زونیہ بچے بتاؤ تو سہی کے ہوا کیا ہے تم اس طرح سے مسلسل روۓ کیوں جا رہی ہو ؟؟؟ ” فرزانہ بیگم نے خود سے لیپٹی زونیہ سے پوچھا جو بس روۓ ہی جا رہی تھی اور اس کا رونا فرزانہ بیگم کو تکلیف دے رہا تھا “۔۔
ماما میں بہت بیوقوف ہوں مجھے خود پر غصہ آرہا ہے ماما ، میرا دل کر رہا ہے میں خود کو سزا دوں میں رونا چاہتی ہوں ماما پلیز ۔۔۔ ” زونیہ نے سیسکتے ہوئے کہا اور فرزانہ بیگم اور زیادہ پریشان ہو گئیں “۔۔
زونیہ میرا بچا پلیز ایسے نہیں روتے ، بتاؤ کیا غلطی ہوئی ہے کے خود کو سزا دینے کی باتیں کر رہی ہو ؟؟ ” فرزانہ بیگم نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا اور وہ بلکل خاموش ہو گئی ایک عکس پھر سے اسکی آنکھوں میں گھوم گیا “۔۔
کیوں روحان کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا ؟ ابھی تو تم سے جدائی کے زخم بھی نہیں بھرے تھے اور تم نے شادی کر ڈالی ، ایک لمحہ بھی نہیں سوچا تمہیں کسی اور کے لیے دولہا بنا دیکھ کر میری کیا حالت ہوگی ، کیا اتنا ہی تھا تمہارا عشق یا مجھے یہاں بھیجنے کیلیے تم نے وہ سب لفظی باتیں کی تھیں “۔۔
زونیہ کے آنسوں میں اور روانی آئ پچھلی رات وہ مصطفیٰ کو منع کر کے رو رہی تھی کہ وہ اس کی وجہ سے ہرٹ ہوا ہوگا کے رومانہ کے واٹس اپپ پر بھیجی روحان کی شادی کی تصاویروں نے اسے اندر تک توڑ پھوڑ دیا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اس طرح سے فورا شادی کر لے گا ذہن کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہو چکا تھا بس آنسو تھے جو تھم نہیں رہے تھے “۔۔
زونیہ تمہیں خدا کا واسطہ اس طرح سے رو کر مجھے پریشان مت کرو تمہیں پتہ ہے نا اگر تمہارے بابا کو ذرا بھی علم ہوا کے تم روئی ہو تو کس طرح انکی طبیعت خراب ہو جاتی ہے ؟؟؟ ” فرزانہ بیگم اس کے مسلسل رونے کے کافی پریشان ہو گئی تھیں “۔۔
ماما کل مصطفیٰ نے مجھے پروپوز کیا تھا اور میں نے اسے منع کر دیا پتہ نہیں کیوں شاید میں نے کبھی اسے اس نظر سے دیکھا بھی نہیں ، مگر مجھے احساس ہوا کے میں غلط ہوں بیوقوف ہوں جو میں نے مصطفیٰ جیسے انسان کو انکار کیا اب مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ماما ، میں کیا کروں میں نے انجانے میں اپنے بیسٹ فرینڈ کو ہرٹ کیا ہے ۔۔ ” زونیہ فرزانہ بیگم کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر بولی اور پھر ان کے گلے لگ کر رونے لگی جب کہ وہ مسکرا دیں “۔۔
زونیہ میری جان اس میں رونے والی کیا بات ہے ، مصطفیٰ آپ کا بیسٹ فرینڈ ہے ہاں تھوڑا ہرٹ ضرور ہوا ہوگا لیکن آپ ایک بار سوری کہیں گی تو فورا مان جاۓ گا اور بھاگتا ہوا یہاں پہنچ جاۓ گا اگر اسے ذرا بھی پتہ چلا کہ اس کی زونی روئی ہے ہممممم ۔۔ ” فرزانہ بیگم نے خود سے لگی زونی کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت سے کہا اور وہ اور زیادہ رو دی “۔۔
آئ ہیٹ یو روحان آئ ریلی ہیٹ ، تمہاری وجہ سے میں نے اس انسان کو انکار کیا جو واقعی میرا ایک آنسو بھی برداشت نہیں کر سکتا اور صحیح معنوں میں مجھ سے محبت کرتا ، مگر اب نہیں جب تم چند لمحوں میں مجھے بھول کر اس لڑکی سے شادی کر سکتے ہو جس سے تمہیں محبت تھی تو میں اس سے کیوں نہیں جو میرا دیوانہ ہے ؟؟؟ ” زونیہ نے آنسوں صاف کرتے ہوئے سوچا اور بیڈ کی سائیڈ سے موبائل اٹھا کر مصطفیٰ کا نمبر ڈائل کرتے لگی ، فرزانہ بیگم جان گئی تھیں اس لیے خاموشی سے اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئیں “۔۔
ہیلو ، گڈ مارننگ زونی ۔۔ آج کیسے صبح صبح ہماری یاد آئ ۔۔ ” تیسری ہی بیل پر مصطفیٰ کی محبت سے بھر پور آواز زونی کو سنائی دی اس نے حیرت سے موبائل کو دیکھا ، کیا یہ وہی ہے جیسے رات کو اس نے صاف انکار کردیا تھا اور اس کی جانب سے ناراضگی ظاہر کرنے کے بجائے وہ نارمل لہجے میں بول رہا تھا “۔۔
زونی ۔۔۔ لائن پر ہو ؟؟ ” مصطفیٰ کی پھر آتی آواز پر وہ چونکی اور ایک آنسو پھر بغاوت کر گیا “۔۔
مص ۔۔ مصطفیٰ ۔۔۔ ” وہ سیسک کر بولی اور مصطفیٰ کو حیرت ہوئی وہ رو رہی تھی “۔۔
کیا بات ہے زونی ، تم رو کیوں رہی ہو ؟؟ کچھ حق ہے کیا ؟؟ ” مصطفیٰ پریشانی سے بولا “۔۔
مص ۔۔۔ مصطفیٰ ۔۔ میرے ۔۔ میرے پاس آجاؤ ۔۔۔ پلیز ۔۔ ” وہ روتے ہوئے مشکل سے الفاظ کو جوڑ پائی اور اس کا وہ لہجہ مصطفیٰ کو واقعی پریشان کر گیا تھا “۔۔
میں ابھی آیا ، تم نے رونا نہیں ہے ہاں بس 5 مینٹ میں آیا ۔۔ ” مصطفیٰ نے کہتے ہی کال کٹ کر دی اور زونی بیڈ پر لیٹتی گئی آنسو اب بھی رواں تھے “۔۔
________
صبح کی روشنی ہر جانب پھیل رہی تھی ، سورج کی کرنیں پردے کی اووٹ سے بھی کمرے میں داخل ہو رہی تھیں ، وہ ایک روشن صبح تھی جب عروج کی آنکھ سورج کی ایک شرارتی کرن سے کھلی ۔۔ اس نے آدھ کھلی آنکھ سے دیکھا تو اب بھی وہ روحان کی مظبوط باہوں میں قید تھی ایک خوبصورت سی مسکراہٹ اس کے لبوں کو ایسے چھوئی کے کوئی دیکھ لیتا تو ممکن تھا نظر لگ جانی تھی اس نے بغیر کوئی حرکت کئے فرصت سے روحان کو دیکھا جو اس کے سر کا تاج تھا اس کا محرم جس نے اس بےنام لڑکی کو نام دیا تھا ایک دلدل سے نکال کر عزت کی زندگی دی تھی ، جس نے گزری رات اسے اتنی محبت دی کے خود پر ہوئے ہر سیتم کو بھول گئی بس کچھ یاد تھا تو یہ کے ایک وہ اکیلی نہیں ہے ۔۔
تم سے جڑی تو جانا عشق کا سمندر کتنا گہرا ہوتا ہے روحان ۔۔ ” اس نے بےاختیار اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا اور پھر آہستہ سے اس کی گرفت سے آزاد ہوتی وہ واشروم کی جانب بڑھ گئی ، وہ نہا کر آئ تب بھی وہ اسی طرح سو رہا تھا “۔۔
میری ساری نیند خراب کر کے بڑے مزے سے سو رہا ہے نا تو ؟؟ ابھی بتاتی ہوں ۔۔ ” تتلی نے معنی خیز سی مسکراہٹ چہرے پر سجا لی اور چلتی ہوئی اس کے سر پر پہنچ گئی پھر جھک کر اپنے گیلے بالوں سے اس کا چہرہ گدگدانے لگی اور روحان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور دیکھا وہ ہنس ہنس کے بےحال ہو رہی تھی “۔۔
تجھے صبح صبح مستی کرنی ہے ؟؟ ” روحان منہ بنا کر بولا “۔۔
مجھے تو صبح دوپہر شام رات ہر لمحہ مستی کرنی ہے ۔۔ ” وہ انگلی پر گنتے ہوئے بولی اور روحان نے پہلے غصے سے اسے گھورا پھر کھینچ کر بیڈ پر بیٹھا دیا “۔۔
اوکے میں بھی ہر ٹائم تیار ہوں نو پرابلم ۔۔ ” روحان نے معنی خیز لہجے میں کہا اور اس کے گیلے بالوں کو گردن کی ایک جانب کرتے ہوئے اسکی سفید و گیلی گردن پر اپنے لب رکھ دیئے “۔۔
روحان چھوڑ مجھے ہم پہلے ہی لیٹ ہیں ، چھن چھن کیا کہیں گی انہوں نے آج ہمیں نئے گھر بھی تو لے کر جانا ہے نا ۔۔ ” تتلی نے اسے پرے کرنے کی کوشش کی مگر اس نے تو جیسے سنا بھی نا تھا “۔۔
ہااااااا چھن چھن آپ ؟؟؟ ” تتلی اس انداز سے بولی کے روحان فورا پیچھے کو ہوا اور دروازے کی جانب دیکھا جہاں کوئی نہیں تھا اس سے پہلے وہ تتلی کو دوبارہ اپنی گرفت میں لیتا وہ قہقے لگاتی بیڈ سے اٹھی اور دروازہ کھولتے ہوئے باہر بھاگ گئی ۔۔۔
فکر مت کر آنا یہیں ہے تو نے ۔۔ ” روحان نے اونچی آواز میں کہا اور ہنستے ہوئے واشروم کی جانب بڑھ گیا “۔۔
_________
اسلام علیکم خالہ جان ۔۔ ” مصطفیٰ نے اندر آتے ہوئے سلام پیش کیا “۔۔
وعلیکم السلام بچے کیسے ہو ۔۔ ” فرزانہ بیگم نے محبت سے پوچھا “۔۔
ٹھیک ہوں خالہ جان زونی کہاں ہے ؟؟ ” مصطفیٰ ابھی تک پریشان تھا “۔۔
بیٹا وہ اپنے روم میں ہے جب سے روۓ جا رہی ہے ۔۔ ” فرزانہ بیگم نے پریشان ہو کر بتایا تو وہ فورا زونی کے کمرے کی جانب بڑھ گیا جہاں وہ بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھی تھی اور چھت کو گھور رہی تھی آنکھوں سے آنسو اب بھی بہے جا رہے تھے مصطفیٰ بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور وہیں نیچے بیٹھ گیا “۔۔
زونی ۔۔۔ زونی کیا بات ہے ۔۔ تم تم کیوں رو رہی ہو ؟؟ کیا ہوا ہے زونی مجھے بتاؤ ، دیکھو میں آگیا ہوں بتاؤ مجھے کس نے کچھ کہا ہے کیا ؟؟؟ مصطفیٰ پریشانی سے بولا اور زونی اس سے لیپٹ گئی اور بیلک بیلک کر روئی اور روتی ہی چلی گئی ، مصطفیٰ نے اسے رونے دیا وہ جانتا تھا جب اس کا دل ہلکا ہوگا تو وہ خود ہی بولنا شروع کرے گی “۔۔
اب بتاؤ کیا بات ہے ؟؟؟ ” وہ رو رو کر تھک چکی تھی اور اس کے کندھے پر سر رکھے نیڈھال سی ہو گئی تھی “۔۔
مصطفیٰ مجھے ۔۔ مجھے محبت ہو گئی تھی ، ایک ایسے انسان سے جس نے مجھ سے کبھی محبت کی ہی نہیں تھی ، میں اسے جتنا دل سے اتارنا چاہتی وہ اس سے کئی زیادہ میرے دل میں اترا جا رہا تھا ۔۔ وہ بولتے بولتے سیسکی اور مصطفیٰ بغیر کسی تاثر کے اسے سن رہا تھا “۔۔
تم نے جب مجھے پروپوز کیا اس وقت تک بھی وہ میرے دل و دماغ پر حاوی تھا اور یہی وجہ تھی کہ میں تمہیں انکار کر بیٹھی ، مصطفیٰ میں تمہیں بلکل بھی ہرٹ نہیں کرتا چاہتی تھی قسم سے لو ۔۔ ” زونیہ نے تڑپ کر اسکی جانب دیکھا اور وہ نظر جھکا گیا “۔۔
مصطفیٰ مجھ سے خفا ہو کیا ؟؟؟ ” زونیہ نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس نے حیرت انگیز طور پر زونی کو دیکھا “۔۔
مجھے مار لو مصطفیٰ ، مجھ سے لڑ لو مگر مجھ سے نظریں تو مت پھیرو ۔۔ ” زونیہ بھیگی آواز میں بولی آنکھیں پھر برس پڑی تھیں “۔۔
مصطفیٰ اپنی زونی سے کبھی خفا نہیں ہو سکتا کبھی نظریں نہیں پھیر سکتا ، اور محبت پر دل پر کسی کا زور نہیں ہوتا زونی جس طرح میں خود کو تم سے محبت کرنے سے روک نہیں پایا یہ جانے بغیر کے تمہارے دل میں کوئی اور ہے اسی طرح تم بھی خود کو نہیں روک پائی ہوگی ۔۔ ” مصطفیٰ نے محبت سے اس کے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا “۔۔
مصطفیٰ روحان نے شادی کر لی ، اور اپنی شادی کی تصویر اس نے رومانہ کے ذرئعے مجھے بھیج دیں ، وہ ظالم ہے مصطفیٰ بہت برا ہے وہ ۔۔ ” زونیہ نے دوبارہ سے رونا شروع کر دیا اور مصطفیٰ سے اس کو روتا ہوا اور نہیں دیکھا گیا اسے اپنے ساتھ لگا لیا “۔۔۔
وہ ظالم نہیں ہے زونی ، اسے تمہاری پرواہ ہے ، وہ چاہتا ہے کہ اس کے نام پر تم اپنی زندگی برباد مت کرو بلکے جس طرح وہ زندگی میں آگۓ بڑھا ہے تم بھی موو آن کرو ۔۔ ” مصطفیٰ نے اس کے بال سہلاتے ہوئے اسے پیار سے سمجھایا “۔۔
مصطفیٰ ۔۔۔ ” وہ آس سے بولی “۔۔
جی میری زونی ۔۔ ” وہ محبت سے بولا “۔۔
کیا تم ۔۔ تم مجھے ساری زندگی ۔۔ یوں ہی رونے کیلیے اپنا کندھا فراہم کرو گے ؟؟ ویل بی آ پروموٹ آاور ریلیشن پلیز ۔۔۔ ” وہ بہت آس لیئے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی جس پر مصطفیٰ مسکرا دیا ، یہ بھی اظہار کا ایک الگ طریقہ تھا “۔۔
جب ریلیشن شیپ کی پروموشن ہوگی نا میری جان تو نا کبھی ان آنکھوں میں آنسو آئیں گے نا کبھی رونے کیلیے کاندھا چاہئے ہوگا ہممممم ۔۔ ” مصطفیٰ نے محبت سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور وہ پھر سے اس کے سینے سے جا لگی وہ ان لمحوں میں اسے رومانہ کی بات یاد آئ “۔۔
زونی تمہیں روحان خود کیلیے بہتر لگ رہا ہے تو ضروری نہیں وہ بہتر ہو بھی ہو سکتا ہے اللہ نے تمہارے لیے بہترین چن رکھا ہو ؟؟ اور اگر تم روحان کو خدا سے مانگ رہی ہو اور وہ تمہیں حاصل نہیں تو رو تو مت ہو سکتا ہے تمہیں خدا سے کسی نے اس سے بھی زیادہ شیدت سے مانگا ہو جو در حقیقت تمہارے لیے بہترین ہو ؟؟ ” رومانہ کی باتوں کا مطلب آج سمجھ آرہا تھا اس نے مصطفیٰ کو اور مظبوطی سے تھام لیا اور وہ اس کی اس حرکت پر مسکرا دیا اور اسکی مانگ پر محبت سے اپنے لب رکھ دیئے “۔۔۔
_______
افففف روحان یہ تم چاۓ بنا رہے ہو یا پاۓ ؟؟؟ ” عروج نے غصے سے اس کے سر پر آتے ہوئے کہا جو بڑے مزے سے چاۓ کپ میں اونڈیل رہا تھا “۔۔
میری جان چاۓ بنا رہا ہوں ، اور تم یہاں کیوں آئ مشال کہاں ہے ؟؟ ” روحان فکرمندی سے بولا “۔۔
سلا کر آرہی ہوں ، آدھا گھنٹہ گزر گیا وہ ماہرانی سو گئی مگر تم سے ابھی تک چاۓ نہیں بنی ؟؟ حد ہے ویسے ۔۔ کبھی کچن کی شکل دیکھی ہو تو پتہ چلے جا کام کیسے کرتے ہیں دیکھو سب پھیلا دیا تم نے یار ۔۔ ” عروج نے شیلف پر بکھرا سامان سمیٹتے ہوئے کہا اور روحان ہنس دیا “۔۔
اب ہنسو نہیں سمجھے ورنہ یہ سب تمہیں سیٹ کرنا پڑے گا ۔۔ ” عروج نے گھور کر دیکھتے ہوئے کہا اور وہ چاۓ کا کپ تھامے شیلف پر چڑھ بیٹھا ، عروج دودھ کو فریج میں رکھ کر مڑی ہی تھی کہ موبائل بج اٹھا اس نے دیکھا پاکستان سے چھن چھن کی کال تھی اس نے مسکراتے ہوئے کال پیک کی “۔۔۔
ہیلو اسلام علیکم چھن چھن کسی ہیں آپ ؟؟ ” وہ محبت سے بولی ، اسی کی بدولت ہی تو اسے روحان ملا تھا “۔۔
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں تو بتا ؟؟ کسی ہے میری بہو ۔۔ ” چھن چھن بھی اسی انداز میں بولیں “۔۔
بالکل ٹھیک ہوں ، تارا کسی ہے اور گرو جی ٹھیک ہیں ؟؟ ” وہ سب کا حال پوچھ رہی تھی “۔۔
سب ٹھیک ہیں ، تو بتا روحان کیسا ہے اور میری پوتی مشال کسی ہے ؟؟ ” وہ بےحد محبت سے بولیں تو عروج ہنس دی ، روحان چاۓ کے سیپ لیتے ہوئے بغور اسے دیکھے جا رہا تھا “۔۔
چھن چھن آپ کی شیطان پوتی ابھی ابھی سوئی ہے ، ماما ماما کر کے مجھے ہی لوری دے رہی تھی شکر خدا کا سو گئی مجال ہے کوئی کام کرنے دے ۔۔ ” عروج نے ہنستے ہوئے اپنی 2 سالہ بیٹی کی شکایات کی جس پر چھن چھن بھی ہنس دیں ، روحان بھی چاۓ کا کپ رکھتے ہوئے نیچے اتر کر اس کے قریب آیا “۔۔
اور روحان کہاں ہے تیرے پاس ہے یا کہیں ادھر ادھر ہے ۔۔ ” چھن چھن نے ہنستے ہوئے کہا وہ جانتی تھی اگر مشال سو رہی ہے تو روحان اس کے ساتھ ہی ہوگا “۔۔
نہیں چھن چھن روحان بھی مشال کے ساتھ سو گیا ہے ۔۔ ” عروج نے روحان کو گردن موڑ کر دیکھتے ہوئے کہا جو اسکی کمر پر اپنے بازؤں کی گرفت مظبوط کر چکا تھا “۔۔
اچھا اچھا ، چل ٹھیک ہے پھر رکھتی ہوں روحان اور مشال دونوں کو پیار دینا ٹھیک ہے ۔۔ ” چھن چھن نے پیار سے کہا اور عروج نے جی اچھا کہتے ہوئے خدا حافظ کیا “۔۔
جھوٹ کیوں بولا ؟؟؟ ” روحان نے اسے اور سختی سے بینچتے ہوئے کہا “۔۔
تو کیا کہتی چھن چھن آپ کا روحان مجھے چیپکلی کی طرح چیپک گیا ہے ؟؟ ” وہ شرارت سے بولی اور روحان نے گرفت اور مظبوط کی “۔۔
افففف ظالم جنگلی چھوڑو مجھے ، سانس ہی نا بند ہو جاۓ میری ۔۔ ” عروج نے اسے پرے کرتے ہوئے کہا جو اب اس کی گردن سے لگے بالوں کو بہت محبت سے آگۓ کر رہا تھا “۔۔
میرے جنگلی پن سے میری جان بہت اچھے سے واقف ہے ، یہ تو بس تھوڑی سی محبت ہے ہے ناں ؟؟ ” وہ اپنی ناک اسکی گردن پر مس کرتے ہوئے بولا اور وہ ہنس دی “۔۔
اس تھوڑی سی محبت کو یہیں سے سٹارٹ کریں گے پہلے چلو میرے ساتھ ، آج ویک اینڈ ہے اور تم نے میرے ساتھ بہت سارے کام کروانے ہیں لاسٹ ٹائم پرامیس کیا تھا ۔۔ ” عروج اس سے فاصلہ بڑھاتے ہوئے اوپن کچن سے باہر چلی گئی اور وہ بھی منہ بناتا اس کے پیچھے ہو لیا “۔۔
دنیا کی ساری بیویاں ویک اینڈ کا انتظار کرتی ہیں کہ شوہر گھر ہوں گے تو کچھ قربت کے لمحے ملے گیں ادھر تو سین ہی چینج ہے یار ، بس کام ہی کرواتی رہنا ۔۔ ” روحان روہانسی ہوا اور عروج نے ہنسی دبائی “۔۔
تھوڑا سا تو کام ہے اتنے مستیاں کیوں کر رہے ہو پھر ہو گا سارا ٹائم ہمارے پاس ۔۔۔ ” وہ کوشن کے کوور اتارتے ہوئے بولی “۔۔
اور وہ جو اٹھ جاۓ گی تمہاری بیٹی پھر کیا کرو گی ۔۔ ” روحان ایسے بولا جیسے مشال اس کی کچھ لگتی ہی نا ہو اور عروج کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا “۔۔
تمہاری بھی بیٹی ہے وہ سمجھے ۔۔ بس ہر ٹائم رومینس کا بھوت سوار ہے سر پر ۔۔ ” عروج نے خفا انداز میں کہا تو وہ بل کھاتا رہ گیا جس پر عروج نے بمشکل اپنی ہنسی روکی “۔۔
_______
کیا ہو گیا ہے یار زونی اب بتا بھی دو کیوں روۓ جا رہی ہو ؟؟؟ ” مصطفیٰ بےچین سا بولا جو پچھلے ایک گھنٹے سے بغیر کچھ بتائے رو رہی تھی ، نغمہ بیگم کے بتانے پر وہ آفس کا سارا کام چھوڑ کر گھر آچکا تھا “۔۔
سر میں درد ہے ؟؟؟ ” مصطفیٰ نے پریشانی سے پوچھا جس پر اس نے نفی کی “۔۔
کمر میں درد ہے ؟؟ ” وہ پھر سے سوچتے ہوئے بولا اور زونی نے پھر نفی کی “۔۔
بھوک لگ رہی ہے کچھ کھاؤ گی ؟؟ ” مصطفیٰ پھر بولا اور زونی نے پھر نفی کی “۔۔
بےبی پھر کیا ہوا ہے وجہ ہی بتا دو رونے کی ، دیکھو مجھے کتنی ٹینشن ہو رہی ہے ، ایسی حالت میں رونا بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے یار بچے پر برا اثر ہوگا ۔۔ ” مصطفیٰ نے زیچ ہونے کے بعد بھی پیار سے سمجھایا “۔۔
مصطفیٰ مجھے رونے دیں نا پلیز ۔۔ بس بچے کی فکر ہے جو ابھی آیا بھی نہیں ہے میری کوئی پرواہ نہیں ہے “زونی نے زیادہ روتے ہوئے کہا اور مصطفیٰ نے اپنا سر تھام لیا “۔۔
اچھا بابا رو لو مگر وجہ تو بتا دو ، دیکھو ماما بابا سوہا سب باہر پریشان ہو رہے ہیں ، مجھے آفس سے کال کر کے بلایا ہے انہوں نے کے بھئی تمہاری بیگم تو روۓ جا رہی ہے کسی کو وجہ تک نہیں بتا رہی ؟؟ اب یہ تو فیئر نہیں ہے نا بولو ہے کہ نہیں ؟؟ ” مصطفیٰ نے پھر اسے سمجھاتے ہوئے کہا جس پر وہ خود دیر کو خاموش ہوئی “۔۔
مصطفیٰ ۔۔۔ ” وہ آنسوں صاف کرتے ہوئے بچوں کی سی بولی “۔۔
جی مصطفیٰ کی زونی ۔۔ ” وہ اس کے چہرے سے آنسوں صاف کرتے ہوئے بولا “۔۔
پتہ ہے ہماری شادی کو دو سال ہونے والے ہیں اور اس دوران ایک بار بھی تم نے مجھے رونے نہیں دیا ، کیوںکے تم نے وعدہ کیا تھا مگر اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے تم نے میرا نقصان کر دیا ۔۔ ” وہ پھر رونے لگی جب کہ مصطفیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا وہ سمجھ نا پایا اسکی بات کا مطلب “۔۔
نقصان ؟؟؟ ” کیا بات ہے زونی کھل کر بتاؤ نا ؟؟ ” مصطفیٰ نے پھر اس گول مٹول سی زونیہ کے آنسوں صاف کرتے ہوئے پیار سے کہا ، انتہا ہی اس کے ضبط کی “۔۔
لڑکیوں کی باتیں پیج پر دیکھا ہے میں نے کل ، اس میں لکھا تھا کہ جو آنکھ روتی نہیں ہے اسے زنگ لگ جاتا ہے اور پھر بہت جلد بینائی بھی رخصت ہو جاتی ہے میں بہت ڈر گئی ہوں مصطفیٰ اب میں جی بھر کر روؤں گی اور دو سال کی قصر نکالؤں گی ہاں ۔۔ ” زونی نے ساری بات بتاتے ہوئے پھر سے رونا شروع کر دیا اور مصطفیٰ بےہوش ہوتے ہوئے رہ گیا “۔۔
اے میرے مالک یہ بچی تو پہلے سمبھال لیتا تو ایک اور بچا دینے کی سوچ بیٹھا ہے ، میں نے بہت جلد پاگل ہو جانا ہے میرے مالک یا تو اسے عقل دے یا پھر مجھے صبر دے دے ۔۔ ” مصطفیٰ نے اپر دیکھتے ہوئے دوہائیاں دیں اور پھر روتی ہوئی زونیہ کو دیکھا جو لک بھگ ایک ٹیشو پیپر باکس ختم کر چکی تھی “۔۔
________ The End ________
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...