برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ طلسماتی روایتیں غلط العام عرف غلطان کا درجہ اختیار کرچکی ہیں۔ سرحد کے اُس پار ہمارے ہمسایوں میں رائج توہماتی و طلسماتی روایتوں کی بھی کمی نہیں مگر فی الوقت وہ ہمارا موضوعِ تحریر نہیں۔ اللہ بھلا کرے کاکول اکیڈمی میں ہمارا ڈرل سٹاف ایک کرخت خالص فوجی لہجے میں کہا کرتا تھا، ’ پہلی بار ہو تو غلطی ہوتی ہے، دوسری بار ہو تو مستی اور بار بار کی جائے تو غلطان ہوتا ہے صاحبانو!‘ سو ہماری طرف کے رائج الوقت غلطانوں میں سے ایک تو یہ مفروضہ ہے کہ ہم سب ، مین حیث القوم بحیرہ عرب کے پار نجف و حجاز کے عربی النسل ہیں۔ ہم صدقِ دل سے سمجھتے ہیں کہ ہمارے آباواجداد محمد بن قاسم کے لشکر میں تلواریں لہراتے اس دھرتی پر اترے تھے اور یہاں آباد ہوگئے۔
مہا سپتا سندھو کا ٹھنڈا میٹھا پانی پیتے ہمارے گرو سلمان رشید یہاں ایک رسان سے کہ گمان تک نہیں ہوتا کیا کرنے والے ہیں ہم آرائیوں کے ہاتھ میں تلوار چھین کر استرا پکڑا دیتے ہیں۔ یہ بھی ان کا حسنِ ظن ہے، اگر چاہتے تو چموٹا بھی پکڑا سکتے تھے۔ اچھا تو وہ سیدوں کے ساتھ بھی نہیں کرتے، مگر اس بحث میں پڑ گئے تو ہم موضوع سے ہٹ جائیں گے۔
تو صاحبو جہاں ہمارے اجداد ہاتھوں میں تلوار بکف اس دھرتی پر وارد ہوئے وہیں عین لڑائی میں وقتِ شباب آجانے پر روایتوں میں آتا ہے کہ ہمارے کچھ جنگجو بزرگ اپنا سر کٹ جانے پر بھی لڑتے چلے جاتے تھے، مر کے ہی نہیں دیتے تھے۔
جس طرح ہمارے توہماتی قبرستانوں میں اپنے وقت کے پیغمبروں کی نوگزی قبریں ملتی ہیں اسی طرح آپ کو جا بجا ایسے مزار ملیں گے جہاں صاحبِ مزار کا سر اور دھڑ الگ الگ دو مرقدوں میں آرام کرتے ہیں۔ کس واسطے کہ سر دھڑ سے جدا ہوجانے پر بھی لڑائی کے ہنگام میں ان کا جسدِ خاکی تلوارکے جوہر دکھاتا لڑتا چلا گیااورکئی کافروں کو جہنم رسیدکردینےکےبعدتھک کر گِرا تو اعزازی طور پرسر اوردھڑ نزدیکی فاصلےپر ہی مگر الگ الگ دفنائے گئے
کچھ سالوں اُدھرکاذکر ہےکہ اندرون لاہور کےدروازوں کی یاترا کونکلا دِل یکی دروازےپر پہنچا تو برلبِ گیٹ ایک بزرگ کامزار دیکھ کر رُک گیا مزار کا سرناواں بحوالہ صدیقتہ الاولیاء ہمیں ایک پیر ذکی صاحب سے متعارف کرواتا ہے جو لاہور کے اس دروازےکےپاس کےرہائشی تھےجب تاتاری لاہور پر حملہ آور ہوئے۔ آپ نے کمال بہادری کے جوہر دکھائے اور شہید ہونے کے بعد آپ کا تن بغیر سر لڑتا رہا۔
بعد ازاں جسم کے دونوں حصے الگ الگ اس مزار میں دفن کیے گئے اور اس دروازے کو آپ کے نام پر ذکی گیٹ کہا گیا جو بعد میں بگڑ کر یکی گیٹ بن گیا۔ تاریخ کے ساتھ ہوئی اس یکی (گستاخی معاف) سے قطعِ نظر اب اس دروازے پر ایک مزار ہے سن 2016 میں جہاں باوا محمد بشیر نوشاہی زلفاں والی سرکار کے ساتھ کچھ اور لوگ گدی نشین تھے اور چڑھاوے چڑھتے تھے اور ڈھیر چندہ اکھٹا ہوتا تھا۔ آج بھی ہوتا ہوگا کہ صاحبو اس خداداد دھرتی پر مزاروں اور درگاہوں کے کاروبار کو زوال نہیں۔
ہماری ایک دوست ہیں، ہمارے دشت نوردی کے سفر کی یادوں کی شریک ۔ خود بھی بہت خوبصورت لکھتی ہیں۔ اپنے نام کے ساتھ راٹھور کا لاحقہ لگاتی ہیں۔
یہاں ہمیں مرشدی و آقائی یوسفیؔ کی یاد آرہی ہے جن سے ان کے باس نے پوچھا تھا، ’تم راجپوت ہو؟‘
فرمایا، ’آدھا ۔ نانا تھے۔ نومسلم راٹھور۔ طوطے کی چونچ جیسی ناک والے راٹھور۔ خمدار‘
ہمیں آج تک ان کے منہ پر یہ جگت مارنے کی ہمت نہیں پڑی سو اپنی لکھت میں خیانت کرتے ہوئے اس بے ادبی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری اس جرات کا وہ برا نہیں منائیں گی۔ سو مِس راٹھور کہ ان کے پیروں کو بھی سیاحت کے گرداب نے گھیرا ہے ایک دفعہ اپنی جنم بھومی سیالکوٹ کو لوٹیں تو ایسے ہی ایک مزار پر پہنچیں ۔
اب کہانی برزبانِ سجادہ نشین، کہانی باشد،
’بہت قرنوں پہلے کا ذکر ہے کہ سیالکوٹ کی راجدھانی میں ایک نوجوان کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے حجاز کی سرزمین سے عرب جنگجو آئے تو ایک خونخوار لڑائی میں کام آئے بہت سے شہیدوں میں سے ایک اس مزارِ مزکور میں دفن ہے، جو مرجع خلائق ہے۔
صاحبِ مزار دور دور سے آئی زائر بیبیوں کے منتی دھاگوں اور مزار کی دہلیز پر روشن چراغوں کے بدلے اولادِ نرینہ سے سرفراز کرتے ہیں‘۔
اب یہاں ہماری دوست کے راجپوت خون نے جوش مارا کہ اگر وہ جنگ میں کام آیا سپاہی تھا تو پھر پیر کیسے ہوا!
اورایک باآوازِ بلنداحتجاج کرتےہوئےمزار کی دہلیز پر دھرے منتوں کے دیوں میں سےکوئی دیااٹھائے بغیر پلٹ آئیں۔ دوالگ گوروں میں دفن صاحبِ مزار کے سر اور دھڑ نے برا تومنایا ہوگا۔
صاحبو لاہورہو یاسیالکوٹ یہ دھرتی سرکٹے پیروں اوران کےمعجزات سےخالی نہیں
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لاہور کی ایک حسِین سہ پہر اگر آپ سلمان رشید کے گھر ان کے مہمان ہیں تو صحن میں چھتنار درختوں کے سائے تلے اوور اے کپ آف ہاٹ کافی آر اے سِپ آف سمتھنگ آن دی راکس ایک آنکھ میچ کر ہمارے گرو کھُلتے ہیں تو ایک روانی میں کہتے چلے جاتے ہیں، ’بھائی صاحب، اگر آپ روہتاس میں ہیں تو آپ کو یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ جو آج کا سہیل گیٹ ہے یہ اصل میں زحل گیٹ تھا۔ وہ اس لیے کہ جب یہ گیٹ بن رہا تھا تو جنوب کے ان آسمانوں میں زحل سیارہ روشن تھا‘۔ سلمان کو یہ کہانی 1974 میں قلعے کی یاترا کے دوران ایک بابا جی نے بتائی تھی۔
ان بابا جی نے تو یہ بھی بتایا تھا کہ اکبر بادشاہ کے جرنیل مان سنگھ کی حویلی اور رانی محل کو جاتے راستے پر واقع دروازہ اندر کوٹ کہلاتا ہے۔ اندر کوٹ اس لیے کہ پہلے قلعہ روہتاس اسی مختصر زمین پرمشتمل تھا۔ شیر شاہ سوری نےاس قلعے کی کشادگی کا حکم دیا تو بعد کی تعمیر ایک وسیع قلعہٗ روہتاس میں یہ علاقہ اندر کوٹ کہلایا۔
اپنے گرو کی روہتاس یاترا سے چند دہائیوں کے فاصلے پر جب ہم روہتاس میں کچھ کچھ گمشد اور کچھ کچھ آوارہ گرد تھے تو ہمیں لوگ بتاتے تھے کہ روہتاس کے ماتھے کا جھومر سہیل گیٹ حضرت سہیل بخاری کے نام پر ہے، ایک پیر صاحب جو گیٹ کے ایک ستون کے ساتھ ہی سپردِ خاک ہیں۔
کچھ یہی صورتحال دروازہ اندر کوٹ پر پیش آئی جو اب گردشِ زمانہ سے شاہ چاند ولی دروازہ کہلاتا ہے کہ وہاں اب اسی نام کے کوئی بزرگ دفن ہیں۔ مگر ان سب کہانیوں کی شاہ تاج کہانی تو روہتاس قلعے کے شمالی دروازے کے ساتھ جڑی ہے۔
گرینڈ ٹرنک روڈ پر دینہ کے پاس سے وہ روڈ پکڑیں جو روہتاس کی طرف آتی ہے تو اسی سڑک پر یہ قلعے کا داخلی دروازہ ہے۔ اسے خواص خانی گیٹ بھی کہتے ہیں۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں سڑک کے عین درمیان ایک نسبتاً مختصر لوپروفائل دربار ہے۔ آدم کے قد سے کافی چھوٹی ایک قبر ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ یہاں حضرت سخی خواص شاہ کا سرِ مبارک دفن ہے۔ ہمارے اس سرکٹے بزرگ کی کہانی میں ایک ٹوئسٹ ہے۔ روہتاس کے قلعے کے باہر سکھوں کی فوجِ ظفر موج سے تنِ تنہا لڑتے ہمارے اس بزرگ نے اپنے مقابل حریف سِکھ سردار کے تقاضے پر بقلم خود اپنا سر کاٹ کر دان کردیا تھا،
وہ اس واسطے کہ آپ طبیعت کے سخی اور فیاض واقع ہوئے تھے۔ ایک کٹے ہوئے سر کے ساتھ دادِ شجاعت دیتا سخی خواص شاہ کا دھڑ، روایتوں میں آتا ہے کہ شمال کی سمت پرواز کرگیا تھا۔ کچھ کچھ شمال اور اس کے بعد مشرق کی سمت کہ جہاں لالہ موسیٰ کے شہر سے گرینڈ ٹرک روڈ چھوڑیں تو تھوڑا آگے جا کے خواص پور کا قصبہ آتا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔