ارے بھائی ،میں اس پر بہت خفیف اور سبک سار ہوں کہ ہفتہ بھر کی مہلت مانگی تھی اور کئی ہفتے ہو لیے ۔ تمہارے ناول ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ پرمضمون لکھنے کا وعدہ کیا تھا اوراپنی کوشش میں ناکام ہوکریہ خط لکھنے بیٹھ گیا ہوں، تو یوں ہے کہ یہ حرکت بھی میری ندامت بڑھا رہی ہے ۔ خیر یہ خفت اور ندامت گوارا ہو جائے گی اگر میں اس سارے معاملہ کا جواز ڈھنگ سے تمہیں سجھانے میں کامیاب ہوگیا اور مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ اپنے بھائی جیسے دوست کی محبت مجھے ہمیشہ میسر رہے گی۔
عین آغاز ہی میں یہ جو میں معذرت اور اپنے اندیشوں کو لے کر بیٹھ گیا ہوں تو اس کا سبب ذرا بعد میں بتائوں گا پہلے یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں واقعی ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ کے حوالے سے ایک مضمون لکھنا چاہتا تھا ۔ جب میں یہ ناول پڑھ رہا تھا تو اس کا نئی حسیات سے جڑا ہوا بیانیہ میرا جی لبھا رہا تھا۔ چند کرداروں کی اس کی کہانی کی مختلف حصوں میں تقسیم، واقعات کی کترنیں بنا کرانہیں یوں جوڑجانا کہ وہ سندھی رلی کی سی دھج دکھانے لگیں، بھلا لگا ۔ پھر واقعات کا چلنا، کٹ کٹ کر اور رک رک کر آگے بڑھنا، مگر یوں کہ کہانی رکی ہوئی نہ لگے اور ایک ایسے تجسس اور ابال کو قاری کے بھیتر کا حصہ بنا بھی دے جو بڑے اہتمام سے متن کے تانے بانے میں گوندھا گیا تھا۔ رگوں میں تہذیبی تال پر بہے چلے جانے کے وتیرے پر قائم خون کی گردش کو بڑھانے والا،اپنے پرکھوں سے سیکھی ہوئی اور سماج کی سدھائی ہوئی روایات اور تجربات کی امی جمی پر چرکے لگانے والا ، اور آخر میں ایک دکھ ، اذیت اور مایوسی کے بور برادے میں لتھڑی ہوئی مایوسی کی یخ برف کولہو کے کھولائو میں ڈال دینے والا۔ تو یوں ہے کہ میں نے اسے چند نشستوں میں پڑھ ڈالا تھا ۔
ناول پڑھ لینے کے بعد بھی میرا مصمم ارادہ تھا کہ اس پر ضرور لکھوں گا ، کچھ الجھنیں تھیں جو پڑھ کر اٹھنے پر مجھے الجھا رہی تھیں ، مگر میرا خیال تھا کہ مضمون میں ان کا ذکر بھی کردوں گا کہ ان کا ذکر فنی اعتبار سے اہم تھا، مگرگزشتہ ہفتہ سے میں اس پر مضمون لکھنے کے لیے کئی بار ’’کی بورڈ‘‘ پر بیٹھا ہوں مگر ہر بار وہ الجھنیں جو پہلی خواندگی پر ضمنی لگی تھیں باقاعدہ الجھانے لگیں اور مجھے خدشہ ہونے لگا کہ جیسے اس مضمون کے لکھنے سے میں ایک دوست بھی کھو دوں گا لہذا میں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور تاکہ پہلے تم سے بات کرکے اپنی الجھنیں سلجھا لوں ۔
یہ جو میں نے ایک اور دوست کے کھو دینے کے خدشے کا اظہارکیا ہے تو یوں ہے کہ یہ بے بنیاد نہیں ہے ۔ بتاتا چلوں کہ میں نے بہت پہلے مظہرالاسلام کے ناول ’’ محبت مردہ پھولوں کی سمفنی‘‘ پر مضمون لکھتے ہوئے ،اس کی کہانی اور اسلوب کی بابت چند سوالات اٹھادیئے تھے اور آج تک ایک بہت اچھے لکھنے والے کی ناراضگی بھگت رہا ہوں ۔ اب رہا تمہارا معاملہ تو یوں ہے کہ میں ہمیشہ تمہاری تحریروں کی طرف متوجہ رہا ہوں یہی سبب ہے کہ اپنی کتاب ’’اردو افسانہ :صورت و معنی‘‘ میں لکھ کر اس کا اعتراف کیا تھا ۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کتاب تمہاری نظر سے گزری یا نہیں ، لہذا جو میں نے کچھ سال پہلے لکھا ، ہو بہ ہو نقل کر رہا ہوں :
’’ دہلی والے مشرف عالم ذوقی کا کہنا ہے کہ گودھرا سے گجرات تک اور امریکہ سے عراق تک … تاریخ صرف اپنی بربادی کے قصے ہی رقم کرتی ہے۔ ذوقی نے ان قصوں کو اپنی تخلیقی اپج سے اَفسانے کے بھید میں بدل دیا ہے ۔ وہ کہتا ہے ‘ یہ بے رحم اور سفاک تاریخ اپنے آپ کو ڈھنگ سے دہرا بھی نہیں سکتی۔ ہاں ‘وہ سچ کہتا ہے‘ تبھی تو تاریخ اپنے ہی ملبے تلے دبی آخری سانسیں گن رہی ہے ۔ ذوقی نے یوں کیا ہے کہ وہ منصب جو تاریخ سے نباہنا ممکن نہ ہوپایا ‘فکشن کو سونپ دیا ہے۔ وُہ ہر نئے ظلم‘ نئے زخم اورگزرتے وقت کے ہرنئے پلٹے کواپنی کہانی میں جگہ دینے کا حوصلہ اور سلیقہ رکھتا ہے ۔ یوں اس کے ہاں سچ فکش ہو گیا ہے اور فکشن سچ ۔ عصری حسیت کو تخلیقی سطح پر برتتے ہوئے ذوقی کا جو بیانیہ متشکل ہوتا ہے اس میں صوت اور معنی کا اسراع تیز اور اس کا وار کاٹ دار ہے ۔ عصری سیاسی سماجی صورت حال‘ تیزی سے معدوم ہوتا تہذیبی منظر نامہ‘ نئی ثقافتی یلغار‘ جنس اور میڈیا کی زد میں آکر بنتا بگڑتا آدمی‘ غرض اس کے لیے کوئی بھی علاقہ ممنوعہ نہیں ہے ۔ ایک نظر اس کے افسانوں کی کتابوںکے ناموں پر ہی ڈال لیں‘آپ کو اسی میں اس کے بنیادی تخلیقی سروکاروں کا اندازہ ہوجائے گا: ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘،’’ منڈی‘‘، ’’غلام بخش‘‘،’’ صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘،’’ فرشتے بھی مرتے ہیں‘‘ اور’’ لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘۔ ‘‘
(اردو افسانہ :صورت معنی:محمد حمید شاہد)
اگرچہ میں نے منٹو کے حوالے سے ایک مضمون(سورکہیں کے:پاکستان کے) میں تمہارے خیالات کو تسلیم نہیں کیا تھا کہ میں منٹو کے افسانے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے متن اور بنت سے بہتے اچھلتے معنی کو سامنے رکھ کر بات کررہا تھا یا پھراس باطنی اتھل پتھل کونشان زد کر رہا تھا جو اس کے ادھر سے اِدھر اٹھ آنے کا جواز ہو گئے تھے اور تم منٹو کی تحریروں کے مجموعی مزاج اور مروج تفہیم کی بات کر رہے تھے ۔ خیر اس طرح کا اختلاف لطف دیتا ہے، لہذا مجھے یقین تھا تم نے برا نہ منایا ہوگا ۔ تبھی تو تمہاری طرف سے ہر بار محبت بھرے سندیسے آتے رہے ۔ اور میں بھی ایسے اختلافات کے باوجود ،تمہاری طرف متوجہ رہا ، تمہاری ہر تحریر کونظر پڑتے ہی خود کو پڑھنے پر مائل پاتا رہا ۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ہمارا رشتہ اور تعلق تخلیقی عمل سے اپنی تمامتر سچائیوں کے ساتھ جڑے ہوئے افراد کا رہا ہے۔ ایسی مثالی صورت حال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں اپنی بات ، کرتے ہوئے اس طرح کی تمہیدنہ باندھتا ، یا پھر جو میں نے لکھنا تھا ، صاف صاف مضمون میں لکھ دیتا مگر میں نے کہا نا کہ میں ایک اور سچے فکشن نگار کی محبت نہیں کھونا چاہتا۔ تمہیں کھو دینے کا وسوسہ میرے من میں ، تمہاری میلز پڑھنے کے بعد آیا تھا لہذا مضمون کی بہ جائے یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ہوں ۔ پہلے تمہارا ایک مراسلہ ایک نظر پھر دیکھ لیتے ہیں:
ــ’’ناول ممکن ہے، آپ نے یا آصف فرخی صاحب نے پڑھ لیا ہو۔ ہندوستان کی ادبی جمہوریت کا تقاضہ ہے… کہ اگر آپ کسی گروپ کے ساتھ ہیں… تو گفتگو کے دروازے کھلیں گے ۔۔ میں نے گروپ سے زندگی بھر اختلاف کیا ۔۔۔ میرا سوال ہے۔۔ کیا کسی کے زیر اثرناول کو چھوٹا یا بڑا کہا جا سکتا ہے؟۔۔[ان کے] بغیر مکالموں کی زندگی نہیں گزر سکتی۔۔۔ناول نہیں لکھی جا سکتی ۔۔ادبی بازی گری صابن کے جھاگ کی طرح ہے ۔۔۔ جو کسی ناول کو وقتی شہرت تو دے سکتی ہے ، لیکن زندگی نہیں دے سکتی ۔۔۔ کیا فاروقی صاحب کے نظریے سے الگ پاکستانی ادیبوں کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ، جہاں اچھے ادب کو فروغ دیا جاسکے ؟ آصف فرخی نے چھ سال قبل میری ناول ’ ’پوکے مان کی دنیا‘‘کی اشاعت کا اعلان کیا تھا ۔۔’’دنیا زاد‘‘ میں اشتہار بھی دئے …اور کتاب شائع نہیں کی…یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ یہ کام بھی فاروقی کے اشاروں پر ہوا ۔ بہ ہر کیف میرا تازہ ناول اب تک آپ پڑھ چکے ہوںگے۔ میں آپ کو کسی مخصوص خیمے سے وابستہ نہیں پاتا[؟] ۔ آپ کی رائے میرے لیے مقدم ہے۔‘‘
(مشرف عالم ذوقی بہ نام محمد حمید شاہد : فیس بک میل باکس ، ۲۹ نومبر ۲۰۱۱)
مجھے جب تمہارا یہ مراسلہ ملا تو سچ کہتے ہوئے بہت دکھ ہوا تھا ، میں نے تمہیں ترت اس کا اظہار جوابی پیغام میں کردیا تھا ۔ مزید یہ بھی کیا تھا کہ میں ادب کا طالب علم ہوں ، لگتا ہے تم نے مجھے اب تک ڈھنگ سے نہیں پڑھا ورنہ جس طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے ہو، نہ کرتے۔ مجھے وضاحت کرنا پڑی تھی کہ اس طرح کے مباحث اور جھگڑوں میں الجھنے کو نہ تو میں پسند کرتا ہوں نہ چاہتا ہوں کہ ادبی سیاست کو کوئی میرے ادبی مسلک سے جوڑ کر دیکھنے کی سعی کرے اور یہ کہ میرا یقین ہے کہ ایک اعلی ادبی کاوش کو کسی ادبی سیاست کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آصف فرخی کا ناول میں نے کراچی بھجوا دیا اس کی تمہیں اطلاع دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس پر ردعمل کا خود ذمہ دارہے۔ تب تک میں نے مکمل ناول نہیں پڑھا تھا تاہم میں نے وعدہ کیا تھا کہ جوں ہی مکمل کرلوں گاتم سے ضرور بات کروں گا۔ اسی نوٹ میں، میں نے بدگمانیوں سے بچنے کا مشورہ بھی دیا تھا اور کہا تھا کہ جب آپ کسی کو یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی رائے کسی کے کہنے پر بنائی تو اس فرد کے بارے ایک طرح عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا جارہا ہوتا ہے ۔ آخر میں میرا سوال تھا کہ ’’ جس شخص پراعتماد ہی نہ ہو اس کو کتاب بھیجنا اور اس سے کوئی امید باندھنے کے کیا معنی ہو سکتے ہیں؟‘‘
میرے اس ردعمل پر ۲۹ نومبر ۲۰۱۱ والی میل میں وضاحت آگئی :
’’میرے بھائی ، یہ باتیں آپ کے لیے نہیں تھیں، لیکن ان باتوں کا ذکر یوں ضروری ہوگیا تھا کہ آپ ہندوستان میں ہونے والی ادبی سیاست سے واقف نہیں ۔ میں آپ کی تحریروں کو پسند کرتا نہ کرتا تو پاکستان میں سب سے پہلے آپ کا نام ہی زبان پر آتا ؟ مجھے آصف سے شکایت رہی تھی ، ہے ، بہر کیف میری باتوں سے تکلیف پہنچی ، معافی کا خوستگار ہوں ۔ آپ ادیب ہیں ۔ آپ جانتے ہیں ،خون جگر کے استعمال کے بعد ایک تخلیق وجود میں آتی ہے۔ فکشن پر لکھا ہوا کوئی بھی میرا مضمون آپ کے ذکر کے بغیر ممکن نہیں تھا ۔ آپ کو یہ دکھتی باتیں لکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ کچھ آگ یہاں بھی لگی ہے ۔ کسی سے تو شیئر کرنا تھا ۔ بس آپ سے کیا۔ ایک بار پھر معافی، ان لفظوں کے لیے ، جنہوں نے آپ کو تکلیف دی ۔ شکریہ‘‘
مجھے تسلی ہوئی اور میں نے ۳۰ نومبر کو اپنے جواب میں کہا :
’’شکریہ بھائی ، ہمیں عمداً اور کوشش کرکے ایسے مباحث سے الگ رہنا چاہئے جن میں افراد کے رویے زیر بحث آ رہے ہوں اور ان مباحث سے جڑنا چاہیئے جہاں ادب کے حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے ہوں۔‘‘
میں نے ایک بار پھر کہا کہ ناول کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا۔ بس مجھے مطالعہ مکمل کرنے دو۔
میں نے مطالعہ مکمل کر لیا ۔اب خود ہی کہو کہ میں اگر کوئی اختلافی بات کرتا ہوں اور وہ کہیں چھپ جاتی ہے تو کیا اپنا دوست نہ کھو دوں گا ، جب کہ میں ایسا نہیں چاہتا ہوں ۔ تاہم میں نے وعدہ کر رکھا ہے کہ اس ناول پر بات ضرور کروں گا ، تو یوں ہے کہ یہ بات اس خط کے ذریعہ بھی تو ہو سکتی ہے۔
اچھا ایک بار پھر ناول کی طرف آنا چاہتا ہوں ۔ مگر مجھے اپنی کتاب ’’ اردو افسانہ : صورت و معنی ‘‘ میں تمہارے تخلیقی چلن کو واضح کر نے کے لیے حوالہ کے طور پر دیا جانے والا افسانہ اور اس کا اقتباس یاد آرہا ہے ، اپنی بات کہنے سے پہلے وہ درج کر رہا ہوں : ۔
’’ سناٹاہنستا ہے…’دیکھو‘ اپنے آپ
کو غور سے دیکھو ۔ تم ڈر گئے تھے ۔ کیوں کہ…‘
اندر کا جملہ ایک انتہائی فحش سا جملہ اچھالگتا ہے…
’تم اسے عموماًایسے لباسوں میں نہیں دیکھ پاتے۔ ہے ناsssیار‘ وہ کانونٹ میں پڑھتی ہے۔ ‘
سناٹا قہقہہ لگاتا ہے ۔
’کانونٹ یا نئے زمانے کی لڑکیاں اب آنچل یا اوڑھنی استعمال نہیں کرتیں۔ وہ اپنے بدن پر کپڑوں کا زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتیں۔ تو کیا ہوا۔ وہ تمہاری بیٹی ہے۔ ‘
’بس ڈر جاتا ہوں۔ ‘
’لیکن کیوں؟‘‘
لمبی لمبی سانس لیتا ہوں۔ ’کہہ نہیں سکتا۔ ‘
’بیٹی میں لڑکی تو نہیں دیکھنے لگتے؟‘
اندر کا سناٹا دیر تک ہنستا رہتا ہے۔ ‘‘
(فزکس ‘کیمسٹری‘الجبرا/مشرف عالم ذوقی)
لگ بھگ یہی موضوع تمہارے اس ناول میں برتنے کے جتن ملتے ہیں ۔ ناول کی پیش کش کا قرینہ چونکاتا ہے ۔ ہرمن ہیسے کے اقتباس سے اس مفہوم کو اجالنے کی کوشش اچھی لگی ، جوتم آگے چل کر ناول میں برتنے جا رہے تھے اور جس خوبی سے تم عین آغازمیں اپنے قاری کو جھنجھوڑ کر اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کیا وہ بھی لائق توجہ ہو گیا ۔ اور ہاں !جب تم اپنے قاری کو بلند شہر لے گئے تھے ، وسیع الرحمن کاردار کے دوسرے بیٹے عبدالرحمن کاردار کی زبانی ،نظر محمد کے بیٹے نورمحمد کی کہانی سنانے کے لیے ، نہیں شاید اپنی محبوبہ نادرہ کی کہانی سنانے کے لیے جو بعد میں نورمحمد کی منکوحہ ہوکر ایک بیمار بیٹی نگار کو اپنے اس شوہر کے حوالے کر کے مرگئی تھی ،۔ جی نور محمد،جس نے بیمار بیٹی کی بھوک مٹانے کے لیے رشتوں کا تقدس مٹاڈالا تھا ۔ یہ بات ذوقی پیارے تم نے غالبا ناول کے پندرھوریں صفحے پر ہی بتا دی تھی، اشاروں کنایوں میں ، مگر کہانی کے اندر سے آگے چل کر صفحہ نمبر۴۶۹ سے یوںبرآمد ہوئی ۔
’’ نورمحمد کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔’میں کس کے پاس جاتا ، کسے سمجھاتاکہ یہ میری نادرہ کی معصوم سی جان ہے…یہ آواز یںمجھے پاگل کرتی ہیں۔ سارے بدن میں زہر اتر جاتا ہے۔ میں ملا جی تھا۔۔اور کب مذہب کے دروازے میرے لیے کھل گئے پتہ بھی نہیں چلا۔ اکثررات گئے نگار کی طلب بڑھ جاتی ۔ میں غصے میں دھکا دیتا تو وہ پاگلوں کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑتی ۔ میں روتا ،ہاتھ جوڑتا،تو وہ جنون کی حالت میں کپڑے پھینک کر مجھے وہ سب کرنے پر مجبور کرتی ،جسے احساس گناہ اور احساس جرم کے ساتھ میں نے صرف اس کی زندگی کے لیے قبول کر لیا تھا۔ ‘‘
نور محمد کا بیان ختم نہیں ہوا ؛
’’ نورمحمد رو رہا تھا …’ میں مذہب ، اخلاقیات اور نفسیات کی کتابوں سے واقف نہیں ۔۔ لیکن میں اس اخلاقیات سے ضرور واقف تھا جو رشتوں اور رشتوں کی اہمیت کو لے کربچپن سے، سلیقے کے ساتھ ہمارے جسم میں رکھ دیئے جاتے ہیں۔ بہن، بھائی،ماں۔۔بیوی۔۔محبوبہ۔۔ہر رشتے کی اپنی اہمیت۔۔۔۔مگر یہاں ۔ رات گئے سانپ کے پھنکارنے کی آواز ہوتی تھی اور نگار کی خطرناک طلب۔۔اور ایسے میں ۔۔۔شاید اس لمحے میرے لیے یہ بھول جانا ہوتا تھا کہ یہ جسم نگار کا ہے۔۔ میں آنکھیں بند کر لیتا اور نادرہ کو محسوس کرتا۔۔ اور نادرہ کے احسا س کے ساتھ ہی میرے جسم میں انگارے جمع ہوجانا شروع ہو جاتے ۔۔ اور یقیناً سرد ہوتے ہوئے ، سانپ سے خرگوش بنتے ہی وہی احساس گناہ مجھ پر حاوی ہو جاتا۔ میں پاگلوں کی طرح کمرے میں ٹہلتا۔۔۔ دعائیں مانگتا۔۔۔۔ گڑگڑاتا۔۔ یہاں سے کچھ دور ایک مسجد ہے۔۔زیادہ پریشان ہوتا تو کئی کئی بار رات میں اٹھ کر مسجد چلا جاتا۔۔۔مگر ۔۔۔‘‘
نور محمد کے کھانسنے اورجینی کے آنے کی وجہ سے منقطع ہونے والے اس طویل بیان کو میں نے نقل کر دیا تو اس لیے کہ یہیں سے میری الجھنیں پھوٹتی ہیں ۔
تم نے کہانی کو تقسیم اور تہذیبی انہدام سے جوڑنا چاہا جبکہ کہا نی کا بہائونورمحمد اور نادرہ یا نگار جیسے مجبور اور بیمار کردار کی علامت بنا اور وہ بھی ایک جبر کی کیفیت کے اندر۔ نور محمد کو احساس گناہ ہے۔ مسجد بھی اس سے نہیں چھوٹی اور اس کے اردگرد چاہے حد درجہ شکستہ سہی ایک ایسی تہذیب موجود ہے، جس میں رشتوں کا سوال اہم ہو جاتا ہے
ناول کے آغاز سے پہلے تم نے کرداروں کا شجرہ دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ تمہاری کہانی ۱۹۹۳ کے بعد تک چلتی رہی ۔ یعنی اس زمانے تک کہ جب ایسے ادارے کھل گئے تھے جہاں نگار جیسی مریضہ کو علاج کے لیے یا پھر محض دیکھ بھال کے لیے رکھا جاسکتا تھا ، چلیے مان لیتے ہیں کہ ایسا کرنا نورمحمد کی ترجیحات میں شامل نہ تھا ۔ کیوں ؟ اس کی جانب ناول اشارہ نہیں کرتا ۔
اس احساس گناہ کے ساتھ جس کا ذکر ناول کے متن میں ہوا ہے ،کیاجینی نئی تہذیب کا استعارہ ہو سکتی ہے؟۔ نور محمدایسے گائوں میں گیا تھا، جو اس تہذیب سے کٹا ہوا نہیں تھا، جس سے کٹنے کی بات ہو رہی ہے۔ بلند شہر کی حویلی والے اور ولاس پور والوں کتنے مختلف ہوں گے کہ وہ ایک زبان بولتے تھے ، وہاں بھی مذہب کی علامت مسجد تھی، ان کے ہاں بھی رشتوں کا ویسا ہی تصور تھا۔ ناول کے صفحہ نمبر ۴۶۳پر نگار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ
’’ وہ حاملہ تھی ، اور طبیعت رہ رہ کر خراب ہو جاتی ۔۔۔ شروعات میں ، میں نے گائوں والوں سے ہر بات چھپانے کی کوشش کی۔ پھر گائوں میں خود ہی یہ بات آناًفاناً پھیل گئی کہ میری بیوی پر بھوت کا سایہ ہے۔۔
بیوی؟
میں زور سے اچھلا‘‘
گویا رشتے اس گائوں میں بھی اسی طرح محترم تھے، جس طرح بلند شہر میں ۔ بس یوں تھا کہ نورمحمد نے اجنبیت کی آڑ لینا چاہی لوگوں کے سامنے یہاں بیٹی نہیں تھی ، بیوی تھی ۔ گویا ایک رشتہ تھا جائز رشتہ۔ اور تم جانتے ہی ہو کہ نورمحمد کا اچھلنا بھی اس لیے نہیں تھا کہ اس کے عمل کو تہذیبی سطح پرقبول کر لیا گیا تھا۔
ایسے میں وہ سارے مباحث، جو تم نے تقسیم ،جنگ،تہذیب،ارتقا اور اخلاقیات کے حوالے سے اٹھائے ہیں، سب غیر متعلق نہیں ہو جاتے؟؟؟۔ میں ان مباحث کی اہمیت کا منکر نہیں ہوں، مگر مجھے یہ سب کہانی کے اپنے بہائو سے باہر اورالگ پڑے ہوئے محسوس ہوئے ہیں۔ کہانی سے باہرپروفیسر نیلے اور اس کی بیوی بھی تو ہے۔ کیا ان کو منہاکر کے کہانی کے بہائو کو چست نہیں بنایا جاسکتا تھا؟؟؟۔ اور ہاں! کہانی چست بنانے کا ذکر آیا تو کہتا چلوں کہ حویلیوں کے بوسیدہ ہونے اور پھر خزانے کی تلاش میں کھدائی کے قضیے کو بھی ناحق طویل کھینچا گیا ہے۔
اور آخر میں مجھے اعتراف کرنا ہے کہ جس طرح تم کردار بناتے ہو ، بیانیہ تشکیل دیتے ہو، اس نے مجھے لطف دیا۔ ان الجھنوں کے باوجودجن میں سے کچھ میں نے رقم کر دیں، ناول نے مجھ سے کلام کیا۔ مجھے تمہارے رواں دواں قلم پر رشک آتا ہے ۔