سے ہر چیز گم ہوگئی تھی یوں لگتا کہ جیسے اس نے کوئی خواب دیکھا ہے بس اب صرف ایک کسک ہی کسک باقی تھی۔
سلطان حسین کا یہ تھپڑاس کے گال پر نہیں بلکہ اس کی روح پرکاری ضرب لگا گیاتھا۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ جیسے کسی کو ابھی ابھی موت آئی ہواس کی پوری روح سسکیوں میں منتقل ہوچکی تھی۔عزیز احمد نے نورجہاں اورسلطان کے بیچ چلتی ہوئی اس جنگ کے ذریعے اس تلخ حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ ہندوستانی مرد عورت پر سے اپنی اجارہ داری اورحکومت ختم نہیں ہونے دینا چاہتا اورسلطان حسین کا وہ تھپڑ جو اس نےنورجہاں کو مارادراصل اسی مٹتی حکومت کو دوبارہ سے قائم کرنے کی کوشش ہے۔مرد کا عورت پراپنی ملکیت اورحکومت قائم کرنے کا نشہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ بادشاہوں کاتخت پر بیٹھنے کے بعدبادشاہت کے نشے وخمار میں اپنے ہی بھائیوں کا قتل کروا دینا کیوں کہ انسان پر انسان کی حکومت سے مہلک نشہ اورکوئی نہیں ہے اوریہی نشہ سلطان حسین کو بھی چڑھا لیکن اس کا بھیانک نتیجہ دونوں کی خلع کی صورت میں نکلا۔مجموعی طور پر عزیز احمد کے ناول کی عورت ایک ذی ہوش انسان ہے معاشرہ اگرچہ اس کا استحصال کررہا ہے لیکن اس کی روح کی بلیدگی تروتازہ ہے۔جدید خیالات رکھنے کی وجہ سے عزیز احمد عورت کو آزاددیکھنا چاہتے ہیں اوراسی میں جنسی آزادی بھی شامل ہے جس کے تحت ان کے ہاں عورت کے کرداروں کی پیشکش میں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔
عزیزاحمد عورت کو مرد کے دوبدو پیش کرتے ہیں۔ جدیدتہذیب نے عورت کو بہت زیادہ خود اعتماد بنایا اوراسے ہر اچھے برے کی تمیز بھی سکھائی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی عورت یایوں کہہ لیں کہ نورجہاں کے لیے مزید تسلیم ورضا کا پیکر بن کر مشرقی عورت کا کردار نبھانا مشکل ہو گیا تھا۔ یوں نورجہاں اورسلطان حسین کی زندگی کی راہیں جدا ہو گئیں۔نورجہاں اور سلطان حسین کے مرکزی کرداروں کے علاوہ یہ ناول بے شمار ذیلی کرداروں پربھی مشتمل ہے جن کے ذریعے ناول نگار نے ایسے معاشرے پر بھی روشنی ڈالی ہے جو نام کے مسلمان لیکن اپنے رکھ رکھاؤ ،چال چلن اور عادات واطوار کے لحاظ سے کسی طورمسلمان نہیں لگتے۔یہ وہ مغرب زدہ افراد ہیں جن کی محفلوں میں شراب پینا،مردوزن کا موسیقی کی دُھنوں پر رقص،آزادی اورمستی وسرور عروج پر ہونا تھا۔ بیگم مشہدی اوران کا خاندان مذکورہ بالا سوسائٹی کی نمائندگی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بیگم مشہدی ،مسٹرحسن،مشہدی کی بیٹی،سرعلی مشہدی کی بہو اورکاظم مشہدی کی بیوی تھیں جو کہ اپنے خاوند کی چچازاد بھی تھی۔ ان دونوں کو کم عمری ہی میں ولایت بھیجا گیا اوروہیں ان کی منگنی اورپھر شادی بھی ہوئی۔ بیگم مشہدی نے کم ازکم سترہ سال کا عرصہ بیرون ملک گزارا اورجب واپس آئیں تو یہ خود اوران کی بیٹیاں مکمل طور پر مغربی ماحول کی پروردہ تھیں۔
یہا ں تک کہ ان کی زبانوں سے اردو کا ایک لفظ بھی نہ ادا ہوپاتا تھا۔ بیگم مشہدی کو ناچنے کا بے حد شوق تھا اوروہ یہ شوق اپنی بیٹیوں کے پاس رہ کران کی آڑ میں مخلوط پارٹیوں کا اہتمام کرکے پورا کیا کرتی تھیں۔ ایسی بلندی ایسی پستی اس دور کا پہلا اجتماعی ناول ہے جس میں مصنف نے حیدر آباد دکن کے طبقہ امرا کی معاشرت کا خاکہ پیش کیا ہے جو مغربی تہذیب کی اندھی تقلید سے پیدا ہوتی ہے ۔ جس میں رقص و سرور ،مے نوشی اورہوس زنی جیسی جاگیرداری کی تمام لعنتیں موجود ہیں جو اب اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔ اس معاشرے کے گوناگوں پہلو مثلاًازدواج، معاشقہ،امارت کے مظاہرے،کلب گھر،سماجی تقریبیں،دربار داریاں،ضیافتیں ،حصول اقتدار کی جدوجہد ،اس میں مسابقت،رقابت،خفیہ ریشہ دوانیاں وغیرہ کامیابی کے ساتھ پیش کیے گئے۔ ناول میں جہاں مشرقی ومغربی تہذیب و معاشرت کی بھرپور عکاسی ہوئی ہے وہیں ان دونوں میں پائے جانے والے امتیازسے بھی آگاہ کیا ہے مثلاً اگر مغرب میں رقص و سرور،شراب و شباب اور اسی قسم کی دیگر چیزیں معاشرے کا لازمی جزو ہیں تو یہی تمام چیزیں مشرقی معاشرہ میں معیوب اورگناہ تصور کی جاتی ہیں اورمشرقی اقدار کے منافی ہیں لیکن اس ناول میں مغربی تہذیب کو دفن کرتے ہوئے اعلیٰ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے سرچڑھ کر بول رہا ہے۔
مغربی تہذیب کا ایک پہلو بدلتی ہوئی اقدار اور اخلاقی نظام کی توڑ پھوڑ اوراس میں تغیر ہے ۔جب مغربی تہذیب نے مشرقی معاشرے میں مادیت پرستی کو رواج دیا تو زندگی ایک دم بڑی تیز رفتار ہوگئی جس کی وجہ سے نہ صرف اقدار کچلی گئیں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ دوعظیم جنگوں نے معاشی،معاشرتی،اخلاقی اورنفسیاتی سطح پر اتھل پتھل برپا کر کے اخلاقی زوال کے دروازے کھول دئیے ۔ آزادی و جنسی بے راہ روی کے ڈھلوانی راستوں پر تیز رفتاری سے قدم رکھنے کے بعد مغربی معاشروں کے لیے رکنا اورپلٹنا ناممکن ہوگیا اوریہ تمام تر صورتحال بہت ہولناک اورخوفناک تھی۔مصنف نے ناول میں گری ہوئی جنسی زندگی کے عقب میں زوال آمادہ معاشرے کے اہم افراد کے زہریلے رویوں،نفرت ،کینہ،بعض ،حرض وطمع کی اساس پر پھیلنے پھولنے والے انسانی رشتوں کی جھلک واقفیت سے معمور کرکے دکھائی ہے جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دولت ،عزت،شہرت،اوراعلیٰ خاندانی روایات پرفخر کرنے کے احساس کے باوجود خوشی،مسرت اورسکون قلب ناپید ہے۔
ناول میں قدم بہ قدم زندگی کی چہل پہل اورجدوجہد بھی نظر آتی ہے اور جگہ جگہ مختلف نشیب وفراز دکھائے گئے ہیں ۔اگر اس ناول کو معاشرتی حقیقت کا آئینہ دار کہا جائے تویہ کچھ غلط نہ ہوگا کیوں کہ اس میں زندگی کی حقیقتوں اورصداقتوں کو ان کے اصل روپ میں دکھایاگیا ہے۔ ناول نگار نے مشرقی معاشرے کی مغربی معاشرے کی اندھی تقلید سے پیدا ہونے والےبے شمار مسائل کا نفسیا تی نقطہ نظر سے تذکرہ کیا ہے۔ مرد وزن کے آزاد میل ملاپ سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی منزل سے بہت دور چلاجاتاہے ۔ناول میں جلیس کا ایک غیر مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگ جانا اوربیگم مشہدی کا پچھتاؤں میں ڈوب جانا اورپھر موت کو گلے لگا لینا اسی بگاڑ اورانہیں مسائل کی ایک کڑی ہے۔انسانی نفسیات ہے کہ وہ ہمیشہ خوب سے خوب ترکی تلاش میں رہنے کے ساتھ ساتھ جنسی بھوک مٹانے کے لیے بھی تگ و دو کرتا ہے۔دراصل مردبہت آسانی سےعورت کی اداؤں کا اسیر ہو کر اس کے جال میں پھنس جاتا ہے اوریوں بے شمار گھربھی اُجڑتے ہیں۔ ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘میں ایسی ہی معاشرتی بے راہ روی کےایک منظر کو بیان کیا گیا ہے:
“بار پرکھانے سے پہلے تیز نوجوان کا اورتیز تر نوجوان لڑکیوں کا ہجوم اسکاچ وہسکی ،برانڈی،کاک ٹیل چڑھاتا رہا اورکبھی بھی کوئی بے ساختہ معصومیت سے لبریز کھلاڑی لڑکی آجاتی تو ٹماٹو کاک ٹیل کا جھاگ اُڑاتے ۔جھاگ اُڑتے رہے،کئی گھر اجڑ گئے، کئی کاروباریوں نے دوسروں کی بیویاں اُڑالیں،کئی نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔” ۱۰؎
عزیز احمد نے اپنے اس فن پارے میں تصویر کاصرف ایک رُخ نہیں دکھایا بلکہ دونوں رُخ پہ بات کی ہے یعنی ایک طرف انھوں نے عورتوں اورمردوں کے ناجائز تعلقات،بے وفائی اوردھوکہ بازی کو قلمبند کیا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی بتایا ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام امیر اورجاگیردارلوگ اخلاقی پستی کا شکار ہوں بلکہ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو اعتدال پسندی اختیار کرتے ہوئے کامیاب زندگیاں گزارتے ہیں البتہ ایسےمردوزن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر یعنی انتہائی کم ہوتی ہے۔ ناول میں اس کی مثال حیدرمحی الدین عرف جی آئی پی کا انجن ہے جسے اپنی بیوی سرتاج سے بے پناہ محبت ہے اوربدلے میں سرتاج بھی اپنے شوہر کی دل وجان سے وفادار ہے۔
ناول میں عزیز احمد امرا ،رؤسا اورجاگیرداروں کی جنسیت کے ہاتھوں ہونے والے کمزور طبقے کے استحصال کو بھی ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔وہ اہم شخصیات کی جنسی زندگی اورمعاشرے میں ان کے زہریلے اخلاق سوز کردار ، بغض ، طمع اور نفرت کی بنیاد پر پھیلنے پھولنے والی انسانی زندگی ورشتوں کی تصویر کشی بڑے درد مندانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ یہ ناول واقعت کی اساس پر تشکیل پاتا ہے اوراس میں زیادہ توجہ زندگی کی پیشکش پردی گئی ہے۔ ناول میں معاشرتی گراوٹ کے مرقع بھی جابجا نظرآتے ہیں اس حوالے سے فرخندہ نگر میں گھروں میں لڑکیاں رکھنے کا دستور بیان کیا گیا ہے۔
جاگیرداروں کے گھروں میں پالی جانے والی یہ لڑکیاں کبھی تو زرخرید غلام ہوتیں اورکبھی ان کی غریبی و بے بسی کے عوض ان کو خریدا جاتا تھا۔عموماً قحط کے زمانے میں ایسی لڑکیاں سستے داموں مل جاتی تھیں۔ ان میں سے بہت سی غریب،لاوارث اوربے کس عورتوں کی اولادیں ہوتیں اورنسل درنسل ایک ہی گھرانے میں پلنے ،بڑھنے اورجوان ہونے کے بعد مزید بچے پیدا کرنے کا باعث بنتیں تھیں۔جو صاحب لوگوں یا امیرزادوں کو پسند ہوتیں وہ تو منظور نظر کا درجہ حاصل کرلیتیں جب کہ باقی ماندہ کو گھریا گھر کے باہر ہی کسی ادنیٰ درجے کے مزارعے یا ملازم سے بیاہ دیا جاتاتھا۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ ان صاحب لوگوں سے جان چھڑوانے کی خاطر کسی ڈرائیور یا باہر کے کسی مرد کے ساتھ بھاگ جاتیں۔
عزیز احمد نے جابجا ناول میں اس تلخ اورہوش اڑادینے والی بدصورت حقیقت اورمعاشرتی تناظر کو بیان کیا ہے۔ مصنف نے اس عہد کی تصورکشی کرتے ہوئے اپنے قارئین کو پر اثر طریقے سے یہ بتایا ہے کہ اس عہد کی معاشرتی قدریں الکحل ،حُسن،جوانی،روپیہ اورانگریزیت تھیں۔اس معاشرے کے پروردہ کرداروں کو زندگی کے بارے میں غور کرنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیوں کہ ان کے لیے سیاست کی حیثیت نئے ماڈل کی گاڑیوں اور مذہب و معیشت کا درجہ لبوں پہ لگانے والی لپ اسٹک سے زیادہ کا نہیں تھا۔ ان کے نزدیک عشق کو بھی دولت کے پیمانے پر ماپا جاتا اور شادیاں بھی سامنے والے کی مالی حیثیت دیکھ کر کی جاتیں، اس زمانے میں لڑکیوں کے لیے سب سے اہم معاشرتی وتہذیبی قدر رولس رائس ماڈل کی موٹر گاڑی تھی،یہی وجہ ہے کہ جب سرتاج کے لیے حیدر محی الدین کا رشتہ آیا جو کسی بھی طرح شکل وصورت کے اعتبار سے سرتاج کے ہم پلہ نہ تھا ۔ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘میں زمانی بیگم کے تاثرات اِن الفاظ میں رقم ہیں:
“بیٹی ذراکالا،ذرا موٹا ہے مگرتجھے آرام سے رکھے گا۔ آٹھ لاکھ سالانہ کی جاگیر ہے جیسی کہ خورشید زمانی بیگم کو توقع تھی کہ سرتاج نے فوراًمنظور کرلیا، ہاں مماکالا ہواتو کیا ہوتا ہے،کالے مرد اپنی بیویوں کو بڑے آرام سے رکھتے ہیں۔ ان کے ناز اٹھاتے ہیں اوریہ اجاڑ گورے چٹے مردتو خود کو معلوم نہیں کیا سمجھ کے اتنے نخرے کرتے ہیں۔ اورمیں نے سنا ہے رولس رائس گاڑی بھی ہے۔ہاں بیٹی تو رولس رائس گاڑی میں پھرے گی۔” ۱۱؎
عزیز احمد نے ناول میں جس دور کو لیا اس کی دیگر برائیوں کے ساتھ سب سے بڑی معاشرتی برائی جاسوسی اورغیبت تھی۔ اس وقت کا یہ دستور تھا کہ خان حضرت اورعالی شان کے جاسوس ایک دوسرے کے ہاں جاسوسی کی غرض سے معمور رہتے تھے پس یہ غلط بات نہ ہوگی کہ اس حمام میں سبھی برہنہ حالت میں تھے مگر ایک دوسرے کی غیبت کرنے اورپیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے نہ کتراتے تھے۔چغلی ،بہتان تراشی اورغیبت کی وباصرف عورتوں میں ہی نہیں بلکہ مردوں میں بھی پھیلی ہوئی تھی۔مذکورہ بالا برائیوں کے ساتھ ساتھ اس عہد میں انگریزوں اورمسلمانوں کی آپس میں شادیوں کا رواج بھی عام تھا یعنی صرف مسلمان مرد ہی انگریز عورتوں سے شادی نہ کرتے تھے بلکہ مسلمان عورتیں بھی انگریزمردوں سے شادی کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتی تھیں۔
ناول میں زینب جنگ کو ایسی ہی عورت کے روپ میں پیش کیا گیا ہے جو نہ صرف رکاب جنگ کی بیوی تھی بلکہ اس کی زندگی میں ہی فلرٹی مشہور تھی لیکن اس کے مشاغل کو مدنظر رکھتے ہوئے رکاب جنگ کو اس کی محبت و وفا پر قطعاً یقین نہ تھا اوروہ اسےفلرٹی سمجھتا تھا۔ زینت رکاب جنگ فرخندہ نگر کی سب سے آزاد اورروشن خیال لڑکی تھی۔مردوں کو غلام بنانا اورپھر یہاں تک کہ انھیں کھلے دل سے اپنا جسم بھی دے دینے میں اس کے جیسا کوئی دوسرا نہ تھا لیکن بہ ظاہر اتنی ماڈرن دکھنے والی لڑکی اندر سے بالکل ایک عام عورت کے جیسی تھی جس کا آئیڈیل اس کا گھر ،بچے اورپیار کرنے والا شوہر تھا لیکن یہ اس کی قسمت کہ اس کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا یہی وجہ ہے کہ رکاب جنگ کی موت کے بعد اس نے ایک انگریز لڑکے “لیوس” سے بیاہ رچا لیا جو کہ ایک کپتان تھا۔زینت کی حرکات ومشاغل کی وجہ سے اسے فرخندہ نگر میں گندی بھینس کے نام سے پکارا جاتا تھا اور اس کے بارے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ جو بھی لڑکی زینت سے تعلق یا واسطہ رکھے گی اس کا تباہ و برباد ہونا لازم ہے۔ ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘میں بھی زینت سے متعلق کچھ ایسے ہی بیانات سامنے آتے ہیں مثلاً:
“جو لڑکی زینت کے ساتھ رہی اس کا تباہ ہونا ضروری ہے کیوں کہ گندی بھینس اپنے ساتھ سب بھینسوں کو گندہ کرتی ہے۔” ۱۲؎
یہ ناول پڑھتے ہوئے ایک قاری یہ محسوس کرسکتا ہے کہ اس کا ہر کردار مکالموں کے ذریعے اپنی بھر پور نمائندگی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ عزیز احمد نے نورجہاں اورسلطان حسین کی داستان کے درمیان معاشرتی تعلقات کی چھوٹی چھوٹی تصاویر اوردوسروں کی زندگیوں کے واقعات کو دلکشی سے بیان کرتے ہوئے قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھا ہے جیسا کہ نورجہاں کا اپنے اردگر لوگوں کو ناجائز عشق وعاشقی میں مبتلا دیکھنا صرف اس کا مشاہدہ ہی نہ تھا بلکہ یہ تمام عناصراس کی زندگی میں براہ راست جذب ہو کر اس کا تصور حیات بناتے ہیں اوریہ مشاہدے اس کے فکر ،عمل اوراحساس کو بھی متاثر کرتے ہیں ۔ دوسری طرف سلطان حسین پر بھی انہی چھوٹے چھوٹے اورغیر متعلق واقعات سے وہ معاشرتی روایت ترتیب پائی ہے کہ جس پر عمل پیرا ہونا معاشرے میں رہنے والوں کے لیے ناگزیر ہے۔ان دونوں کی زندگیوں اور ان میں پیش آنے والے واقعات کا اثر دیگر لوگوں پر بھی ہوا گو کہ وہ لوگ ان دونوں کو پیش آنے والے المیہ سے خود کو غیر متعلق رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اس ذمہ داری سے بچ نہ سکے۔
گویا ناول میں موجود تمام لوگوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے متوازی چلتی ہیں۔ یہ لوگ ایسے آئینے ہیں جو ایک دوسرے کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اورکوئی آئینہ کسی دوسرے کے عکس کو اپنی سطح سے پاک نہیں رکھ سکتا اورایسا صرف اس لیے ہے کہ یہ تمام لوگ ایک ہی معاشرے میں رہنے والے ہیں۔یہاں ایک کے کئے کی سزا دوسرے کوملتی ہے بالکل جیسے سروری کی آوارگی کا خمیازہ نور جہاں نے بھگتا کیوں کہ اگر نورجہاں اورسلطان متوسط نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تو ان میں لڑائی جھگڑے طول نہ پکڑتے بلکہ تھوڑی سی بک جھک کے بعد یہ لوگ معمول کی زندگی گزارتے اوران کے درمیان خلع کی نوبت نہ آتی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جس طبقے میں سروری اورکملا جیسی لڑکیاں موجود ہوں وہاں ازدواجی المیے ناگزیر ہیں۔کملا،ساوتری اورچندرلیکھا جیسی لڑکیاں معاشرہ کے اس طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں وہ خود تو عیاشی کی زندگی گزارتی ہیں لیکن ان کی وجہ سے اوربہت سے لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوجاتیں ہیں حالانکہ ان کاباپ جو کہ پروفیسر ٹوپی کے نام سےجانا جاتا ہے ان کی پرورش بڑے نازونعم سے کرتا ہے ان کو بالکل گڑیوں کی طرح پالتا ہے اور انھیں ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتا۔ پروفیسرٹوپی ایک وضع دار اوربامروت سکھ کے روپ میں دکھایا گیا جو اپنی تہذیب وثقافت پر جان چھڑکتا تھا لیکن اس کی بیٹیاں اس کی پرورش کے برعکس گڑیاں بننے کی بجائے مسوری کی مشہور عورتیں بن جاتی ہیں اورپرائے مردوں کو اپنی اداؤں سے لُبھاتی ہیں۔
اب اگر ان لڑکیوں کے کیے کی سزاا نہیں ہی ملتی تو تعجب نہ ہوتا لیکن ان کا کیا بھگتا کسی اورنے دراصل اس عجیب وغریب منطق کا راز اس ہیت اجتماعی میں چھپا ہوا ہے جس میں یہ تمام لوگ شامل ہیں۔وہ خامی جس کی وجہ سے کوئی بھی المیہ اس ناول میں جنم لیتا ہے وہ خامی دراصل افراد کے کرداروں میں نہیں بلکہ معاشرے میں ہے اوریوں نور جہاں،کملا پردیش اورسرتاج وغیرہ کی کہانیاں الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی کہانی کے مختلف مگر لازمی اجزاء ہیں اور اگر ہم انہیں الگ کریں تو پھر کہانی ختم ہوکر چھوٹے قصوں میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس ناول کو حیدر آبادی اشرافیہ کے انتہائی زوال کی مکمل تصویر کہا جاتاہے اسی وجہ سے اس ناول کو اردو زبان میں اجتماعی معاشرتی صورتحال کے تحت لکھے جانےو الے ناولوں میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ناول “ایسی بلندی ایسی پستی” اجتماعی زندگی کی چھوٹی چھوٹی تصویروں سے مرتب ہوا ہے اورایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جو روبہ زوال ہے۔
اس اجتماعی ناول کا تہذیبی اورتاریخی پس منظر محض ایک معاشرے کی شکست وریخت سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہ کرداروں کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل کا ناول بھی ہے کیوں کہ اس ناول کا ہر کردار مکافات عمل کا شکار ہوتا ہے مثلاًکوئی ہارٹ اٹیک کے باعث مراتوکوئی شراب نوشی کی کثرت سے موت کےمنہ میں گیا،کسی کی موت یرقان کے ہاتھوں ہوئی تو کسی کو آتشک وسوزاک جیسا مرض ہوجانے سے موت آئی اورجو مر نہ سکے انھیں دنیاوی آفات وآلام نے آگھیرا۔عزیز احمد نے ہر کردار یایوں کہہ لیجئے کہ ہر فرد کو بڑی دردناکی سے پایہ انجام سے دوچار کیا۔ غرض یہ کہ کوئی کردار ایسا نہیں جس کی ابتدا اوراختتام کا پتہ نہ چلتا ہو۔ معاشرہ کرداروں سے تشکیل پاتا ہے اورمعاشرے تہذیب کو جنم دیتے ہیں ۔
تہذیب کا ایک ماضی بھی ہوتا ہے جسے ہم تاریخ کا نام دیتے ہیں اوراسے ہی مستقبل میں ہم تہذیبی ومعاشرتی ارتقا کا نام دیتے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ عزیز احمد نے شعوری طور پر براہ راست افرد کونہیں بلکہ ایک ہیت اجتماعی یا اس کے ایک حصہ کو موضوع بنایا ہے ۔چوں کہ یہ ہیت ایک زوال پذیر قوت ہے اس لیے اس میں ایک وحدت کی حیثیت سے عمل کرنے کی صلاحیت بہت خفیف سی رہ گئی ہے اوراس اجتماعی زندگی کوصرف افراد کے مطالعے ہی کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں ایک اورتلخ حقیقت بھی موجود ہے اوروہ یہ ہے کہ جب انسان پر مصیبتیں آتی ہیں تو پھر اس گھڑی میں وہ اکیلا رہ جاتا ہے ۔کوئی اس کا ساتھ دینے کے لیے آگے نہیں بڑھتا اوریوں زمانے کے سرد وگرم اسے خود ہی سہنا پڑتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں آنے والے پے درپے حادثات اس کی قوت مدافعت کوکمزور بنا دیتے ہیں۔ اس بات کی مثال دینے کے لیے اگر ہم نورجہاں ہی کے کردار کو سامنے رکھیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ناول میں نورجہاں ایک خام مال ہے جسے کسی بھی شکل میں ڈھالا جاسکتا تھالیکن چوں کہ وہ اپنے اصل میں خود کچھ نہیں لہذا اس نے وہی شکل اختیار کی جو معاشرے کے تہذیبی سانچے نے اسے عطا کی۔ سلطان حسین کا تھپڑ اسے یہ باور کرواتا ہے کہ اس کا سادہ اورمعصوم ہونا اہم نہیں بلکہ اسے اپنے خاوند کا جبرسہنا ہی ہوگا۔
اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے اب اگرہم اس قابل ہوسکیں کہ کرداروں کے درست مفہوم کواخذ کرسکیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ یہ سادیت اوراذیت پسندی ہے کہ عزیزاحمد ایک طرف تو کمیونسٹ معاشرے کے انسانی نجات کے خواب کو رد کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے فرد اجتماعی تشدد کا نشانہ بننے پر مجبور ہے لیکن دوسری طرف وہ نوآبادیاتی ہندوستان میں حیدرآباد دکن کے زوال آمادہ جاگیردارانہ معاشرے میں جو عورت سمیت اشیا کی نجی ملکیت کے تقدس پرقائم ہے میں نور جہاں جیسے افراد کو سلطان حسین جیسے افراد کے اجتماعی جبر کے رحم وکرم پرچھوڑ دیتے ہیں۔
یہ حقیقتاً ایک بےرحمانہ تبصرہ ہوسکتا ہے جو ظلم کے خلاف آوازبلند کرنے اورکسی بھی قسم کی تبدیلی کے امکان کو ختم کردیتا ہے۔عزیز احمد نے ناول میں معاشرتی تناظر کے ساتھ ساتھ تاریخی وجغرافیائی تناظر کو بھی بڑی فنکاری سے پیش کیا ہے جو دراصل وقت کا ہی ایک عنصر ہے۔عزیزاحمد کی ناول نگاری نے نہ صرف اردو ناول کو متاثر کیا بلکہ ان کے ناولوں کے بغیر ہم اس دور کی معاشرت و رجحانات اوران کے درمیان پائے جانے والے تضاد وکشمکش کاعرفان حاصل نہیں کرسکتے۔عزیز احمد نے اپنے عمیق مطالعے سے ناول میں اس عہد کی نہ صرف سماجی،معاشرتی اورسیاسی تبدیلیوں کے فلسفے کو بڑی عمدگی سے بیان کیا بلکہ وہ تہذیبوں کے نشیب وفراز اورمختلف قدروں کی خوبیوں اورخامیوں کو بھی منظرعام پرلانے میں کمال دسترس رکھتے ہیں مثلاً جب کشن پلی کی وادی میں انقلاب آئے اور مہاراجہ سرشجاعت شمشیر سنگھ بہادر کا دور ختم ہوا تو اس دور کے خاتمے سے تقریباً تیس برس قبل کے عرصہ کوکہ جس میں شمشیر سنگھ کا عروج تھا بھی بڑی پرکاری سے پیش کیا گیا۔
اس دور کی اعلیٰ قدروں کے متعلق بیان کرتے ہوئے ناول نگار نے یہ بھی بتایا کہ اس زمانے میں جب شمشیر سنگھ اپنی کیڈی لیک میں باب عالی جایا کرتے تھے تو چوینوں اوردونیوں کی بارش کثرت سے ہوتی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تونوبت پیسوں تک آگئی لیکن آخر تک یہ دستور قائم رہا کہ جو بھی حاجت مند ہوتا وہ شمشیر سنگھ کی گاڑی کے سامنے لیٹ جاتا تاکہ اس کی حاجت روائی ہوسکے اور پھر راجا صاحب کے حکم سے گاڑی روکی جاتی اورضرورت مند کی ارضی سن کر اس کو تسلی بھی دی جاتی تھی۔ اسی طرح بادشاہ کے دربار کے اندر کے مناظر بھی کچھ اس طرح کے تھے کہ جب تک بادشاہ دربار میں آنہیں جاتا تھا وزرااس کا انتظار کرتے اورکسی بھی قسم کی کوئی کاروائی شروع نہ کرتے تھےلیکن اس کے برعکس مہتاب جنگ کو ناول میں ایک کامیاب انسان کے روپ میں بیان کیا گیا ہے۔
ان کی معاشرتی وحدت اورپارٹیوں میں بڑا ٹھہراؤ تھا جنہیں اس عہد کی گردآلودہ سرگرمیاں متاثر نہ کرسکیں۔ مہتاب جنگ کی شخصیت میں ایک ایسا وقار تھا جو اس وقت کے اعلیٰ متوسط طبقے کا خاصا تھا۔ اس ناول میں سرکشن پرشاد اورعلامہ اقبال کے گہرے مراسم کے ساتھ ساتھ نہ صر ف جوش وملیح آبادی کا ذکر پیش کیاگیا بلکہ ان کا حلیہ بھی کچھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا کہ ایک لاابالی شخص جس کے کپڑے اولول جلول سے اورآنکھیں ایسی کہ جیسی کثرت سے شراب پینے والوں کی ہوں لیکن اس کے اندر ایک جلال اوروقار بھی پایا جاتا ہے یہ شخص اپنا نام شبیر حسین خان جوش ملیح آبادی بتاتا ہے۔
الغرض یہ کہ اس ناول کا معاشرتی تناظر خاصا وسعت لیے ہوئے ہے جس میں فرخندہ نگر خود ایک کردر بن جاتا ہے جو اس ریاست کی سیاسی صورتحال ،دوسری عالمی جنگ،سرمایہ دارانہ نظام کا جبر اورطبقاتی نظام کا احاطہ کرتا ہے۔دراصل اس ناول میں تین نسلوں کی کہانی بیان کی گئی ہے یعنی قابل یارجنگ،ان کی بیٹی خورشید زمانی اورنواسی نورجہاں جو ناول کے تاریخی تناظر کو واضح کرتے ہوئے اس میں نئے سیاسی حوالے بھی شامل کرتے ہیں اوریوں ایک ایسا منظر نامہ تخلیق ہوتا ہے جو ایک زوال پذیر معاشرے کی تصویر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیتا ہے۔ اس زمانے میں انگریزوں کی ہربات،ہررسم،ہرریت یا توبے حداچھی تھی یا بے حد بُری۔تلک اورگوکھلے توخیرمنظر عام پر آچکے تھے لیکن ابھی کسی نے گاندھی کا نام تھی نہ سنا تھا۔ کنگ ایڈورڈ کے عہد کے سوٹ،عورتوں کے لئے فراکیں،آکس ٹنگ،کبھی کبھی شراب،بیر،کموڈ، بنگلا،کسی کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ صاحب بہادروں کو کبھی”ہندوستان چھوڑدو”کا نعرہ سننا پڑےگا۔
پاکستان کا نام ابھی کیتمان میں تھا اورپی سی جوشی توایک طرف لینن کانام بھی قابل جنگ مشہور الملک یا سرتاج الملک نے نہیں سناتھا۔ناول میں خدیجہ کے روپ میں معاشرے کی اس عورت کو دکھایا گیا ہے جس کا کام صرف اورصرف اپنے مجازی خدا کی اطاعت کرنا اوراس کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کرکے گھر کے ماحول کو پرسکون رکھنا ہے۔ دراصل جب سلطان حسین اورنور جہاں کے درمیان خلع ہوجاتی ہے تو نور جہاں اپنی بہن کے ساتھ کلبوں میں ہونے والی پارٹیوں میں شرکت کرنا شروع کردیتی ہے تاکہ اپنے غم کو غلط کرسکے اوریہیں اس کی ملاقات اپنے بچپن کے دوست اظہر سے ہوتی ہے۔آئے دن کے میل ملاپ اورملاقاتوں کے یہ سلسلے بڑھتے بڑھتے بالآخر شادی کے بندھن میں بندھ جانے سے اختتام پذیر ہوتے ہیں۔نورجہاں اظہر کے ساتھ ایک خوش و خرم ازدواجی زندگی بسرکرتی ہے۔دوسری طرف سلطان حسین خدیجہ جیسی وفا شعار بیوی کے مل جانے کے باوجود ساری زندگی نورجہاں کو اپنے دل ودماغ سے نہیں نکال پاتا حالانکہ وہ نورجہاں سے عشق تونہیں کرتا لیکن پھر بھی اس کے ساتھ گزری اپنی پچھلی زندگی کو بے طرح یاد کرتا ہے۔
یہاں عزیز احمد نے ایک سے زائد شادیوں کا فلسفہ بھی بیان کیا ہے کہ کہیں تو ایک شادی بھی گلے میں پھنسی ہڈی کے جیسی بن جاتی ہے اور کہیں ایک سے زائد شادیاں کرنے والے لوگ ہنستی مسکراتی زندگی گزارتے ہیں۔خدیجہ اورنورجہاں ان دونوں عورتوں میں زمین آسمان کافرق دکھایا گیا ہے۔خدیجہ نورجہاں سے زیادہ پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ سوجھ بوجھ کی حامل عورت تھی یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی فہم وفراست سے کام لیتے ہوئے بڑی آہستگی سے سلطان حسین کے گھر کو مخلوط پارٹیوں ،گندی بھینسوں اورشراب وشباب کے دلدادہ دوستوں سے پاک کردیا تھا۔ سلطان حسین شروع سے عورت پراپنا حق ملکیت اورتسلط چاہتا تھاجو خدیجہ کے روپ میں اسے حاصل ہوگیا۔ عزیزاحمد نے خدیجہ اورسلطان حسین کے تعلقات کے ذریعے معاشی محرکات بیان کیے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مرد اورعورت ایک دوسرے کی پسند وناپسند کو بالآخر اپنا ہی لیتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عشق اورحق ملکیت ایک ساتھ قائم نہیں رہ سکتے کیوں کہ عشق کا پہلا اصول آزادی ہے۔انسان نے اعمال و افعال پر تو ملکیت کا حق برقرار رکھنے کے ذرائع تلاش کرکے تمام اعمال وافعال کو محفوظ کرلیا ۔ان میں ترامیم واضافے بھی کیے۔خطرات کا اندازہ بھی لگایا اورپھر موت کے علاوہ ہر خطرے کو مٹانے میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہا لیکن عشق پر اپنا حق نہ جتا سکا۔ عشق رات کی تاریکی میں نمودار ہوکر اس کے پاس آیا اوراسی تاریکی میں واپس بھی چلا گیا۔عشق کبھی ٹھہرا تو کبھی فرار ہوگیا۔
اس نے آمروں، قافیوں،حاکموں،علما،مبصرین،پولیس یہاں تک کہ نیک اداروں تک کو تضحیک کا نشانہ بنایا، انبساط اوررنج سے انسانوں کو پاگل کردیا،حرام کاری کی اولادیں پیدا کیں، چوریاں کرائیں،وفائیں کیں،دھوکے بھی دیئے مگر عشق کو نہ کبھی شرم آئی نہ ہی اس نے کبھی کس کو اپنا مالک بننے دیا۔عشق کی وجہ سے گھر بسے بھی اورٹوٹے بھی کبھی توعشق نے دو دلوں کو موت تک ایک کردیا توکبھی زندگیوں کو تباہ وبرباد کردیا۔عزیز احمد نے عشق کے اس خوبصورت فلسفے میں ہندوستانی معاشرے میں بسنے والی پتی ورتا عورت کی جلن کو بھی خدیجہ کے ذریعے محسوس کروایا ہےجو اسے نورجہاں سے محسوس ہوتی تھی کیوں کہ اس کی اتنی بے لوث محبت وایثار کے باوجود بھی اس کا خاوند نورجہاں کو ہر دم اپنی نظروں کے سامنے محسوس کرتا تھا حالانکہ اگرخدیجہ سمجھنے کی کوشش کرتی تو اسے پتہ چلتا کہ اس کا خاوند نورجہاں کے عشق میں مبتلا ہو کر اسے یاد نہیں کرتا تھا بلکہ یہ تو وہ شکست تھی جو ایک عورت اسے دے کرگئی تھی اوریہی شکست اس کی مردانگی پرکاری ضرب تھی جو اسے کسی وقت چین نہ لینے دیتی تھی اوراسے ایک ایسا ہی افسوس رہتا تھا جو کسی شکاری کو اپنے ہاتھ سے شکار نکل جانے کے بعد ہوتا ہے۔جہاں تک عشق کی بات ہے تو وہ تو سلطان حسین کسی سے کرہی نہیں سکتا تھا کیوں کہ عشق کرنے کے لیے جس جذبے ،ایثار اورقربانی کی ضرورت ہوتی ہے اس احساس سے وہ محروم تھا۔
عزیزاحمد نے ناول”ایسی بلندی ایسی پستی” میں کشن پلی کی پہاڑیوں سے لے کر مختلف خاندانوں کے حزن وطرب،مردوزن کے جائز وناجائز تعلقات،محبت وایثار،عشق کافلسفہ،جسم وجان کی ملکیت کا تصور،مشرقی و مغربی تہذیب اورمعاشرت کافرق پھر ان کے مابین ٹکراؤ سے پیدا ہونے والے مسائل،حیدرآباد دکن کے معاشرتی، جغرافیائی اورتاریخی تمدن کا عروج وزوال اورآخری باب میں تمام افراد کا تفصیلی ذکر نہ صرف اپنی مثال آپ ہے بلکہ ناول کے کینوس کی وسعت وگہرائی کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔گوکہ ناول میں عزیز احمد نے کسی بھی معاشرتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی کوئی تجویز توپیش نہ کی البتہ اس ناول میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہوئی ایک مٹتی تہذیب ومعاشرت کی بھرپور عکاسی کی ہے۔اس ناول کی اتنی پرتیں ہیں کہ ایک ہی نشست کے مطالعے سے ان تمام کے ساتھ انصاف ممکن نہیں۔جومعاشرہ اس ناول میں پیش کیا گیا ہے وہ اپنے تاریخی تناظر میں آخری عہد کے مغلوں کے زوال کا تسلسل تھا کہ جس نے تاج برطانیہ کے ساتھ وفاداری ہی میں اپنی عافیت اوربقا محسوس کی۔ معاشرتی ،تہذیبی،ثقافتی،تاریخی اورفلسفیانہ انداز کے بیان کا اس سے بہترین مرقع میرے خیال میں پیش نہیں کیاجاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناول کو نہ صرف عالمی سطح پرشہرت وپذیرائی حاصل ہوئی بلکہ یونیسکو نے بھی اسے اپنے عالمی ادب کے سلسلے کا ایک ناول قرار دیتے ہوئے اس کا انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کیا۔
حوالا جات
عزیز احمد،”ایسی بلندی ایسی پستی”، مکتبہ جدید لاہور، 1948ء، ص۔ 3، 4
ایضاً، ص۔10
ایضاً، ص۔10
ایضاً، ص۔17، 18
ایضاً، ص۔35
ایضاً، ص۔67
ایضاً، ص۔169
ایضاً، ص۔187
ایضاً، ص۔188
ایضاً، ص۔131
ایضاً، ص۔62
نثار عزیز بٹ،”نگری نگری پھرا مسافر”،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،2009ء، ص۔9