اس میں شک نہیں کہ مشرف عالم ذوقی ہمارے عہد کے ایک ممتاز شہرت یافتہ فکشن نگار ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی شہرت ہے کہ وہ زود نویس ہیںاور کثرت نویس بھی (اور شاید زود رنج بھی)۔ وہ ایک سچے و جذباتی انسان ہیں۔ معاملات زندگی کو اسی انداز میں لیتے ہیں تو معاملات ادب کو بھی۔ کبھی جلدی ناراض ہوکر برہنہ گفتار ہو جاتے ہیں تو کبھی ایکدم خاموش۔ کبھی مذاکروں میں گرما گرم بحث کرتے ہیں تو کبھی بولنا تو کیا آنا جانا بند کر دیتے ہیں، لیکن وہ سب ان کی اسی جذباتیت کا حصہ ہے۔ کیا یہ سب نامناسب عمل ہے؟ لمحاتی طور پر ممکن ہے کہ یہ سب غلط ہو لیکن میرا خیال ہے کہ زود حسی بے حسی کے مقابلے بہر حال بہتر ہے۔ مجرمانہ قسم کی خاموشی کے مقابلے برہنہ گفتاری بہر حال گوارا ہے کہ حق گوئی اور جرأت مندی ہمیشہ پسند کی گئی ہے اور آج جب کہ یہ انسانی و اخلاقی خصائص عنقا ہیں۔ ایسے میں ان اوصاف کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ حق گوئی اور جرأت مندی کے بھی اپنے ادب و آداب ہوا کرتے ہیں۔ مصلحتاً خاموش رہنااگر اخلاقی جرم ہے تو بلا وجہ شور مچاتے رہنا کوئی دانش مندی نہیں۔ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات اور نرم گرم مشاہدات نے ذوقی کو بہت کچھ سکھایا بھی ہے۔ ہم سبھی زندگی سے سیکھتے ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ’’ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد‘‘ لیکن یہ بات تو انیسؔ نے بہت بعد میں کہی۔ میرؔ تو سلیقہ مندی کی بات اس سے بھی پہلے کہہ گئے ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا
ذوقی نے اپنے تازہ ترین ناول کا عنوان یہیں سے لیا۔ ’’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔۔۔‘‘ دیکھنا یہ ہے کہ عنوان اور پیغام ، بیان اور کلام، آغاز اور اختتام کے مابین فکر و خیال، جمال و جلال کے معاملات کیا ہیں اور کیسے ہیں۔
ناول کی ابتدا موسم سرد سے ہوتی ہے، جہاں ایک بزرگ اپنے آپ کو ٹھنڈک سے بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ سردی کا موسم، شام کا منظر، تنہائی کا احساس اور پھر ایسے میں یادوں کے سلسلے۔ پھر ایک عام سے مرد کا چہرہ ابھرتا ہے۔ دوسرا چہرہ ایک معصوم بچّی کا ہے۔ لیکن یہ عام سے چہرے اس شدید سردی میں بھی اس بزرگ کردار کو آگ میں جھلسا دیتے ہیں۔ کیوں؟ جواب کے طور پر یہ تحریریں:
’’دو چہرے۔ اور قدرت نے ان دونوں چہروں کے تعاون سے ایک ایسی کہانی لکھی تھی جو شاید اب تک کی دنیا کی سب سے بھیانک کہانی تھی۔ یا سب سے بد ترین کہانی۔‘‘
اور پھر اس بدترین کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ معصوم بچّی سارہ ہے بزرگ کردار کی پوتی، جس کی عمر سترہ سال ہے—، جو اپنے دادا کو ایک بند لفافہ لاکر دیتی ہے اور دادا اسے کھول کر پڑھتے نہیں یا پڑھنے کی ہمت نہیں کر پاتے اور یادوں کی دھند میں کھو جاتے ہیں۔ ایک یاد کے بعد دوسری یاد:
’’سارہ، برسوں پہلے کہیں کسی خطّے میں ایک عجیب سی کہانی شروع ہوئی تھی جس نے شاید لفظوں کے معنی ہی بدل ڈالے۔‘‘
اور یہ جملہ بھی۔ ’’اسی زندگی کی کہانی۔ رشتوں کی کہانی۔‘‘لیکن مصنف کا یہ بھی کہنا کہ ’’کبھی زندگی کی عام سی کہانی بھی بھوت پریت یا مافوق الفطری کہانیوں سے زیادہ پر اسرار اور بھیانک بن جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے کوئی بے رحم مذاق کیا ہو۔‘‘
بس یہ بے رحم مذاق ہی ناول کا مرکزی خیال ہے اور کردار بھی۔ باقی تو تانے بانے ہیں اور پلاٹ کا چکرویوہ جو واقعات اور کردار کو باالترتیب باندھے رکھنے کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں تاکہ ناول کا مرکزی اور مجموعی تاثر قائم ہو سکے۔
ناول کی ابتدا میں یاد در یاد اور خود کلامی کے احساسات سے بھی پراسرار فضا بنتی ہے جو شاید ضروری تھی لیکن جلد ہی آئندہ سطروں میں یہ مکالمے آتے ہیں:
’’زندگی کے اس لمبے سفر میں کیا کچھ نہیں دیکھا۔ اپنوں کو مرتے ہوئے۔ چین کے حملے سے پاکستان کی جنگ۔ دہشت پسند کارروائیوں سے لے کر 9/11اور 26/11کے دل ہلا دینے والے واقعات۔ سنامی سے لے کر گجرات بیکری کے حادثے تک۔ واقعات اور حادثات کی ایک نہ ختم ہونے والی تفصیل۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوفناک کہانیاں۔ بھیانک داستانیں۔ لیکن کیا کوئی داستان یا کہانی اس سے زیادہ بھیانک ہو سکتی ہے۔‘‘
اس کے بعد اور معنی خیز جملہ۔ ’’لو منکی بن جائو ددّو۔‘‘ منکی بننے یعنی بندر بن جانے کا بلیغ جملہ اپنے آپ میں گہری معنویت اور بلاغت رکھتا ہے کہ انسان جس نے ہزاروں برس میں تہذیب انسانیت کا سفر طے کیا ہے آج پھر وہ جانور بن چکا ہے۔
ٹھنڈ بہت ہے موسم سے زیادہ احساسات کی۔ خاص طور پر بزرگ کردار کے لئے جس کی سادہ و شفّاف آنکھوں نے ظلم و ستم، قتل و خون کے کیسے کیسے کربناک مناظر دیکھے یا جبراً دیکھنے پڑے اوریہ جبر احساس کے جبر میں ڈھل گئے۔ اپنی ہی آواز کا نرغہ اور یہ معنی خیز جملہ:
’’انڈا ٹوٹ چکا ہے۔ پرانی دنیا کے خاتمے سے ایک نئی تہذیب اپنا سر نکالنے والی ہے۔ مرغی کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرح۔‘‘
اور یادوں کے اس اذیتناک بھنور سے ایک کردار ابھرتا ہے نور محمد کا۔ سوال کے ساتھ۔ کون تھا نور محمد؟ اور کیا رشتہ تھا۔ کون اور کیا کے درمیان سوالات اور خیالات، کچھ زیادہ ہی جن سے کہانی پھیلتی ہے۔ فلسفہ بھی زیادہ آتا ہے اور مسئلہ بھی، جو ضروری تو ہے لیکن کبھی کبھی واقعات کے بہائو میں رکاوٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے، لیکن یہ محض ایک قاری کا عام سا تاثر ہے۔ کبھی کبھی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے تخلیق کار کو اپنے اعتبار سے خاکہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ آدمی ابتدا سے ہی انسان بننے کے عمل سے گزرتا ہے لیکن جب ابتدا میں ہی اسے بتا دیا جائے کہ انسان اصلاً ایک سماجی جانور ہے لیکن یہ خوبصورت جملہ:
’’وقفے وقفے سے وہ جانور اس کے اندر سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ہر بار سماجیات کے ریشمی غلاف میں وہ اس جانور کوچھپا لیتا ہے۔‘‘
اور یہ سچ ہے کہ یہ ریشمی غلاف ہماری تہذیب ہے۔ تعلیم ہے۔ تمدن ہے۔ لیکن مصنف کا ایک سوال بھی ہے تمام قارئین کا بھی بن جاتا ہے:
’’مگر کیا سچ مچ وہ اس جانور کو اپنے اندر چھپانے میں کامیاب ہے؟‘‘
اور جواب بھی۔
’’اخلاقیات اور سماجیات کی ہر کہانی اس جانور سے ہوکر گزرتی ہے۔‘‘
اور پھر مذہب، تہذیب، اخلاقیات وغیرہ سے متعلق بیحد بامعنی و بامقصد جملے ابھرتے ہیں لیکن وہ کسی کردار کے مکالمے کم مصنف کے اپنے زیادہ ہیں۔ جبکہ اچھے ناول میں مصنف غائب رہتا ہے اور کردار حاضر۔ اس کمی کا احساس پورے ناول میں رہتا تو ہے، لیکن مسائل اس قدر سنگین اور معاملات اس قدرمہین کہ قاری جو براہ راست ان واقعات سے متاثر ہے اور بہت قریب سے تھکی آنکھوں سے ان حادثات کو دیکھ رہا ہے بلکہ برداشت کر رہا ہے، وہ اس نزاکت و شدت کو محسوس کرتے ہوئے اس کی سنجیدگی میں گم ہو جاتا ہے، نیز مصنف کی جذباتیت خود قاری کی اپنی سی ہو جاتی ہے۔ یہ ایک عام ناول کی کمزوری ہو سکتی ہے لیکن اس ناول میں تو وہ ایک جذباتی ہم آہنگی کا وصف بن کر ابھرتی ہے کہ اگر مرکز میں انسان ہے اور انسانی مسئلہ توقاری کی انسانیت اسے اپنی گرفت میں تو لے گی ہی۔ یہ انسانی رشتوں کی پاسداری ہے اور مجبوری بھی اور ناول نگار کی فنکاری بھی کہ وہ ایک کردار کی کہانی سنائے اور ہزاروں، لاکھوں انسانوں کی اپنی کہانی محسوس ہو۔
دو کردار اور سامنے آتے ہیں۔ ابو بابا اور ان کی بیوی حلیمہ۔ ابو ملازم ہیں اور کم بولتے ہیں لیکن باغبانی کے فرائض بہ حسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔ باغبانی کا اشارہ بھی عمدہ ہے۔ چائے کی چسکی میں اکثر بند لفافے کھلتے ہیں کاغذ کے ہوں یا ذہن کے۔ یہیں سے ناول بھی کھلتا ہے اور سارہ کا کردار بھی۔ صبح کے فرحت بخش مناظر، سیر سپاٹا، دن کا آغاز اور کہانی کا بھی آغاز۔ خط کا مطالعہ نور محمد کا بھی طلوع ہے،جسے بزرگ کردار غروب کر دینا چاہتا ہے لیکن وہ تو بار بار یہ کہتا ہے۔ ’’اس کہانی کی شروعات آپ نے کی تھی انجام بھی آپ لکھیں گے۔‘‘ زندگی کی کہانی، بدلتے ہوئے وقت کی کہانی جو کرداروں کی سوچ بدل دیتے ہیں۔ تہذیب بھی بدل دیتے ہیںاور آتا ہے جنریشن گیپ۔ درمیان میں آتے ہیں بہت سارے گیم اور سوالات اور انسانی رویّہ و فلسفہ، یہاں تک کہ جانوروں کا بھی۔ یہ سب چیزیں اتنی مقدار میں ہیں کہ کبھی کبھی ناول سماجیات کی کتاب میں بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
دوسرے باب میں پروفیسر نیلے کا کردار آتا ہے، جو بزرگ کردار کاردار کا دوست ہے اور کسی حد تک پڑوسی بھی۔ پہاڑی علاقہ، خوبصورت مناظر، خوبصورت احساس اور اتنے ہی خوبصورت مکالمے۔ ان مقامات پر آنے کے بعد پروفیسر بھولنا چاہتے ہیں کہ وہ انسان بھی ہیں یا انسانی تہذیب سے کوئی رشتہ بھی ہے۔ بس قدرت اور اس کے حسین نظارے اور یہ احساس۔
’’ابھی بھی ایسی وادیاں انسانوں کے بے رحم ہاتھوں سے بچی ہوئی ہیں۔‘‘
اور یہ سوال بھی۔
’’کیا تمھارا جدید سائنس ایک چھوٹا سا سبز پتّہ بنا سکتا ہے؟‘‘
بدلے ہوئے باب میں ناول ماضی میں چلا جاتا ہے اور آزادی و غلامی کے کگار پر پہنچتا ہے۔ ساتھ ہی تقسیم بھی اور یہ مسئلہ بھی۔
’’صدیوں کی غلامی کے بعد آزادی کا یہ احساس خوشگوار تو تھا، لیکن یہ نئی نئی آزادی ہزاروں مسائل لے کر آئی تھی۔ شروع شروع میں دادا ابّا کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ کون سا شہر ہندوستان کا ہے اور کون سا پاکستان کا۔‘‘
اس سے زیادہ معاملہ احساس کا۔ دو گز زمین کا اور پھر حقّہ کی کش کا۔ جو کبھی بے خودی کا موثر ذریعہ تھااور فیو ڈل نظام کا آلۂ کار بھی۔
صنعتی انقلاب نے اس نظام کو رخصت تو کر دیا لیکن اس کی جگہ (کم از کم ہندوستان میں) ایک نفرت بھری تہذیب نے لے لی۔ بقول مصنف۔ ’’ایک نفرت بھری تہذیب نئی عبارت لکھنے کی تیاری کر رہی تھی۔‘‘ اور اسی تہذیب کے سائے میں کئی نسلیں جوان ہوئیں۔ تصادم متضاد تو ہونا ہی تھا۔ تہذیب کا تضاد تو فطری لیکن سیاست کا تضاد فکری کہ اس کے پس پردہ غلامی اور زمینداری۔ آزادی و جمہوریت کے مابین فطری و فکری تصادمات و تضادات کام کرتے ہیں اور درمیان میں ایسے جملے:
’’آخر وقت کو بدلنے کا حق حاصل کیوں نہیں؟ کیوں غلامی پسند ہے آپ کو۔ نیا سورج ہے نیا سویرا ہے۔‘‘
اور یہ جملہ بھی:
’’جو قوم آپ کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں پی سکتی وہ آپ کو آپ کا حق کہاں دے سکتی ہے۔‘‘
اور پھر ماضی قریب کا کرب۔ تقسیم کا جبر اور بہت سارے سوالات جو آج بھی جواب کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں اور جواب سربہ گریباں و گریزاں۔ روپوش اور نئی نسل، نئی معاشی تہذیب و نئی صارفیت میں مدہوش غلام گردش۔ گردشِ ماہ و سال میں ڈوب کر دکان و بازار میں بدل گئے۔
اگلے باب میں نظر محمد کی آمد ہوتی ہے۔ گاندھی مخالف لیکن تقسیم کے بھی مخالف۔ جواز میں یہ جملہ۔ ’’ارے سب ڈھونگ پاکستان بنواناتھاسو بنوا دیا کہ آدھے ادھر کٹو، آدھے ادھر مٹو۔ بس کٹتے مرتے رہو۔‘‘کی ہی داستانِ ستم ہے یہ ناول کہ کٹنے مرنے کے بھی انیک روپ ہوا کرتے ہیں جو اس ناول میں پھیلے ہوئے ہیں، لیکن گاندھی کے متعلق بیباکانہ جملے آج کی تحریر ہے۔ جبکہ بہت کچھ سچائیاں سامنے آچکی ہیں۔ شاید یہی کچھ نیا سا ہے، ورنہ تقسیم پر تو بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، لیکن اس کا ہینگ اوور (Hang Over)آج بھی باقی ہے۔ نظر محمد کا کردار ایک عام سا روایتی اور وہمی، جو اس عہد کی مسلم عہد کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن کاردار قدرے مختلف اور معتدل۔ یہ ضروری بھی تھا کہ گفتگو تکرار و آزار کی کیفیتیں اسی طرح پیدا ہو سکتی تھیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے اور اس عہد کی حقیقت بھی اور ناول کی ضرورت بھی کہ تکرار و تصادم سے ہی جدلیاتی کیفیت پید ا ہوتی ہے اور رزمیہ عناصر پیدا ہوتے ہیں جو ناول کی ساخت کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں۔ اسی لئے رالف فاکس نے ہی نہیں لارنس، فاسٹر اور دوسروں نے بھی ناول کو زندگی کا رزمیہ کہا ہے اور ہندی میں مہاکاویہ۔ بہر حال تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایک عمدہ ناول اپنی وسعت میں تہداری، جہتِ تکراری اور نفسیاتی اضطراری کی کیفیات بہر حال رکھتا ہے۔ یہی کیفیت معنویت عطا کرتی ہے، وسعت اور عظمت بھی۔ باقی تو سب تانے بانے ہیں جنھیں کھینچنا بھی ضروری ہے اور کسنا بھی کہ ناول اگر کسی ہوئی چارپائی کی طرح تنا ہوا نہیں ہے تو پھر تمام رشتے، تاگے ڈھیلے پڑ جاتے ہیںکردار و مکالمے تک۔
نظر محمد کا کردار اور اس کے فکر و عمل سے آپ خواہ کتنا ہی اختلاف کریں لیکن ہے وہ دلچسپ کردار کہ اس کے ذریعہ اگر ایک طرف توہمات کا ڈھیر ہے تو دوسری طرف جدیدیت سے بیر بھی۔ اختلافِ نظر تو رشتوں کے ٹوٹنے کا عمل ان سب کے درمیان جوان ہوتا ہوا ایک نوجوان۔ ماضی کا بوجھ اور مستقبل کا سامان اور اپنے ایک الگ راستے کی پہچان۔
’’شاید میں نے اپنی شناخت کے لئے ایک نیا پرخطر راستہ چنا تھا۔ لیکن یہ وہ راستہ تھا، جس راستہ پر بلند حویلی کی پشتوں میںبھی کوئی نہیں چلا تھا۔ جاگیردارانہ نظام کو گہن لگ چکا تھا اور میرے وجود میں چپکے چپکے ایک فنکار جاگنے لگا تھا۔‘‘
جاگیردارانہ نظام کا اور تخلیق کا ابال دونوں میں فطری ربط کہ تخلیق اختلاف و انحراف سے ہی جنم لیتی ہے کہ سنجیدہ حالات ایکدم سے نوجوان کو جوان اور جوان کو سنجیدہ بنا دیتے ہیں۔ تبھی تو کسی نے کہا۔ ’’تم بڑے ہو گئے ہو۔‘‘ اور اسی بڑپن نے یہ احساس دلایا۔ ’’میں پرچھائیوں کے حصار سے باہر نکل آیا تھا۔‘‘
باب بدلتا ہے تو منظر بھی بدلتاہے۔ پودوں کو پانی دیتا ہوا پروفیسر نیلے بہ الفاظ دیگر نئی نسل کی آبیاری کرتا ہوا دانشور اور پھر دانشورانہ باتیں۔ تہذیب سے متعلق۔ نئی نسل کی بطور خاص جہاں عجلت ہے اور فراری بھی اور آخر میں تشدد بھی اور یہ نتیجہ بھی۔ ’’ایک تہذیب ۴۷ء سے پہلے کی تھی۔ ایک غلام تہذیب اور ۴۷ء کی صبح نمودار ہوتے ہوئے ہم ایک نئی تہذیب کی دوسری سرنگ میں داخل ہو گئے۔‘‘ پروفیسر نیلے، گاندھی،انگریز اور بندر۔ معنی خیز ترتیب اور پھر تقسیم جسے بندروں کا رقص، گھر گھر وہی بحث۔’’فساد دنگے اورگاندھی جی اور نہرو سے لے کر قائد اعظم جناح اور پاکستان کے قصے۔‘‘ سب کے اعصاب پر یہی سب کچھ۔ کچھ تو حقیقت کچھ فرصت۔ ان کے پاس کوئی اور کام بھی نہ تھا۔ سب اپنی اپنی بچی کھچی جاگیر اور زمینوں کی کمائی کھا رہے تھے۔ لیکن کب تک۔ وقت کے ساتھ عقل نہ چلے تو بڑے بڑے نواب اور جاگیردار پارچون کی دکان کھولنے پر مجبور۔ یہ بدلتا ہوا معاشرہ، جو بدلے گا ہی، نئی سوچ آئے گی ہی۔ تبدیلی و ترقی کے اسی ماحول میں جوان ہوتا ہوا ناول کا مرکزی کردار۔ جان اور مال۔ پرانا اور نیا۔ تہذیب کے دو پاٹ اور ان دونوں کے درمیان کاردار حساس اور سنجیدہ قدرے محفوظ اور پریشان۔ اسی لئے شاعری بھی ہے اور یہ جملے بھی۔ ’’جن کے پاس کوئی خواب نہ تھے صرف ماضی کی کہانیاں تھیں۔‘‘ اور اب ’’سچ بدل گیا تھا، لوگ بدل گئے تھے، بڑے چھوٹے ہوتے جا رہے تھے اور چھوٹے بڑے۔ جیسے ایک تہذیب سے نکل کر دوسری تہذیب کی طرف۔‘‘ یہ ایک فطری عمل ہے، لیکن اس عمل در عمل کا ردّ عمل بھی ہوتا ہے۔ فکر کا تعلق تہذیب سے اور تہذیب کا تعلق جدلیاتی مادّیت سے اور جدلیات کا دار و مدار اقتصادی معاشی صورت حال سے۔ جو اس کو سمجھ لے وقت اور دونوں اس کی مٹھی میں اور نہ سمجھ سکے تو بقول مصنف ’’جن کی اوقات اس نظام میں محض چوسی ہوئی ہڈی سے زیادہ نہیں۔‘‘ اگر آپ صرف ماضی کا قصیدہ پڑھیں گے اور مستقبل کا آمد نامہ نہیں تو پھر جلد ہی قصیدہ مرثیہ میں تبدیل ہو جائے گا اور حال کی فطرت یہ ہے کہ وہ ماضی کو پیچھے ڈھکیلتے ہوئے مستقبل میں قوم کے لئے بیتاب و بیقرار رہتا ہے۔ یہ روشنیٔ ذہن اور چشم بینا کا معاملہ ہے، لیکن صد فی صد اجداد و جائداد پر منحصر رہنے والوں کی آنکھیں اکثر بند رہتی ہیں۔ پھر واقعہ، سانحہ میں نہ تبدیل ہو یہ ممکن ہی نہیں کہ بے چین زندگی اور مضطرب لمحوں کی فطرت جداگانہ ہوا کرتی ہے۔
مولوی محفوظ کی آمد ہوتی ہے۔ مولوی جو تجربہ کار ہے اور ہوشیار بھی لیکن خود کو کم دوسروں کو زیادہ توہّمات میں اسیر رکھتا ہے اور کہہ بھی دیتا ہے۔ ’’میری مانئے تو خود کو تقدیر کے سپرد کر دیجئے۔‘‘ ایک اور آسیب داخل ہوتا ہے۔ پوری کرتب بازی کے ساتھ۔ ایسے میں ماں کا غصہ اور نوجوان کا وسوسہ اور ان دونوں کے درمیان ایک مخصوص کشمکش جو زوال پذیر صورت حال سے جنم لیتی ہے، جسے مصنف نے بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے کہ یہی کشمکش اور تذبذب ہی رزمیہ ہے اور Irony of Societyبھی کہ جس کے بغیر ناول منزل تکمیل و تفکیر تک نہیں پہنچنے پاتا۔ مولوی کی زبان اور مصنف کے قلم سے نکلے یہ جملے اس رزمیہ عناصر کی تخلیق کرتے ہیں:
’’زندگی ہے تو حیرانیاں ہیں۔ آنکھیں قدم قدم پر حیرانیاں دیکھتی ہیں۔ قدرت کی گلکاری دیکھئے۔ نیلے آسمان کو، تاروں کی بارات کو، اس حسین کائنات کو۔‘‘
اس کے بعد مولویانہ انداز، انسان کو کمزور کر دینے والے جملے، عقل پر حملے اور پھر نئی نئی کہانیوں کا جنم کہ ناول کو وسیع سے وسیع تر بھی ہونا ہے۔ کمزور حالات میں خدشات بھری ایسی کہانیاں زیادہ جنم لیتی ہیں لیکن نئی نسل اور نیا ذہن اتنی آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ اسی لئے نوجوان کردار کہتا ہے۔ ’’دراصل میں اس تہذیب کو سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا۔‘‘ پروفیسر نیلے اور مولوی محفوظ کے درمیان کی تہذیب، درمیان میں بندر اور اس کے کرشمے۔
اس درمیان ایک اور ملازم علی بخش کی آمد ہوتی ہے۔ تجربہ کار مخلص لیکن مخبر بھی۔ پاکستان میں ممانی کا انتقال، تقسیم پر ملال اور ماموں زاد بہن نادرہ کا خیال۔ مولوی محفوظ احساسِ زوال میں غرق افراد کو کسی غیبی مدد کی آس دلواتا ہے۔ لٹا ماضی، پٹا حال انسان کو کس قدر بے حال بنا دیتا ہے کہ وہ چشمِ زدن میں موہومیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ پوری حویلی بلکہ پورا دور غیبی خزانے کی لالچ میں اندھا ہو جاتا ہے، لیکن درمیان میں فرقہ وارانہ فسادات ایک دوسرے قسم کا اندھا پن گھیر لیتا ہے، جبکہ ایسے جملے بھی قلم اورذہن سے نکلتے چلتے ہیں۔ ’’سمجھداری دنیا کی ہر سیاست پر بھاری ہے‘‘۔ ’’کوئی بھی سمجھدار آدمی دنگا یا فساد نہیں چاہتا‘‘۔ لیکن فساد تو پھر بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں ایک معصوم ذہن سوالوں کے گھیرے میں آجاتا ہے۔ سوال جو فطری ہیں اور بالغ ہوتے ہوئے ذہن میں فکری بھی۔ فساد اور مولوی محفوظ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے اور نوجوانوں کا ذہن ’’ایک نئی اخلاقیات آہستہ آہستہ میرے وجود میں اتر رہی تھی۔‘‘ خزانے کا پر اسرار موضوع تکرار اور پیکار کے آگے مندمل ہو گیا۔ دوسرے زخم جاگنے لگے۔ آسمان پر چاند روشن تو تھا لیکن دل اداس تھے۔ حد یہ کہ علی بخش بھی حیرت میں تھے کہ کیسا دور آگیا ہے کہ سب کے دلوں میں نفرت بھری ہوئی ہے اور وہ مجسم خلوص و محبت کا پیکر تھے اور ان سب کے پیچھے تقسیم کا حادثہ۔ زمین کا ہی نہیں دلوں کا بٹوارا۔ نفرت کا اجارہ اور اماں کا یہ جملہ:
’’کرا دیا بٹوارا۔ بنا دیا پاکستان۔ دلوں کو جدا کر دیا کم بختوں نے۔‘‘
اور اس کے بعد مصنف کا یہ تخلیقی جملہ:
’’ہماری ہر جیت ہار کے پیچھے یہ قدرت ہے۔
آسمان پر بدلیاں چھا گئی تھیں۔ چاند کے چھپنے نکلنے کا کھیل شروع ہو گیا تھا۔‘‘
قدرت کا کھیل اور اس کھیل کے ساتھ چاند ستاروں کی گردش اور روشنی و تاریکی کی آمد و رفت۔ ٹھنڈی ہوا کا بہنا۔ کھلی چھت پر آنا۔ ایک نئی فضا کی تلاش۔ ان سب کو مصنف نے بڑے فنکارانہ نیز مفکرانہ انداز میں پیش کیا ہے کہ کردار کا ذہنی ماحول اور موسم وفضا کی کیفیت ہم آہنگ ہو جاتی ہے اور اس نوع کا معنی خیز تخلیقی عمل، تخلیق کی معنویت اور تخلیقیت میں خوشگوار اضافے کرتا ہے، جس میں ذوقی خاصے کامیاب ہوئے ہیں۔ اس سے زیادہ کامیابی انھیں اس تصادم کی پیش کش میں ملتی ہے، جو ستاروں کی گردش سے پیدا ہوتی ہے، حالانکہ یہ گردش انسان کی اپنی روش اور خلش سے پیدا ہوتی ہے۔ جہاں خیالات تو ٹکراتے ہی ہیں، تہذیبیں بھی ٹکرانے لگتی ہیں۔ ایک خاندان کے ہی افراد میں تکرار ہونے لگتی ہے۔ چاروں طرف دھواں ہو تو کتابوں کے سنہرے الفاظ بھی دھندلے ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان میں اگر ہندو مسلم جھگڑ رہے ہیں تو دو الگ الگ مذہب کے ہیں لیکن پاکستان میں مسلمان مسلمان کو کیوں مار رہے ہیں۔ یہ بات صرف علی بخش جیسے ملازم کی ہی سمجھ سے باہر نہ تھی بلکہ ذی علم بھی حیرت میں۔ شاید اسی لئے دنیا میں حیرانیاں زیادہ ہیں، جو اکثر پریشانیوں کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ اس پوری کشمکش میں ایک قوم نے کئی دہائیاں گزار دیں، بلکہ نہ جانے کیا کیا گزار دئے۔ اس کی نفسیات بدل گئی، اوقات بدل گئی، دن رات بدل گئے، سیاہ بادل چھا گئے کہ ایک معمولی سی دستک بھی ہو تو پوری قوم کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کہانیاں اور کردار اور جڑتے ہیں۔ پاکستان والے ماموں آجاتے ہیں۔ ساتھ میں نادرہ بھی کہ وہاں کون ہے جو غم میں شریک ہو اور یہاں غم ہی غم ہے، لیکن یہ کیا کم ہے کہ غم گساری بھی ہے اور تھوڑی سی ملنساری بھی، جسے ابھی خون کے دھبّے پوری طرح مٹا نہیں سکے ہیں۔ اسی لئے پاکستانی مہمانوں کا بھرپور استقبال ہوتا ہے۔ نادرہ کا کچھ زیادہ ہی۔ جذبۂ عشق کی ایک ہلکی سی لہر ناول میں دوڑ جاتی ہے، لیکن اس لہر پر حاوی ہے احساس کی وہ لہرجس نے زمینداروں، جاگیرداروں کو دیکھتے دیکھتے کمزور و لاچار کر دیا اور یہ احساس جاری کر دیا:
’’نئے نظام میں ہماری بولتی بند ہو گئی۔ اب کیا کریں۔ محنت نہیں کر سکتے پھر بھی بچی کھچی جاگیریں ہی تو چاٹیں گے۔ آخر کب تک؟‘‘
اسی لئے خزانہ کی تلاش تھی۔ غیبی مدد کی۔ آسمانی طاقت کی۔ لیکن زمین کے مقدمے تو زمین پر ہی طے ہوتے ہیں، یہیں بحث ہوتی ہے اور یہیں فیصلے ہوتے ہیں۔ ان فیصلوں کو وقت بھی لکھتا ہے اور ذوقی جیسے حقیقت پسند اور زمین پسند فنکار ناول لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ناول جو فکشن کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے لیکن حقائق کے آگے وہ بھی سر جھکا دیتا ہے۔ حالانکہ ذوقی نے رومان اور تخیل کی چاشنی دے کر حقیقت کو رومانی لبادہ میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے لیکن اب اس کا کیا کیجئے کہ حقیقت و صداقت کی اپنی جمالیات ہوا کرتی ہے۔ سنجیدہ اور گہری جمالیات کہ ستیم اور سندرم کا فلسفۂ جمال ہماری تاریخ و تہذیب کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ ذوقی اس سے بھی واقف ہیں اسی لئے وہ حقیقت پسند ہیں۔ کہیں کہیں کچھ زیادہ ہی۔ لیکن زندگی سفّاک ہو اور حالات بے رحم۔ چاروں طرف بے ہنگم شور و غل ہو تو ناول نگار بانسری کیسے بجائے۔ یہ سب باتیں تو ذوقی کے حق میں جاتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ناول کی شعریات کے بھی حق میں ہیں؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے، جس پر بہر حال غور کرنا ہوگا۔ ناول زندگی کا رزمیہ ہے، لیکن کیا مرثیہ بھی؟ ناول زندگی کے حقائق پیش کرتا ہے لیکن کیا مصور و فوٹو گرافر کی طرح۔ یا پھر اس کا اپنا اور کچھ سپنا بھی ہے۔ زندگی اور ادب، خواب اور حقیقت کے درمیان ایک لچکتی ہوئی پھولوں کی شاخ کی طرح ہیں کہ دو پھول سوکھ کر گرتے ہیں تو چار نئے پھول کھلتے بھی ہیں۔ اصل طاقت تو نشو و نما کی ہے۔ لیکن قوتِ نمو کا دارو مدار بھی آب و گِل پر ہے، لیکن جب دونوں مسموم ہو جائیں تو پھول بے مہک اور زندگی بے چمک ہو کر رہ جاتی ہے۔ ذمہ دار فنکار اسی بے وقعتی اور بے حرمتی کو پیش کرتا ہے اور پیش کرنا بھی چاہئے لیکن زندگی کا احترام بھی واجب ہے اور آدمیت کا اعتراف بھی کہ وہ زندگی کی کتاب لکھ رہا ہے ’’موت کی کتاب‘‘ نہیں۔ کتاب زندگی کے لئے حقائق کی تفہیم کے ساتھ ساتھ خوابوں کی تعبیر بھی ضروری ہے کہ خواب دیکھنا انسان کا فطری عمل ہے اور خواب کا ٹوٹنا ایک سماجی عمل۔ زندگی اسی تعمیر و تخریب یعنی خواب اور حقیقت کا نام ہے۔ ناول بھی اسی کا آئینہ تو ہے لیکن جب تخریب زیادہ ہو جائے اور تعمیر کم تو رزمیہ، مرثیہ بن جاتا ہے اور خواب مسمار ہو جاتے ہیں اور خواب و تخیل کے بغیر کوئی ادبی تخلیق مکمل اور بڑی نہیں ہوتی۔ ناول بطور خاص۔ ذوقی زندگی کے حقائق پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ دھندلے دھندلے خواب بھی ہیں، لیکن تعبیریں اس سے زیادہ دھندلی۔ شاید تاریک و معدوم۔ ناول اگر صرف معلوم تک محدود ہے تو اطلاعات سے آگے نہیں بڑھ سکتا، لیکن اگر وہ معلوم سے محسوس تک کا سفر طے کر گیا تو اطلاعات ادراک و آگہی کا جامہ اوڑھ لیتی ہیں اور وجدان، ایقان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حقیقت بصیرت کا روپ لے لیتی ہے اور یہ کام صرف ناول کرتا ہے۔ ایک عمدہ ناول۔ شاید اسی لئے لارنس نے بہت پہلے کہا تھا کہ فکشن جب تک فلسفہ نہ بن جائے تو بڑا فکشن نہیں بن پاتا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ذوقی کا یہ ناول بڑا بن گیا یا فلسفہ بن گیا،لیکن جس طرح اس میں وقت، زمانہ، تہذیب، اخلاق اور زندگی کے بارے میں معنی خیز اور فکر انگیز مسائل اٹھائے گئے ہیں وہ فلسفۂ حیات کے زیادہ قریب ہیں، خواب حیات کے کم۔ تاہم مسائل کی ہمہ جہتی بلکہ رنگا رنگی اسے تنوع اور پھیلائو عطا کرتے ہیں اور عمدہ ناول بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
تہذیب کے بارے میں یہ جملے دیکھئے:
’’تہذیبیں مرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ ایک تہذیب جہاں ختم ہوتی ہے۔ دوسری تہذیب وہیں سے سانس لینا شروع کرتی ہے۔‘‘
’’ہم کتنی تہذیبوں کے درمیان جیتے اٹھتے ہیں اور اپنی تہذیبی اور روایتی منطق کی وجہ سے ہم یہ کیسے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کون سی تہذیب اچھی ہے اور کون سی بری۔‘‘
اخلاقیات کے بارے میں:
’’کیا آج کی اخلاقیات ہمارے لئے چیلنج ہے۔ کیا آج کی ساری بحث صرف اور صرف اخلاقیات تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔‘‘
وقت کے بارے میں:
’’آخر وقت کو بدلنے کا حق حاصل کیوں نہیں ہے؟کیوں غلامی پسند ہے آپ کو۔ اب کوئی غلام نہیں۔ فرنگیوں نے آپ کو وفاداری کے بدلے سہولتیں دیں۔ لیکن ذہن کو غلام بنا دیا۔ نیا سورج ہے۔ نیا سویرا ہے۔ اس سویرے کو خوش آمدید کہئے۔‘‘
زندگی کے بارے میں:
’’یہ زندگی اپنے آپ میں جادو ہے کاردار صاحب۔ صبح نیند کا کھلنا اور شب میں سو جانا۔ سارے دن کا سفر میرے لئے کسی جادو سے کم نہیں۔‘‘
یا
’’دنیا میں کون سا کام آسان ہے۔ جینا بھی کوئی آسان کام ہے کیا۔ لیکن دیکھئے۔ پھر بھی ہم جئے جا رہے ہیں۔‘‘
اور تقسیم کے بارے میں تو قدم قدم پر مختلف خیالات بھرے پڑے ہیں۔ پہلے ایک نسائی لہجہ دیکھئے:
’’نوج نہ تقسیم ہوتی نہ اپنے بچھڑتے۔ پاگلوں نے ملک کا بٹوارہ کر دیا۔ آدھے ادھر تو آدھے ادھر۔ یہ تقسیم ہے یا رشتے کی دیوار کھڑی ہے۔‘‘
اس کے بعد کئی مرد کردار کاردار، پروفیسر نیلے، ماموں، ملازم سبھی اس کی زد میں ہیں۔ غرضکہ پورا ناول جس نے وقت کی دھارا کے ساتھ ساتھ سوچ کی دھارا کو بدل دیا۔ ایک قوم کی پوری نفسیات بدل دی کہ وطن میں رہتے ہوئے بھی بے وطن ہو گئے اور وفادار ہوتے ہوئے بے وفا قرار دئے گئے۔ یہ ہے المیہ اور اس کے آگے کی منزل المیہ کی ستم ظریفی (Irony of Tragedy)۔ناول صرف المیے تک محدود رہے ناکافی ہوا کرتا ہے۔ اس کی آئرنی (Irony)فکر و خیال کے در کھولتی ہے۔ فکر و خیال کی کش مکش، عظمت کردار کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ بقول سردار جعفری ؎
کشمکش عظمتِ کردار عطا کرتی ہے
زندگی عافیت انجام نہیں ہے اے دوست
ذوقی نے اس ناول میں کشمکش، تذبذب، تصادم، تضاد وغیرہ کو نہایت ہنر مندی، چابکدستی اور تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے کہ کس طرح ایک گھر، ایک قوم کی سوچ بن جاتی ہے۔ پرانی نسل اور نئی نسل کا تصادم۔ تہذیب کے تصادم کا روپ لے لیتا ہے اور پھر نفرت اور فرقہ واریت انھیں کے درمیان جوان ہوتی ہوئی نسلِ رحمٰن و نادرہ۔ ایک ہندوستانی۔ ایک پاکستانی۔ لیکن محبت ایک، جذبہ بھی ایک۔ لیکن کامیابی سماجی ٹکرائو کے حوالے سے ناکامی میں بدل جاتی ہے۔ یہ ناکامی محض ایک اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ دہائیوں کی تکرار، آسیب زدہ ذہنیت اور زوال پذیر سوچ کے حوالے سے ہوتی ہے۔ ذوقی نے ان تمام جذبات اور احساسات کا تانا بانا بڑے سلیقے سے بُنا اور کسا ہے۔ سماجی اور سیاسی تاریخ کا ایک سفر جو آزادی، تقسیم سے شروع ہوتا ہے اور بابری مسجد کے انہدام پر ختم ہوتا ہے۔ دہائیوں کا یہ سفر اور اس میں صدہا واقعات و حادثات کہ صدیوں پر بھاری، جسے ذوقی کے بیان و کلام نے ایک فکری و فلسفیانہ ربط دے کر ناول کو تاریخ و تہذیب اور تخلیق کا اعلیٰ نمونہ بنا دیا۔ ذوقی نے اس سے قبل بھی ناول لکھے لیکن اس ناول میں فکر و فن دونوں اعتبار سے وہ خاصے کامیاب ہیں۔ تقسیم پر ناول اس سے قبل بھی لکھے گئے اور اس دور میں بھی لکھے گئے لیکن ماضی و حال، سیاست اور سماج، تہذیب و تمدن، نفسیات و اخلاقیات کا ایسا مرقع کم دیکھنے کو ملا ہے۔ جہاں تہذیب، تفکیر اور تخلیق مفکرانہ اور فنکارانہ انداز میں شیر و شکر ہوگئے ہیں۔ ممتاز ترقی پسند پروفیسر محمد حسن نے اپنے ایک مضمون ’’ناول شناسی‘‘ میں لکھا تھا:
’’کشمکش کا تصور ،نئی جمالیاتی سطح پر کمند ڈالنے کا ہنر محض ذاتی کاوش سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے پیچھے کچھ تاریخی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں اور جب تک ہمارا پورا معاشرہ ایک دور اور ایک زمرے سے دوسرے دور اور دوسرے تہذیبی زمرے میں داخل نہیں ہوتا اس وقت تک نہ تو ناول لکھا جاتا ہے، نہ مقبول ہوتا ہے۔‘‘
محمد حسن کے ان خیالات کو درست مانا جائے تو ذوقی کا یہ ناول اس کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔ صرف دو واقعات کے درمیان کی کشمکش کو ژرف نگاہی سے دیکھنے اور تہذیبی اقدار کی نزاکت اور باریکی کو پیش کرنے میں یہ کامیاب ہوتا ہے۔ موضوع نیا نہ ہونے کے باوجود ایک نئی دنیا آباد کرنے اور نئی فکر و آگہی پیش کرنے میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔ محمد حسن نے یہ بھی شرط لگائی ہے کہ:
’’ہر ناول کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ اسی جمالیاتی کیف سے ہوتا ہے جو اپنے پڑھنے والوں کو نئے اہتزاز، نئے ارتفاع اور نئی کیفیت بلکہ نئے عرفان زیست سے فیضیاب کرتا ہے اور یہ عرفان جمالیاتی ہوتا ہے اور زندگی کو نئے معنی دیتا ہے۔‘‘
زندگی کا جمال اور کمال اس کی کشمکش میں پوشیدہ رہتا ہے۔ تکرار اور پیکار میں اور بدلتے ہوئے اقدار میں بھی۔ ذوقی کے اس ناول میں یہ تینوں عناصربہ حسن و خوبی جذب و پیوست ہو گئے ہیں۔ جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہو گئے ہیں۔
٭٭٭
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...